رمضان کی قدر کیسے کریں؟

رمضان کی قدر کیسے کریں؟

مولانا امداد الحق بختیار

رمضان المبارک کا مہینہ اللہ جل شانہ کی بڑی عظیم نعمت ہے۔اللہ تعالیٰ کے باتوفیق بندے ہی اس کی قدر جانتے ہیں اور اس کے انوار وبرکات سے پورے طور پر مستفید ہوتے ہیں؛ چناں چہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کر تے تھے:

اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان․ (مجمع الزوائد:4774) اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرمااور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دیجیے۔ رمضان سے دو مہینہ پہلے ہی اس کا انتظار اور اشتیاق وہی کر سکتا ہے جسے رمضان المبارک کی صحیح قدر وقیمت معلوم ہو۔

اگر ہم بھی چاہتے ہیں کہ رمضان کی برکتوں سے محظوظ ہوں تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ اس مبارک مہینہ کی قدر کریں،اس مہینہ کے اعمال اور عبادات کوپورے اہتمام کے ساتھ ادا کریں ،ادنی کوتاہی سے بھی مکمل احتیاط کی کوشش کریں، اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ مقدس مہینہہم گزاریں ، نفس اور شیطان سے دوری اختیار کریں۔ اور درج ذیل کاموں کو پابندی اور اچھے طریقے سے ادا کریں۔

روزہ کا اہتمام
رمضان المبارک کی سب سے بڑی عبادت روزہ رکھنا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾․ (سورة بقرة:183) اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے؛ تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔ اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جعل اللہ صیامہ فریضة“ ․(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336) یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ نے فرض قرار دیے ہیں، رمضان کے روزوں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ“․(بخاری:38، مسلم: 760) جو حضرات ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتے ہیں، ان کے گزشتہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اسی طرح یہ روزے کل قیامت کے دن ہمارے لیے سفارش کریں گے اور جہنم کے عذاب سے بچانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336)رمضان المبارک کے روزوں کی قدر وقیمت اور اہمیت کا اندازہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد سے بھی لگایا جاسکتا ہے: ”من افطر یوما من رمضان من غیر رخصة ولا مرض، لم یقض عنہ صوم الدہرکلہ وإن صامہ“․ (ترمذی: 723) جو شخص سفر یا بیماری جیسے کسی شرعی عذر کے بعد رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے، پھر اگر وہ اس کی قضا کے طور پر عمر بھر بھی روزے رکھتا رہے تو رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔

ان تمام ارشادات نبوت سے یہ قیمتی ہدایت ملتی ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں تمام مسلمانوں کو روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔بغیر کسی عذر شرعی کے روزے قضا کرنا انتہائی درجہ کی محرومی ہوگی۔

گناہوں سے بچنا
رمضان المبارک میں سب سے اہم اور بنیادی چیزیہ ہے کہ ہم گناہوں سے مکمل پرہیز کریں، گناہوں کے ساتھ روزوں کی برکات اور رمضان کے انوار کا حقیقی لطف نہیں مل سکتا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے:
”وإذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفث ولا یصخب، فإن سابہ أحد أو قاتلہ فلیقل إنی أمرأ صائم“․(بخاری: 1904)

جب کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش اور گندی باتیں اور شوروشغب بالکل نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس سے الجھے اور غلط باتیں کرے پھر بھی روزہ دار اس سے کوئی سخت بات نہ کہے، بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ جناب! میرا روزہ ہے۔

اس ہدایت میں اشارہ ہے کہ روزہ کی خاص فضیلتیں اور برکتیں انہی کو حاصل ہوتی ہیں، جو گناہوں سے، حتی کہ بری اور ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔

ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے روزوں کی حفاظت کے لیے، سرکش شیاطین کو قید کردیتے ہیں، جہنم کے تمام دروازے بند کردیتے ہیں، یعنی شر کے تمام راستے بند کردیتے ہیں، جب اللہ کی طرف سے ہمارے روزوں کی حفاظت کا اتنا اہتمام ہے تو اگر ہم خود اپنے روزوں کو غلط چیزوں سے محفوظ نہ رکھ سکیں تو یہ کتنی بے غیرتی کی بات ہوگی؟!

افطار کی اہمیت
رمضان کے مبارک مہینہ میں جہاں اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے افطار کا انتظام کرنا باعث ثواب ہے، وہیں مسافروں، غریبوں اور راہ گیروں کا بھی ہمیں خیال رکھنا چاہیے، یہ ایک بڑی فضیلت اور فائدے کی چیزہے، اس فضیلت کو حاصل کرنے کا موقع ہمیں صرف رمضان کے مہینہ میں ہی پورے طور پر ملتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”مَنْ فَطَّرَ فِیہِ صَائِمًا کَانَ لَہُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِہِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِہِ مِنَ النَّارِ، وَکَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُنْقَصَ مِنْ أَجْرِہِ شَیْءٌ․ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللہِ، لَیْسَ کُلُّنَا یَجِدُ مَا یُفْطِرُ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یُعْطِی اللہُ ہَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَی مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاہُ اللہُ مِنْ حَوْضِی شَرْبَةً لَا یَظْمَأُ حَتَّی یَدْخُلَ الْجَنَّةَ“․

جس نے کسی روزے دار کو اس مہینہ میں افطار کرایا تو یہ اس کے لیے گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگا، نیز افطار کرانے والے کو روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اور روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں ہوگی۔ صحابہ نے سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک میں افطار کرانے کی استطاعت نہیں ہے( تو کیا غریب لوگ اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟)آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو افطار کے لیے روزہ دار کودودھ کی تھوڑی لسی یا تھوڑا پانی ہی پیش کردے، اس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن جو کسی روزے دار کو پیٹ بھر کھانا کھلادے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اسے جنت میں داخلہ تک کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336)

تراویح کی پابندی
رمضان المبارک کے مہینہ میں ایک اہم اور روزانہ ادا کی جانے والی عبادت تراویح کی نماز بھی ہے، نبی پاک صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”وقیام لیلہ تطوعا“ اللہ تعالیٰ نے رمضان کی راتوں میں قیام یعنی تراویح کی نماز کوا فضل عبادت مقرر کیا ہے۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336)ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون ہے: ”ومن قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ماتقدم من ذنبہ“․ (بخاری:37، مسلم:759) جو حضرات رمضان کی راتوں میں نفل یعنی تراویح کی نماز پڑھیں گے ان کے پچھلے سب گناہ معاف کردیے جائیں گے۔

لہٰذا اختلاف کے رد عمل (Side Effect) سے متاثر ہوئے بغیر ہمیں رمضان کی راتوں کو تراویح اور تہجد سے زندہ رکھنا چاہیے، بیس رکعات تراویح کا اہتمام کرنا چاہیے، اسی پر صحابہ کا عمل تھا اور اس وقت سے اب تک تقریبا 80 فیصد امت کا بھی اسی پر عمل ہے، یہاں میرا مقصود کسی کو غلط قرار دینا نہیں ہے، بس رمضان کی ان مول ساعتوں کے پیش نظر ایک خیرخواہانہ دعوت عمل ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں ہمارے نامہ اعمال میں درج ہو سکیں۔

خیر خواہی کا مہینہ
اس مہینہ کی صحیح قدر اسی وقت ہوگی، جب ہم اس کے ایک ایک پیغام کوملحوظ رکھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، رمضان المبارک کی ایک بڑی صفت اور خاصیت یہ ہے کہ یہ ہمیں صبر ، غم خواری اور خیر خواہی کی دعوت دیتا ہے، پیارے نبی کا مقدس ارشاد ہے: ”وہو شہر الصبر والصبر ثوابہ الجنة، وشہر المواساة“․ (شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر:3336)یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ غم خواری کا مہینہ ہے۔ یعنی ہمیں اس مہینہ میں طبیعت کے خلاف اور ناپسندیدہ باتوں کو بہت ہی تحمل کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے، نیز اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم اس مہینہ میں کثرت سے سخاوت فرماتے تھے اور لوگوں پر خرچ کرتے تھے، اگرچہ آپ کی سخاوت پورے سال جاری رہتی تھی۔(بخاری:6)

شب قدر کی تلاش
شب قدر بڑی ان مول نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک رات صرف اس امت کو عطا کی ہے، غالب گمان یہی ہے کہ یہ رات رمضان کے مہینہ اور اس کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے، اس رات کی فضیلت اور منفعت انتہائی عظیم ہے، اس رات کی عبادت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی بہتر قرار دیا ہے۔ (سورہ قدر) اسی مہینہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس کی تلاش کے لیے اور اسے پانے کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔(متفق علیہ) اور امت کو بھی اس کی تاکید اور وصیت فرمائی ہے۔(بخاری: 2020)

اعتکاف
رمضان کی خاص اور اپنی نوعیت کی ایک انوکھی عبادت اعتکاف ہے،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پابندی سے اخیر عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے، اس خصوصی عبادت کی احادیث مبارکہ میں بڑی فضیلت آئی ہے، اس کا ایک بڑا فائدہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اعتکاف کی وجہ سے جو عبادتیں وہ نہیں کرپاتا ان کا ثواب بھی اسے ملتا ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”ہو یعتکف الذنوب ویجری لہ من الحسنات کعامل الحسنات کلہا“ ․(ابن ماجہ:1781) وہ اعتکاف کی وجہ سے گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکی کرنے والے بندوں کی طرح اس کی نیکیاں جاری رہتی ہیں اور اس کے نامہٴ اعمال میں لکھی جاتی رہتی ہیں۔

اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے تعلق ختم کرکے بندہ اللہ کی طرف یکسو اور متوجہ ہوجائے،اس کے در پہ پڑجائے اور بالکل علیحدہ ہوکر اس کی عبادت اور اس کے ذکر وفکر میں مشغول رہے۔

اعتکاف کے اپنے ذاتی فوائد اور فضائل کے ساتھ ایک اہم اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے بندہ کوشب قدر مل جاتی ہے اور وہ اس کی فضیلت اور ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

قرآن اور رمضان
قرآن کریم کا رمضان المبارک کے مہینہ کے ساتھ خاص تعلق ہے، رمضان میں ہی قرآن نازل کیا گیا(سورہ بقرہ: 185، سورہ قدر) اسی وجہ سے نبی صلی الله علیہ وسلم اس مبارک مہینہ میں قرآن کی تلاوت کا خاص اہتمام فرماتے تھے، حتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جبریل امین کو رحمت والے اس مہینہ میں قرآن سناتے تھے۔(بخاری: 6) لہٰذا ہم سب کو اس مقدس مہینہ میں کتاب الٰہی کے تعلق سے دو کام کرنے چاہییں: زیادہ سے زیادہ اس کی تلاوت کرنی چاہیے، بعض سلف سے مروی ہے کہ وہ اس مہینہ میں 60 سے 70 مرتبہ قرآن کریم ختم کرلیاکرتے تھے، ہمیں بھی کثرت تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے، دوسرا کام یہ کرنا چاہیے کہ علماء کی سرپرستی میں قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ اللہ کا پیغام اور اس کے احکام ہمیں معلوم ہوسکیں۔

رمضان کی قیمتی ساعتیں
رمضان المبارک کے فضائل، برکات، فوائد اورمنافع کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس ماہ کے لیے بالکل فارغ کرلیں، صرف اور صرف عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت خرچ کریں، ایک ایک گھڑی کا حساب لگائیں، کوئی ساعت ضائع ہوجائے تو اس پر افسوس کریں، ایک مہینہ اللہ کے در پر پڑے رہیں، گیارہ مہینہ کے مسائل اللہ حل فرمادیں گے، اس کی قیمتی ساعتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ماہ میں کسی بھی نفل کام کرنے پر فرض عبادت کا ثواب ملتا ہے اور ایک فرض ادا کرنے پر ستر فرض کا ثواب ملتا ہے، اللہ کے نبی کا ارشاد گرامی ہے:

”مَنْ تَقَرَّبَ فِیہِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ أَدَّی فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاہُ، وَمَنْ أَدَّی فَرِیضَةً فِیہِ کَانَ کَمَنْ أَدَّی سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاہُ“․(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336)

اس مہینہ میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے مہینوں کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور جو اس مہینہ میں فرض عبادت ادا کرے کا تو دوسرے مہینہ کے ستر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔ لہٰذا ہمیں رمضان المبارک کی ہر گھڑی میں کسی نہ کسی فرض، سنت یا نفل عبادت میں مشغول رہنا چاہیے، کوئی لمحہ اس سے خالی نہ جائے۔

جہنم سے نجات کا پروانہ
اس مہینہ کی ایک بڑی کشش اور عظیم فائدہ یہ ہے کہ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو مغفرت عطا فرماتے ہیں، انہیں جہنم سے چھٹکارا اور نجات کا پروانہ عطا فرماتے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ یہ قیمتی نعمت بلکہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا مقصد مشکل سے ہاتھ آتا ہے، بلکہ بارش کی طرح اللہ کی طرف سے مغفرت کے پروانے نازل ہوتے ہیں،ذرا سی محنت اور کوشش سے بھی یہ عظیم نعمت حاصل ہوسکتی ہے، آسانی کے ساتھ اس نعمت کے حصول کا اندازہ پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم جبریل امین کی اس بد دعا پر ” آمین “فرماتے ہیں، جس میں وہ کہتے ہیں: ” جسے رمضان کا مہینہ ملا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی اور جہنم میں داخل کیا گیا، اللہ تعالی اسے اپنی رحمت سے دور فرمائے“اگر یہ نعمت دشوار ی سے ملتی تو نہ جبریل امین ایسی بد دعا دیتے اور نہ ہی رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم اس پر آمین کہتے۔(صحیح ابن حبان: 907)

کیا ہم نے رمضان کی قدر کی؟
یہ ایک اہم سوال ہے کہ رمضان کا مہینہ گزرنے کے بعد ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم نے رمضان کی قدر کی یا نہیں؟ اس کے فوائد اور برکات ہمیں حاصل ہوئے یانہیں؟ اس اہم سوال کے جواب کا اہم پیمانہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: ﴿لعلکم تتقون﴾(سورة بقرة:183) یعنی رمضان اور روزہ کا مقصد ہے تقویٰ کا حصول، تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ رمضان کے بعد ہماری زندگی میں تقویٰ آیا یا نہیں؟

اس کو آسان الفاظ میں اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ رمضان گزرنے کے بعد بھی اگر ہماری زندگی پہلے کی طرح ہی گناہوں میں رہی، کوئی تبدیلی نہیں آئی تواس کا مطلب ہے کہ ہم نے رمضان کی کما حقہ قدر نہیں کی، اس کے مکمل فوائد ہمیں حاصل نہ ہوسکے۔

اوراگر رمضان کے بعد ہماری زندگی کا ورق پلٹ گیا، ہم عبادتوں کا اہتمام کرنے لگے، گناہوں سے بچنے لگے، حقوق ادا کرنے لگے، نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے لگے، ہماری روز مرہ کی زندگی میں ایک اچھی تبدیلی آگئی، تو یہ بالکل کھلی اور واضح علامت ہے کہ ہمارا رمضان قبول ہوا، ہم نے اس کی قدر کی اور اس کے فوائد، ثمرات اور برکات سے بہرہ ورہوگئے۔

اللہ جل شانہ ہم سب کو رمضان کی کما حقہ قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے انوار اور برکات سے مستفید فرمائے۔(آمین)