حجة الوداع کے موقع پر منیٰ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر مکمل سورہٴ نصر ایک ساتھ نازل ہوئی،جیسے سب سے پہلے ایک ساتھ سورہٴ فاتحہ اتاری گئی، اسی طرح سب سے آخر میں ایک ساتھ سورہٴ نصر کا نزول ہوا، پھر عرفات میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا اور حق رسالت ادا کرنے پر حاضرین سے گواہی لی، اسی کے بعد سورہٴ مائدہ کی تیسری آیت نازل ہوئی:﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا﴾․(المائدہ:3)
میں نے آج تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے او رتمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔
سورہٴ نصر ہی میں اس بات کا اشارہ موجو دتھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم فریضہٴ نبوت کو ادا کرچکے ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں، چنا ں چہ مزاج شناس ِ نبوت حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ پر ان آیات کو سن کر گریہ طاری ہو گیا، پھر سورہٴ مائدہ کی اس آیت نے اس امر کو مزید واضح کر دیا، چناں چہ اس آیت کے نزول کے بعد صرف اکیاسی دنوں آپ دنیا میں رہے۔
حج سے واپسی کے بعد محرم اور صفر آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں گزارے او رکہیں کا قصد نہیں کیا، اسی دوران آپ صلی الله علیہ وسلم شہدائے اُحد کی زیارت کے لیے اُحد بھی تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اب ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں، جنت البقیع بھی تشریف لے گئے اور دیر تک اس قبرستان میں آسودہٴ خواب خوش قسمتوں کے لیے دُعا فرمائی، پھر 16 صفر11ھ کو حضرت اسامہ رضی الله عنہ کی قیادت میں ایک فوج روم کی طرف روانہ کی، معرکہٴ روم میں اس سے پہلے حضرت اسامہ رضی الله عنہ کے والد حضرت زید رضی الله عنہ شہید ہوچکے تھے، حضرت اسامہ رضی الله عنہ کی عمر اس وقت محض اٹھارہ سال کی تھی، اس لیے منافقین نے اعتراض کیا کہ ایک نوجوان غلام زادہ کو اکابر صحابہ رضی الله عنہم پر امیر بنایا جارہا ہے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی کوئی پروا نہیں کی ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں نے اس کے والد زید پر بھی اعتراض کیا تھا، حالاں کہ وہ بھی امارت کے لائق تھا اور یہ بھی امارت کے لائق ہے ، میں اس سے بھی محبت کرتا ہوں اور اس کے والد سے بھی محبت کرتا تھا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز ہو چکا تھا، اسی درمیان آپ نے حضرت اسامہ رضی الله عنہ کو روانہ فرمایا۔
اسی زمانہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بازوں میں سونے کے کنگن ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پھونکا اور یہ دونوں کنگن اڑ گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے خواب کی تعبیر بیان فرمائی کہ اس سے یمن او ریمامہ سے ظاہر ہونے والے جھوٹے مدعیان نبوت کی طرف اشارہ ہے۔ اسی دوران اطلاع آئی کہ یمن پر اسود عنسی نے اور یمامہ پر مسیلمہ نے نبوت کے دعویٰ کے ساتھ قبضہ کر لیا ہے، اور بنو اسد کے طلیحہ بن خویلد نے بھی اپنی نبوت کا اعلان کرکے سمیرا پر قبضہ کرکے اس کو اپنا مرکز بنا لیا ہے، اسود تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے ایک دن پہلے ہی واصل جہنم ہو گیا او رباقی دونوں فتنے حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے عہد میں ختم ہوئے۔ صفر کے اواخر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی بیماری شروع ہوئی تھی، وفات سے سات دن پہلے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے حجرہ میں تشریف آوری ہوئی، اس وقت اتنا ضعف پیدا ہو چکا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم خود سے چل بھی نہ سکتے تھے، یہ ایک ہفتہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے حجرہ میں گزارا، اس درمیان اپنی وفات سے چار دن پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے، لوگوں کو نماز پڑھائی او رمختصر خطبہ ارشاد فرمایا، اسی دوران ایک دن حضرت علی رضی الله عنہ اور فضل ابن عباس رضی الله عنہ کے ساتھ ظہر کے وقت مسجد میں تشریف لائے، ممبر پر بیٹھے، حمد وثنا فرمائی، اصحاب ِ اُحد کے لیے دُعائے مغفرت کی، پھر ارشاد فرمایا:”اگر مجھ پر کسی کا حق ہو تو وہ مجھ سے لے لے، اگر میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو میری پیٹھ حاضر ہے، وہ انتقام لے لے، کسی کی عزت کے خلاف کوئی بات کہی ہو تو وہ مجھے کہہ لے، کسی کا مال لیا ہو تو میرے مال میں سے اپنا حصہ لے لے، میرا سینہ کینہ سے خالی ہے، کوئی اس کا اندیشہ نہ رکھے“ آپ صلی الله علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کہ جو مجھ سے اپنا حق لے لے گا وہ مجھے زیادہ محبوب ہو گا، جو نہ لینا چاہے، مجھ پر اپنا حق حلال کر دے۔
ان ایام علالت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے وقتاً فوقتاً صحابہ رضی الله عنہم کو مختلف نصیحتیں کیں، یہ نصیحتیں کسی رخصت ہونے والے مشفق باپ کی طرح تھیں، آپ صلی الله علیہ وسلم بیماری کی شدت میں فرماتے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے، تم ہر گز ایسا نہ کرنا، اس بات کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی وفات سے چند دنوں پہلے ایک خطبہ میں بھی ارشاد فرمایا اور فرمایا: بارِ الہٰا! گواہ رہیے کہ ہم نے حق کی بات پہنچا دی ہے، آپ صلی الله علیہ و سلم نے اس درمیان غلاموں ، باندیوں، بیویوں اور خادموں کے ساتھ حسن سلوک کی خاص طور پر تلقین فرمائی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مہاجرین کوخاص طور پر انصار کے احسانات اور ان کی وفا شعاری کی یاد دلائی اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کی تلقین کی۔ ایک دن آپ صلی الله علیہ وسلم نے خاص طور پر حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے درجہ مقام ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے خلیل ابوبکر رضی الله عنہ ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے سب کے احسانات چکا دیے ہیں، سوائے ابوبکر رضی الله عنہ کے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جتنے دروازے مسجد کی طرف کھلے ہوئے ہیں، وہ سب بند کر دیے جائیں، صرف حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خاص طور پر وصیت فرمائی کہ یہود کو جزیرة العرب سے نکال دیا جائے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا کہ میرا ترکہ میرے ورثہ میں تقسیم نہیں ہو گا۔
وفات سے ایک دن پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے تمام غلام آزاد فرما دیے، جن کی تعداد چالیس تک تھی، جو دینار موجو دتھے، انہیں صدقہ فرما دیا، اسلحہ بھی مسلمانوں کو عنایت فرما دیا، آخری شب اس حال میں گزری کہ زرہ ایک یہودی کے پاس گیہوں کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی، گھر میں چراغ کے لیے تیل تک نہ تھا، چناں چہ پڑوسی سے عاریةً منگایا، اگلے دن پیر کی صبح جب حضرت ابوبکر رضی الله عنہ فجر کی نماز پڑھارہے تھے، حجرہٴ مبارک کا پردہ ہٹایا اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کو نماز کی حالت میں دیکھ کر مسکرائے، حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے پیچھے ہٹنا چاہا؛ لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارہ سے منع فرما دیا، یہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا آخری دیدار تھا۔
دن چڑھتے طبیعت بوجھل ہونے لگی، حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی الله عنہ کے ہاتھ میں تازہ مسواک دیکھی تو نگاہِ شوق کا اشارہ پاکر حضرت عائشہ نے مسواک چبا کر او رنرم کرکے آپ صلی الله علیہ و سلم کے حوالہ کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اپنے دندان مبارک پر پھیرا، غرغرہ کی کیفیت طاری ہوئی، پانی کا پیالہ سامنے رکھا ہوا تھا، اس میں ہاتھ ڈبوتے اورچہرہٴ اقدس پر ملتے ، شدت تکلیف کو دیکھ کر حضرت فاطمہ رضی الله عنہا بے چین ہوگئیں تو فرمایا: آج کے بعد تمہارے باپ پر پھر کوئی مصیبت نہیں آئے گی۔ اس کیفیت میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کے اہتمام اورغلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی، اس وقت آپ صلی الله علیہ سلم کا سر مبارک اُم المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے سینہ پر تھا، یہاں تک آنکھیں چڑھ گئیں، ہاتھ جھک گئے، زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئی: ان انبیاء،صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ، جن پر تونے انعام فرمایا․خدا وند! مجھے بخش دیجیے، مجھ پر رحم فرمائیے، آخر میں تین بار ”اللھم فی الرفیق الاعلی“ فرمایا او رروح مبارک پرواز کر گئی، یہ بارہ ربیع الاول کی تاریخ تھی، پیر کا دن تھا اور آفتاب ڈھل چکا تھا یا ڈھلنے کے قریب تھا، لوگوں نے حساب لگایا ہے کہ دنیا میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قیام کی پوری مدت بائیس ہزار، تین سوتیس دن چھ گھنٹے ہوتے ہیں۔
جہاں وفات ہوئی، وہیں حضرت ابوطلحہ رضی الله عنہ نے قبر مبارک کھود نے کا شرف حاصل کیا، حضرت عباس، حضرت علی، حضرت عباس کے دونوں صاحبزادے فضل، قثم، حضرت اسامہ اور شقران رضی الله عنہم نے غسل دینے کا شرف حاصل کیا، پھر لوگوں نے تنہا تنہا نماز پڑھی، پہلے اہل بیت نے، پھر مہاجرین نے، اس کے بعد انصار نے، بعض راویوں کا بیان ہے کہ تقریباًتین ہزار افراد نے نماز پڑھی، منگل کا پورا دن تجہیز وتکفین میں گزر گیا، چہار شنبہ کی شب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تدفین ہوئی، حضرت علی رضی الله عنہ، حضرت عباس رضی الله عنہ، اہل بیت اورمہاجرین وانصار میں سے کچھ صحابہ رضی الله عنہم قبر میں اترے، تدفین سے فارغ ہونے کے بعد واپس، حضرت انس رضی الله عنہ حجرہٴ فاطمہ رضی الله عنہا کے سامنے رک گئے، حضرت فاطمہ رضی الله عنہا (جو پیکر رنج والم بنی ہوئی تھیں) نے بے ساختہ فرمایا: تم لوگوں کے دلوں نے کس طرح گوارا کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر منوں مٹی ڈالو اور تنہا چھوڑ کر آجاؤ؟! اس طرح حضرت آمنہ کا بدر کامل،جو مکہ میں ظاہر ہوا تھا، مدینہ کی سر زمین میں مستور ہو گیا، مگر اس کی کرنیں ایسی زندہ وپائندہ او رعالم تاب ہیں کہ قیامت تک پوری کائنات اس سے روشن رہے گی۔
حیات نبوی صلی الله علیہ وسلم کے اس آخری باب میں بھی مسلمانوں کے لیے عبرت وموعظت کی بہت سی سوغات ہیں:
٭… شہداء اُحد اور جنت البقیع کے مدفونین کی زیارت او ران کے لیے دُعا واستغفار سے سبق ملا کہ اپنے مرحوم بزرگوں، دوستوں، عزیزوں او رمحسنوں کو فراموش نہ کرنا چاہیے، بلکہ ان کے لیے دُعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
٭…جو لوگ زندہ ہوں، ان کے احسانات وخدمات کے اعتراف کا حوصلہ ہونا چاہیے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ اور انصار کی اسلام کے لیے قربانی وفدا کاری کاتذکرہ مرض وفات میں بھی فرمایا، یہ جذبہٴ اعتراف نہ صرف اظہار حقیقت ہوتا ہے، بلکہ دلوں کو جوڑتا، محبت کو بڑھاتا اور تعلقات کو خوش گوار رکھتا ہے۔
٭… مسلمانوں کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ آخر دم تک دین کی فکر انہیں بے چین رکھے، بیماری کی شدت ہے، مگر اس وقت بھی آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت اسامہ رضی الله عنہ کی امارت میں روم کی طرف فوج بھیج رہے ہیں، صحابہ رضی الله عنہم کو عقیدہ وعمل کے بارے میں تلقین کی جارہی ہے اور آخر وقت تک مختلف اعمال کی توجہ دلائی جارہی ہے، نہ یہ کہ انسان آخری سانس تک صرف دنیا کی فکر میں بے قرار رہے۔
٭… حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ او ران کے صاحب زادے حضرت اسامہ رضی الله عنہ کو امیر فوج بنانے سے معلوم ہوا کہ اسلام میں اصل اہمیت صلاحیت او راہلیت کی ہے، نہ کہ خاندان او رمحض سماجی اعتبار سے معزز سمجھے جانے کی، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جوکام باپ سے متعلق رہا ہو، اگر بیٹے میں اس کی صلاحیت موجود ہو، تو اسے اس کام کے سونپنے میں حرج نہیں؛ بلکہ ایک حد تک بہتر ہے؛ کیوں کہ اس کام سے اس کا جذباتی اور قلبی تعلق ہوتا ہے، نہ یہ درست ہے کہ ذمہ داریاں میراث کی طرح تقسیم کی جائیں اور نہ یہ صحیح ہے کہ بیٹے کو ہر قیمت پر باپ کی جگہ کا اہل سمجھا جائے۔
٭… جھوٹے مدعیان نبوت کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فکر مند ی او رصحابہ رضی الله عنہم کو تاکید سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ کتنی اہمیت کا حامل ہے ؟ یہ ایمان کی اساس وبنیاد ہے اوراس کے خلاف اٹھنے والے فتنہ کو روکنا نہایت اہم فریضہ ہے، اس لیے موجودہ دور میں مسلمانوں کو خاص طور پر فتنہٴ قادیانیت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔
٭…رسول الله صلی الله علیہ وسلم مرضِ وفات میں بھی مسجد کی طرف متوجہ رہے؛ بلکہ جب چل کر نہ آسکے تو رفقاء کی مدد سے مسجد تشریف لے گئے ، اس سے جماعت کی اور مسجد میں پہنچ پر نماز ادا کرنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔
٭… آپ مرضِ وفات کے دوران مسجد میں تشریف لائے اور مسلمانوں سے خواہش کی کہ اگر میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو وہ مجھ سے بدلہ لے لے، حالاں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم معصوم تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی؛ بلکہ ہمیشہ دوسروں کی زیادتیوں کو سہا اور برداشت کیا، اس سے انداز کیا جاسکتا ہے کہ حقوق الناس کی کیا اہمیت ہے؟ انسان کو دنیا سے اس حال میں جانا چاہیے کہ اس کے دامن پر ظلم وحق تلفی کا کوئی داغ نہ ہو اور اگر کوئی داغ ہو تو وہ جانے سے پہلے دھولے؛ کیوں کہ دنیا میں حق ادا کر دینا آخرت میں ادا کرنے سے آسان ہے۔
٭… آپ صلی الله علیہ وسلم مرضِ وفات میں بار بار غلاموں ، باندیوں اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرماتے رہے، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے انصار کے ساتھ بہتر سلوک کی ترغیب دی؛ کیوں کہ انصار کی تعداد بھی کم ہوتی جاتی تھی، اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کم زوروں، مظلوموں، غلاموں اور پس ماندہ طبقات کی طرف خصوصی توجہ ہونی چاہیے، تاکہ ان کے اوپر اٹھنے میں مدد مل سکے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ کم زور ہوتے ہیں، انہیں اور دبایا جاتا ہے اور ناانصافی روارکھی جاتی ہے؛ تاکہ وہ کبھی سراٹھا نہ سکیں۔
٭… رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے پہلے غلام آزاد کیے، صدقہ فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ یوں تو انسان کو پوری زندگی ہی صدقہٴ وانفاق کا اہتمام کرناچاہیے؛ لیکن جب اس کی عمر کا آفتاب لب بام آچکا ہو تو اس طرف خصوصی توجہ ہونی چاہیے؛ تاکہ جب الله کے دربار میں حاضر ہو تو کچھ اعمال بھی اس کے ساتھ ہوں، نہ یہ کہ آخر آخر وقت تک صرف اپنے لیے او راپنے بچوں کے لیے دولت کی فکر اس کو بے چین رکھتی ہو۔
٭… مرض وفات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات ومعمولات سے حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کا درجہ ومقام بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام کے لیے ان کی خدمات کیسے روشن نقوش کی حیثیت رکھتی ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد ان کا درجہ سب سے بڑا ہے۔
رسول الله صلی ا لله علیہ وسلم نے صحابہ رضی الله عنہم کو نماز میں مشغول دیکھ کر تبسم فرمایا،جو ظاہر ہے کہ خوشی اور مسرت کا اظہار تھا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر الله تعالیٰ دین کے کسی کام کی توفیق عطا فرمائے تو اہل ایمان کو اس پر اسی طرح، بلکہ اس سے بڑھ کر خوشی ہونی چاہیے، جو کسی دنیوی کام کے انجام تک پہنچنے پر ہوتی ہے اور یہ خوشی جذبہٴ شکر کے ساتھ ہونی چاہیے، نہ کہ فخر وتکبر کے طور پر۔
٭… رسول الله صلی الله عیہ وسلم نے مر ضِ وفات میں بیماری کی شدید مشقت اٹھائی، روایت میں اس کی تفصیلات آئی ہیں ؛ بلکہ بعض روایتوں میں ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی خواہش فرمائی کہ اس اُمّت کو موت کی جو تکلیف پہنچنیوالی ہے، اس کا کچھ حصہ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی تکلیف میں شامل کر دیا جائے، جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی شفقت ومحبت کا بھی اندازہ ہوتا ہے، اس سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ بیماری کی تکلیف کو صبر ورضا کے ساتھ جھیلنا چاہیے او راگر کسی شخص کو موت میں سخت تکلیف اٹھانی پڑے تو اس سے بدشگونی نہ لینی چاہیے او راس کو اس کے گناہوں کا نتیجہ نہیں تصور کرنا چاہیے۔
٭… رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس بیماری میں بھی مسواک کا اہتمام فرمایا، اس سے جہاں مسواک کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، وہیں صفائی ستھرائی کی بھی اہمیت معلوم ہوتی ہے، منھ اور دانت ایسی چیزیں ہیں، جنہیں صاف کرنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم اس کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے، لیکن ویسے ہر سطح پر صفائی ستھرائی مطلوب ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے یہاں اس کا بڑا اہتمام تھا۔
٭…رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مرض وفا ت میں آخر آخر تک جس بات کی طرف بار بار متوجہ فرمایا، وہ یہ ہے کہ مسلمان رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ وہ مبالغہ آمیز اور غلو پر مبنی رویہ اختیار نہ کریں، جو پہلی اُمتوں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیا تھا، خاص طور پر قبر کی تعظیم میں اس درجہ آگے بڑھ جانا، جو تعبد او ربندگی کے درجہ میں آجائے۔
٭…رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے تمام ہی صحابہ رضی الله عنہم بے حد محبت رکھتے تھے اور یہ سب آپ کے جاں نثاروں کا قافلہ تھا، اس کے باوجود غسل او رتجہیز وتکفین میں زیادہ تر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اہل بیت شامل تھے، اس سے معلوم ہوا کہ ان مرحلوں کو محرم رشتہ داروں کو انجام دینا چاہیے، مردوں کے ساتھ مرد رشتہ دار اور عورتوں کے ساتھ خواتین رشتہ دار، آج کل بڑے شہروں میں پیشہ ورغسال او رغسالہ سے غسل دلانے کا رواج بڑھتا جارہا ہے اور خود اپنے رشتہ دار غسل دینے سے راہ ِ فرار اختیار کرتے ہیں، یہ درست نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے مردہ کے ساتھ حق تلفی ہے۔
٭…اسلام سے پہلے خواتین کو منحوس سمجھا جاتا تھا، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس حال میں جان جاں آفریں کے حوالہ کی کہ آپ کا سر مبارک اُم المومنین سیدنا حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے سینہ پر تھا، اس سے معلوم ہواکہ اسلام کی نگاہ میں عورتوں کی کیا عظمت ہے اور آپ نے ان کو کس طرح توقیر واحترام کے مقام پر پہنچایا ہے؟
٭… رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان ِ مبارک پر جو آخری فقرہ آیا اور جس پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی روح پرواز کر گئی، وہ الله تعالیٰ کے ذکر پر مشتمل تھا، پس ہر مؤمن کی کوشش ہونی چاہیے کہ کلمہٴ توحید پراس کا خاتمہ ہو اور وہ زندگی میں بھی اپنے لیے حسن خاتمہ اور حسن انجام کی دعا کرتا رہے۔