خرقان ایران کے شہر بسطام کا نواحی علاقہ ہے ، بسطام شہر میں حضرت بایزید بسطامی رحمہ الله کثیر تعداد میں خلق خدا کو فیض یاب فرماتے رہے، حضرت بایزید زیادہ عرصہ اپنی خانقاہ میں رہتے، سال میں ایک مرتبہ دہستان کے قبرستان میں شہداء کی قبور پر جاتے، راستے میں جب آپ خرقان نامی بستی سے گزرتے تو ایسے سانس لیتے جیسے کچھ سونگھ رہے ہوں۔ مریدوں نے عرض کی حضرت! آپ کیا سونگھتے ہیں ہمیں تو کچھ محسوس نہیں ہوتا؟ حضرت بایزید نے فرمایا مجھے اس چوروں کی بستی سے ایک مرد خدا اورولی الله کی خوش بو آرہی ہے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمہ الله جب فوت ہوئے تو آپ کو اپنے شہر بسطام میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ وقت گزرتا رہا 352ھ میں یہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام علی بن احمد او رکنیت ابوالحسن تھی ۔ سلوک واحسان میں آپ نے وہ مقبولیت ومحبوبیت پائی ہے جو بہت کم کسی کے نصیب میں آئی ہے، سلسلہ نقش بندیہ کے شجرہ طریقت میں آپ کا نام بہت روشن نام ہے۔ بچپن سے ہی اولیاء الله سے قلبی محبت، علم دین سے گہری وابستگی اور سلوک واحسان سے بے حد شغف تھا۔
آپ رحمہ الله12 سال تک بلاناغہ خرقان سے بسطام تک پیدل سفر کرتے او رحضرت بایزید بسطامی کی قبر پر حاضر ہو کر الله تعالیٰ سے یوں دعا کرتے یا الله! آپ نے اپنے محبوب بندے خواجہ سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی رحمہ الله کو جو اپنی محبت ورضا او رمعرفت نصیب فرمائی تھی مجھے بھی نصیب فرما۔ بارگاہ ایزدی میں آپ کی دعا نے شرف قبولیت پائی اورآپ مرجع خلائق بن گئے، دور دور سے لوگ آتے او رمحبت الہٰیہ اور سنت نبویہ سے دامن بھر کے جاتے۔ آپ کی خانقاہ کی خصوصیت یہ تھی کہ بڑے بڑے رئیس، مال دار ،حکیم وطبیب، سائنس داں، شعراء اور اہل علم بھی اس سے مستفیض ہوتے۔ یہاں تک کہ وقت کے بادشاہ بھی آپ کی خانقاہ کے خوشہ چین تھے۔ آپ رحمہ الله اپنی خانقاہ میں لوگوں کو الله الله کراتے، ان کے دل میں معرفت رب ذوالجلال کو پیوست کرتے، سنت نبویہ کا عادی بناتے، اخلاقی تربیت فرماتے، اسلام کا معاشرتی طرز بتلاتے او رزندگی گزارنے کا اسلامی طریقہ سمجھاتے۔
چناں چہ آپ رحمہ الله نے خانقاہ میں ایک بار مجلس ذکر کرائی۔ الله الله کی ضربیں لگوائیں اور لفظ الله کے فضائل گنوائے کہ اس نام سے دلوں کو سکون ملتا ہے، پریشانیاں دور ہوتی ہیں ، آفات وبلیات سے انسان محفوظ ہوتا ہے، ایمان مضبوط ہوتا ہے، صحت ملتی ہے، رزق میں برکت آتی ہے ، عمر میں برکت آتی ہے، الله کی طرف سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان جہنم سے بچ کر جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اسی مجلس میں حکیم بوعلی سینا موجود تھے، بوعلی سینا علم طب وحکمت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، انہوں نے مجلس ذکر کے بعد پوچھا حضرت! ایک لفظ کے اتنے سارے فضائل؟ آپ رحمہ الله نے برجستہ فرمایا: اے خر!توچہ دانی؟ اے گدھے! تجھے کیا پتہ؟ بوعلی سینا شرم سے پانی پانی ہوگئے تو آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ مسئلہ سمجھانا تھا، ورنہ مجھے کسی کو گدھے کہنے کا شوق نہیں۔ اب دیکھ تجھے گدھے کہنے کا اثر اتنا ہے کہ تجھے پسینے چھوٹ پڑے ہیں تو بتا الله کے نام کی لذت اور تاثیر کتنی ہو گی…!
ایک مرتبہ آپ رحمہ الله نے اپنے مریدوں سے کہا کہ خانقاہ کی صفائی کرو، مرید اٹھے او رخانقاہ کی صفائی شروع کر دی، کوئی جھاڑ و دے رہا تھا اور کوئی بستروں کو جھاڑ رہا تھا، مٹی اڑ رہی تھی۔ آپ نے ایک مرید سے کہا کہ میرے سر میں کنگھی کرو۔ مرید آپ کے بالوں کو کنگھی کر رہا تھا، اتنے میں سلطان محمود غزنوی رحمہ الله حضرت کی خانقاہ میں آئے۔ مٹی اڑ رہی ہے، مرید صفائی کر رہے ہیں، حضرت! اس حالت میں سرجھکائے بیٹھے ہیں۔ جب بادشاہ کے آنے کی خبری ہوئی تو مرید ذرا گھبرائے اور آکر عرض کی حضرت … حضرت… حضرت!! آپ نے سراٹھایا، پوچھا کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگا کہ حضرت! بادشاہ سلامت سلطان محمود غزنوی خانقاہ میں تشریف لائے ہیں تو آپ کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے:”نعم الأمیر علی باب الفقیروبئس الفقیر علی باب الأمیر“ اچھا بادشاہ وہ ہے جو فقیروں کے پاس چل کر آئے اور برا فقیروہ ہے جو بادشاہوں کے دروازے پر جائے۔
کہا کہ اچھی بات ہے، آنے دو! سلطان آکر ملا، ملاقات کی، ہدیہ دیا تو آپ نے قبول نہیں فرمایا۔ دوبارہ عرض کی، دوبارہ انکار کر دیا۔ جب اس نے اصرار کیا تو آپ نے ایک مرید سے کہا کہ خشک روٹی لاؤ۔ وہ لایا، آپ نے بادشاہ سے کہا کہ اسے کھاؤ ،جب اس نے ایک لقمہ توڑا او رمنھ کے اندر ڈالا تو منھ میں چلا گیا، لیکن حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔ گلے میں پھنس گیا ،آپ نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ گلے سے نہیں اتر رہا ،آپ نے فرمایا اسی طرح آپ کی تھیلی میرے گلے میں پھنسی ہوئی ہے، وہ نیچے نہیں اتر سکتی۔ سلطان محمود غزنوی آپ رحمہ الله کی محفل میں بیٹھے۔ اس محفل کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے، دل سے نخوت، عجب، کبر اور بڑائی مٹ گئی اور دل میں عاجزی وانکساری پیدا ہونے لگی، صحبت ولی کا اثر ظاہر ہوا۔ جب واپس ہونے لگے تو خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمہ الله نے اٹھ کر رخصت کیا۔ کسی نے پوچھا کہ جب آئے تو نہیں اٹھے، جب گئے تو آپ اٹھے؟ فرمایا جب وہ آیا تو خود کو بادشاہ سمجھ کر آیا، دل سے تکبر چھلک رہا تھا اور جب رخصت ہونے لگا تو عاجزی پیدا ہو چکی تھی۔
سلطان محمود غزنوی رحمہ الله مشہور مسلمان بادشاہ گزرے ہیں، وہ موجودہ دور کے مسلمان حکم رانوں جیسے مسلمان نہیں تھے، بلکہ دین کو سمجھنے والے اوراسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے بادشاہ تھے۔ انہوں نے997ء سے 1030ء تک33 سال حکومت کی۔ آپ کی وسیع سلطنت میں موجود مکمل افغانستان، ایران او رپاکستان کے کئی حصے اورشمال مغربی بھارت شامل تھا۔ وہ تاریخ ِ اسلامیہ کے پہلے حکم ران تھے، جنہیں سلطان کا لقب دیا گیا، فقہ حنفی پر عمل پیرا تھے، چناں چہ سلطان محمود غزنوی رحمہ الله نے فقہ پر ایک کتاب ”التفرید“ کے نام سے لکھی ،جس میں کم وبیش فقہ کے ساٹھ ہزار مسائل تھے۔ برصغیر میں ہندوؤں کے غرور کی علامت سومنات کے مندر کو 1026ء میں فتح کیا، ہندوؤں برہمنوں نے محمود غزنوی سے لجاجت سے درخواست کی کہ اس بت کی حفاظت کے عوض اسے بہت زیادہ دولت دی جائے گی تو سلطان نے یہ کہہ کر اس آفر کو ٹھکرا دیا کہ وہ بت شکن ہے، بت فروش نہیں۔ سلطان محمود غزنوی رحمہ الله نے 1030ء میں 59 سال کی عمر میں وفات پائی۔ غزنی کے موجودہ قصبے سے تین میل باہر آپ کا مقبرہ ہے۔