کفار مکہ اکیس سال تک رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے نام لیواؤں کو ستاتے رہے، ظلم وستم کا کوئی حربہ ایسا نہ تھا جو انہوں نے خدائے واحد کے پرستاروں پر نہ آزمایا ہو، حتی کہ وہ گھر اور وطن تک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے، لیکن جب مکہ فتح ہوا تو اسلام کے یہ بدترین دشمن مکمل طور پر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے رحم وکرم پر تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا ایک اشارہ ان سب کو خاک وخون میں ملاسکتا تھا، لیکن ہوا کیا؟
ان تمام جبارانِ قریش سے جو خوف اور ندامت سے سرنیچے ڈالے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کھڑے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا:” تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟“
انہوں نے دبی زبان سے جواب دیا: ”اے صادق! اے امین! تم ہمارے شریف بھائی اور شریف برادرزادے ہو، ہم نے تمہیں ہمیشہ رحم دل پایا ہے۔“
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: آج میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”تم پر کچھ الزام نہیں، جاؤ !آج تم سب آزاد ہو۔“
فطرت سلیمہ
آپ صلی الله علیہ وسلم تمام احوال، اقوال وافعال میں کبائر سے اورمحققین کے نزدیک صغائر سے بھی معصوم تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے کسی قسم کی وعدہ خلافی یا حق سے اعراض کا صدورممکن ہی نہ تھا، نہ قصداً ،نہ سہوا، نہ صحت میں، نہ مرض میں، نہ واقعی مراد لینے میں، نہ خوش طبعی میں ، نہ خوشی میں، نہ غضب میں۔(نشر الطیب)
ایفائے عہد
جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد بہت قلیل تھی اورمسلمانوں کو ایک ایک آدمی کی اشد ضرورت تھی، حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ اور ابوسہیل، دو صحابی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول الله! ہم مکہ سے آرہے تھے، راستے میں کفار نے ہم کو گرفتار کر لیا تھا اور اس شرط پر رہا کیا ہے کہ ہم لڑائی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ نہ دیں گے، لیکن یہ مجبوری کا عہد تھا، ہم ضرور کافروں کے خلاف لڑیں گے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہر گز نہیں ،تم اپنا وعدہ پورا کرو اور لڑائی کے میدان سے واپس چلے جاؤ، ہم (مسلمان) ہر حال میں وعدہ پورا کریں گے، ہم کو صرف خدا کی مدد درکار ہے۔“(صحیح مسلم، باب الوفاء بالعہد:2/89،2/106)
حضرت عبدالله بن ابی الحماد رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کوئی چیز خریدی، کچھ رقم باقی رہ گئی، میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا کہ اسی جگہ لے کر حاضر ہوتا ہوں، پھر میں بھول گیا، تین دن کے بعد مجھے یا دآیا ، میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اسی جگہ تشریف فرما ہیں، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ”تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا، میں تین دن سے اسی جگہ تمہارا انتظا رکر رہا ہوں۔“ (ابوداؤد نے اس کو روایت کیا) اس واقعہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے تواضع اور ایفائے عہد کی انتہا ہے۔ (مدارج النبوة)
شجاعت
حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ کو اور لوگوں پر چار چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ سخاوت ، شجاعت، قوت ِ مردی او رمقابل پر غلبہ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم نبوت کے قبل بھی اوربعد یعنی زمانہ نبوت میں بھی صاحب وجاہت تھے۔ (نشرالطیب)
غزوہ حنین کے موقع پر کفار کے تیروں کی بوچھاڑ سے صحابہ کرام رضی الله عنہم میں ایک قسم کا ہیجان ، پریشانی، تزلزل اور ڈگمگاہٹ پیدا ہو گئی تھی، مگر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ فرمائی، حالاں کہ گھوڑے پر سوار تھے او رابوسفیان بن حارث آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھوڑے کی لگام پکڑے کھڑے تھے ، کفار چاہتے تھے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم پر حملہ کر دیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم گھوڑے سے اترے اور الله تعالیٰ سے مدد مانگی او رزمین سے ایک مشت خاک لے کر دشمنوں کی طرف پھینکی تو کوئی کافر ایسانہ تھا جس کی آنکھ اس خاک سے نہ بھر گئی ہو، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس وقت یہ شعر پڑھے #
انا النبی لا کذب
انا ابن عبدالمطب
میں نبی ہوں، اس میں کذب (جھوٹ)نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔ اس روز آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ بہادر، شجاع اور دلیر کوئی نہ دیکھا گیا۔ (مدارج النبوة)
حضرت ابن عمر رضی الله عنہما نے فرمایا ہے:” میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر نہ کوئی شجاع دیکھا اور نہ مضبوط دیکھا اور نہ فیاض دیکھا اور نہ دوسرے اخلاق کے اعتبار سے پسندیدہ دیکھا او رہم جنگ بدر کے دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آڑ میں پناہ لیتے تھے اور بڑا شجاع وہ شخص سمجھا جاتا تھا جو میدان جنگ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک رہتا، جب کہ آپ صلی الله علیہ وسلم دشمن کے قریب ہوتے تھے، کیوں کہ اس صورت میں اس شخص کو بھی دشمن کے قریب رہنا پڑتا تھا۔“(نشر الطیب)
سخاوت
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ ”حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم اول تو تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے( کوئی بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی سخاوت کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا) کہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عطاؤں میں بادشاہوں کو شرمندہ کرتے تھے، ایک دفعہ نہایت سخت احتیاج کی حالت میں ایک عورت نے چادر پیش کی اور سخت ضرورت کی حالت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے پہنی، اسی وقت ایک شخص نے مانگ لی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مرحمت فرمادی، آپ قرض لے کر ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا فرماتے تھے اور قرض خواہ کے سخت تقاضے کے وقت کہیں سے اگر کچھ آگیا اور ادائے قرض کے بعد بچ گیا تو جب تک وہ تقسیم نہ ہو جائے، گھر میں تشریف نہ لاتے تھے، بالخصوص رمضان المبارک کے مہینہ میں اخیر تک بہت ہی فیاض رہتے (کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی گیارہ ماہ کی فیاضی بھی اس مہینہ کی فیاضی کے برابر نہ ہوتی تھی) اور اس مہینہ میں جب بھی جبرائیل علیہ السلام تشریف لاتے اور آپ کو کلام الله سناتے، اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم بھلائی اور نفع رسانی میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔“ (خصائص نبوی)
ترمذی کی حدیث سے نقل کیا گیا ہے کہ ”حضو رانور صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک مرتبہ نوے ہزار درہم کہیں سے آئے، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک بورئیے پر ڈالوادیے اور وہیں پڑے پڑے سب تقسیم کرادیے، ختم ہوجانے کے بعد ایک سائل آیا، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں رہا، تو کسی سے میرے نام سے قرض لے لے، جب میرے پاس ہو گا ادا کردوں گا۔“ (خصائل نبوی)
حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم سے کچھ مانگا گیا ہو اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہو ”میں نہیں دیتا“۔ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کل کے لیے کوئی چیز نہ اٹھا رکھتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے، خا ص کر ماہ رمضان میں تو بہت ہی سخی ہو جاتے تھے۔ (صحیح بخاری، باب بدء الوحی)
ایک مرتبہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری ص سے فرمایا:
” اے ابو ذر! مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس کوہ احد کے برابر سونا ہو اور تیسرے دن تک اس میں سے میرے پاس ایک اشرفی بھی بچ رہے، سوائے اس کے جو ادائے قرض کے لیے ہو، تو اے ابوذر! میں اس مال کو دونوں ہاتھوں سے خدا تعالیٰ کی مخلوق میں تقسیم کرکے اٹھوں گا۔“ (صحیح بخاری کتاب الاستقراض:321)
ایک دن رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس چھ اشرفیاں تھیں، چار تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے خرچ کر دیں اور دو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بچ رہیں، ان کی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو تمام رات نیند نہ آئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے عرض کیا: معمولی بات ہے، صبح ان کو خیرات کر دیجے گا، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اے حمیرا! (حضرت عائشہ رضی الله عنہا کا لقب ہے) کیا خبر ہے کہ میں صبح زندہ رہوں یا نہیں؟“۔ (مشکوٰة)
قناعت وتوکل
حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم دوسرے دن کے واسطے کسی چیز کا ذخیرہ بنا کر نہیں رکھتے تھے۔(شمائل ترمذی)
فائدہ
یعنی جو چیز ہوتی کھلا پلا کر ختم فرما دیتے، اس خیال سے کہ کل پھر ضرورت ہو گی، اس کو محفوظ نہ رکھتے تھے، یہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا غایت درجہ توکل تھا کہ جس مالک نے آج دیا ہے، وہ کل بھی عطا فرمائے گا، یہ صرف اپنی ذات کے لیے تھا، ورنہ ازواج کا نفقہ ان کے حوالہ کر دیا جاتا تھا کہ وہ جس طرح چاہیں تصرف میں لائیں، چاہیں رکھیں یا تقسیم کریں، مگر وہ بھی تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج تھیں، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی خدمت میں ایک بار دو گرنیں درہموں کی نذرانہ کے طور پر پیش کی گئیں، جن میں ایک لاکھ درہم سے زیادہ تھے۔ انہوں نے طباق منگوایا او ربھر بھر کر تقسیم کر دیے، خود روزہ دار تھیں، افطار کے وقت ایک روٹی اور زیتون کا تیل تھا، جس سے افطار فرمایا۔ باندی نے عرض کیا کہ ایک درہم کا اگر گوشت منگا لیتیں تو آج ہم اسی سے افطار کر لیتے۔ ارشاد فرمایا کہ اب طعن دینے سے کیا ہوسکتا ہے ؟ اسی وقت یاد دلادیتی تو میں منگا دیتی۔ (خصائل نبوی)
حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو یہ بات خوش نہیں کرتی کہ میرے لیے کوہ ِ احد سونا بن جائے اور پھر رات کو اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس رہے، بجز ایسے دینار کے جس کو کسی واجب مطالبہ کے لیے تھام لوں اور یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم کے کمال سخاوت وجود عطا کی دلیل ہے، چناں چہ اسی کمال سخاوت کے سبب آپ صلی الله علیہ وسلم مقروض رہتے تھے۔ حتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس وقت وفات پائی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی زرہ اہل وعیال کے اخراجات میں رہن رکھی ہوئی تھی۔ (نشر الطیب)
انکسار طبعی
حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بروئے عادت سخت گونہ تھے اور نہ بہ تکلف سخت گو بنتے تھے اور نہ بازاروں میں خلاف ِ وقار باتیں کرنے والے تھے او ربرائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے تھے، بلکہ معاف فرما دیتے تھے۔ غایت حیا سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی نگاہ کسی شخص کے چہرے پر نہ ٹھہرتی تھی اور کسی نامناسب بات کا اگر کسی ضرورت سے ذکر کرنا ہی پڑتا تو کنایہ میں فرماتے۔
حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر دل کے کشادہ تھے، بات کے سچے تھے ، طبیعت کے نرم تھے، معاشرت میں نہایت کریم تھے اور جو شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کرتا اس کی دعوت منظور فرماتے اور ہدیہ قبول فرماتے، اگرچہ ( وہ ہدیہ یا طعام دعوت) گائے یا بکری کا پایہ ہی ہوتا۔
اور ہدیہ کا بدل بھی دیتے تھے اور دعوت غلام کی اور آزاد کی اور لونڈی کی اور غریب کی، سب کی، قبول فرمالیتے اور مدینہ کی انتہائے آبادی پر بھی اگر مریض ہوتا اس کی عیادت فرماتے او رمعذرت کرنے والے کا عذر قبول فرماتے او راپنے اصحاب سے ابتداً مصافحہ فرماتے او رکبھی اپنے اصحاب میں پاؤں پھیلاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے، جس سے اوروں پر جگہ تنگ ہو جائے۔ اور جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آتا اس کی خاطر کرتے اور بعض اوقات اپنا کپڑا اس کے بیٹھنے کے لیے بچھادیتے اور گدا، تکیہ خود چھوڑ کر اس کو دے دیتے اور کسی شخص کی بات بیچ میں نہ کاٹتے اور تبسم فرمانے میں اور خوش مزاجی میں سب سے بڑھ کر تھے، جب تک کہ حالت نزول وحی یا وعظ یا خطبہ کی نہ ہوتی ( کیوں کہ ان حالتوں میں آپ کو ایک جوش ہوتا تھا) جس میں تبسم اور خوش مزاجی ظاہر نہ ہوتی تھی۔ (نشر الطیب)
دیانت وامانت
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو ساری قوم آپ صلی الله علیہ وسلم کی دشمن بن گئی اور آپ کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، لیکن اس حالت میں بھی کوئی مشرک ایسا نہ تھا جو آپ کی دیانت وامانت پر شک کرتا ہو، بلکہ یہ لوگ اپنا روپیہ پیسہ وغیرہ لاکر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس امانت رکھواتے تھے او رمکہ میں کسی دوسرے کو آپ صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر امین نہیں سمجھتے تھے، ہجرت کے موقع پر حضرت علی کرم الله وجہہ کو پیچھے چھوڑنے سے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ تمام لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ آئیں۔ (مدارج النبوة)
تواضع
حضرت عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمانو! میری تعریف حد سے زیادہ نہ کرو، جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کی تعریف کی ہے، کیوں کہ میں خدا کا بندہ ہوں، بس تم میری نسبت اتنا ہی کہہ سکتے ہو کہ محمدخدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“ (مدارج النبوة، زادالمعاد، شمائل ترمذی)