رمضان المبارک اپنی تمام رعنائیوں اور بہاروں کے ساتھ گزرنے کو ہے، آئیے! پھر ایک بار ہم رمضان کا سبق تازہ کریں، ماہ مبارک سے ہمیں کیا کیا سبق ملتا ہے؟ اس ماہ کے تقاضے کیا تھے؟ او رہماری زندگی میں ان کا کیا اثر ہونا چاہیے؟ آئیے! ہم اپنا احتساب کریں او راپنی عملی زندگی کو اس آئینہ میں دیکھ کر اسے سنوارنے کی کوشش کریں۔
رمضان ہمیں مجاہدہ کی تربیت دیتا ہے، مجاہدہ سے مراد مشقتوں اور خلاف طبیعت باتوں کو برداشت کرنا ہے، بھوک، پیاس، دوسری خواہشات سے اجتناب، زبان کی حفاظت، رات میں عام معمول سے زیادہ تراویح کی بیس رکعتوں کی ادائیگی، وہ بھی طویل قیام وقراء ت کے ساتھ، دن بھر کی فاقہ مستی کے بعد کھانا، کھانے کے بعد نماز، نماز کے بعد کچھ دیر سوکر پھر اٹھ جانا، الله توفیق دے تو چند رکعات تہجد، ورنہ کم سے کم سحری، موقع بہ موقع قرآن مجید کی تلاوت ، یہ معمولات کا ایسا سلسلہ ہے ،جو یقینا انسان کو تھکا دینے والا اور اس کے عام مزاج ومذاق کے خلاف ہے، اس سے ہماری تربیت ہوتی ہے کہ ہم اپنے اندر خلاف طبیعت باتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں، ہم بلند مقاصد کے لیے آبلہ پائی کرسکیں، طوفان ہمارے حوصلے پست نہ کریں، آندھیاں ہمارے قدموں کو کم ہمت نہ بنا دیں، نامساعد حالات ہمارے لیے زنجیر پانہ بن جائیں، بلکہ اگر ہمارے سفر کی سمت صحیح ہو تو ہم اس کے لیے ہر طرح کی مشکلات اورابتلاء کو سہنے کے لیے تیار ہوں، یہ حوصلہ مندی اور آبلہ پائی ہماری شخصی زندگی کے لیے بھی ضروری ہے اور قومی زندگی کے لیے بھی، افراد واشخاص کے لیے بھی ضروری ہے اورجماعتوں او رتنظیموں کے لیے بھی، کام یابی کسی مادی مقصد کو حاصل کر لینے کا نام نہیں، بلکہ خدا کی خوش نودی کی راہ پر چلنے کا نام ہے، اس راہ میں کھونا بھی پانا اور اس راہ میں مرنا بھی جینا ہے۔
رمضان المبارک ہمیں قرآن مجید سے وابستگی کا سبق دیتا ہے، اس ماہ میں قرآن نازل ہوا، تروایح نزول قرآن ہی کی یادگار ہے، شب قدر او راعتکاف کا مقصد بھی نزول قرآن کی مبارک شب کو پانا ہے، عید الفطر اسی نزول قرآن کا جشن عام ہے، پس یہ مہینہ قدم قدم پر ہمیں قرآن مجید سے مربوط کرتا ہے، قرآن محض ایصال ثواب اور مردوں کے لیے بخشش ومغفرت کی کتاب نہیں، بلکہ یہ آئینہ حیات ہے، جس میں ہم اپنی عملی زندگی صورت گری کریں اور اس کے خط وخال درست کریں، ہم اپنا جائزہ لیں کہ قرآن سے ہمارا تعلق کس قدر کم زور ہو چکا ہے، ہم تلاوتِ قرآن کے ذوق سے محروم، قرآن ہم سے کیا کہتا ہے او رکیا چاہتا ہے، اس کے جاننے کی خواہش سے عاری، عملی زندگی میں قرآن کی پیروی کرنے کے بجائے، ہماری خواہشات او رمفادات ہماری رہبر ہیں، قرآن پوری انسانیت کے لیے امان خداوندی ہے، اس کا حق تھا کہ ایک ایک بندہٴ خدا تک اس کتاب کو پہنچایا جاتا، لیکن ہم نے صدیوں اس ملک میں رہنے کے باوجود اپنے برادران ِ وطن تک ان کی اس امانت کو پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، غرض کہ ہم گوحاملان ِ قرآن ہیں، لیکن نہ قاریِ قرآن اور نہ عامل ِقرآن، نہ عالم ِقرآن اور نہ مبلغ ِقرآن، اس سے بڑھ کر اس کتاب کے ساتھ کیا ناانصافی ہو گی!
ہمیں چاہیے کہ ہم یہ عہد کریں کہ خود قرآن مجید کی تلاوت کا معمول رکھیں گے، اپنے بچوں او رمتعلقین کو تلاوتِ قرآن کا پابند کریں گے، کوشش کریں گے کہ خاندان میں کوئی نہ کوئی شخص حفظ قرآن مجید کی سعادت حاصل کرے، ہم اپنی عملی زندگی کو قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر استوار کریں گے اور اپنی خواہشات اور وقتی مفاد پر الله کی خوش نودی کو غالب رکھیں گے، قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں گے، اگر ہم عربی زبان سے واقف نہیں ہیں تو قرآن کے تراجم اور تفسیروں کے ذریعہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ الله تعالیٰ اپنی اس کتاب میں ہم سے کیا فرماتا ہے، پھر ہم اس بات کا بھی عزم کریں کہ اپنے اہل ِ تعلق غیر مسلم بھائیوں تک قرآن مجید کے تراجم پہنچائیں، تاکہ ہم دعوت کی ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکیں، جو الله تعالیٰ نے خیراُمت ہونے کی حیثیت سے ہم سے متعلق فرمائی ہے۔
رمضان المبارک سے ہمیں مواسات او رغم خواری کا سبق ملتا ہے، جب انسان خود بھوکارہے، تو وہ بھوک کی تکلیف کو محسوس کرسکتا ہے اوراپنے ان بھائیوں کے دکھ کو سمجھ سکتا ہے، فاقہ مستی جن کے لیے معمولات کے درجہ میں ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس مہینہ کو ”شھر المواساة“ یعنی غم خواری کا مہینہ قرار دیا ہے۔ اور اس مہینہ کے ختم پر صدقة الفطر واجب قرار دیا گیا ہے، تاکہ اہل ِ ثروت مسلمان اپنے غریب بھائیوں کو اپنی مسرت وشادمانی میں شریک کرسکیں، یہ سبق سال بھر یاد رکھنے اور یہ عمل ہر دن دہرانے کا ہے، کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے کام آئے، وہ اس کی مصیبت وپریشانی کو اپنی مصیبت وپریشانی سمجھے، وہ اس وقت تک اپنی خوشی کو نامکمل سمجھے جب تک کہ اس کا بھائی بھی اس خوشی میں شریک نہ ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری عملی زندگی، اسلامی اخوت کے اس تصور سے دور ہوتی چلی جارہی ہے، اہل دولت اپنی دولت کے نشہ میں سرشار ہیں، امت کے محتاج اور ضرورت مند لوگوں کا انہیں کوئی خیال نہیں، بلکہ ان کی عیش پرستی ، غریب مسلمانوں کے لیے پریشانیوں کا موجب ہے، شادی بیاہ کی فضول رسمیں اور اس میں ہونے والی فضول خرچیاں اصل میں ہمارے مال دار طبقے ہی کی دین ہیں، بیچارے کم آمدنی والے لوگ ان شاہ خرچیوں کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں، غریب خاندانوں میں پیدا ہونے والے بہت سے ذہین بچے مجبوراً تعلیم کو چھوڑ دیتے ہیں،کیوں کہ وہ بڑھتی ہوئی رشوت ستانیوں کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے، یہ رشوت کا بازار قوم کے دولت مند طبقہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ الله تعالیٰ نے جن لوگوں کو کچھ معاشی فراغت دی ہو وہ اپنے غریب بھائیوں کا حق محسوس کریں او رانہیں اونچا اٹھانے کی کوشش کریں۔
رمضان ہمیں اوقات کی پابندی او راس کے انضباط کا بھی سبق دیتا ہے، یوں تو اسلام میں تمام عبادتیں وقت سے مربوط ہیں، لیکن روزہ میں تو بہت زیادہ انضباط وقت کی ضرورت پڑتی ہے، رات کے آخری پہر میں بیدار ہونا اور صبح صادق سے عین پہلے سحری کھانا، اگر اس میں ذرا بھی تاخیر ہو اور صبح طلوع ہونے کے بعد ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے چلا گیا تو روزہ فاسد ہو جائے گا، پھر غروب آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار کرنا ہے، اگر پہلے افطار کر لیں، تو روزہ درست نہ ہو اور دیر سے افطار کریں تو کراہت ہے، روزہ افطار کرنے او رمغرب کی نماز پڑھنے کے بعد کھانا کھا کر فارغ ہوئے کہ عشاء کا وقت شروع ہوا، اب نماز عشاء پڑھنا، پھر اس کے بعد تراویح پڑھنی ہے، اگر الله توفیق دے تو پھر سو کر اٹھنے کے بعد نماز تہجد ادا کرنی ہے، یہ پورا نظام العمل اس قدر مشغول اور مربوط ہے کہ انضباط وقت کے بغیر ان کو انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔
یہ وقت کی حفاظت کا بہت بڑا سبق ہے، وقت ایسی قیمتی چیز ہے کہ اس کا کوئی بدل نہیں، یہ الله تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، وقت کی قدردانی میں دین ودنیا دونوں کی فلاح ہے، اور وقت کی ناقدری میں دونوں کا نقصان، اب مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہماری تقربیاًت نہ وقت پر شروع ہوتی ہیں، نہ وقت پر ختم، یہاں تک کہ ہماری مذہبی تقریبات اور جلسے وغیرہ بھی وقت پر شروع نہیں ہوتے، نہ معینہ وقت پر ان کو ختم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے، بعض دفعہ رات کے دو ڈھائی بجے تک ہماری تقریروں کا جوار بھاٹا اُبلتا رہتا ہے، ایسی صورت میں کیسے امید رکھی جاسکتی ہے کہ ہمارے بھولے بھالے سامعین فجر کی نماز ادا کرسکیں گے؟ یہ وقت کے معاملہ میں فضول خرچی اور اسراف ہے اور یہ مال ودولت کے اسراف سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔
روزہ ہمیں اس بات کا عادی بناتا ہے کہ ہم اپنی خواہش پر الله کی خوش نودی کو غالب کرنا سیکھیں، بھوک وپیاس انسان کی ایسی خواہش ہے کہ ان کو چند گھنٹے بھی روکنا دشوار ہے، چہ جائے کہ صبح سے شام تک، بظاہر کوئی طاقت روکنے والی نہیں، کوئی زبان ٹوکنے والی نہیں، اس کے باوجود انسان کھانے پینے سے رکارہے، اس سے بڑھ کر اپنی خواہش کو خدا کی مرضی کے تابع کرنے کی او رکیا مثال ہو سکتی ہے؟ یہ ایک رسمی عمل نہیں بلکہ تربیتی عمل ہے، یہ عمل گو ایک ماہ میں فرض ہے ،لیکن یہ اپنی روح او رمقصد کے اعتبار سے ایک ماہ میں محدود نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ یہ کیفیت ہر مسلمان کی زندگی میں سال بھر قائم رہے، ورنہ یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ روزہ دار نے صرف روزہ کی صورت کو پایا ہے، نہ کہ روزہ کی حقیقت کو، اس نے روزہ کے قالب کو حاصل کیا ہے، نہ کہ اس روح کو۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے مطابق اس نے بھوک وپیاس برداشت کی ہے، حقیقی معنوں میں روزہ نہیں رکھا ہے۔
ہم اپنی عملی زندگی میں بار بار اس امتحان سے گزرتے ہیں کہ ہمیں خدا کی فرماں برداری عزیز ہے یا نفس کی تابع داری، الله تعالیٰ کی رضا وخوش نودی مطلوب ہے یا سماجی شہرت وناموری، نکاح کی تقریبات میں کتنی ہی خلاف شرع باتوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے، فوٹو گرافی، ویڈیو گرافی، بے پردگی، مرد وعورت کا اختلاط، فضول خرچی ،لڑکے او راس کے خاندان کی طرف سے مختلف مطالبات، ولیمہ میں بے جا اسراف، عام طور پر یہ سارے گناہ سماجی عزت، جھوٹی شہرت او رمتعلقین کی خوش نودی کے لیے کیے جاتے ہیں، گویا خدا کی ناراضگی کی قیمت پر خلق خدا کی خوش نودی خریدی جاتی ہے، ایسے مواقع پر روزہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مومن نے خدا کی خوش نودی کے بدلے اپنی خوش نودی کا سودا کر لیا ہے، اس لیے اس کو یہ بات قطعاً زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنی مرضی او راپنے جیسے انسانوں کی مرضی پر چل کر خدا کو ناراض کرے۔
قرآن نے سود کے حرام ہونے کا اعلان کیا ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نہایت سختی کے ساتھ نہ صرف شراب پینے، بلکہ شراب سے متعلق ہر طرح کے تعاون سے منع فرمایا ہے، لیکن آج مسلمان اہل ثروت بے تکلف اپنی رقم بینکوں میں رکھتے او راس کا سود حاصل کرتے ہیں، بعض لوگ تو وظیفہ یاب ہونے کے بعد اپنی آخری زندگی اس سود پر گزارتے ہیں۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ بڑھاپے میں گناہ کرنے والے بھی گناہ سے باز آجاتے ہیں اور توبہ کی راہ اختیار کرتے ہیں، لیکن یہ ایسے محروم القسمت ہیں کہ زندگی بھر محنت کی حلال کمائی کھا کر آخری وقت سود خوری میں گزارتے ہیں، جس شخص کا یقین الله کی رزاقیت پر ہو اور نفس کی خوش نودی پر خدا کی خوش نودی کو غالب رکھنے کی لذت اور حلاوت سے آشنا ہو، وہ بھلا آخر عمر میں اس سود خوری کو کیسے اختیار کرسکتا ہے؟ یہی مواقع ہیں، جن میں انسان کی ضبط نفس کی قوت کا امتحان ہوتا ہے کہ روزہ نے صرف اسے بھوکا، پیاسا رکھا ہے، یا اس میں روحانی اوراخلاقی انقلاب بھی پیدا کیا ہے؟