اس مضمون میں چند بڑے بنیادی سوال اُٹھائے گئے ہیں، جن پر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی پہلے بھی متوجہ کرتے آئے ہیں۔ لیکن وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور اس پر حکومت کی جانب سے عمل کی آمادگی نے اس ضرورت کو اورزیادہ بڑھادیا ہے کہ ان کے اُٹھائے ہوئے سوالوں کا شافی جواب تلاش کیا جائے اور موجودہ نظام کی خامیوں کو برقرار(Perpetuate) نہ رکھا جائے اور آگے بڑھنے سے قبل فوری طور پر ان کی اصلاح کی پختگی اور واضح شفافیت کے ساتھ تدابیر کی جائیں۔ صرف ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ہی نہیں بلکہ اسلامی بینکاری کے نام سے رائج الوقت نظام سے ملک کے علماء مفتیان ِ کرام کی اکثریت مطمئن نہیں ہے، ملک کی معروف اور بڑے دارالافتاء جن میں جامعة العلوم الاسلامیہ، جامعہ فاروقیہ کراچی وغیرہ کئی نمایاں اداروں کے دارالافتاء شامل ہیں، جو اسلامی بینکاری کے نام سے رائج نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل استاذ المحدثین شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان نوّرالله مرقدہ کی سرپرستی میں اس نظام کے خلاف انتہائی مضبوط اور مؤثر آواز بلند ہوچکی ہے،۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت اور پاکستان کے ادارے سود سے پاک بینکاری کے اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہیں تو اسے صحیح معنوں میں اسلامی ہونا چاہیے، سود کی آمیزش سے پاک ہونا چاہیے اوران تمام خامیوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے، جن کی وجہ سے( خود ساختہ) اسلامی بینکار ی کے نام سے رائج نظام، اسلامی نہیں رہتا، جس کے نفاذ کا وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا ہے۔ الله تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو او رملک وقوم کے لیے ہمیں درست اور صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (ادارہ)
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 9نومبر2022ء کو یہ حیران کن بیان دیا کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور نیشنل بنک آف پاکستان وفاقی شرعی عدالت کے 28/ اپریل2022ء کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں داخل کردہ اپیلیں فوری طور پر واپس لیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سود کے خاتمے کے ضمن میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ جمعیة العلماء اسلام پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل اور چندممتاز علمائے دین کی طرف سے اپیلیں واپس لینے کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ یاد رہے نجی شعبے کے تین بینکوں نے بھی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمی میں اپیلیں دائر کی تھیں۔ اب تک ان بنکوں کی جانب سے اپیلیں واپس لینے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ چناں چہ انہی تین بینکوں کی اپیلوں کی وجہ سے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہو جائے گا۔ اس طرح اسٹیٹ بینک او رنیشنل بینک کی جانب سے اپیلیں واپس لینا ایک بے معنی مشق بن کر رہ جائے گا۔
اگر وفاقی حکومت او راسٹیٹ بینک کے دباؤ پر نجی شعبے کے یہ تین بڑے بینک بھی اپنی اپیلیں واپس لیتے ہیں، تو اُس سے بھی ایک سنگین صورت پیدا ہو جائے گی، کیوں کہ اپنے فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے بغیر کسی تحقیق کے، اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں میں رائج ڈیپازٹس، فنانسنگ اور سرمایہ کاری وغیرہ کی متعدد ایسی پراڈکٹس کو بھی شریعت کے مطابق قرار دیا ہے، جو شرعی اصولوں سے قطعا مطابقت نہیں رکھتیں او ران میں سود کا عنصر شامل ہوتا ہے، اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی متعدد فاش غلطیوں کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کی جانب سے ٹھیک نہیں کیا جاتا، تو یہ دستورِ پاکستان کی شق 3 اور38 (ایف) کی بھی خلاف ورزی ہو گی اور آئندہ کئی عشروں تک پاکستان میں ایک نہ ختم ہونے والی عدالتی کشاکش کے زیر سایہ رائج الوقت سودی نظامِ معیشت وبینکاری پوری آب وتاب سے پھلتا پھولتا رہے گا۔
اس تشویش ناک صورت ِ حال کے پیش نظر ہم نے اسٹیٹ بینک اور بینکوں کی جانب سے اپیل دائر کرنے کے فیصلے کے فوراً بعد سپریم کورٹ کو خط لکھ کر استدعا کی تھی کہ ”عدالت عظمیٰ ان اپیلوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرے اور وفاقی شرعی عدالت کے 28/اپریل2022ء کے فیصلے میں اسلامی بینکوں کی شریعت سے متصادم بعض پراڈکٹس کو اسلامی اصولوں کے مطابق قرار دینے کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے۔“
اب سے 25 برس قبل پاکستان کی وفاقی حکومت نے 30 جون1997 کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ سے استدعا کی تھی کہ ”وفاقی شرعی عدالت کے 1991ء کے فیصلے کے خلاف1992ء میں عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ وفاقی حکومت کی اپیل واپس لینے کی جازت دی جائے“۔ شریعت اپیلیٹ بنچ نے حکومت کے سیاسی عزائم کو بھانپتے ہوئے اپیل واپس لینے کی وفاقی حکومت کی استدعا کو مسترد کر دیا تھا۔ اب 25 برس بعد تاریخ اپنے آپ کو دُہرارہی ہے۔ وفاقی حکومت کے ایما پر اسٹیٹ بینک او رنیشنل بینک نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپیلیں واپس لینے کی جو استدعا کی ہے، اس کے مضمرات پر غور کرتے ہوئے اس درخواست کو مسترد کرکے ان اپیلوں کی سماعت روزانہ کی بنیادی پر کی جائے۔
وفاقی حکومت، اسٹیٹ بینک او رنیشنل بینک اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے (28/اپریل2022ء) میں متعدد سقم موجو دہیں۔ ان دونوں بینکوں کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کرنے کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام ِ معیشت وبینکاری کے نفاذ میں ممکنہ حد تک تاخیر جاری رہے اور رکاٹیں کھڑی رہیں، کیوں کہ اس نظام سے طاقت ور اور مال دار طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یہ اپیلیں واپس لینے کے فیصلے سے موجودہ حکومت صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان اپیلوں کو واپس لینے کے باوجود متعدد وجوہ کی بنا پر آنے والے برسوں میں معیشت سے سود کے خاتمے کے ضمن میں کسی معنی خیز پیش رفت کا امکان نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان اپیلوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو موقع ملے گا کہ وہ شرعی عدالت کے فیصلے میں پائے جانے والے سقم اور غلطیوں کو درست کرسکے۔
چند بنیادی حقائق
مندرجہ بالا گزارشات کی مزید وضاحت کے لیے چند مزید حقائق پیش خدمت ہیں:
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے 28/اپریل2022ء کے فیصلے میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں کی سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم ڈیپازٹس اور فنانسنگ وغیرہ کی پراڈکٹس کو بلا تحقیق شریعت کے مطابق قرار دیا ہے۔ چناں چہ ، یہ اَزحد ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلا ف اپیلوں کی سماعت کے دوران ان پراڈکٹس کا باریک بینی سے جائزہ لے، خصوصی طور پر اسپیشل مشارکہ پول، کرنسی سلم، کموڈیٹی مرابحہ اور رننگ مشارکہ وغیرہ۔ اسلامی بینکوں کے نام سے کام کرنے والے اداروں میں رقوم جمع کرانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی بینکوں کی جانب سے ان کی رقوم پر ملنے والا منافع حلال ہے، حالاں کہ شریعت سے متصادم پراڈکٹس کی آمدنی سے جو منافع کھاتے داروں کو ملتا ہے، اس میں سود کی آمیزش ہوتی ہے۔
اسلامی بینک نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر جمع کرائی گئی رقوم پر اپنے کھاتہ داروں کو منافع شرعی اصولوں کے مطابق نہیں دے رہے۔ ایک بینک کی جاری کردہ اسلامک بینکنگ آپریشنز کی شریعہ بورڈ کی رپورٹ میں یہ اعتراف موجود ہے کہ کھاتے داروں کو منافع اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق دیا جارہا ہے، یعنی شرعی اصولوں کے مطابق نہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ اسلامی بینک درحقیقت سودی بینکوں کے مقابلے میں بھی کم شرح سے منافع دے رہے ہیں، جب کہ ایکویٹی کے تناسب سے اسلامی بینکوں کی اوسط سالانہ شرح منافع ، سودی بینکوں کی اوسط سالانہ شرح منافع سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ناانصافی اور استحصال کی واضح مثال ہے۔ اسلام میں سود کو حرام اس لیے بھی قرار دیا گیا ہے کہ ”یہ ظلم وناانصافی کا سبب بنتا ہے“۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں اسلامی بینکوں کی اس پراڈکٹ کو شریعت کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو اس بنیادی غلطی کو درست کرنا ہو گا۔
اسٹیٹ بینک نے2014ء میں جاری کردہ سرکلر لیٹر نمبر2 میں اسلامی بینکوں کو ، کرنسی سلم یعنی کرنسیوں کی تاخیر یا مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر تبادلے کی اجازت دی ہوئی ہے، حالاں کہ یہ ”ربا“ کے زمرے میں آتا ہے۔ جس طرح سونے او رچاندی کے درمیان تبادلہ دست بدست ہونا چاہیے، اسی طرح دو مختلف کرنسیوں کے درمیان تبادلہ بھی دست بدست ہونا چاہیے، چناں چہ اگر یہ تبادلہ تاخیر سے ہو تو یہ ”ربا“ ہے۔
آج کل سودی بینکاری کے تحت دُنیا میں دو مختلف کرنسیوں کے تبادلے کثرت سے ہوتے ہیں، مثلاً ڈالر اور روپے کا تبادلہ اس طرح ہوتا ہے کہ ایک کرنسی کی سپردگی مستقبل کی کسی تاریخ میں ہوتی ہے۔ یہ ایک طرف سود کا دروازہ کھولتا ہے اور دوسری طرف سٹے بازی کی راہ ہم وار کرتا ہے۔ چناں چہ اسلامی بینکاری کے تحت سود سے بچنے کے لیے ان دونوں کرنسیوں کا تبادلہ دست بدست ہونا چاہیے۔ انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی جدہ اوراسلامی مالیاتی اداروں کی اکاؤنٹنگ اور آڈٹنگ کی تنظیم (ایافی) کا بھی یہ متفقہ موقف ہے کہ ”کرنسی میں مستقبل کے سودے نہیں ہوسکتے۔“ چناں چہ کرنسی میں سلم اور مؤخر مرابحہ نہیں ہوسکتا۔ اصول یہ ہے کہ موجود زر نقدی (کاغذی کرنسی) پر وہی شرعی احکام لا گو ہوتے ہیں، جو سونے اورچاندی (دینار اور درہم) کے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (28/اپریل2022ء) میں ”ربا“ کی تین اقسام کا بھی ذکرکیا ہے، مثلاً گندم کا گندم سے تبادلہ، اگر برابر نہ ہوا ور دست بدست نہ ہو تو وہ ”ربا“ ہے۔ اسی طرح گندم کا جَو کے ساتھ مؤخر سپردگی کے ساتھ تبادلہ ”ربا“ ہے۔ یہ اقسام اب دُنیا میں رائج نہیں ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے بہرحال یہ نہیں بتلایا کہ اگر روپے اور ڈالر یعنی دو مختلف کرنسیوں کے درمیان تاخیر یعنی مؤخر سپردگی کی بنیاد پر تبادلہ ہو تو یہ بھی ”ربا“ ہے۔ اس طرح کرنسی سلم کو عملاً سند جواز عطا کر دی گئی ہے۔ چناں چہ کرنسی سلم کے تحت اسلامی بینکوں میں سودی کاروبار فروغ پاتا رہے گا اور سودی کاروبار کی آمدنی سے اسلامی بینک اپنے کھاتے داروں کو منافع دیتے رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے اپیلیٹ بنچ کو کرنسی سلم کی ممانعت کرنا ہو گی۔
سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے جون2002ء میں ”ربا“ کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس واپس بھیجا تھا اور یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اورافراطِ زر کی روشنی میں انڈیکسیشن کے معاملے پر بھی فیصلہ دے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس حکم کی پابند ی نہیں کی اور اس پیچیدہ مسئلے سے پہلو بچایا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران شریعت اپیلیٹ بنچ کو اس ضمن میں بھی فیصلہ دینا ہو گا،وگرنہ آنے والے برسوں میں یہ معاملہ پھر عدالتوں کے پاس جائے گا۔
سپریم کورٹ میں 2002ء میں سود کا مقدمہ زیر سماعت تھا، مگر فیصلہ اسلامی بینکاری کے نفاذ کا کیا گیا۔ اس پس منظر میں اب 2022ء میں بینکوں کی اپیلیں واپس لینے کا پُراسرار فیصلہ کیوں؟ اب سے تقریباً20 برس قبل جب سود کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں زیر سماعت تھیں، تو ایک اعلیٰ اختیاراتی اجلاس کے فیصلے کے تحت اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال 2011-01-02ء میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ ”ربا“(سود) کا مقدمہ عدالت میں چلتا رہے گا، مگر اسٹیٹ بینک اسلامی بینکاری کے نظام کو سودی بینکاری کے ساتھ متوازی طور پر چلائے گا۔ علما ومفتی صاحبان یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بینکاری کا یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے۔ یہ بات ہم نے اسی وقت بیان کر دی تھی۔ اس متوازی نظام کو اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کی آشیرباد حاصل رہی ہے۔ اس شریعہ بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود احمد غازی اور مفتی تقی عثمانی بھی رہ چکے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ اب 2022ء میں بھی اسلامی بینکوں میں جو پراڈکٹس استعمال کی جارہی ہیں، ان میں سے کچھ میں سود کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، جس کی توثیق 28اپریل2022ء کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں کر دی گئی ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے 28/اپریل2022ء کے فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی بینکوں کی کوئی بھی پراڈکٹ شریعت کے مطابق نہیں ہے، تو وہ کسی بھی وقت وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
اگر سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے 28/اپریل2022ء کے فیصلوں کی غلطیوں اور سقم وغیرہ کو درست نہیں کیا تو خدشہ یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں نیک نیتی یا بدنیتی سے کوئی بھی شخص یا ادارہ وفاقی شرعی عدالت میں اسلامی بینکوں کی متعدد پراڈکٹس کو غیر اسلامی قرار دینے یا افراط ِ زراور انڈیکسیشن وغیرہ کے مسئلے کو اُٹھا کر یا کسی اور متنازع معاملے کو جواز بنا کر وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ اور پھر اس مقدمے کا فیصلہ آنے میں برس ہا برس لگ سکتے ہیں، جب کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں بھی دائر کی جاسکتی ہے۔
اس سنگین صورت ِ حال سے بچنے کا واحد قابل ِ عمل راستہ صرف یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا شریعت اپیلیٹ بنچ28/اپریل2022ء کے فیصلے کے خلاف دو بینکوں کی اپیلوں کی واپسی کی استدعا مسترد کرکے ان کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرے او ران ماہرین سے بھی معاونت طلب کرے، جنہوں نے1999ء میں ”ربا“ کے مقدمے میں اپنی گزارشات عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کی تھیں، تاکہ تمام متنازع اُمور نمٹا کر سود کے خاتمے کے ضمن میں حتمی او رجامع فیصلہ صادرکیا جاسکے۔
وفاقی حکومت کے کرنے کا اصل کام
آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شق38(ایف) میں کہا گیا ہے: ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ (معیشت سے) جلد از جلد ربا کا خاتمہ کر دیا جائے۔ ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی منظوری سے اس شق میں یہ اضافہ کر دیا جائے کہ ”سود ہر شکل میں ربا کے زمرے میں آتا ہے۔“ اس کے بعد شرعی عدالتوں میں سود کے حرام نہ ہونے کا معاملہ زیربحث لایا ہی نہیں جاسکے گا۔
تنبیہ: وفاقی وزیر خزانہ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ”موجودہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کے28/اپریل2022ء کے فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے کی پوری کوشش کرے گی“۔ اس کے تباہ کن مضمرات کا سوچ کر ہماری روح کانپ جاتی ہے، کیوں کہ اس سے ایک طرف اسلامی بینکاری کے نام پر سودی نظام فروغ پاتا رہے گا اور دوسری طرف یہ حقیقی خطرہ موجود رہے گا کہ اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے رائج اس نظام کو آگے چل کر شرعی عدالتیں غیر اسلامی اور سود پر مبنی قرار دے سکتی ہیں۔