اس وقت کئی مسائل اُمت اور بالخصوص علماء اُمت کے سامنے ہیں ، ان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم مفتوح ہوتی ہے تو زمینی اور عسکری شکست آہستہ آہستہ اس کو ذہنی شکست تک پہنچادیتی ہے ، اس کا اثر شکست خوردہ حکمرانوں پر تو زیادہ ہوتا ہے ؛ لیکن قوم کے اہل علم پر بھی کچھ کم نہیں ہوتا ، اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مغرب نے ایک ایسا عالمی نظام قائم کیا ہے ، جس کے ذریعہ ملک و زمین پر قبضہ کرنے کے بجائے حکمرانوں پر اور ملک کے معاشی وسائل پر قبضہ کرلیا جائے ، معاشی وسائل سے معاشی فوائد اُٹھائے جائیں ، جیساکہ مسلم ملکوں کی موجودہ صورتِ حال ہے ، مغربی ممالک نے ان کے بیش قیمت قدرتی وسائل کو اپنے ہاتھوں میں کرلیا ہے ، انھیں اس کی قیمت کا بہت معمولی حصہ ادا کیا جاتا ہے اور وہ مجبور ہیں کہ اپنے وسائل کا غالب ترین حصہ ان ہی ملکوں کے بینکوں میں رکھیں ، انھیں عطیات دیں اور ان سے ایسے ہتھیار خریدیں ، جس سے بیچنے والے کی معیشت کو تقویت پہنچے اور جن کی خریدنے والوں کو کوئی ضرورت نہیں ہو ، اس کی وجہ سے مسلم ممالک بیش قیمت قدرتی وسائل کے باوجود معاشی اور تعلیمی اعتبار سے جس پس ماندگی کا شکار ہیں ، وہ محتاجِ اظہار نہیں ہے ۔
حکم رانوں پر قبضہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ایسے مغرب زدہ لوگوں کو تخت ِاقتدار پر بٹھادیا جاتا ہے ، جو خود اپنے عوام کے درمیان مقبول نہیں ہوتے ، ان سے ایسے کام کرائے جاتے ہیں کہ ان کے عوام ان سے اور دُور ہوجائیں ، پڑوسیوں کے ساتھ ان کے جھگڑے کھڑے کردیئے جاتے ہیں اور انھیں سازش سے دوچار کرتے ہوئے برادر مسلم ملک سے لڑا دیا جاتا ہے ، نیز انھیں احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کا اقتدار مغربی فوجوں کی مدد پر قائم ہے ، اگر انھوں نے مغرب کے کسی حکم سے سرتابی کی تو نہ صرف وہ اقتدار سے محروم ہوجائیں گے ؛ بلکہ ایسی عبرتناک سزا سے دوچار کیے جائیں گے ، جس کی مثال ان کے گرد و پیش میں موجود ہے ، اس تسلط کو اسلام کی مخالفت اور مغرب کے تہذیبی غلبہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، جو قوانین شریعت کے مطابق ہیں ، انھیں غیر انسانی قرار دے کر تبدیل کرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان سے ایسے قوانین نافذ کرائے جاتے ہیں جو مغرب کی سوچ اور ان کے طرز عمل سے ہم آہنگ ہیں ۔
اب اس کے بعد علماء کی باری آتی ہے ؛ چوں کہ عام مسلمانوں کے دل میں قرآن و حدیث کی عظمت دین و شریعت کی وقعت اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے ، اور بہت سی عملی کوتاہیوں کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت آج بھی اپنے دین سے والہانہ تعلق رکھتی ہے ، اس لیے حکم رانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس مغرب نوازی کا کوئی شرعی جواز حاصل کرلیا جائے ، پھر علماء کے گروہ کو تیار کیا جاتا ہے کہ حکومت جو کچھ چاہتی ہے ، وہ اس کے لیے کوئی بنیاد تلاش کریں ، خواہ اس کے لیے قرآن و حدیث کی دو راز کار تاویل کی نوبت آجائے اور فقہاء کے اقوال تلاش کیے جائیں ، خواہ یہ کیسا ہی شاذ ، نامقبول اور معتبر اہل علم کے نزدیک ناقابل اعتناء قول ہو ، یہ بات صرف مسلم ملکوں کے زیر اثر نہیں ہوتی ؛ بلکہ مسلم اقلیت ممالک میں بھی ہوتی ہے کہ شریعت کی جن باتوں پر معاندین کی طرف سے انگلی اُٹھائی جائے ، اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے اور جو باتیں غیر مسلم حکومت اور غیر مسلم سماج کے نزدیک درست ہیں ، ان کے لیے گنجائش پیدا کی جائے ، یہ بہت ہی خطرناک بات ہے اور دین میں انحراف کا راستہ ہے ، یہ وہی راستہ ہے جسے عیسائیوں نے رومیوں کے درمیان عیسائیت کو مقبول بنانے کے لیے استعمال کیا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس عقیدہ توحید کی دعوت دی تھی ، اس کو چھوڑ کر رومیوں کے ہاں موجود سابق عقیدہ تثلیث کی جگہ ایک نئی تثلیث کا تصور پیش کیا گیا ، جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور روح القدس کو تخت خدائی پر بٹھادیا گیا اور یہ تثلیث کچھ اس طرح عیسائیت کا حصہ بن گئی کہ آج تک عیسائی دنیا تحریف سے پاک حقیقی عیسائیت کی طرف واپس نہ آسکی ؛ بلکہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائی تاریخ کے اس حادثہ سے پردہ نہ اُٹھایا ہوتا تو آج بھی دنیا اس سے بے خبر ہوتی ۔
مسلمانوں کا عہد بھی ایسے واقعات سے خالی نہیں رہا ؛ بلکہ یہاں تک ہوا کہ بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے حدیثیں گھڑی جانے لگیں ، غیاث بن ابراہیم عباسی خلیفہ مہدی کے دربار میں آیا اور اس کو کبوتر بازی میں مشغول دیکھا تو بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے اپنی طرف سے اوجناح (کبوتر بازی) کا اضافہ کرتے ہوئے روایت نقل کردی:” لا سبق الا فی نصل او خف او حافر او جناح ( نزہة النظر فی توضیح نخبة الفکر:224) تاکہ بادشاہ کی کبوتر بازی کا جواز پیدا ہوجائے ، اسی طرح بنو ہاشم اور بنو اُمیہ کے مناقب و مثالب پر مشتمل روایتیں وضع کی گئیں ۔
اموی اور عباسی دور میں بادشاہوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ جس سفاکیت اور درندگی کا ثبوت دیا اور من چاہے احکام جاری کیے ، درباری علماء ان پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہے ، یزید بن عبد الملک کو چالیس شیوخ نے آکر فتویٰ دیا کہ خلیفہ جو مرضی ہو، کرے ، خلفاء سے اللہ کے یہاں کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا ، ( تاریخ الاسلام للذہبی :2/180)
ہندوستان میں جب اکبر کا دور آیا تو علماء کی طمع و حرص نے ان کو اس مقام پر پہنچادیا ، جس کی کسی دنیا دار سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی ، شیخ مبارک نے اکبر کے حق میں ایک محضر تیار کیا ، جس کا ایک اقتباس اس طرح تھا :خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اور حضرت سلطان الاسلام کہف الانام امیر المومنین ظل اللہ علی العالمین ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ غازی ، خدا اس کی حکومت ہمیشہ قائم رکھے ، سب سے زیادہ عدل والے ، عقل والے اور علم والے ہیں ، اس بنیاد پر ایسے مسائل میں ، جن میں مجتہدین باہم اختلاف رکھتے ہیں ، اگر وہ اپنے ذہن ثاقب اور صائب رائے کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے مد نظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اسی کو مسلک قرار دیں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا یہ فیصلہ اتفاقی سمجھا جائے گا ۔ ( منتخب التواریخ : ، ترجمہ:حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی )
شیخ مبارک کے بارے میں خواجہ باقی باللہ کے صاحبزادے خواجہ کلاں کا بیان ہے کہ وہ سلطان ابراہیم لودھی کے عہد حکومت میں کٹر سنی، سوریوں کے دورِ حکومت میں مہدوی ، ہمایوں کے زمانہ میں نقشبندی اور اکبر کے عہدِسلطنت میں صلح کل کا علمبردار بن کر مشرب اباحت پر گامزن ہوا ، ہر دور میں اس کا وہی مسلک اور مذہب ہوتا تھا ، جس پر اس عہد کے حکمراں اور امراء گامزن ہوئے تھے ۔ ( دین الٰہی اور اس کا پس منظر :51)
شیخ مبارک کے بیٹے ابوالفضل و فیضی بڑی علمی لیاقت کے مالک اور کئی زبانوں سے واقف تھے ، جس کا اندازہ قرآن مجید کے غیر منقوط ترجمہ سے لگایا جاسکتا ہے ، ابوالفضل نے مہا بھارت کا فارسی ترجمہ کیا اور اس کے مقدمہ میں اکبر کی تعریف و توصیف میں مبالغہ کی انتہا کردی ، اسی دور میں مخدوم الملک مولانا عبد اللہ سلطان پوری نے حج کے ساقط ہونے کا فتویٰ دے دیا اور جب ان کے آبائی قبرستان کو کھولا گیا تو تین کروڑ مالیت کا سونا برآمد ہوا ، صدر الصدور عبد النبی زکوٰة میں خود بھی حیلہ پر عمل کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کا فتویٰ دیتے تھے ۔ (دین الٰہی اور اس کا پس منظر:51)
بعض صوفیاء نے وحدة الوجود کے عنوان سے بادشاہ کو مظہر الٰہی قرار دے کر بادشاہ کو سجدہ کرنا جائز ٹھہرایا ، علامہ بدایونی مفتیوں اور قاضیوں کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
نو روز کے جشن کی محفلوں میں علماء و صلحا ؛ بلکہ قاضی اور مفتی بھی شراب نوشی کرتے، اور بد دین بادشاہ علمائے سو کی اس کیفیت کو دیکھ کر بڑے ناز سے یہ شعر پڑھتا تھا :
در عہد بادشاہ خطا بخش و جرم پوش
حافظ قرابہ کش شد و مفتی پیالہ نوش
(منتخب التواریخ:309)
اسی لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
افضل الجہاد کلمة عدل عند سلطان جائر او امیر جائر ۔ ( ابوداود ، عن ابی سعید الخدری ، کتاب الملاحم ، حدیث نمبر :4344)
بہترین جہاد ظالم سلطان یا امیر کے سامنے انصاف کی بات کہنا ہے۔
علامہ خطابی نے ظالموں کے سامنے حق کی ترجمانی کو افضل الجہاد قرار دینے کی حکمت پر بڑا اچھا نکتہ لکھا ہے :
”إنما صار ذلک أفضل الجہاد ؛ لأن من جاھد العدو کان متردداً بین رجاء وخوف ، لا یدری ھل یغلب أو یغلب ؟ وصاحب السلطان مقہور فی یدہ فہو إذا قال الحق ، وأمرہ بالمعروف ، فقد تعرض للتلف ، فصار ذٰلک أفضل أنواع الجہاد من أجل غلبة الخوف ․“ (معالم السنن:4/350)
یہ اس لیے افضل جہاد ہے کہ جو دشمن سے جہاد کرتا ہے، وہ امید اور خوف کے درمیان ہوتا ہے، اس کو نہیں معلوم کہ وہ غالب رہے گا یا مغلوب؟ اور جس کا سامنا سلطان سے ہوتا ہے، وہ بادشاہ کے ہاتھ میں قہر کا شکار ہوتا ہے، اگر اس نے حق بات کہی اور اس کو نیکی کی دعوت دی تو اپنے آپ کو ہلاکت کے لیے پیش کر دیا؛ لہٰذا یہ خوف کے غلبہ کی وجہ سے افضل ترین جہاد ہے۔
کلمہ حق کا لفظ عام ہے اور اس میں مظلوم کی نصرت کے ساتھ ساتھ دین حق اور شریعت کی نصرت بھی شامل ہے ، اسی لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان علماء کو پسند نہیں فرمایا جو دربار شاہی کا چکر لگاتے رہتے ہوں ؛ کیوں کہ جو لوگ حکمرانوں کے یہاں آمد و رفت رکھتے ہیں وہ فتنہ سے محفوظ نہیں رہتے: ومن اتی ابواب السلطان افتتن ۔ (ترمذی:4/106، حدیث نمبر :2256)
فتنہ کا شکار ہونے سے مراد یہ ہے کہ ان کا مداہنت سے بچنا دشوار ہوتا ہے ؛ چناں چہ ایک دوسری حدیث میں ہے :”فمن دخل علیھم فصدقھم بکذبھم واعانھم علی ظلمھم فلیس منی ولست منہ ولیس بواردٍ علیّ الحوض ، ومن لم یدخل علیھم ولم یعنھم علی ظلمھم ولم یصدقھم بکذبھم فھو منی وانا منہ، وھو وارد علَیّ الحوض ․“ (رواہ النسائی:4208-4207 ، ترمذی:2259 ، مسند احمد :18126)
اسی لیے اگرچہ ایسے علماء ربانیین بھی اُمت میں رہے ہیں ، جنھوں نے حکومت کے قرب کو حکمرانوں کی اصلاح اور شریعت کی حفاظت و تنفیذ کے لیے استعمال کیا ، جیسے امام ابویوسف ؛لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم رہی، اکثریت ان لوگوں کی تھی ، جو حکومت وقت کے مطعون رہے اور انھیں آزمائشوں سے گذرنا پڑا ، یہ امام ابوحنیفہ ہیں ، جنھیں یک دو نہیں ، سو کوڑے لگائے گئے ، قید کی سزا برداشت کرنی پڑی اور قید خانے ہی میں ان کی وفات ہوئی :”فضرب مائة سوط وحبس، ومات فی السجن․“ (مناقب الامام ابو حنیفہ و صاحبیہ:1/27، ، المولف شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز الذہبی ،المتوفی :748)یہ امام مالک ہیں جنھیں جعفر بن سلیمان نے اَسّی کوڑے لگوائے ، صرف اس لیے کہ وہ حالت اکراہ کی بیعت کو نامعتبر قرار دیتے تھے اور ایک موقع پر ان کے ہاتھ اس طرح کھنچوائے کہ بازو مونڈھوں سے الگ ہوگیا ، (ترتیب المدارک:2/133) یہ امام شافعی ہیں قریب تھا کہ عباسی خلیفہ ہارون رشید ان کو قتل کرادیتا ؛ لیکن امام محمد کی سفارش نے ان کی جان بچائی ، (الانتقاء فی فضائل الثلاثة الائمة الفقہاء مالک والشافعی وابی حنیفة:1/96) یہ امام احمد بن حنبل ہیں جن کو ایسی ابتلاء و آزمائش سے گذرنا پڑا کہ اسلام کی تاریخ میں شاید ہی کسی عالم کو دین پر استقامت کی ایسی سزا ملی ہو ۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے :سیر اعلام النبلاء :11/255)
اور یہ امام محمد بن حسن ہیں جنھوں نے ایک مظلوم کی حمایت میں فتویٰ دیا اور حسن بن زیاد نے ان کے فتوے کی تائید کی ؛ لیکن قاضی وہب ابن وہب نے خوشامد میں اس مظلوم کے خلاف فتویٰ دیا ، جس کو بادشاہ قتل کرنا چاہتا تھا ؛ چناں چہ ہارون نے اپنے سامنے پڑی ہوئی دوات اُٹھاکر اس زور سے امام محمد کے چہرے پر ماری کہ آپ کا چہرہ زخمی ہوگیا ، امام محمد باہر نکل آئے اور دیر تک روتے رہے ، جب پوچھا گیا کہ ایک زخم پر جو اللہ کے راستے میں لگا ہے ، آپ اس قدر روتے ہیں ، تو امام محمد نے فرمایا : نہیں ، اس لیے رورہا ہوں کہ مجھے مخالف فتویٰ دینے والے سے پوچھنا چاہیے تھا کہ تم نے یہ فتویٰ کس بنیاد پر دیا؟ اور حق گوئی سے کام لیتے ہوئے اس کے خلاف حجت قائم کرنی چاہیے تھی ، چاہے میں قتل کردیا جاتا ۔ (اخبار ابی حنیفة واصحابہ :126)
علامہ ابن تیمیہ بھی ایسی ہی آزمائش سے گذرے ، علامہ سرخسی نے اوزجند کے قید خانے میں ایک مدت
گذاری اور وہیں پندرہ جلدوں میں المبسوط جیسی فقہی انسائیکلو پیڈیا مرتب فرمائی ، (الجواہر المضیة فی طبقات الحنفیہ:2/28)اور بعض اہل علم کے قول کے مطابق اندھے کنویں میں قید کردیئے گئے ، وہ وہیں سے کتاب املا کراتے تھے اور ان کے تلامذہ کنویں کے منڈھیر پر اسے تحریر کرتے تھے ۔ (تاج التراجم لابن قطوبغا :235)
امام سعید بن جبیر کو حجاج ابن یوسف نے جانور کی طرح ذبح کرادیا ؛ لیکن ان کے لہجہ میں کہیں باطل کے سامنے سرنگوں ہونے کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوسکا ، ( وفیات الاعیان:2/373) امام سعید بن مسیب کو عبد الملک بن مروان نے سرد موسم میں پانی ڈلواکر پٹوایا اور ایک اور موقعہ پر پچاس کوڑے لگاکر سربازار تشہیر کرائی ، (وفیات الاعیان:2/376) عمیر بن ہبیرہ یزید بن عبد الملک کی طرف سے عراق و خراسان کا والی بنایا گیا اور اس نے حضرت حسن بصری سے ایک سوال کیا ، جس کا مقصد ان کو پھنسانا تھا ، حسن بصری نے فرمایا :
اے ابن ہبیرہ!یزید کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور اللہ کے معاملہ میں یزید کا خوف مت کرو ، اللہ تعالیٰ تجھ سے یزید کے شر کو دفع کرسکتا ہے ، مگر یزید اس احکم الحاکمین کے قہر کو نہیں روک سکتا ۔ ( وفیات الاعیان:2/17)
والی مصر ابن سہیل امام یزید ابن حبیب تابعی کی عیادت کو آیا اور دریافت کیا کہ جس کپڑے کو مچھر کا خون لگا ہو ، اس میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟ امام نے غصہ سے کہا کہ تو روزانہ اللہ کے بندوں کا خون بہاتا ہے او رمچھر کے خون کے بارے میں مسئلہ پوچھتا ہے ، (تذکرة الحفاظ:1/130) امام اوزاعی ، سفیان ثوری ، امام اعمش کوفی ، عبد اللہ ابن طاوس وغیرہ کتنے ہی علماء و فقہاء ہیں کہ حق گوئی اور بے باکی نے ان کی جان جوکھم میں ڈال دی اور وہ بادشاہوں کے ہاتھ سے قتل ہوتے ہوتے بچے ۔
غرض کہ سلف صالحین اور علماء ربانیین کی پوری تاریخ ایسے واقعات سے پُر ہے جو ہمیں استقامت اور ثابت قدمی کی راہ دکھاتی ہے ، افسوس کہ سائنسی اور صنعتی ترقی کے اس دور میں بھی بیشتر مسلم ممالک میں شورائیت کے فقدان اور آمرانہ نظام کے غلبہ کی وجہ سے صورت حال میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے ، ان کے یہاں سیاسی قیدیوں کی تعداد دنیا بھر میں شاید سب سے زیادہ ہے اور ان قیدیوں میں بڑی تعداد علماء کی ہے ؛ اسی لیے وہاں کے اہل علم کی ایک اچھی خاصی تعداد مغربی ملکوں میں پناہ لیے ہوئی ہے ؛ کیوں کہ مسلمان ملکوں کے مقابلہ انھیں وہاں زیادہ امن ، انصاف اور آزادی میسر ہے ، لیکن ان کی آزمائش زیادہ تر تعذیب کے بجائے تحریص سے کی جاتی ہے ، طمع دے کر ایسی باتیں کہلوانے کی کوشش کی جاتی ہے ، جو اسلام کے موقف اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہیں ، انھیں لوہے کی زنجیر کے بجائے سونے کی زنجیر سے مطیع و فرمانبردار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ، ہندوستان میں بھی مسلمان اس وقت اسی صورت حال سے گذر رہے ہیں اوراس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ کچھ نام نہاد علماء سے وہ باتیں کہوائی جائیں ، جو فاشسٹ طاقتیں چاہتی ہیں اور ان کو میڈیا کے ذریعہ اس طرح نمایاں کیا جائے کہ گویا مسلمانوں کے اصل ترجمان یہی ہیں ، یہ ایک بہت ہی خطرناک صورت حال ہے ، اللہ کا شکر ہے کہ سلف صالحین کی طرح آج سر کٹانے کی آزمائش درپیش نہیں ہے ؛ لیکن کم از کم اتنا تو ہو کہ کفر کے سامنے سر جھکانے سے اپنے آپ کو بچایا جائے ۔