محبت محبت کے بدلے محبت لُٹانا،پیار کا جواب پیار سے دینا،ہم دردوں کے ساتھ ہم دردی جتانا اور خیر خواہوں کی خبر گیری کرنا تو دنیا کا اصول اور عام سا رواج ہے؛مگر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں پوری انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ بناکر بھیجا گیا اور جن کی نبوت و رسالت کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد تمام انسانوں کے لیے عمدہ اخلاق،اعلیٰ اطوار اور بہترین عادات کا ظہور بتلایا گیا، وہ اس روایتی طرز عمل پر کس طرح قناعت کرسکتے تھے؟یہی وجہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اخلاق و کردار سے ایک عالم گیر انقلاب کی بنیاد رکھی اور آپ نے مفاد پرست دنیا کے مکافاتی نظام کے علی الرغم نفرت کرنے والوں کو گلے لگایا،دشمنی کرنے والوں سے محبت فرمائی،کینہ پروروں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا اور جان کے دشمنوں کو تحائف پیش کیے۔ماہر القادری نے کیا خوب کہا ہے #
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اس پر کہ دشمن کو حیات جاوداں دے دی
سلام اس پر، ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی
سلام اس پر، وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے
نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی رفیقہٴ حیات، ام المومنین ،حضرت عائشہ صدیقہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بلندپایہ اخلاق وکردار کے حوالے سے ارشاد فرماتی ہیں:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ عورت کو نہ خادم کو، البتہ جہاد میں اللہ کی راہ میں مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کسی نے نقصان پہنچایا اس کا بدلہ نہیں لیا، البتہ اگر اللہ کے حکم میں خلل ڈالا، تو اللہ کے واسطے بدلہ لیا، یعنی شرعی حدوں میں جیسے چوری میں ہاتھ کاٹا، زنا میں کوڑے لگائے یا سنگ سار کیا۔(مسلم شریف)اسی طرح کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ ہی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دو کاموں کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(امت پر شفقت فرماتے ہوئے) آسان کو اختیار کیا ،بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو اور جو گناہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا، البتہ اگر کوئی اللہ کے حکم کے برخلاف کرتا تو اس کو سزا دیتے۔(مسلم شریف)
ذیل میں خرمنِ تاریخ سے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے اغیار کے ساتھ رحم و کرم سے متعلق چند واقعات بہ طورنمونہ پیش خدمت ہیں؛جن سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے کریمانہ اخلاق اور اعلی رویے کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟؟
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے، جو سیرت نگاروں کے یہاں ذات الرقاع کے نام سے مشہور ہے۔ جنگ سے لوٹتے وقت، آپ صلی الله علیہ وسلم دوپہر میں ایسی جگہ اترے، جہاں گھنے کانٹے دار درخت تھے اور لوگ بھی نبی صلی الله علیہ وسلم سے الگ ہوکر ایسی جگہ تلاشنے لگے جہاں سورج کی تپش سے بچ کر سایہ حاصل کیاجاسکے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک سایہ دار درخت کے نیچے فرو کش ہوئے، جسے سمرة یعنی کیکر کہا جاتا ہے، اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی تلوار اسی درخت سے لٹکا دی اور آرام فرمانے لگے، صحابہٴ کرام بھی سو گئے۔کچھ دیر بعد جن لوگوں سے اس غزوہ میں جنگ ہوئی تھی انہی میں سے ایک دیہاتی چپکے سے آپ کے قریب آیا اور لوگوں کو اس کی بھنک بھی نہ پڑی، اس نے آپ کی تلوار نہایت خاموشی سے اٹھا لی، اتنے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی۔ تلوار اس کے ہاتھ میں تھی اور وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو ڈراتے ہوئے کہہ رہا تھا: ”اگر میں تم کو قتل کرنا چاہوں تو تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ“ اور یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ مجھے تجھ سے بچالے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ جملہ پورے اعتماد،توکل اور وثوق کے ساتھ کہاتھا،جیسے ہی دیہاتی نے لفظ ِ”اللہ“ سنا اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے تلوار اٹھالی اور فرمایا: ”اب تجھے‘ مجھ سے کون بچائے گا؟“ یعنی اگر میں تجھے قتل کرنا چاہوں تو تجھے کون بچانے والا ہے۔دیہاتی کہنے لگا: (آپ خیر کوپکڑنے والے ہوجائیں) اس سے مراد عفو و در گذراور برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کے ہیں۔ اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے جواب دیا نہیں۔البتہ اس نے آپ سے نہ لڑنے اور آپ سے جنگ کرنے والوں کا ساتھ نہ دینے کا وعدہ کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اس کی راہ پر چھوڑ دیا، اورمعذرت قبول فرمالی۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم میں گیا اور کہنے لگا؛میں تمہارے پاس سب سے بہتر شخص کے پاس سے آیا ہوں۔(بخاری شریف) اور بعض روایات کے مطابق آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ اور شان عفو و درگزر سے متاثر ہوکر نہ صرف اس نے اسلام قبول کر لیا؛بلکہ اس کے ذریعہ بہت سے افراد بھی اسلام کے قریب ہوئے۔
حاتم طائی کی بیٹی سفانہ کے ساتھ حسن سلوک
ہرخاتون ،خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والی ہو، بہ حیثیت انسان قابل احترام ہے،نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے غیر مسلم خواتین کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔تاریخ اسلام کا وہ واقعہ یاد کیجیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن کے گورنر تھے۔ انہوں نے وہاں ہونے والی بغاوت کوفرو کیا اور باغی لیڈروں کو گرفتار کرکے مدینہ بھیج دیا۔ ان میں عدی کی بہن سفانہ بنت حاتم بھی تھی، وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئیں اور عرض کرنے لگیں: میں سخاوت کرنے والے حاتم طائی کی بیٹی ہوں، میرا باپ بھوکوں کا پیٹ بھرتا تھا اور غریبوں پر رحم کرتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تیرے باپ میں مسلمانوں کی سی خوبیاں تھیں۔ عدی کی بہن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر عرض کیا کہ میری آپ سے ایک درخواست ہے، آپ اس کو قبول فرماکر مجھ کوشکریہ کا موقع دیجیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ کیاہے؟۔ عدی کی بہن نے کہا کہ میرے والد فوت ہوچکے ہیں‘ میرا محافظ یعنی بھائی بھاگ گیاہے۔ آپ مجھ پر احسان فرمائیں، یعنی آزاد کردیں تو اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔میر ابھائی آپ کی فوج سے خوف زدہ ہوکر شام کے علاقہ میں بھاگ گیا ہے۔ آپ مجھ کو اجازت دیں کہ میں اس کو لے آؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے ایک امن نامہ لکھ دیں۔یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چپ چاپ چلے گئے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ دوسرے روز پھر وہاں سے آپ کا گزر ہوا تو پھر اس نے وہی درخواست دہرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم جلدی کیوں کرتی ہو؟ جب تمہارے علاقہ سے کوئی آئے گا جس پر تم کو اعتماد ہوگا، اس کے ساتھ چلی جانا۔ چناں چہ چند یوم بعدسفانہ کے رشتہ داروں میں سے چند اشخاص آگئے۔سفانہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے رشتہ داروں میں سے ایسے لوگ آگئے ہیں جن پر مجھ کو اعتماد ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے کپڑے کے جوڑے بھیج دیے اور میرے لیے زادراہ اور سواری مہیا فرمائی۔اس طرح میں اپنے قرابت داروں کے ساتھ اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس شام پہنچ گئی۔ چند دنوں بعد عدی نے اپنی بہن سے پوچھا: تم ہوشیار اور عاقلہ ہو، تم نے اس شخص (محمد) کے متعلق کیا رائے قائم کی؟انھوں نے کہا: میری یہ رائے ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اُن سے ملو؛ اگر وہ نبی ہیں تو اُن سے ملنے میں سبقت کرنا شرف و سعادت ہے…تاریخ میں ہے کہ سفانہ نے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے جود و کرم سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور اسی پر ثابت قدم رہیں۔(سیرت ابن ہشام)
جب ایک یہودی نے آ پ صلی الله علیہ وسلم کو آزمایا
قریش مکہ سمیت بہت سے قبیلوں اور نسلوں کے عالم فاضل لوگوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کو آزما کر دیکھا کہ کیا واقعی آپ صلی الله علیہ وسلم میں نبی کی نشانیاں موجود ہیں۔ طبرانی، ابن حبان، حاکم اور بیہقی میں اخلاق النبی صلی الله علیہ وسلم کے باب میں اس حوالے سے جہاں کئی واقعات کا ذکرہے، وہیں ایک یہودی عالم کے گستاخانہ طرز عمل کا بھی تذکرہ ہے، جس نے محض رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کو آزمانے کے لیے ایسا رویہ اپنایا۔زید بن سعنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک یہودی عالم تھے،جنہوں نے تورات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی صفات پڑھ رکھی تھیں اورنبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صداقت کی تمام علامات ان پر واضح ہو چکی تھیں۔ صرف دو صفتیں ایسی تھیں جن کی وہ تصدیق کرنا چاہتے تھے۔ ایک یہ کہ ”آپ صلی الله علیہ وسلم کا تحمل آپ صلی الله علیہ وسلم کے غصہ پر غالب ہوگا۔“ دوسری صفت ”ان کے ساتھ شدید جاہلانہ سلوک کے باوجود ان کے حلم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔“
زید بن سعنہ مختلف بہانوں سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجالس میں آتے، ملاقات کرتے اور مذکورہ صفات کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی میں دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے۔ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ یہ موقع میسر آگیا۔ زید کے اپنے الفاظ یہ ہیں:
”میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں تھا، ایک اعرابی آیا، اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے علاقے کے کچھ لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ اب انہیں قحط اور فقر و فاقہ کا سامنا ہے۔ اگر انہیں فوری مد دنہ ملی تو خطرہ ہے کہ کہیں وہ اسلام سے نکل نہ جائیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم سے امداد کا طالب ہوا۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس رقم نہیں تھی۔ میں نے فوری پیش کش کی اور اپنی پوٹلی کھولی اس میں سے 80دینار نکالے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے حوالے کردیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسی وقت اعرابی کوبلایا اور اسے رقم دے کر فرمایا”اپنے علاقے میں فوراً واپس چلے جاؤاور لوگوں کی مدد کرو“۔ابھی کھجوروں کی ادائیگی کے وعدے کی میعاد میں کچھ دن باقی تھے کہ میں نے ان کے تحمل و بردباری کی آزمائش کا فیصلہ کر لیا۔ ایک جنازے کی ادائیگی کے لیے آپ حضرت ابو بکر صدیق، عمرفاروق اور دیگر صحابہ کے ساتھ جنت البقیع تشریف لے گئے۔ جنازہ سے فارغ ہوئے تو میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے اپنے منصوبے کے مطابق اچانک آپ صلی الله علیہ وسلم کی چادر پکڑ لی اور اتنے زور سے کھینچی کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے کندھے سے اتر گئی اور ساتھ ہی نہایت کرخت لہجہ میں کہا ”محمد!میرا قرض واپس نہیں کرو گے؟ تم بنو عبدالمطلب کے لوگ قرض واپس کرنے میں اچھے نہیں ہو۔ ادائے قرض میں بہت دیر کرتے ہو۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ لوگوں سے تمہارے معاملات کی کیا حالت ہے!“
زید کا یہ مطالبہ نہایت غیر معقول تھا؛ کیوں کہ ابھی وعدے کی مدت میں کئی دن باقی تھے اور پھر اندازایسا بازاری جس میں پورے خاندان کو گھسیٹا گیا ہو، کسی بھی شخص کو غصہ دلانے کے لیے کافی تھا؟! عمر فاروق آپ کے ساتھ ساتھ تھے اور اس کی بکواس سن رہے تھے۔ وہ بھلا کہاں خامو ش رہنے والے تھے؟! فوراً بولے”او اللہ کے دشمن! تمہاری یہ جرات کہ تم اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ اس قسم کی گھٹیا گفتگو کررہے ہو۔ یہ میں کیا دیکھ سن رہا ہوں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر مجھے ان کی پاس داری نہ ہوتی تو تمہاری اس بدتمیزی پر تمہاری گردن اُڑا دیتا۔ تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی کہ تم ایسی واہیات گفتگو کرو؟“۔
اب ذرا اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا ردعمل ملاحظہ فرمائیں۔ اتنی سخت گفتگو سننے کے باوجود بھی آپ صلی الله علیہ وسلم مشتعل نہیں ہوئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ موجود رہی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے عمر فاروق کو مخاطب کیا اور فرمایا”عمر! ایسی بات نہ کرو، بلکہ تمہیں چاہیے تھا کہ تم مجھ سے یہ کہتے کہ میں اس کا قرض خوش اسلوبی سے ادا کروں اور اسے یہ سمجھاتے کہ میاں! قرض کا تقاضا بھلے طریقے سے کرو۔“
پھر حکم دیا”عمر جاؤ اور اس کا قرض واپس کرو اور ہاں چوں کہ تم نے اسے ڈرایا، دھمکایا ہے، اس لیے اسے بیس صاع کھجوریں زیادہ ادا کرو“ زید بن سعنہ نہایت توجہ سے یہ گفتگو سن رہا تھا ا ور حیران تھا کہ اس قدر اشتعال انگیز گفتگو کے باوجود بھی آپ صلی الله علیہ وسلم حسب سابق تبسم کناں ہیں، بلاشبہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا حلم آپ کے غصہ پر سبقت لے گیا ہے۔
زید کہتے ہیں کہ عمرفاروق مجھے ساتھ لے کر بیت المال گئے۔ میرا قرض واپس کیا اور حسب ہدایت بیس صاع کھجوریں دیں اور پوچھاتم ہی بتاؤ۔ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں زید بن سعنہ ہوں۔ کہنے لگے: اچھا الحبر! یعنی وہی جو مشہور یہودی عالم ہے۔ میں نے کہا کہ جی ہاں الحبر۔ اب عمرفاروق نے کہا کہ یہ جو تم نے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے گفتگو کی ہے اور ان کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آئے ہو تمہیں اس کا ہر گز کوئی حق نہیں تھا۔
میں نے کہا”عمر! تم ٹھیک کہتے ہو،مگر تمہیں معلوم نہیں کہ میں حق کا متلاشی تھا۔ میں نے نبوت کی تمام صفات آپ صلی الله علیہ وسلم میں دیکھ لی تھیں۔ دو صفتیں باقی رہ گئی تھیں۔ جن کا تعلق آپ صلی الله علیہ وسلم کے تحمل، حوصلہ مندی اور بردباری سے تھا۔ آج میں نے ان صفات کا بھی خوب مشاہدہ کرلیا ہے۔ بلاشبہ وہ نبی آخر الزماں ہیں۔ عمر! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آج سے سچے دل سے اسلام قبول کرتا ہوں“ پھر کلمہ طیبہ پڑھا اور صحابیت کے شرف سے بہرہ ور ہوئے۔(الاصابة فی تمییز الصحابة)
خلاصہٴ کلام
سیرت رسول صلی الله علیہ وسلم میں ایسے بے شمار واقعات ہیں، جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اسلام بہ زور شمشیر نہیں؛ بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے اخلاق اور عفو و درگزر سے پھیلا ہے۔آج موجودہ حالات میں دعوت کا میدان ہمارا منتظر ہے۔ ضرورت بس اتنی ہے کہ دین کابنیادی علم رکھ کر،حکمت و موعظت کے ساتھ، اسلام کی دعوت دوسروں تک پہنچائی جائے۔ اگراچھے طریقے سے،عمدہ اخلاق وکردار کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیاجائے گا تو کوئی بعید نہیں کہ ہمارامخاطب اسلام کے قریب ہوجائے اور اس کے ذہن ودماغ سے سارے شکوک و شبہات دور ہوجائیں۔
آج وسیع پیمانے پراس بات کی ضرورت ہے کہ دعوت اسلام کا ایسا جال بچھایاجائے کہ ہرہر غیر مسلم تک اسلام کا سچا پیغام اور نبی کی پاک سیرت پہنچے۔ ہر مسلمان بچہ، بوڑھا اسلام کا مبلغ ہواوراسلام کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے بے تاب ہو، تب کہیں جاکر حالات میں تبدیلی آسکتی ہے۔ ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم نے سچ کہاہے #
شام ایسی نہ اب ایسی سحر مانگ رہی ہے
یہ دنیا نئی دنیا کی خبر مانگ رہی ہے
شبنم سے فقط کام چلاہے نہ چلے گا
پھولوں کی زباں خون جگر مانگ رہی ہے