حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
داڑھی کا استہزاء
اس معاشرے میں کچھ ایسے بدبخت اور بد نصیب لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو نہ صرف خود داڑھی نہیں رکھتے، بلکہ داڑھی کا مذاق اڑاتے ہیں ، تو جہاں تک مذاق اڑانے کی بات ہے تو علمائے کرام نے ایسے شخص پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے،چناں چہ ”کفایت المفتی“ میں ایک سوال کے جواب میں ہے: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے مولیٰ اور آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی تھی، تمام صحابہ کرام، تابعین عظام ،ائمہ اور علمائے دین داڑھیاں رکھتے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کے تاکیدی احکام ارشاد فرمائے اور اسی بنا پر تمام مسلمان داڑھی رکھنے کو ایک اسلامی شعار سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے رہے،اگرچہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ داڑھی منڈانے والے اسلام سے خارج ہیں، کیوں کہ اسلام صرف داڑھی رکھنے کا نام نہیں ہے، لیکن یہ ضرور کہاجاسکتا ہے کہ داڑھی منڈانے والوں کی صورت اور وضع اپنے مولیٰ اور آقا رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین اور ہادیان دین متین کی صورت اور وضع کے خلاف ہے اور جو لوگ کہ اس سنت نبویہ کی ہنسی اُڑائیں، تمسخر کریں، آوازیں کسیں ،ان کے ایمان کی خیر نہیں،کیوں کہ داڑھی رکھنا تو ایک موٴکد سنت ہے، ادنیٰ سی سنت کے ساتھ تمسخر کرنا کفر ہے۔ (کفایت المفتی،کتاب الحظر والإباحة: 9/179)
”فتاویٰ محمودیہ“ میں ہے:
داڑھی کا مذاق اڑانا سخت خطرناک امر ہے کہ نبی کریم اکی سنت کا مذاق ہے، اگر اس نیت سے مذاق اڑایا جاتا ہے تو کفر ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ: 2/537)
”فتاویٰ فریدیہ“ میں ہے:
داڑھی کی توہین اور بے عزتی کرنے والا کافر ہے، سنت انبیاء سے استہزاء نیز استقباح سنت کی وجہ سے آدمی کافر بن جاتا ہے۔ (فتاویٰ فریدیہ، فصل فی کلمات الکفر،1/115)
اسی طرح یہی فتویٰ ”فتاویٰ حقانیہ “ میں ہے: (فتاویٰ حقانیہ،1/250)
اسی طرح ”احسن الفتاویٰ“ میں ہے:
کسی ادنیٰ سے ادنیٰ سنت کو برا سمجھنا یا اس کا مذاق اڑانا درحقیقت اسلام اور حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استہزاء ہے، جس کے کفر ہونے میں کچھ شبہ نہیں، جب سنت سے استہزاء کفرہے تو داڑھی تو واجب ہے اورشعار اسلام ہے، ایک مشت سے کم کرنا بالاجماع حرام ہے، اس کا مذاق اڑانا بطریق اولیٰ کفر ہے۔(احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان،1/42)
اور جب ایک مسلمان اتنی بڑی سنت، بلکہ واجب کو بجالاتے ہوئے اپنے چہرے پر داڑھی رکھ لے تو پھر ان فساق فجار کی باتوں اور استہزا سے دل برداشتہ نہ ہو۔
ساری دنیا آپ کی حامی سہی
ہر قدم پر مجھ کو ناکامی سہی
نیک نام اسلام میں رکھے خدا
خلق کے حلقے میں بدنامی سہی
اور بسا اوقات ایک مسلمان داڑھی رکھنے کے بعد والدین، بیوی یا اور دیگر رشتہ داروں، دوستوں کے شیطانی وسوسے سے مغلوب ہوکر یا لوگوں کے استہزاء اور لعن طعن سے گھبرا کر اپنے آپ کو اتنی بڑی نعمت سے محروم کردیتے ہیں، تو یہ ایک مسلمان کا شیوہ نہیں، بلکہ شاید ابوطالب کا طریقہ ہے کہ جنہوں نے صرف لوگوں کے لعن طعن سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو اسلام جیسی بڑی عظیم دولت سے محروم رکھا۔
چناں چہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کو بوقت مرگ کہا کہ چچا ایک دفعہ، ”لاإلٰہ الا الله محمد رسول الله“ ، کہہ دو تو ابوطالب نے جواب میں کہا:
قد علمت بأن دین محمد
من خیر أدیان البریة دینا
لولا الملامة أو حذار مسبة
لوجدتنی سمحا بذا مبینا
(تفسیر البغوی، سورة البقرة، آیة:6، 1/64، ط:دارطیبة)
یعنی مجھے معلوم ہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین تمام ادیان سے افضل ہے، اگر مجھے لوگوں کی ملامت کاڈر نہ ہوتا تو مجھے آپ قبولیت حق میں جواں مرد پاتے۔
چناں چہ دین کے معاملے میں صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نودی پیش نظر ہو، مخلوق کی طرف التفات نہ ہو:
لوگ سمجھیں مجھے محروم وقار وتمکین
وہ نہ سمجھیں کہ مری بزم کے قابل نہ رہا
تیری رضا میں ہے گر سارا جہاں خفا ہم سے
اگر یہی ہے زیاں تب تو کچھ زیاں نہ ہوا
داڑھی منڈانے والا ہر وقت گناہ گار ہے
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:داڑھی ایک مشت سے کم کرانا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بدتر ہے، اس لیے کہ اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دین اسلام کی کھلی توہین ہے اور اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں۔
جیسا کہ بخاری شریف کی روایت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کل أمتي معافی إلا المجاھرین،وإن من المجاھرة أن یعمل الرجل باللیل عملا ثم یصبح وقد سترہ الله علیہ، فیقول: یافلاں عملت البارحة کذا وکذا، وقد بات یسترہ ربہ ویصبح یکشف ستر الله عنہ“․ (الجامع الصحیح للبخاري،کتاب الأدب، باب ستر الموٴمن علی نفسہ،رقم:6069)
اور داڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے، حتی کہ نماز وغیرہ عبادت میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلا ہے۔
داڑھی کی مقدار
داڑھی کے حوالے سے بعضے لوگ ایک بڑی غلط فہمی کا شکار بھی ہوتے ہیں یا ان کو بعضے نام نہاد علم کے دعوے دار اس غلط فہمی کا شکار کرتے ہیں، وہ یہ کہ بعضے لوگ داڑھی تو رکھ لیتے ہیں، لیکن پوری داڑھی نہیں رکھتے،یعنی ایک مشت،ایک مشت سے جو زائد ہو اس کو تو کاٹ سکتے ہیں، لیکن ایک مشت سے کم داڑھی کاٹنااور پھر یہ سمجھنا کہ میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔
ذیل میں ہم داڑھی او رداڑھی کی مقدار کے حوالے سے فقہی کتب وغیرہ کی عبارات اور حوالے پیش کرتے ہیں:
چناں چہ فقہ کی تقریباً تمام کتب میں یہ عبارت موجود ہے:
”وأما الأخذ منھا(أي من اللحیة) وھی دون ذلک أی دون القبضة کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الأعاجم․
داڑھی کا کٹانا جب کہ وہ ایک مشت سے کم ہو، جیسا کہ بعض مغربی لوگ اور ہیجڑوں کی طرح کے انسان یہ حرکت کرتے ہیں اس کو (فقہاء میں سے) کسی نے بھی جائز قرار نہیں دیا، اور پوری داڑھی کاٹنا تو یہودیوں اور مجوس کا فعل ہے۔ (الدر مع الرد، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع 2/418، والبحرالرائق، کتاب الصوم :2/490،و فتح القدیر، کتاب الصوم، باب مایوجب القضاء والکفارة :2/348، وحاشیة الطحطاوی علی الدرالمختار، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع:4/203، و فتاوی عالمگیری، کتاب الکراھیة، الباب التاسع عشر:5/358)
”مرقاة المفاتیح“ میں ہے :
” وقص اللحیة من صنع الأعاجم، وھو الیوم شعار کثیر من المشرکین کالأ فرنج والھنود، ومن لاخلاق لہ في الدین من الطائفة القلندریة․ (مرقاة المفاتیح، کتاب الطھارة، باب السواک:2/91)
”حجة الله البالغہ“ میں ہے:
واللحیة ھی الفارقة بین الصغیر والکبیر، وھی جمال الفحول وتمام ھیأتھم فلا بد من إعفائھا، وقصھا سنة المجوس، وفیہ تغییر خلق الله، ولحوق أھل السؤد والکبریا، بالرعاع․ (حجة الله البالغة، خصال الفطرة وما یتصل بھا:2/516)
داڑھی کی مقدار کے حوالے سے ”فتاوی محمودیہ“ میں تفصیلی فتوی موجود ہے:
”حدیث شریف میں صاف ”أعفوا اللحی“ أرخوا اللحی“ أوفروا للحی“ کے الفاظ موجو دہیں، جن کا ترجمہ ہے، داڑھی بڑھاؤ داڑھی لٹکاؤ، داڑھی زیادہ کرو، ان الفاظ کا تقاضا تھا کہ بڑھانے کی کوئی حد مقرر نہ ہوتی اور کٹانا بالکل جائز نہ ہوتا۔
مگر حدیث کے راوی صحابی کا معمول تھا کہ ایک مشت سے جو مقدار آگے بڑھ جاتی اس کو کٹا دیتے، اس حدیث کو امام محمد رحمہ الله نے ”کتاب الأثار“ میں روایت کیا ہے او راس کو امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا مذہب قرار دیا ہے۔
محمد قال أخبرنا أبوحنیفة عن الھیثم عن ابن عمر رضي الله عنہما أنہ کان یقبض علی لحیتہ ثم یقص ما تحت القبضة، قال محمد: و بہ نأخذ وھو قول أبي حنیفة․(کتاب الآثار، باب حف الشعر من الوجہ، ص:198،کسی صحابی سے منقول نہیں کہ ایک مشت تک پہنچنے سے پہلے کسی نے داڑھی کٹائی ہو، منڈانے کا تو وہاں سوال ہی نہ تھا، معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے اس حدیث شریف کا وہی مطلب سمجھا ہے او راسی پر اجماع ہے۔ (فتاوی محمودیہ، باب خصال الفطرة:19/398-397)
فتاوی علماء دیوبند:
علماء دیوبند کے سب فتاوی میں ایک مشت داڑھی رکھنا سنت مؤکد، واجب اور ایک مشت سے کم کاٹنے اور مونڈنے کو حرام قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:”امداد الفتاوی، 4/223، وکفایت المفتی کتاب الحظر والإباحة:9/170، و امداد الأحکام:4/346، فتاوی رحیمیہ، باب الإمامة والجماعة:4/200، و فتاوی مفتی محمود، باب الإمامة:2/150، و آپ کے مسائل او ران کا حل:3/548، وفتاوی حقانیہ:2/467)
داڑھی رکھوانے کی عجیب ترغیب
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”ڈھاکہ میں شہر سے دور شاہی باغ میں میں نے وعظ کیا ،وہاں سب نواب صاحب کی قوم کے لوگ تھے، جو داڑھی منڈے تھے، میں نے کہا کہ صاحبو! یہ تو مجھے امید نہیں کہ تم میرے کہنے سے داڑھی منڈانی چھوڑ دو گے، مگر یہ توکیا کرو کہ ہرروز سوتے وقت ایک دفعہ یہ خیال کر لیا کرو کہ یہ کام بہت بُرا ہے، ہم بڑے نالائق ہیں ، بڑے خبیث ہیں، اس طرح ہرروز اپنے آپ کو ملامت کر لیا کرو۔
وعظ کے بعد نواب صاحب نے کہا کہ آپ نے ایسی تدبیر بتلا دی کہ کبھی داڑھی منڈا نہیں سکتے، میں نے کہا کہ ہاں میں چاہتا بھی یہی ہوں۔ (ملفوظات حکم الامت:26/220)
اگر میں عمامہ باندھ لوں گا تو بیوی بچے، گھر والے، دفتر والے، عزیز واقارب باتیں کریں گے کہ کیا حلیہ بنا لیا ہے۔ (عمامہ باندھنا مسنون ہے، حدیث میں ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”علیکم بالعمائم فإنھا سیماء الملائکة وأرخوا لھا خلف ظھورکم․“ (المعجم الکبیر للطبرانی، عبدالله بن عمر بن الخطاب رضي الله عنہما، رقم:13418، وشعب الإیمان للبیہقي، فصل فی العائم، رقم:6262)
عمامے باندھو اس لیے کہ عمامے فرشتوں کی علامت ہیں، اورعمامے کا شملہ پیٹھ کے پیچھے لٹکاؤ۔
اسی طرح حدیث میں ہے:
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرق ما بیننا وبین المشرکین العمائم علی القلانس“ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپیوں پر پگڑیاں باندھنا ہے، یعنی مسلمان ٹوپی پر پگڑی پہنتے ہیں اورمشرکین ایسا نہیں کرتے۔ ( سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب في العمائم، رقم:4080، و سنن الترمذي، کتاب اللباس، باب العمائم علی القلانس، رقم:1784)
میرے دوستو! ہم عہد کریں کہ میں غیرت مند مسلمان بنوں گا، ہم مسنون زندگی گزاریں گے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتیں، طریقے سو سال دوسو سال، ہزار سال کے لیے نہیں ہیں بلکہ تا قیامت ہیں جیسے آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ، رسالت تا قیامت ہے اور آپ خاتم النبیین ہیں، ایسے ہی آپ کے طریقے بھی تا قیامت ہیں۔
حیرت اس پر ہے کہ آج مسلمان آپ صلی الله علیہ وسلم کے طریقے اختیار نہیں کرتا۔
آج مسلمانوں کا آئیڈیل کون ہے؟ بال ہم کس کے جیسے رکھنا پسند کرتے ہیں، چہرہ ہم کس کے جیسا بنانا چاہتے ہیں؟ لباس ہم کس کے جیسا پہننا چاہتے ہیں؟
میرے دوستو! یہ بہت بڑا سوال ہے، اپنے اندر سے پوچھیں، اپنے باطن سے پوچھیں کہ مجھے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ اچھا لگتا ہے، آپ کا لباس اور آپ کی وضع قطع اچھی لگتی ہے، یا ان کی اچھی لگتی ہے جو الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے دشمن ہیں۔
ہر مسلمان کو سوچنا چاہیے، ہر مسلمان کو اس پر غور کرنا چاہیے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ افغانستان میں ، لوگ کہتے ہیں کہ طالبان کی فتح ہو گئی، میں تو کہتا ہوں اسلام کی فتح ہو گئی، انہوں نے جو جنگ لڑی ہے وہ ہم سب کی طرف سے لڑی ہے، وہ پورے عالم اسلام کی طرف سے لڑی ہے، یہ جنگ زمین کی جنگ نہیں تھی، یہ جنگ حکومت حاصل کرنے کی جنگ نہیں تھی، یہ جنگ صرف اور صرف نظریے کی جنگ تھی اور وہ نظریہ ہے:” لا إلہ إلا الله محمد رسول الله“ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
چناں چہ جس کے دل میں ایمان ہو گا، جس کے دل میں حمیت ہو گی، جس کے دل میں غیرت ایمان او راسلام ہوگی ، اس کو خوشی ہو گی اور جو بے غیرت ہیں، بے حمیت ہیں، جن کے آئیڈیل اور نمونے اور ہیں ، ان کو تکلیف ہوگی۔
میرے دوستو دعا کریں الله تعالیٰ ہمیں اپنے احکامات پر چلنے اوراپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے مبارک، مسنون، زریں طریقوں کو غیرت کے ساتھ اور حمیت کے ساتھ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․