حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد: فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُُ﴾․ (سورہ آل عمران:31) صدق الله مولٰنا العظیم․
میرے محترم بھائیو بزرگو اور دوستو! قرآن کریم میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ قل۔ اے محمد (صلی الله علیہ وسلم) آپ اپنی امت سے کہہ دیجیے، کیا کہہ دیجیے؟﴿إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ﴾، اگر تم الله کے محبوب بننا چاہتے ہو، ﴿فَاتَّبِعُونِی﴾ تو اے لوگو میری پیروی، میری اتباع کرو، ﴿یُحْبِبْکُمُ اللَّہ﴾، الله تمہیں اپنا محبوب بنا لیں گے، الله کے ہاں محبوبیت موقوف ہے، محمدرسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتباع پر، اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ الله سے اپنا تعلق قائم کرے، تو وہ محمد رسول ا لله صلی الله علیہ وسلم کے بغیر ممکن نہیں ہے، اب اتباع کا مطلب کیاہے بھائی؟ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو دین لائے ہیں، اس دین کو اختیار کریں، وہ دین جامع ہے دین اور دنیا دونوں کو، بہ ظاہر آدمی دکان پر بیٹھا ہے، تجارت کر رہا ہے، بہ ظاہر آدمی کھیت میں ہے او رکھیتی باڑی کر رہا ہے، بہ ظاہر آدمی دفتر میں ہے، نوکری کر رہا ہے، بہ ظاہر آدمی دنیا والے اعمال، جن کی آدمی کو ضرورت ہے ،وہ کر رہا ہے، لیکن اگر وہ اسی دنیا کے اعمال میں کاموں میں ، حسن نیت اختیار کر لے، مثلاً دکان داری اس لیے کر رہا ہے کہ حلال کماؤں گا، اپنی بیوی بچوں کو حلال رزق پہنچاؤں گا، کھیتی باڑی بھی اسی لیے کررہا ہے، کہ حلال رزق حاصل کروں گا، دفتر اور نوکری بھی اسی لیے کر رہا ہے کہ الله تعالیٰ مجھے اس کے ذریعے سے حلال رزق عطا فرمائیں گے، میں کوئی خیانت نہیں کروں گا، بد دیانتی نہیں کروں گا، کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کروں گا، الله تعالیٰ کا حکم پورا کروں گا اور اس سے میں اپنا بھی اور اپنے اہل وعیال کا بھی پیٹ پالوں گا، تو بہ ظاہر یہ جتنی بھی چیزیں ہیں دیکھنے میں تو دنیاداری ہیں، لیکن اگر اس نیت کے ساتھ ہے تو وہ سب دین ہے :”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: انما الأعمال بالنیات، وانمالکل امریٴ مانوی فمن کانت ہجرتہ إلی دنیا یصیبھا أوإلی امرأة ینکحھا فھجرتہ إلی ماھاجر الیہ․ (الجامع الصحیح للبخاری، بدء الوحی، رقم الحدیث:1)
آدمی سور رہا ہے، زندگی کا بڑا حصہ سونے میں گزار دیتا ہے، اگر ستر سال عمر ہے تو اگر آپ رات کے اوقات کو شمار کریں ، تو آدھا یا قریب قریب آدھے کے تو آدمی کی زندگی سونے میں گزر جاتی ہے، لیکن اگر یہ سونا مسنون طریقے پر ہو، دین پر ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہو، تو یہ پورا کا پورا سونا، یعنی اس ستر سال میں لگ بھگ پچیس سال کا عرصہ سب دین بن جائے گا ،حالاں کہ سویا ہے، کچھ نہیں کیا، لیکن سونے سے پہلے کم از کم اس نے سونے کی دعا پڑھ لی اور سو کر اٹھتے وقت سو کر اٹھنے کی دعا پڑھ لی اور سونے کے موقع پر دائیں کروٹ لیٹنے کا اہتمام کیا، تو اب یہ زندگی کے بیس پچیس سال جو سونے میں گزرے، اگر ستر برس عمر ہے، تو یہ سب کی سب عبادت ہے۔ آج میرے دوستو! جو ایک بہت اہم مسئلہ ہے، جس میں بہت بڑا ابتلا ہے اور وہی ابتلا امت کی تباہی کا ذریعہ ہے، امت کی تباہی کا سبب ہے وہ یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم محبت کا تو دعوی ہے اور یہ معاملہ اتنا حساس ہے، کہ خدانخواستہ خدانخواستہ اگر کوئی آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے، یا کوئی غلط بات کہتا ہے تو ایک عام مسلمان بھی اس کو برداشت نہیں کرتا، یہی ایمان بھی ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن اس محبت کا تقاضا کیا ہے؟ کہ کیا صرف اس درجے کی محبت کافی ہے، یا یہ کہ آپ صلی الله علی وسلم جو دین لائے، اس پورے کے پورے دین پر عمل کرنا ضرور ی ہے؟ ایک اور بہت بڑی غلط فہمی ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھ رہاہے کہ میں نے نماز پڑھ لی، میں نے روز رکھ لیا، میں نے حج کر لیا، میں نے نصاب اگر ہے تو زکوٰة دے دی ، تو میں نے اسلام کی ذمہ داری پوری کر لی۔
میں کئی دفعہ یہ بات عرض کرچکا ہوں کہ نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا، حج کرنا، زکوٰة دینا، یہ فرائض ہیں اور یہ الله تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہیں،ہم نماز الله کے لیے پڑھتے ہیں ،ہم روزہ الله کے لیے رکھتے ہیں، ہم حج الله کے لیے کرتے ہیں، ہم زکوٰة الله کے لیے دیتے ہیں، یہ لا إلہ إلا الله ہے، محمد رسول الله، باقی ہے، پوری زندگی ، آدمی کی شکل صورت ، آدمی کی وضع قطع، آدمی کا چلنا پھرنا، آدمی کا اٹھنا بیٹھنا، آدمی کی معاشرت اور آدمی کے معاملات، سب کے سب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق ہونا ضروری ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”من تشبہ بقوم فھو منھم“ (سنن أبی داؤد، کتاب اللباس، باب فی لبس الشھرة، رقم:4033) جو جس کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہو گا، اگر مسلمان آپ صلی الله علیہ وسلم کی مشابہت اختیار نہیں کر رہا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی مشابہت اختیار کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اسے ہر مسلمان جانتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ نہیں جانتا، اگر آپ صلی ا لله علیہ وسلم کی مشابہت اختیار نہیں کر رہا، تو وہ جس کی مشابہت اختیار کر رہا ہے، اب چاہے وہ شادی بیاہ کے اندر ہندؤں کی مشابہت اختیار کرے، وہ وضع قطع کے اندر یہودیوں اور نصرانیوں کی مشابہت اختیار کر رہا ہے، تو وہ انہی میں شمار کیا جائے گا۔
الله رب العزت نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہر ہر طریقے میں ایسی طاقت رکھی ہے، ایسی قوت رکھی ہے، ایسا رعب رکھا ہے، ہم اس طاقت سے واقف نہیں، ہندوستان میں ایک قصبہ ہے ”رڑکی“ وہاں مسلمان کم، ہندوزیادہ ہیں، مسلم ہندو فساد ہو گیا ، ظاہر ہے کہ مسلمان کم تھے، ہندو زیادہ تھے،بڑی تشویش اور بہت پریشانی شروع ہو گئی، وہاں ایک عالم دین بڑے فہیم اور سمجھ دار تھے، وہ رات کے وقت خاموشی سے رڑکی سے نکلے، سہارن پور گئے اور وہاں جاکے انہوں نے پانچ ہزار ٹوپیاں خریدیں اور ٹوپیاں خرید کے راتوں رات واپس آئے، اورواپس آکر پورے قصبے میں، مسلمانوں کے گھروں میں، تقسیم کر دیں اورانہیں تاکید کی کہ صبح کوئی مسلمان مرد، بچہ یا بڑا بغیر ٹوپی سر پر رکھے باہر نہ نکلے، سب ٹوپی پہنیں، اب جناب جب صبح ہوئی اور سارے کے سارے مسلمان جتنے بھی تھے، وہ سب ٹوپی پہن کے باہر نکلے، تو ہندو ڈر گئے، خوف آگیا۔
مسلمان اپنی طاقت سے واقف نہیں ہے، ٹوپی بندوق نہیں ہے، ٹوپی تلوار نہیں ہے، ٹوپی نیزہ نہیں ہے، ٹوپی محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے۔
یہی مسلمان پہلے بھی وہاں رہتے تھے، لیکن وہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر عمل نہیں کررہے تھے، تو یہپتہ ہی نہیں تھا، بازار میں لوگ چل رہے ہیں، پھر رہے ہیں، کاروبار ہو رہا ہے، کھیتوں کے اندر بھی کام ہو رہا ہے، زندگی رواں دواں ہے، لیکن مسلمان کا پہناوا، مسلمان کی پہچان جب اس کے جسم پر نہیں ہے، تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ مسلمان ہے، ہندو ہے، یہودی ہے نصرانی ہے؟ کون ہے؟ مسلمان کی پہچان کیا ہے؟ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم، آپ کا چہرہ کیسا تھا؟ آپ کی ٹوپی کیسی تھی؟ بہت سے ہمارے ساتھی، بے چارے لاعلمی میں، انہیں معلوم نہیں ، وہ ننگے سر نماز پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں، مسجد میں آتے ہیں، لیکن سر پر ٹوپی نہیں، جب کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ و سلم کے بارے میں احادیث ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سر مبارک ننگا ہوا ہے صرف حالت احرام میں، اس کے علاوہ نہیں، آپ کا سر مبارک ننگا نہیں تھا، یہ مسلمان کی پہچان نہیں ہے، مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ اس کا سر ڈھکا ہوا ہو اور اچھے طریقے سے ڈھکا ہوا ہو، عمامے سے ڈھکا ہوا ہو، پہچان ہے مسلمان کی، عمامہ نہیں تو کم سے کم ٹوپی ہو، اچھی ٹوپی ہو، ہمارے ہاں تو دین کو خفیف اور دین کو بے قیمت ظاہر کرنے کے لیے دشمنوں نے بڑی کوششیں کیں۔
آپ کو یاد ہو گا، اب تو الحمدلله ہماری مساجد میں ایسا نہیں، ورنہ اب سے بیس تیس چالیس سال پہلے، ہمیں یاد ہے یہاں ایسے بزرگ بیٹھے ہیں، جنہیں یاد ہو گا، مسجدوں میں تنکوں کی، کھجور کے پتوں کی ٹوپیاں رکھی ہوتی تھیں، ڈھیر لگا ہوتا تھا، آپ مجھے بتائیں اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اپنے خاندان کی تقریب میں وہ ٹوپی پہن کے جاسکتے ہیں؟ الله کی بارگاہ میں آپ آرہے ہیں، الله کے گھر میں آرہے ہیں، الله کے سامنے قیام ہے، الله کے سامنے رکوع ہے، الله کے سامنے سجدہ ہے، اور اتنی بڑی جرأت کے ساتھ؟
ہمیں یہ استحضار ہی نہیں ہے کہ ہم کس کے گھر میں ہیں؟ یہ تو الله کا گھر ہے ،اس کے احکام الگ ہیں اس کی نوعیت الگ ہے، اس گھر میں تو جو اینٹ لگ گئی ، اس کی بھی قسمت کھل گئی، یہ تو الله کا گھر ہے، یہ گھر ہر وقت چوبیس گھنٹے فرشتوں سے بھرا ہوا ہے، ہر وقت فرشتے۔
میرے دوستو! ہم محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ جو دین لائے ہیں۔ آپ جو شریعت لائے ہیں، آپ کی جو مبارک سنتیں ہیں، ہم اس کی طاقت سے واقف نہیں ہیں، بڑی طاقت ہے، بشرطیکہ پہلے ہم خود اس طاقت سے واقف ہوں، میں نے ابھی عرض کیا نا کہ تنکوں کی ٹوپی، جسے ہم خود اپنے بیوی بچوں کے سامنے پہننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔جسے ہم خود اپنے خاندان کی کسی تقریب میں پہن کر جانے کے لیے تیار نہیں۔ اسے پہن کے الله کے گھر میں آتے ہیں، اسے پہن کر ہم سجدہ اور رکوع کرتے ہیں۔ میرے دوستو! اس کو ہلکا نہ سمجھیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع ایک واحد ذریعہ ہے الله تعالیٰ کی محبوبیت حاصل کرنے کا، اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ الله اس سے خوش ہوں، تو وہ محمد رسول الله کے ذریعے خوش ہوں گے:﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ﴾ میری اتباع کرو، میرے طریقے پر چلو، میں جو دین لایا ہوں اس کو اختیار کرو، میرے دوستو! کھانا ہے، پینا ہے، سونا ہے، چلنا ہے، پھرنا ہے، پہننا ہے، اوڑھنا ہے، ہر چیز۔ ابھی سردیاں آرہی ہیں، دشمن کی محنت آپ دیکھیں کہ ہم نے آہستہ آہستہ چادر اوڑھنا چھوڑ دیا، شہروں میں تو ختم ہی ہو گیا، چادر نہیں اوڑھتے،حالاں کہ چادر اوڑھنا بھی سنت ہے، چادر ساتھ رکھنا بھی سنت ہے، آج اگر کوئی چادر اوڑھے تو مذاق اڑاتے ہیں، حالاں کہ سنت ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایک طریقے کو، ڈھونڈ ڈھونڈ کر، معلوم کرکے کہ آپ کھانا کیسے کھاتے تھے، آپ پانی کیسے پیتے تھے، آپ چلتے کیسے تھے؟ میرے دوستو! عجیب بات ہے ، ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب انبیاء اور رسل آئے ہیں، لیکن کوئی ایک نبی اور رسول ایسا نہیں ہے۔ جس کی ہر چیز تمام تر جزئیات کے ساتھ محفوظ ہو۔ کوئی نبی ایسا نہیں ہے اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم، ان کی ہر ہر چیز، چھوٹی سی چھوٹی، میں نے کئی دفع سنایا کہ دانتوں میں کھانے کے بعد گوشت، روٹی، جو بھی چیز آدمی کھاتا ہے، دانتوں کے درمیان پھنس جاتا ہے، کتنی چھوٹی سے بات ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ اگر دانتوں میں کوئی ریزہ غذا کا کوئی جز پھنس جائے تو اسے زبان کی نوک سے نکال لو اور وہ ریزہ، جسے زبان کی نوک سے زور دے کر نکالا اسے نگل لو، اسے تھوکو نہیں او راگر وہ زبان کی نوک سے نہ نکلے، جیسا کہ کئی دفعہ ہوتا ہے، نہیں نکلتا، خلال کے ذریعے سے اس کو نکالتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ اسے مت نگلو، اسے تھوک دو:”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم من اکتحل فلیوتر… ومن أکل فما تخلل فلیلفظ ومالاک بلسانہ فلیبتلع، من فعل فقد أحسن، ومن لا فلا حرج․“ (سنن ابی داؤد، کتاب الطہارة، باب الاستتار فی الخلاء، رقم:35)
بظاہرکتنی چھوٹی سی بات ہے؟ آدمی کی عقل بھی یہاں نہیں جاتی، لیکن یہاں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی راہ نمائی موجود ہے، کوئی زندگی کا حصہ ایسا نہیں، کوئی شبہ نہیں کہ اگر عزت ملے گی، اگر مقام ملے گا، اگر کام یابی ملے گی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور آخرت کی کام یابی حقیقی کام یابی ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں ہے،جس کو زوال نہیں ہے، تو وہ صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتباع سے ملے گی، اس لیے کہ الله تعالیٰ نے خود اپنی محبت اور محبوبیت کو موقوف کر دیا ہے محمد رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع پر:﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ﴾ میری اتباع کرو، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتباع ہو گی تو الله تعالیٰ محبت فرمائیں گے۔
الله تعالیٰ محبوب بنائیں گے، وگرنہ نہیں اور میں نے عرض کیا کہ آج جو زوال ہے، جو ناکامی ہے، جو شکست ہے، جو مظلومیت ہے، جو خون کا بہنا ہے، جو عورتوں او ربچوں کی تذلیل ہے او رپوری دنیا میں مسلمان قوم، اگر کہیں خون بہتا ہے، تو مسلمان کا بہتا ہے۔ اگر کہیں ظلم ہوتا ہے تو مسلمان پر ہوتا ہے۔ اگر کہیں زیادتی ہوتی ہے، تو مسلمان پر ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہے؟ کبھی سوچا آپ نے؟ کیوں ہوتی ہے؟ اس لیے کہ پیسے کم ہیں؟ نہیں! پیسے بہت ہیں، اس لیے کہ اسلحہ نہیں ہے؟ اسلحہ بہت ہے۔ اس لیے کہ تعلیم کم ہے؟ تعلیم بھی بہت ہے، ہر چیز ہے، اگر نہیں ہے تو وہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتباع نہیں ہے، میں نے ابھی عرض کیا کہ آپ بازار میں جائیں، ہندوستان کا واقعہ میں نے آپ کو سنایا، چھوٹا سا قصبہ ہے ہندو زیادہ ہیں، مسلمان کم ہیں، لیکن یہ معلوم ہی نہیں کہ مسلمان کون ہے، ہندو کون ہے؟ وضع قطع سب کی ایک ہے، ایک رات کے اندر پانچ ہزار ٹوپیاں گاؤں، بستی اور قصبے میں آگئیں اور صبح کو سب مسلمان ٹوپی پہن کر باہر نکلے، تو سارے ہندو جو زیادہ ہیں، سب ڈر گئے، یہ کیا ہو گیا، اتنے مسلمان؟ حالاں کہ مسلمان زیادہ نہیں ہوئے، صرف یہ ہوا کہ مسلمان جو ننگے سر پھرتے تھے، انہوں نے سر پر ٹوپی رکھ لی۔
میرے دوستو! یہ ایک چھوٹی سے مثال ہے، اگر آج مسلمان آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع کرنے پر آجائے، تو یہ ساری کی ساری طاقتیں، جنہیں آپ طاقتیں کہتے ہیں، یہ سب مکڑی کے جالے ہیں، سب ختم ہو جائیں گے، شرط یہ ہے کہ مسلمان مسلمان بن جائے او رمسلمان مسلمان کیسے بنے گا؟ وہ بنے گا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرکے، ہم اپنے گھروں کے اندر اس کا اہتمام کریں، ہمارے گھروں کے اندر دین ہو، دنیا نہ ہو، آج جو تماشے ہمارے گھروں کے اند رچل رہے ہیں، آپ مجھے بتائیں الله کی مدد آئے گی؟ برکت آئے گی؟ شیطان، شیطان، ہر طرف شیطان ناچ رہا ہے، تو اب ظاہر ہے کہ ایسی صورت کے اندر الله کی مدد نہیں آئے گی اورجب الله کی مدد نہیں آئے گی، تو آپ سمجھتے ہیں کہ پھر سوائے ذلت اور رسوائی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا زمانہ آپ کے خلفاء کا زمانہ، ایک ہزار سال سے زیادہ امت مسلمہ کا زمانہ ،وہ کام یابی کا زمانہ ہے، وہ غلبے کا زمانہ ہے، وہ فتح کا زمانہ ہے وہ عزت کا زمانہ ہے، وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ مسلمان محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جڑا ہوا تھا، اس کا رشتہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے مضبوط تھا۔
اب ہمارے سامنے ربیع الاول آرہا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش بھی اسی مہینے میں اور آپ کی وفات بھی اسی مہینے میں… مسلمان اپنی محبت کا اظہار کیسے کرے گا؟ سنت پر عمل کرکے نہیں، بلکہ چراغاں کرکے، جھنڈے لگا کر، جلوس نکال کر، اسی طرح کیا کہے گا کہ ہم کون ہیں؟ ہم عاشق رسول ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرو، نہیں، وہ کرنے کے لیے تیار نہیں، میں نے کئی دفعہ سنایا کہ ایک باپ پیاسا ہے، بہت شدید پیاس ہے، بیٹے سے کہتا ہے بیٹا! مجھے پیاس لگ رہی ہے، پانی پلا دو، بیٹا! کیا کہتا ہے ابا جان مجھے آپ سے بڑی محبت ہے، میں آپ کا بڑا عاشق ہوں، کہتا ہے بیٹا! مجھے پیاس لگی ہے، میرا گلہ سوکھ رہا ہے،پانی لاؤ، بیٹا کہتا ہے ابا جان مجھے آپ سے بڑی محبت ہے، میں آپ کا بڑا عاشق ہوں۔ میرے دوستو! آج صورت حال یہی ہے کہ ہم آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے فرامین، آپ کے ارشادات، آپ کے احکامات ، آپ کی زندگی اسے اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن ہم کیا کہتے ہیں ہم سے بڑا عاشق رسول کوئی نہیں، میرے دوستو! یہ دھوکہ ہے جو ہم اپنے آپ کو دے رہے ہیں ، یہ دھوکہ ہے، حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ درود شریف پڑھنے کے لیے کسی دن کی کوئی خصوصیت نہیں ہے، کسی مہینے کی کوئی خصوصیت نہیں ہے، ہمیں تو حکم یہ ہے کہ ساری زندگی درود پڑھو، صبح سے لے کر شام تک پڑھو، کثرت سے پڑھو، تمام مہینوں میں پڑھو، ہم وقت کے قیدی نہیں ہیں کہ جی صرف 12/ربیع الاول آئے گا تو الصلوٰة والسلام علیک یا رسول الله کہیں گے او را سکے بعد چھٹی ۔ساری زندگی ، صبح سے شام تک، جو برکات درود شریف میں الله تعالیٰ نے رکھی ہیں، وہ بہت سارے اذکار میں نہیں ہیں ۔
تو میرے دوستو! ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کریں، آپ کے نقش قدم پر چلیں، آپ صلی ا لله علیہ وسلم کی سنتوں کو تلاش کریں، معلوم کریں۔علماء سے ملیں کہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی کھانے کی سنتیں مجھے بتائیں، پہناوے کی سنتیں مجھے بتائیں، سونے کی سنتیں مجھے بتائیں، بیت الخلا آنے جانے کی سنتیں مجھے بتائیں، گھر میں داخل ہونے او رنکلنے کی سنتیں مجھے بتائیں، بیوی کے ساتھ سلوک کی سنتیں مجھے بتائیں، ماں باپ کے ساتھ سلوک کی سنتیں بتائیں، پڑوسیوں کے ساتھ سلوک کی سنتیں بتائیں، عام مسلمانوں کے ساتھ سلوک کی سنتیں بتائیں، معلوم کریں، ایک ایک چیز پوچھیں اور پوچھ پوچھ کے عمل کریں، تو آپ دیکھیں کہ آپ کی زندگی مبارک ہو جائے گی، آپ کی زندگی طاقت ور ہو جائے گی، آپ کو الله تعالیٰ عزتوں سے نوازیں گے، الله تعالیٰ کا م یابیاں عطا فرمائیں گے۔
الله تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾ ․