روزہ، تراویح اور زبان کی حفاظت

روزہ، تراویح اور زبان کی حفاظت

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾․ (سورة البقرة، آیت:183) صدق اللّٰہ مولانا العظیم․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ کا فرمان اور الله تعالیٰ کا ارشاد ہے﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا﴾ اے ایمان والو!﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ﴾، تم پر روزے لکھ دیے گئے ہیں، یعنی تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں﴿کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ﴾ جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کیے گئے اور اس روزے کی فرضیت کا سبب ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون﴾۔ تاکہ تم متقی ہو جاؤ۔

رمضان المبارک ہمارے سامنے ہے، سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ رمضان شھر الله الله کا مہینہ ہے: ”عن أنس قال: دخل شھر رمضان فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إن ھذا الشھر قد دخل وھو شھر الله المبارک فیہ لیلة من حرمھا فقد حرم الخیر، ولا یحرم خیرھا إلا کل محروم․ “ ( المجعم الأوسط، رقم الحدیث:1444) آپ صلی الله علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں کثرت کے ساتھ روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے، بعض روایات میں تو آتا ہے کہ آپ پورا شعبان روزے رکھتے تھے:”عن عائشة رضی الله عنہا قالت: کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یصوم حتی نقول لا یفطر ویفطر، حتی نقول لا یصوم، ومارأیتہ اکثر صیاما منہ فی شعبان․

وفي روایة: لم یکن النبی صلی الله علیہ وسلم یصوم شھرا أکثر من شعبان، فإنہ کان یصوم شعبان کلہ․(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الصوم، باب صوم شعبان، رقم:1970-1969، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الصیام، باب صیام النبی صلی الله علیہ وسلم في غیر رمضان، رقم:2723)

لیکن شعبان میں روزے رکھنا فرض نہیں، فرض ہے رمضان میں روزے رکھنا، اور یہ فرضیت اس امت کے لیے نئی نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلی امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئے تھے، جیسا کہ ا لله تعالیٰ کے اس فرمان میں موجود ہے﴿کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ﴾، جیسے تم سے پہلی اُمتوں پر، او رجیسے تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کیے گئے تھے۔

روزے کی جو فرضیت ہے اس کی علت اور سبب جو الله تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے وہ ہے﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون﴾، تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ، تاکہ تم متقی بن جاؤ، آپ جانتے ہیں کہ انسان جسم اور روح کا مرکب ہے، جس کو طاقت حاصل ہوتی ہے گندم کھانے سے، اس جسم کو طاقت اور قوت حاصل ہوتی ہے چاول کھانے سے، اس جسم کو قوت اور طاقت حاصل ہوتی ہے گوشت کھانے سے، پھل کھانے سے اور جو دیگر غذائیات ہیں ان کو استعمال کرنے سے اس جسم کو طاقت اور قوت ملتی ہے، لیکن گوشت کھانے سے روح کو کوئی طاقت نہیں ملتی، اور گندم کھانے سے روح کو کوئی طاقت نہیں ملتی، غذائیں کھانے سے روح کو کوئی طاقت نہیں ملتی۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جسم ایک مخصوص مدت کے لیے ہے، کسی کی عمر چالیس سال ہے، کسی کی عمر پچاس سال ہے، کسی کی عمر ایک سال ہے، چناں چہ موت آتی ہے تو موت کے آنے سے یہ جسم مر جاتا ہے، وہ جسم جس کو طاقت گندم سے ملتی ہے، وہ جسم جس کو طاقت گوشت سے ملتی ہے وہ مر جاتا ہے، روح نہیں مرتی، روح اس جسم سے نکل جاتی ہے۔

چناں چہ روزہ ، یہ سب سے طاقت ور غذا ہے روح کی، اس سے روح کو طاقت ملتی ہے، اس سے روح میں بالیدگی اور تازگی اور روح میں طاقت اور قوت آتی ہے، چناں چہ جب روح میں طاقت آتی ہے، جو اصل ہے، جس کو ختم نہیں ہونا، تو اس روح کی متعلقہ چیزوں میں طاقت آتی ہے، آپ دیکھیں جب رمضان کا مہینہ آتا ہے او رجیسا کہ ہمارے ملک کا ماحول ہے او رجیسے آج ساری دنیا کا ماحول ہے کہ کوئی حکومت ، کوئی فوج کوئی پولیس کوئی رینجرز لوگوں کو مسجد کی طرف نہیں بلاتی، حکومت کی طرف سے اعلان نہیں ہوتا کہ فجر کی نماز میں نہیں گئے تو آپ کو جیل بھیج دیا جائے گا، ایسا کچھ نہیں، لیکن آپ دیکھیں پوری دنیا میں، یہ ہماری مسجد ہے، اب بھی ہم یہاں نماز پڑھتے ہیں، ہماری مسجد کا ہال بھی مکمل نہیں ہوتا، لیکن جیسے ہی رمضان شروع ہو گا، صرف یہاں نہیں، پوری دنیا میں، آپ سعودی عرب چلے جائیں، آپ امریکا، جاپان، ہندوستان چلے جائیں، جہاں بھی مسلمان ہیں، مساجد یک دم نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، کیوں؟! اس لیے کہ روزہ روح کو طاقت دیتا ہے، روزے سے جسم میں طاقت نہیں آتی، بلکہ جسم کم زور ہوتا ہے، اگر واقعی، صحیح روزہ رکھا جائے، بعض لوگ تو روزہ رکھتے ہیں، سحری کے وقت ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ اتنا زیادہ کھایا جائے کہ مغرب تک بھوک نہ لگے، سحری کرنا سنت ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے سحری کرنے کی ترغیب دی ہے اور آپ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں فرق سحری کرنے سے ہے:”عن عمرو بن العاص أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: فصل مابین صیامنا وصیام أھل الکتاب أکلة السحر․“(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الصیام، باب فضل السحور، رقم الحدیث:2550، وسنن الترمذي، کتاب الصوم، باب ماجاء في فضل السحور، رقم:708) اس کے علاوہ اور کئی احادیث میں سحری کرنے کی ترغیب آئی ہے۔

حضرت انس رضی الله عنہ کی روایت ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”تسحروا، فإن في السحور برکة“ سحری کھایا کرو ،کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الصوم، باب برکة السحور من غیرإیجاب، رقم:1923، والجامع الصحیح للمسلم، کتاب الصیام، باب فضل السحور، رقم:2549، وسنن الترمذي، کتاب الصوم، باب ماجاء في فضل السحور، رقم:708)

اسی طرح”مسند احمد“ کی روایت ہے: آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: السحور أکلہ برکة، فلا تدعوہ، ولو أن یجرع أحدکم جرعة من ماء، فإن الله عزوجل وملائکتہ یصلون علی المتسحرین․“

سحری میں برکت ہے ،اسے ہر گز نہ چھوڑو، اگر کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے، کیوں کہ سحری میں کھانے پینے والوں پر الله تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔(مسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:11086) اسی طرح غروب آفتاب کے بعد روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا مستحب ہے، چناں چہ بخاری شریف کی روایت ہے : آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:لایزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر․(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الصوم، باب تعجیل الإفطار، رقم:1957)

اور مسند احمد کی روایت میں ہے : ” لاتزال أمتي بخیر ما أخروا السحور وعجلوا الفطر․“( مسند الامام احمد بن حنبل:5/172)

یعنی جب تک میری اُمت کے لوگ سحری میں تاخیر کریں گے اور افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے وہ اچھے حال میں رہیں گے۔

فقہائے کرام نے سحری میں تاخیر کو افضل اور مستحب قرار دیا ہے، فتاوی عالم گیری میں ہے : ” ثم تاخیر السحور مستحب“(الفتاوی العالم گیری، کتاب الصوم، باب مایکرہ للصائم ومالا یکرہ:1/200) البتہ اتنی تاخیر کرنا کہ شک واقع ہو جائے کہ کہیں صبح صادق کے بعد تو کھایا پیا نہیں، تو یہ مکروہ ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے : ” ویکرہ تاخیر السحور إلی وقت وقع فیہ الشک․“ (الفتاوی العالمگیری، کتاب الصوم، باب مایکرہ للصائم ومالا یکرہ:1/200)

اور اگر صبح صادق ہو چکی تھی اور اس وقت میں کھایا پیا تو اس دن کا روزہ نہیں ہو گا، اس روزے کی قضا لازم ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصوم:2/100، عالمگیری،1/194)

بعض لوگ اذان پر کھانا پینا بند کرتے ہیں اور بعض تو اذان ختم ہونے تک کھانا پینا کرتے ہیں، یہ درست نہیں اور اس طرح کرنے سے روزہ نہیں ہو گا ،کیوں کہ اذان صبح صادق ہونے کے بعد دی جاتی ہے اور ایسے روزوں کی قضا لازم ہے، کفارہ واجب نہیں۔

ولو تسحر علی ظن أن الفجر لم یطلع فإذا ھو طالع… فعلیہ القضاء، ولا کفارة علیہ․(بدائع الصنائع، کتاب الصوم:2/100، فتاوی عالم گیری، کتاب الصوم:1/194) اگر کسی کو سحری میں غسل جنابت کرنا ہے، تو سحری کھانے سے پہلے غسل جنابت کرنا ضروری نہیں، بلکہ ہاتھ دھولے اور کلی کرے اور سحری کھالے بعد میں غسل کرے۔ (الفتاوی العالمگیری، کتاب الطہارة، فصل المعانی الموجبة للغسل:1/16)

اسی طرح سحری کرنی چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سحری کھائے بغیر روزہ نہیں ہو گا، نہیں بلکہ اگر کسی دن آنکھ نہیں کھلی اور سحری کا وقت ختم ہو گیا، تب بھی روزہ رکھنا چاہیے۔)

یہودی سحری نہیں کرتے، مسلمان سحری کرتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اتنا کھایا جائے کہ یہ سوچا جائے کہ پورا دن بھوک نہ لگے، یہ طریقہ صحیح نہیں، معمول کے مطابق آدمی سحری کرے، اگر معمول کے مطابق اور مسنون انداز میں روزہ رکھا جائے تو اس سے جسم کم زور ہو گا۔

میں عرض کر رہا تھا کہ غذائیں جتنی بھی ہیں ان سے جسم کو طاقت ملتی ہے اور روزہ رکھنے سے روح کو طاقت ملتی ہے، قرآن کی تلاوت کرنے سے روح کو طاقت ملتی ہے، نماز پڑھنے سے روح کو طاقت ملتی ہے، ذکر کرنے سے روح کو طاقت ملتی ہے، دعائیں مانگنے اور مناجات کرنے سے روح کو طاقت ملتی ہے، جیسے ادھر ایک فہرست ہے غذاؤں کی ، جس سے جسم کو طاقت ملتی ہے، ایسے ہی یہاں بھی عبادات کی فہرست ہے ،جس سے روح کو طاقت ملتی ہے اور یہ بات میں نے عرض کر دی کہ جسم عارضی ہے، جسم ہمیشہ نہیں رہے گا، روح اصل ہے اور اسی کو اگر آپ دوسرے انداز میں لیں تو وہ یہ کہ روزے سے ایمان قوی ہوتا ہے۔

آپ دیکھیے! ایک آدمی ہے، اس نے روزہ رکھا او رجب وہ گھر میں گیا شیطان آگیا، اب وہ شیطان یہ کہتا ہے کہ یہاں گھر میں تو کوئی بھی نہیں ہے، شدید گرمی ہے، حلق میں کانٹے لگ رہے ہیں، پیاس پریشان کر رہی ہے، اگر تم پانی پی لو تو کون دیکھ رہا ہے؟ کوئی بھی نہیں دیکھ رہا، نہ بیوی ہے نہ بچے ہیں، گھر میں کوئی نہیں، اب یہ وہ مرحلہ اور موقع ہے کہ اندر سے ایک آواز آتی ہے، الله دیکھ رہا ہے، یہ کیا ہے؟ یہ ایمان ہے، چناں چہ اس کیفیت پر جو الله کی نوازش ہوتی ہے، اس پر جو الله کی مدد آتی ہے، اس سے جو الله خوش ہوتے ہیں، یہی روزے سے مطلوب ہے، الله تعالیٰ یہی چاہتے ہیں ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون﴾ ،تاکہ تم متقی ہو جاؤ۔

تقوی کا لفظی معنی تو ڈرنا ہے ، لیکن یہ ڈرنا او رخوف طرح طرح کے ہیں، مثلاً آپ بازار میں جارہے ہیں، گاڑی چلا رہے ہیں، سامنے سے پولیس والا آجاتا ہے اور آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو آپ پولیس والے سے بھی ڈرتے ہیں، لیکن کیا یہ ڈرنا تقوی کہلائے گا؟ نہیں، کیوں کہ اس ڈر کے ساتھ ساتھ آپ کے دل میں اس سے نفرت بھی ہے، بہت سارے مواقع ایسے ہیں کہ آدمی ڈرتا تو ہے ،لیکن اس ڈر کے ساتھ ساتھ وہ اس سے نفرت بھی کر رہا ہوتا ہے، یہاں جو خوف اور تقوی ہے وہ ایسا ہے کہ ڈر کے ساتھ ساتھ الله تعالیٰ سے محبت بڑھتی ہے، وہ میرا رب ہے ،میرا خالق ہے، وہی معبود ہے ، تویہ جو تقوی ہے یہ اس خوف کی طرح نہیں ہے جو دنیا میں ہم اختیار کرتے ہیں۔

چناں چہ ایک آدمی کا روزہ ہے ،اسے کوئی نہیں دیکھ رہا، لیکن اس کے باوجود وہ یہ سمجھتا ہے کہ الله دیکھ رہا ہے۔
تو میرے دوستو! روزہ رکھنے سے آدمی کے تقوی میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے ہم قرآن کریم کی تلاوت کا خوب اہتمام کریں، ویسے تو ایک مسلمان کو پورے سال قرآن کریم سے تعلق ہو نا چاہیے، لیکن اگر خدانخواستہ یہ غلطی ہوئی ہے، اب ہم اس کا اہتمام کریں، قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں، مسجد میں بھی کریں، گھر میں بھی کریں، ایک نظام بنا کر کریں اور رمضان کے اندر زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں۔

قرآن کریم رمضان میں نازل ہوا ہے ۔قرآن کریم کی ایک آیت میں اس کی تصریح ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا :﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ﴾ اسی طرح ایک اور آیت میں ہے کہ قرآن شب قدر میں نازل ہوا:﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ﴾، جب کہ روایات سے واضح ہے کہ قرآن کریم نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر تئیس برس میں نازل ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کے نزول دو ہیں، پہلا نزول یہ ہے کہ پورا قرآن مجید ایک ہی مرتبہ لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل کیا گیا اور دوسرا نزول یہ کہ وقتاً فوقتاً ضرورتوں کے لحاظ سے تھوڑا تھوڑا دنیا میں اترا، تو آسمان دنیا پر جو قرآن کا نزول ہے وہ رمضان المبارک کی شب قدر میں ہوا۔

چناں چہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے قرآن کی آیت: ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ﴾ اور﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ﴾ کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:”إنہ قد أنزل في رمضان في لیلة القدر في لیلة مبارکة جملة واحدة، ثم أرسل علی مواقع النجوم رسلا فی الشھور والأیام․“ (المعجم الکبیر للطبرانی، أحادیث عبدالله بن عباس رضی الله عنہما، رقم:12095) اوررمضان قرآن کا مہینہ ہے۔

آپ یاد رکھیں! رمضان میں روزہ بعد میں ہے ، تراویح پہلے ہے، جب رمضان کا چاند نظر آتا ہے تو چاند نظر آتے ہی رورہ نہیں رکھتے ، بلکہ عشا کی نماز کے بعد پہلے تراویح ہے، روزہ اس کے بعد ہے او رتراویح میں بھی جو آج کل پریشان کن شکل نظر آرہی ہے، وہ یہ کہ تین روزہ تراویح ہے، چھ روزہ تراویح ہے، درس روزہ تراویح ہے، اس میں قرآن کا ختم کیا جاتاہے، یہ منع نہیں ہے ،لیکن یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو أصحاب ضرورت ہیں، کسی کو سفر کرنا ہے، کسی کو اور کوئی مشغولیت ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرا قرآن مسلسل مکمل نہیں ہو سکے گا تو وہ پانچ دن میں دس دن میں قرآن کریم تروایح میں سن لے اور اس کے بعد سفر میں چلا جائے،دوران سفر قرآن کا تسلسل نہیں ملے گا، اس لیے اس نے پہلے ہی قرآن مکمل سن لیا ہے۔

لیکن آج کل معاشرے میں کیا ہے کہ تین دن میں قرآن سن لیا، اب تراویح کی چھٹی اور دس دن میں کسی نے قرآن سن لیا، تو اب تراویح کی چھٹی، میرے دوستو! یہ بہت خطرناک بات ہے، سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ، آپ کے صحابہ رضوان الله تعالی علیہم اجمعین نے پورا رمضان تراویح کا اہتمام فرمایا۔

(نماز تراویح کی رکعات بیس سے کم نہیں، یہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے لے کر اب تک پوری اُمت کا اجماعی مسئلہ ہے، ائمہ اربعہ، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی او رامام احمد بن حنبل رحمہم الله چاروں ائمہ کے نزدیک بھی نماز تراویح بیس رکعات سے کم نہیں۔

اس وقت کچھ دین سے ناواقف اور دین سے دور لوگ دیگر عام مسلمانوں کو بھی دین سے دور کرنے کی کوشش میں مسلمانوں میں غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں، اس موضوع پر اگرچہ اکابرین علماء کی مستقل گراں قدر تصانیف موجود ہیں، لیکن یہاں پر بھی انتہائی اختصار کے ساتھ کچھ روایات اور حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں ۔

حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت ہے: ”ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم کان یصلي فی رمضان عشرین رکعة والوتر․“ (المصنف لابن أبي شیبہ، کتاب الصلوات، کم یصلي في رمضان من رکعة؟ رقم الحدیث:7692،2/164)
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات (تراویح) اور وتر پڑھتے تھے۔ اور بخاری شریف کی روایت ہے: نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من قام رمضان إیمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ․“

جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی، اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان:1/269)

اس حدیث کے راوی ابن شہاب زہری رحمہ الله فرماتے ہیں: ”فتوفي رسول الله صلی الله علیہ وسلم والأمر علی ذلک، ثم کان الأمر علی ذلک في خلافة أبي بکر وصدراً من خلافة عمر․“

رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرماگئے تو معاملہ اسی پر تھا، یعنی تراویح کی باقاعدہ ایک جماعت نہیں ہوا کرتی تھی، بلکہ لوگ اپنے اپنے طور پر نماز تراویح پڑھتے تھے، پھر حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں اور حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دور میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ (الجامع الصحیح للبخاري:1/269)

اسی طرح ایک او رروایت میں راوی عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی الله عنہ کے ساتھ مسجد میں آیا، دیکھا کہ لوگ مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں، کوئی منفرداً نماز تراویح پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ تین چار آدمی مل گئے ہیں او رچھوٹی سی جماعت بن گئی ہے۔

حضرت عمر رضی الله عنہ نے جب یہ دیکھا تو فرمایا: ” إني أری لو جمعتُ ھؤلاء علی قاریء واحد لکان أمثل“ اگر میں ان کو ایک قاری پر جمع کر دوں جو ان کی امامت کرے تو یہ افضل ہو گا،ثم عزم فجمعہم علی أبي بن کعب، پھر ان سب کو ابی بن کعب کا مقتدی بنا دیا۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الصوم:1/269)اب رہی یہ بات کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے جو اپنے دور خلافت میں ایک امام کے پیچھے تراویح کی جماعت کا اہتمام کروایا، تو اس وقت کتنی رکعات تراویح پڑھتے تھے؟

تو”السنن الکبری للبیہقي“ کی روایت میں تصریح ہے کہ بیس رکعات تراویح باجماعت ہوتی تھی۔
”عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب في شھر رمضان بعشرین رکعة قال وکانوا یقرؤون بالمئین وکانوا یتوکئون علی عصیھم في عہد عثمان رضي الله عنہ من شدة القیام․“

حضرت سائب بن یزید رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ اور حضرت عثمان رضی الله عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام رضی الله عنہم باجماعت بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے اور قاری صاحب سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لوگ لمبے قیام کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی، باب ماروي في عدد رکعات القیام في شھر رمضان ، رقم الحدیث:4801)

حضرت عمر رضی الله عنہ نے جو اپنے دو رخلافت میں تراویح کی ایک امام کے پیچھے جماعت کا اہتمام کروا یا کسی صحابی سے حضرت عمر رضی الله عنہ کے اس فعل پر نکیر منقول نہیں، اس طرح سب صحابہ کرام رضی الله عنہم کا اس پر اجماع ہو گیا اور سب مسلمانوں کا یہی عمل رہا ہے، ائمہ اربعہ میں سے بھی کسی امام سے بیس رکعت سے کم منقول نہیں۔

”فذھب جمہور الفقہاء من الحنفیة والشافعیة، والحنابلة وبعض المالکیة إلی أن التراویح عشرون رکعة․“ (الموسوعة الفقہیة، صلاة التراویح، عدد رکعات التراویح:27/141)

حاشیہ ابن عابدین میں ہے: وھی عشرون رکعة، ھو قول الجمہور، وعلیہ عمل الناس شرقاً وغرباً․( تنویر الأبصار مع الدر المختار، باب الوتر والنوافل:2/45)

”البحرالرائق“ میں ہے:”وقد سنھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم وندبنا إلیھا و أقامھا في بعض اللیالي، ثم ترکھا خشیة أن تکتب علی أمتہ، کما ثبت ذلک في الصحیحین وغیرھما، ثم وقعت المواظبة علیھا في أثناء خلافة عمر رضي الله عنہ، ووافقہ علی ذلک عامة الصحابة رضي الله عنہم، کما ورد ذلک في السنن، ثم مازال الناس من ذلک الصدر إلی یومنا ھذا علی إقامتھا من غیر نکیر، وکیف لا؟ وقد ثبت عنہ صلی الله علیہ وسلم: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ، کما رواہ أبوداود، وأطلقہ فشمل الرجال والنساء․

وقولہ عشرون رکعة بیان لکمیتھا وھو قول الجمہور لما فی الموطا عن یزید بن رومان قال: کان الناس یقومون في زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرین رکعة، وعلیہ عمل الناس شرقاً وغرباً․(البحرالرائق، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل:2/117)
ہم شوق سے ،ذوق سے ،دلچسپی کے ساتھ الله تعالیٰ کو راضی کرنے کے جذبے سے تراویح کا اہتمام کریں، پورا رمضان تراویح کا اہتمام کریں، اس سے ہم میں روح کے اعتبار سے ترقی آئے گی، ایمان کے اعتبار سے ترقی آئے گی، رمضان میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔

عن سلمان الفارسي قال: خطبنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم في آخر یوم من شعبان فقال: أیھا الناس، قد أظلکم شھر عظیم… وشھر یزاد فیہ رزق المؤمن․“(شعب الإیمان للبیہقی، فضائل شھر رمضان، رقم:3608)

عام دنوں میں بھی آدمی روزہ رکھتا ہے، لیکن وہ کیفیت نہیں ہوتی، جب کہ رمضان میں پوری دنیا میں مشاہدہ ہوتا ہے کہ رزق بڑھا دیا جاتا ہے، غریب آدمی کے گھر میں بھی انواع واقسام کی چیزیں ہوتی ہیں، یہ سب کیا ہے؟ یہ الله کی مدد ہے، یہ الله تعالیٰ کاانعام ہے ۔

میرے دوستو! اگر ہم ان چیزوں کا اہتمام کریں گے تو الله تعالیٰ رمضان کو مبارک فرما دیں گے اور یہ بات بھی میں نے پہلے کئی دفعہ عرض کی ہے کہ رمضان کو ہم الله کے لیے مخصوص کر دیں، اس میں بازاروں میں پھرنا اور فضول اپنا وقت ضائع کرنا اس سے اجتناب ہو، زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزاریں، زیادہ سے زیادہ تلاوت ، نوافلعبادت میں گزاریں ،بہت سے لوگ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ عید کے کپڑے بنانے ہیں، یہ چیزیں تو آپ رمضان سے پہلے بھی کرسکتے ہیں، اپنے گھر کا نظام اپنی زندگی کا ایسا نظم بنائیں کہ پہلے سے ان تمام چیزوں سے فارغ ہو جائیں اور رمضان میں گھرمیں بھی اور مسجد میں بھی صرف الله تعالیٰ کی بندگی میں وقت گزارا جائے۔

میرے دوستو!اگر اس طرح کیا جائے گا تو وہ مقصد جو روزے سے ہے وہ حاصل ہو جائے گا۔

ورنہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں روزہ رکھ لیتے ہیں، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو سوائے بھوکا او رپیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: رب صائم لیس لہ من صیامہ إلا الجوع، ورب قائم لیس لہ من قیامہ إلا السھر․“ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ماجاء فی الغیبة والرفث للصائم، رقم:169)

کیوں؟ اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں، اس لیے کہ وہ غیبت کرتے ہیں ،اس لیے کہ وہ بد نظری کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ اپنا وقت غلط مواقع پر خرچ کرتے ہیں، اس سے روزے سے جو مقصود ہے وہ حاصل نہیں ہوتا، چناں چہ آدمی اس کااہتمام کرے کہ حلال رزق ہو۔

حرام مال سے بچنا انتہائی ضروری ہے، جس آدمی کی کمائی حرام ہو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، صحیح مسلم کی روایت ہے:
آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:
اے لوگو! الله تعالیٰ پاک ہے او رپاک (حلال) کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا او رالله تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو کہ رسولوں کو دیا ہے، چناں چہ فرمایا کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، میں تمہارے اعمال سے باخبر ہوں او رفرمایا: اے ایمان والو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ، جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کا تذکرہ کیا جس نے طویل سفر کیا اور گردو غبار میں لتپت ہے، (یعنی انتہائی عاجزی والی کیفیت میں دعا کر رہا ہے ) اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا ہے اے رب! اے رب! حالاں کہ اس کا کھانا، پینا، لباس سب حرام ہے تو اس کی دعا کیوں کر قبول ہو گی؟ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الزکاة، باب قبول الصدقة من الکسب الطیب وتربیتھا، رقم:2346)

سچ بولے۔”حضرت صفوان بن سلیم کی روایت ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا گیا:” أیکون المؤمن جبانا؟“ کیا مسلمان بزدل ہو سکتا ہے؟“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ پھر عرض کیا گیا: ”أیکون المؤمن بخیلا؟“ کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، پھر عرض کیا گیا:”أیکون المؤمن کذابا؟“ کیا مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ (مؤطا الإمام مالک، کتاب الکلام، باب ماجاء فی الصدق والکذب ، رقم :1795) مطلب یہ ہے کہ بخل اوربزدلی اگرچہ نہایت بری عادتیں ہیں، لیکن یہ دونوں انسان کی کچھ ایسی فطری کم زوریاں ہیں کہ ایک مسلمان میں بھی یہ ہو سکتی ہیں، لیکن جھوٹ کی عادت میں اور ایمان میں ایسی منافات ہے کہ ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔

غیبت سے اجتناب کرے۔”غیبت کرنے کا گناہ زنا سے بھی بدتر ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” الغیبة أشدمن الزنا، قالوا: یا رسول الله وکیف الغیبة أشد من الزنا؟ قال إن الرجل لیزني فیتوب فیتوب الله علیہ․“ (شعب الإیمان للبیہقی، فصل فیما ورد من الأخبار في التشدید علی من اقترض من عرض أخیہ المسلم، رقم:6741)

غیبت کے گناہ کا زنا سے بدتر ہونے کی ایک وجہ توحدیث میں ہے کہ زانی اگر توبہ کرلے تو توبہ قبول ہے، لیکن غیبت ایسا گناہ ہے کہ توبہ کرنے سے صاف نہیں ہوتا ہے، جب تک کہ جس کی غیبت کی ہے وہ معاف نہ کردے۔

اسی طرح ایک وجہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے بیان کی ہے: فرمایا:” الغیبة أشد من الزنا“ کی ایک وجہ حضرت سعدی رحمہ الله نے یہ بھی فرمائی کہ غیبت پیدا ہوتی ہے کبر سے اور زنا پیدا ہوتا ہے شہوت سے اور شہوت کا گناہ خفیف ہے کبر کے گناہ سے۔ (ملفوظات حکیم الامت:15/64)

فضول گوئی سے اجتناب کرے۔”رسول الله صیی الله علیہ وسلم نے فضول گوئی سے بچنے کی بڑی تاکید کی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”من کان یؤمن بالله والیوم الآخر فلیقل خیرا أو لیصمت․“ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، رقم الحدیث:6474) جو الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔

ایک اور حدیث میں ہے : آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” من یضمن لي ما بین لحییہ وما بین رجلیہ أضمن لہ الجنة․“ (الجامع الحصیح للبخاري، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، رقم الحدیث:6474)

جو شخص میرے لیے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز زبان اور اور دونوں پاؤں کے درمیان کی چیز شرم گاہ کا ضامن ہو تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔

ایک اور حدیث میں ہے: آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إن العبد لیتکلم بالکلمة من رضوان الله لا یلقي لھا بالاً یرفعہ الله بھادرجات، وإن العبد لیتکلم بالکلمة من سخط الله لا یلقي لھا بالاً یھوي بھافي جھنم․(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، رقم الحدیث:6478)

بندہ الله تعالیٰ کی خوش نودی کی ایک بات زبان سے نکال دیتا ہے اور وہ اس پر کوئی خیال نہیں کرتا ہے یعنی اس بات کو اہم نہیں سمجھتا ہے حالاں کہ اس بات کی وجہ سے الله تعالیٰ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اوربندہ کبھی ایسی بات زبان سے نکالتا ہے جو الله کی ناراضگی کا باعث ہے اوروہ اس بات کو اہمیت نہیں دیتا، بڑا گناہ نہیں سمجھتا، لیکن وہ بندہ اس بات کی وجہ سے جہنم میں گر جاتا ہے، سو کم بولنا نہایت مفید چیز ہے، زیادہ بولنا اور بلاضرورت بولنا نہایت مضر چیز ہے، اس سے قلب میں ظلمت پیدا ہوتی ہے اورنورانیت فنا ہوتی ہے، چناں چہ بلا ضرورت اگر کوئی کسی سے اتنا بھی پوچھ لے کہ کہاں جاؤگے اس سے بھی قلب میں ظلمت پیدا ہو جاتی ہے اور قلب مردہ ہو جاتا ہے او راگر کسی کو حس ہی نہ ہو تو اس کا کیا علاج ہے۔

اور ضرورت میں اگر شب ورز کلام کرے، مثلاً خربوزے بیچنے والا دن بھر آوازیں لگائے، خربوزہ لے لو، اس سے ایک ذرہ برابر بھی قلب پر ظلمت نہ ہو گی، غرض فضول گوئی اس طریق میں سم قاتل ہے، اس سے قلب برباد ہو جاتا ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت:3/203)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی علی صاحب تھانوی رحمہ الله فرماتے ہیں: مجاہدے کی چار قسمیں ہیں قلت الطعامقلت الکلام قلت المنام قلت الاختلاط مع الأنام۔ ان میں سے محققین نے اس وقت کے لوگوں کی قوت اور صحت کو دیکھتے ہوئے دو کو حذف کر دیا ہے، قلت الطعام او رقلت المنام کو اور دو کو باقی رکھا ہے، قلت الکلام اور قلت الاختلاط مع الأنام۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت معاذ رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایسے عمل کے بارے میں پوچھا جو جنت میں لے جائے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو عبادت کرنے، شرک نہ کرنے، نماز، زکوٰة ، روزہ، حج، نوافل صدقہ کرنے کا فرمایا، آخر میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:”ألا أخبرک بملاک ذلک کلہ؟“ کیا میں تمہیں وہ چیز بھی بتا دوں جس پر گویا ان سب کا مدار ہے اورجس کے بغیر یہ سب چیزیں ہیچ اور بے وزن ہیں، حضرت معاذ رضی الله عنہ نے عرض کیا، حضرت وہ چیز بھی ضرور بتلا دیجیے۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: کف علیک ھذا، زبان کو قابو میں رکھو۔

حضرت معاذ رضی الله عنہ نے عرض کیا: یا نبی الله وإنا لمؤاخذون بما نتکلم بہ؟ اے الله کے نبی! ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان پر بھی ہم سے مؤاخذہ ہو گا؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ثکلتک أمک یا معاذ اے معاذ تجھے تیری ماں روئے۔ (عرب یہ محاورہ پیار میں بولتے ہیں):”وھل یکب الناس في النار علی وجوھھم أو علی مناخرھم إلا حصائد ألسنتھم․“

آدمیوں کو دوزخ میں ان کے منھ کے بل یا فرمایا کہ ان کی ناکوں کے بل زیادہ تر ان کی زبانوں کی بیباکانہ باتیں ہی ڈلوائیں گی۔ ( سنن الترمذي، کتاب الإیمان، باب ماجاء في حرمة الصلاة، رقم:2616)

ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إذا أصبح ابن آدم فإن الأعضاء کلھا تکفر اللسان فتقول: اتق الله فینا، فإنما نحن بک، فإن استقمت استقمنا، وإن اعوججت اعوججنا․“

جب آدمی صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء عاجزی اور لجاجت کے ساتھ زبان سے کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں خدا سے ڈر، کیوں کہ ہم تو تیرے ہی ساتھ بندھے ہوئے ہیں، تو ٹھیک رہی تو ہم ٹھیک رہیں گے اور اگر تونے غلط روی اختیار کی تو ہم بھی غلط روی کریں گے ( اور پھر اس کا خمیازہ بھگتیں گے)۔( سنن الترمذي، أبواب الزھد، باب ماجاء في حفظ اللسان، رقم:2407)

لایعنی سے اجتناب کرے۔”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ․“(سنن الترمذي، أبواب الزھد، باب حدیث من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ، رقم الحدیث:2318)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کی اسلامیت کے حسن وکمال میں سے یہ بھی ہے کہ جو بات اس کے لیے ضروری اور مفید نہ ہو اس کو چھوڑ دے۔

تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی روح ترقی کر رہی ہے، آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا ایمان ترقی کر رہا ہے اور یہی روزے کا مقصد ہے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔