قال النبي صلی الله علیہ وسلم:”إنما بعثت معلماً“․
ترجمہ:” میں تو صرف معلم واستاذ کی حیثیت سے آیا ہوں“۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد بالا سیمعلوم ہواکہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی بعثت اور دنیا میں آپ کی تشریف آوری کا مقصد انسانی دل ودماغ میں ایسی دینی تعلیم کی روشنی پیدا کرنا ہے جس کے ذریعے انسان اپنے مالک حقیقی خدا وند عالم کی مرضی کے موافق زندگی بسر کرسکے اوروہ تعلیم انفرادی، اجتماعی، دنیاوی اور اخروی تمام حالات میں اس کی راہ نمائی او رہدایت کر سکے، اسلامی تعلیم کی اس ہمہ گیر جامعیت کے پیش نظر فطری اور طبعیطور پر اسلام میں تعلیم وتعلم ( علم سیکھنے اورسکھانے ) کو جتنی اہمیت حاصل ہے اتنی کسی مذہب میں نہیں ہے۔ اس اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر حکومت اسلامیہ کے ترقی اور عروج کے زمانے تک کے عام مسلمانوں کی اسلامی تعلیم کے ساتھ دل چسپی اوروابستگی کے چیدہ چیدہ مختصر حالات او رامراء او راحکام ِ اسلام کی علوم دینیہ کے اندر سعی اور کوشش کے چند واقعات پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
عہد رسالت او رمکی زندگی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کی بارہ سالہ زندگی میں صحابہ رضی الله عنہم او رمدد گار انِ رسول صلی الله علیہ وسلم پر رات دن حوادث وافکار کا ہجوم رہتا تھا، لیکن اس آزمائشی دو رمیں بھی جس قدر پُرسکون لمحے مسلمانوں کو مل جاتے تھے ان میں بھی وہ قرآن پاک کی خصوصی تعلیم کا اہتمام کیا کرتے تھے، اس دور کے ایسے تمام مقامات کوجن میں مسلمانوں نے ،خواہ تھوڑے عرصے کے لیے ہو، بیٹھ کر پڑھنے کا انتظام کیا تھا، ہم ان کو”دینی مدرسہ“ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
مدرسہ صحن ِ ابی بکر رضی الله عنہ
سب سے پہلے جس مقام کو ہم اس دور میں تعلیم کا مرکز کہہ سکتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق کا وہ چبوترہ ہے جو آپ کے گھر کے سامنے تھا، جس پر آپ نماز وقرآن پڑھا کرتے تھے او رکفار کے لڑکے او رعورتیں آپ کے گرد جمع ہو جاتے اور قرآن کو سنتے تھے، یہ بات کفا رکو ناگوار ہوئی او رانہوں نے صدیق اکبر کو اس چبوترے کے چھوڑنے پر مجبو رکیا۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق)
مدرسہ دارِ ارقم
مکی زندگی میں خاص ایسی جگہ جس میں مسلمان تعلیم کے لیے بلاروک ٹوک آتے جاتے ہوں او راس میں طلباء کے لیے کھانے پینے اورخوردونوش اور قیام کا انتظام ہو اس پریشانی کے دور میں بظاہر اس کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، مگر حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی جب ہم ارباب تاریخ وسیر کی دار ارقم کے متعلق بتائی ہوئی تفصیلات کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ یہ مقام کو ہِ صفا کے دامن میں تھا، جس میں رسول صلی الله علیہ وسلم تقریباً چالیس صحابہ کرام کے ساتھ قیام پذیر تھے، جن میں مرد اور عورتیں سب ہی شامل تھے، اس گھرکے قیام کے زمانے میں حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تھا۔ اس مکان میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مع صحابہ کرام کے قیام پذیر تھے اورباقاعدہ تعلیم وتعلم میں مشغول رہے، حضرت ابوبکر، حضرت حمزہ، حضرت علی رضی الله عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ اس مکان میں رہتے تھے او رسول صلی الله علیہ وسلم سے ان کا تعلیمی مشغلہ جاری تھا۔ اس مدرسہ دارِ ارقم کے نظام پر حضرت عمر کے بیان سے بھی روشنی پڑتی ہے، ان کے فرمان کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
”مسلمان ہونے والوں کو ایک ایک دو دو کرکے رسول صلی الله علیہ وسلم کسی صاحب حیثیت کے پاس بھیج دیتے تھے اور یہ لوگ اس کے پاس رہ کر کھانا کھاتے تھے، چناں چہ میرے بہنوئی کے گھر بھی دو آدمی موجو دتھے ، ایک خباب بن ارت تھے، خباب میرے بہنوئی او ربہن کے پاس جاجا کر قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ یہ مدرسہ دارارقم حضرت عثمان بن ارقم کے مکان میں تھا، یہ مکان اس زمانے میں دار ارقم کے بجائے اسلام کا مرکزی تعلیمی مقام ہونے کی وجہ سے دارالاسلام کے نام سے مشہور ہو گیا تھا“۔ (سیرت حلبیہ)
اسلام کے ابتدائی دور کے اس مختصر مدرسے کا نظام ناظرین کرام کے سامنے ہے کہ: طلباء کی تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی۔ یہی جگہ پڑھنے کی بھی تھی اور رہائش کی بھی۔طعام کا انتظام یہ تھا کہ طلباء مال دار صحابہ کے گھروں پر بطور وظیفہ کے کھانا کھایا کرتے تھے۔
اس ابتلا وآزمائش کے زمانہمیں تعلیم کے اس قدر انتظام اوراہتمام سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اسلام میں تعلیمی مراکز اور مدارس دینیہ کے قیام کی کتنی ضرورت واہمیت ہے۔
مدرسہ شعب ابی طالب ومدرسہ بیت فاطمہ
اس کے علاوہ مکہ معظمہ میں ہجرت سے قبل حضرت عمر رضی الله عنہ کے بہنوئی او ربہن کے مکان پر خباب بن ارت کے قرآن پڑھانے کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ نیز ”مدرسہ بیت فاطمہ او رمدرسہ شعب ابی طالب“(جس میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مع اپنے ساتھیوں کے7 نبوی سے لے کر10 نبوی تک قریش مکہ کے ظالمانہ مقاطعہ کرنے کی وجہ سے تین سال کا زمانہ اسارت گزارا ہے) میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا، اس کے نتیجے میں فضلائے مکہ کی ایک جماعت تیار ہو گئی اور دوسرے مقامات پر بھی وہ تعلیمی کام کرنے لگے۔
مدرسہ حبشہ
جب کفار کے ظلم وستم سے تنگ آکر بعض صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی تو انہوں نے وہاں بھی تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری رکھا، اس کو ”مدرسہ ارض ِ حبشہ“ کے نام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
مدنی زندگی
حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ہجرت سے بھی پہلے تعلیم دینے کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو مدینہ منورہ روانہ فرمایا، انہوں نے سعد بن ضرارہ کے مکان پر قرآن کا باقاعدہ سلسلہ جاری فرمایا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معدود ے چند کے علاوہ تقریباً تمام انصار مدینہ مسلمان ہوگئے اوراپنے بت توڑ دیے او رجب مصعب بن عمیر مدینے سے لوٹ کر رسول صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان کا خطاب ”مقریٴ“ یعنی معلم پڑ چکا تھا۔ (جمع الفوائد)
صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سب سے پہلے مقریٴ(استاد) کا لقب حضرت مصعب کے نصیب میں تھا، جس سے وہ معزز ہوئے اور انصارِ مدینہ کی مسجد بنی زریق میں حضرت رافع بن مالک اور بنی بیاضہ میں حضرت سعد بن ضرارہ پڑھایا کرتے تھے اور دار ِ سعد بن خیثمہ نیز بنو نجار، بنو عبدالاشہل، بنو ظفر اور بنو عمرو بن عوف وغیرہم کے محلوں میں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی تعلیمی مراکز اور مدارس قائم ہوچکے تھے۔
مدرسہ قبا
مدرسہ قبا کا تو ایک مستقل نظام تھا، جو حضور صلی الله علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی قائم ہوچکا تھا، کیوں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری سے پہلے ہی صحابہ کرام کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا او رمہاجرین عموماً قبا میں ہی قیام پذیر ہوتے تھے۔
مدرسہ صفہ
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی او رحجرہ شریفہ کی پشت پر، جانب شمال، باب جبرائیل اورباب النساء کے درمیان ایک وسیع چبوترہ”دکة الاغوات“ کے نام سے موسوم تھا اس پر جو حضرات فروکش ہوتے تھے وہ ”اصحاب صفہ“ کہلاتے تھے اور یہ چبوترہ کبھی اصحاب صفہ کا ”صفہ“ تھا ، یہاں پر طلبہ کا ہجوم رہتا ، بعض اوقات سینکڑوں کی تعداد ہو جاتی، تمام اصحاب صفہ کی مجموعی تعداد چار سو تک پہنچتی ہے، مختلف اوقات میں اس صفہ کے طلبہ کی تعداد ستر، اسی تک پہنچ جاتی تھی۔ حضرت معاذ بن جبل کو یہ کام سپرد تھا کہ جو امداد اصحاب ثروت کی طرف سے ان طلباء کے لیے آئے تو ان کی حفاظت کریں اور بحصہٴ مساوی تقسیم کریں۔ حضرت ابوہریرہ کے ذمہ طعام کا انتظام ہوتا تھا۔ کھانے کے سلسلے میں ایسا ہوتا تھا کہ کھجوروں کے گچھے مال دار صحابہ بھیج دیا کرتے تھے اوربعض مال دار صحابہ ان کو اپنے ساتھ لے جاتے اور انہیں کھانا کھلا دیتے تھے، ان میں حضرت سعد بن عبادہ نہایت فیاضی سے کام لیتے تھے ،حتی کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اَسی اَسی طلبہ ان کے گھر جاکر کھانا کھاتے تھے۔ (زر قانی)
جامعہ صفہ کے فاضلین قراء کہلاتے تھے۔ یہیں کے طلباء نے دنیا میں اسلام کے علوم کو پھیلایا اور وہی حضرات تعلیمی خدمات کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ عہد رسالت میں جامعہ صفہ کے علاوہ مدینہ منورہ کے اندر دوسرے مدارس کا ذکر بھی علامہ سمہودی نے کیا ہے، بعض کا ذکر اوپر اجمالاً ہو چکا ہے۔
عہد خلافت راشدہ
عہد رسالت کے بعد خصوصیت سے حضرت عمر نے اپنے عہد خلافت میں حجاز او رہر اسلامی آبادی میں قرآن مجید کی تعلیم کے لیے مستقل حلقے او رمکاتب قائم فرمائے، حضرت ابوالدرداء کو دمشق میں شام کی جامع مسجد میں قرآن پاک کی تعلیم کے لیے مقرر فرمایا، ایک مرتبہ طلباء کا شمار کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ سولہ سو(1600) طالب علم ان کے حلقہ درس میں شریک ہیں۔ (طبقات القراء للذہبی:606) قرآن مجید کے ساتھ حضرت عمر نے درس حدیث کے حلقے قائم فرمائے، اس کام کے لیے حضرت عبدالله بن مسعود کو ایک گروہ کے ساتھ کوفہ اور معقل بن یسار عبدالله بن معقل اور عمران بن حصین کو بصرہ اور عبادہ بن صامت اور ابودرداء رضی الله عنہم کو شام میں مقرر فرمایا اور لوگوں کو تاکید کی کہ ان سے علم حدیث کی تحصیل کریں۔ (ازالة الخفاء) علامہ ابن الجوزی نے سیرة العمرین میں لکھا ہے کہ حضرت عمر نے جو مکاتب قائم کیے تھے ، ان میں معلمین کی تنخواہیں مقرر تھیں اور ہر معلم کو پندرہ پندرہ درہم بیت المال سے ملتے تھے۔ حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں ان مدارس کو اور زیادہ وسعت ہوئی او رتمام ممالک مفتوحہ میں جابجا مکاتب اور مدارس قائم ہو گئے۔
عہد خلفاء وامرائے اسلام
عہد رسالت اور خلافت راشدہ کے بعد اسلامی آباد اور فتوحات میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی مکاتب میں بھی ترقی ہوتی گئی، یہاں تک کہ خلفاء اور امراء اوراَ رباب ثروت نے اپنے گھروں میں بھی تعلیمی انتظام کیا او رکوئی قابل ذکر اسلامی آبادی ایسی نہیں ملتی جس میں درس وتدریس کا انتظام نہ ہو، تعلیم مفت ہوتی تھی، غریب طلبہ کے کھانے پینے اورلکھنے پڑھنے کی ضروریات بغیر کسی معاوضے کے پوری ہوتی تھیں۔ عہد قدیم کے علمی حلقوں کی اب دو علمی یادگاریں باقی ہیں۔
تیونس کی جامع زیتون ہے، جو تیسری صدی ہجری میں قائم ہوئی، یہ درس گاہ اس زمانے کے عام طرز کے مطابق تیونس کی جامع اعظم میں قائم ہے اور شروع سے اب تک خاص عظمت وشہادت کی مالک ہے۔
مصر کی جامع ازہر ہے، یہ عظیم الشان جامع مسجد فاطمی سلاطین ِ مصر کے زمانہ کی یاد گار ہے، جامع ازہر کی تکمیل361ھ میں ہوئی ہے، مگر اس کی علمی زندگی کی ابتدا چوتھی صدی اواخر سے ہوئی ہے۔ مسجد کا وسیع صحن ہے او راندرونی حصہ قدیم طرز کے علمی حلقوں کی درس گاہوں کے طور پر کام آتا ہے۔ جامع ازہر اسلامی دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم یونی ورسٹی ہے، جو ایک ہزار سال سے جاری ہے اور آج جب کہ تقریباً تمام قدیم مدارس صفحہ ہستی سے محو ہوچکے ہیں، یہ یونی ورسٹی قدیم شان وشوکت کے ساتھ باقی ہے، دس پندرہ ہزارطلباء اس کے اندر تعلیم حاصل کرنے والے اورسینکڑوں اساتذہ اس میں تعلیم دینے کے لیے موجود رہتے ہیں۔
جامع ازہر کے مصارف واخراجات کے لیے مصر کے مختلف سلاطین نے جو جاگیریں وقف کی ہیں ان کی سالانہ آمدنی لاکھوں پونڈ ہے، ابھی قریب زمانہ میں دوسری جنگ عظیم سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ مصر کے سابق شاہ فاروق نے اپنی جیب خاص سے ساٹھ ہزار مصری پونڈ جامع ازہر کو عطیہ کیے تھے۔ حکومت کی سرپرستی اور اوقاف کی آمدنی کی بدولت آج بھی یہ جامع ازہر اپنے اقتدار اور عظمت کے لحاظ سے اس درجہ اونچا اور بلند ہے کہ شیخ الازہر کے منصب کو مصر کی وزارت عظمیٰ سے بڑھ کر سمجھا جاتا ہے۔
علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ ” مدرسے کے بانی اول اہل نیشاپور ہیں، جہاں سب سے پہلے مدرسہ بیہقیہ کی بنیاد ڈالی گئی۔(2/362) تاریخ فرشتہ میں ہے کہ 410ھ میں سلطان محمود غزنوی نے اپنے پایہ تخت غزنی میں ایک جامع مسجد عروس الفلک کے نام سے تعمیر کرائی اور اس کے ساتھ ایک عظیم الشان مدرسہ بھی تعمیر کرایا تھا، مدرسے کے ساتھ کتب خانہ بھی تھا، جونادر الوجود کتابوں کے ساتھ معمور تھا، مسجد ومدرسہ کے اخراجات کے لیے سلطان نے بہت سے دیہات کی آمدنی وقف کی تھی“۔ سلطان محمود کی اس مثال سے تھوڑے ہی دنوں میں غزنی کے اطراف وجنوب میں بے شمار مدارس قائم ہو گئے اور سلطان کے فرزند سلطان مسعود نے تو اپنے عہد سلطنت میں اس کثرت سے مدرسے قائم کیے کہ تاریخ فرشتہ کے بیان کے مطابق زبان اس کے شمار کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔ اسی زمانے میں ابن خلکان کی روایت کے مطابق علامہ ابو اسحاق اسفرائنی (المتوفی418ھ) کے لیے نیشاپور میں ایک مدرسہ قائم ہوا۔
ان مدارس کے قیام کے کچھ عرصہ بعد دولت سلجوقیہ کے علم دوست وزیر نظام الملک طوسی(متوفی485ھ) نے نیشاپور اور بغداد میں دو دارالعلوم قائم کیے ، جن کو تاریخ کے اوراق میں ”نظامیہ“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دارالعلوم کے لیے جو بغداد میں 459ھ میں قائم ہوا تھا چھ لاکھ دینار ( تیس لاکھ روپے) کی گراں قدر رقم شاہی خزانے سے مقرر تھی اور نظام الملک نے خود اپنی جاگیر کا دسواں حصہ اس کے لیے وقف کر دیا تھا، طلباء کے لیے وظائف کا انتظام کیا گیا او راساتذہ کے لیے بیش قرار مشاہرے مقرر کیے گئے۔ نظام الملک نے نہ صرف نیشاپور میں اور بغداد میں ہی دارالعلوم قائم کیے، بلکہ اس نے حکم دے دیا کہ ملک میں جس جگہ بھی کوئی ممتاز عالم موجود ہوں وہاں اس کے لیے ایک مدرسہ او رمدرسہ کے ساتھ ایک کتب خانہ تعمیر کر دیا جائے، چناں چہ اس زمانے میں ہزاروں مدارس اورکتب خانے قائم ہوئے، اس سے قبل سلطان محمود غزنوی او راس کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی نے اپنے اپنے عہد میں بکثرت مدارس قائم کیے تھے، نظامیہ کے قیام سے قبل بھی اس نیشاپور میں سعدیہ اور بیہقیہ نام کے دو بڑے دارالعلوم موجود تھے۔ سعدیہ سلطان محمود غزنوی کے بھائی امیر نصر نے قائم کیا تھا، امام الحرمین ( امام غزالی کے استاد) نے بیہقیہ میں تعلیم پائی تھی، جب نظامیہ قائم ہوا تو امام الحرمین کو اس کا صدر بنا دیا گیا۔
امام غزالی جیسے یکتائے زمانہ نظامیہ کے خوشہ چینوں میں ہیں۔ نظامیہ کے علاہ بغداد میں تیس او ربڑے دارالعلوم قائم تھے، جن کے متعلق علامہ ابن جریر نے لکھا ہے کہ ”ہر مدرسہ بجائے خو دایک مستقل آبادی معلوم ہوتا تھا“ نظام الملک کے بعد خلیفہ مستنصربالله عباسی نے بغداد میں 631ھ میں ایک دارالعلوم المستنصریہ کے نام سے قائم کیا۔ طلباء کے قیام وطعام، کاغذ، قلم، دوات وغیرہ اشیاء بھی مدرسے سے ملتی تھیں، اس کے علاوہ ایک دینار ( تقریباً5 روپے) ہر طالب علم کو ماہانہ وظیفہ ملتا تھا، خلیفہ مستنصر بالله نے ان مصارف کے لیے جووقف کیا تھا اس کی آمدنی آج کل کے حساب سے چار لاکھ روپے سالانہ بنتی ہے۔
ہندوستان
ہندوستان میں اسلامی حکومت کا مستقل قیام ساتویں صدی ہجری کے شروع میں قطب الدین ایبک(602ھ/606ھ) سے شروع ہوتا ہے، اس پر بمشکل ایک صدی گزری تھی کہ ہندوستان علوم وفنون کا گہوارہ بن چکا تھا۔
علامہ مقریزی نے کتاب الخطط میں سلطان محمد تغلق کے زمانے کے دہلی کی نسبت لکھا ہے کہ ”سلطان محمد تغلق کے عہد میں دہلی کے اند رایک ہزار اسلامی مدارس قائم تھے، جن میں مدرسین کے لیے شاہی خزانے سے تنخواہیں مقررتھیں، تعلیم اس قدر عام تھی کہ کنیزیں تک حافظ قرآن اور عالمہ ہوتی تھیں“۔
فیروز شاہ تغلق کے تعمیر کرائے ہوئے مدرسہ فیروز شاہی کے متعلق ضیاء برنی نے لکھا ہے : ” مدرسہ کی عمارت نہایت وسیع ہے او رایک بہت بڑے باغ کے اندر تالاب کے کنارے پر واقع ہے، ہر وقت سینکڑوں طلبہ، علماء وفضلاء یہاں موجود رہتے ہیں، باغ کے کنجوں میں سنگ مرمر کے فرش پر نہایت آزادی کے ساتھ علمی مشاغل میں منہمک نظرآتے ہیں۔“
عالم گیر اورنگ زیب کے عہد کے متعلق ایک سیاح نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے : ”سندھ کے مشہور شہر ٹھٹھہ میں مختلف علوم وفنون کے چار سو مدارس قائم تھے“۔
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی فرماتے ہیں کہ ”نواب نجیب الدولہ کی سرکار سے نو سو علماء کو وظائف ملتے تھے۔“(ملفوظات) روہیل کھنڈ جیسے غیر معروف خطے میں پانچ ہزار علماء مختلف مدارس میں درس دیتے تھے اورحافظ رحمت الله خان کی ریاست سے تنخواہ پاتے تھے۔
مختصر یہ کہ ہر زمانے میں مسلمانوں نے علم کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور سلاطین وامراء بھی علمی فیاضی اور علماء وطلباء کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کو نجات ِ اخروی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ سلاطین وامراء کی طرف سے علماء و طلباء کے لیے جائیدادیں وقف تھیں، ان کی آمدنی ان کے خوردونوش اور تعلیمی مصارف کے لیے کفیل تھی، اس طرح ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم تک تمام تعلیم عام اور مفت ہوتی تھی اور علماء وطلباء بھی اپنے اپنے متعلقین کے لیے کسب معاش سے مطمئن ہو کر فراغت وسکون ِ خاطر کے ساتھ درس وتدریس میں مشغول رہتے تھے، نہ تو منتظمین مدارس کو چندوں کی اپیل کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی، نہ ہی طلباء کو دست نگر سمجھ کر طالب علمی کو عزت نفس کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے تک یہی نظام تعلیم جاری تھا، دہلی، آگرہ، لاہور، ملتان جوں پور، لکھنؤ، خیرآباد، پٹنہ، اجمیر، سورت ، دکھن، مدراس، بنگال او رگجرات وغیرہ کے بہت سے مقامات علم وفن کے مرکز تھے۔ صرف ایک صوبہ بنگال کے متعلق ایک انگریز مصنف کبیری ہارڈی نے”بیکس مولر“ کے حوالے سے یہ کیفیت بیان کی ہے:
”انگریزی عمل داری سے قبل بنگال میں اسی ہزار مدار س تھے، اس طرح چار سو آدمیوں پر ایک مدرسہ کا اوسط نکلتا تھا، اسی صوبہ بنگال میں سلاطین وامراء نے مدارس کے لیے جو جائیدادیں وقف کی تھیں، ان اوقاف کا مجموعی رقبہ مسٹر جیمز گرانٹ کے مطابق بنگال کے چوتھائی رقبہ سے کم نہ تھا، اوقاف کے علاوہ سلاطین وامراء نقد وظائف کے ذریعہ سے اہل علم کی اعانت کرتے تھے۔ مدارس اور درس گاہوں کا ملک میں پھیلا ہوا یہ عظیم الشان سلسلہ کیوں کر ٹوٹا اور یہ مدارس ومکاتب کیوں تباہ ہو گئے، اس سوال کے جواب کے لیے بارہویں صدی ہجری اورا ٹھارویں صدی عیسوی کی ہندوستانی سیاسی تاریخ کا جاننا ضروری ہے“۔
ہندوستانی سیاسی تاریخ
ایسٹ انڈیا کمپنی جو ابتدا میں صرف تجارتی اغراض ومقاصد لے کر ہندوستان میں داخل ہوئی تھی، 1857ء میں پلاسی کی مشہور جنگ نے اس کو ایک نئی اور زبردست طاقت میں بدل دیا، یہ نئی طاقت جس زمانے میں ظہور پذیر ہوئی اس وقت بد قسمتی سے مرکزی طاقت پار پارہ ہو چکی تھی اورملک میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا، ہندوستان کی اس سیاسی کم زوری سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور وہ آہستہ آہستہ اپنی دسیسہ کاریوں اور ریشہ دوانیوں سے ملک پر قابض ہوتی چلی گئی، تا آنکہ انیسویں صدی کے اوائل تک پنجاب کے علاوہ پورے ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کر لیا، پرانے قانون اور قدیم نظام ِ تعلیم وتہذیب کو منسوخ کر دیا، جن قدیم مصارف کے لیے سلاطین وامراء نے طویل مدت سے بڑے بڑے اوقاف مقرر کیے تھے(جن کی کچھ تفصیل اوراق گزشتہ میں گزر چکی ہے ) کمپنی کی حکومت نے ان تمام اوقاف کو 1838ء میں ضبط کر لیا۔ وظائف حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی موقوف ہو چکے تھے، اس وقت تعلیم کا تمام تر دار ومدار ان ہی اوقاف پر تھا جو اس مقصد کے لیے مخصوص کیے گئے تھے۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے، جو بنگال میں ایک بڑے سول عہدے پر فائز تھا، 1871ء میں ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ نامی کتاب لکھ کر اس سلسلے کی تاریخی حقائق کو سرکاری کاغذات سے واشگاف کیا ہے۔ ہنٹر لکھتا ہے کہ ”صوبہٴ بنگال پر جب ہم نے قبضہ کیا تو اس وقت کے قابل ترین افسر مال جیمز گرانٹ کا بیان ہے کہ اس وقت صوبے کی آمدنی کا تخمیناً ایک چوتھائی حصہ، جو معافیات کا تھا، حکومت کے ہاتھ میں نہیں تھا“۔
1772ء وارن ہنٹینگز نے اور 1792ء میں لارڈ کالونواس نے معافیات کی واپسی کی مہم شروع کی، مگر ناکامی رہی۔1815ء میں حکومت نے اس معاملے کو زور سے اٹھایا، مگر عمل کی جرات نہ ہوسکی، آخر1838ء میں آٹھ لاکھ پونڈ کے خرچ سے مقدمات چلا کر ان معافیات اور اوقاف پر حکومت نے قبضہ پا لیا۔ صرف ان معافیات کی آمدنی سے حکومت کی آمدنی میں تین لاکھ پونڈ یعنی تقریباً45 لاکھ روپے کا اضافہ ہو گیا۔ اس کارروائی کا مسلمانوں کی علمی زندگی پر کیا اثر پڑا اس کی نسبت ہنٹر لکھتا ہے:
” سینکڑوں پرانے خاندان تباہ ہو گئے او رمسلمانوں کا تعلیمی نظام جس کا دار ومدار ان ہی معافیات پر تھا، تہہ وبالا ہو گیا، مسلمانوں کے تعلیمی ادارے اٹھارہ سال کی مسلسل لوٹ کھسوٹ کے بعد یک قلم مٹ گئے“۔
اندازہ کیجیے کہ جب ایک دور افتادہ صوبے بنگال میں جس کو اس زمانہ کے لحاظ سے کوئی خاص تعلیمی فوقیت او رمرکزیت حاصل نہ تھی، تعلیمی اخراجات کے لیے 45 لاکھ روپے سالانہ آمدنی کے اوقاف میں موجود تھے توہندوستان کے دوسرے صوبوں میں، بالخصوص ان مقامات میں جن کو تعلیمی مرکزیت اور تفوق حاصل تھا، کس قدر اوقاف ہوں گے؟!
اوقاف کی ضبطی نے مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر ایک ضرب کاری کا کام کیا، علماء او راساتذہ، جواب تک ان ہی اوقاف کی آمدنی کی بدولت فکر معاش سے مطمئن اور بے فکر ہو کر درس وتدریس میں مصروف تھے وہ منتشر اور پراگندہ ہو گئے، مدارس اور درس گاہوں میں سناٹا چھا گیا، چناں چہ برک اپنی اس یادداشت میں ،جو برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھی، لکھتا ہے :
” ان مقامات میں جہاں علم کا چرچا تھا او رجہاں دور دور سے طالب علم پڑھنے کے لیے آتے تھے آج وہاں علم کا بازار ٹھنڈا پڑ گیا“۔
مگر ان حوادثات ِ زمانہ او رگردش ایام کے باوجود بھیہندوستان میں کچھ ایسے سخت جان علماء موجود تھے جن کا علمی فیضان کسی مالی اعانت وامداد کا چنداں محتاج نہ تھا۔ دہلی میں حضرت شاہ ولی الله صاحب دہلوی رحمة الله علیہ کا خاندان، لکھنؤ میں ملا نظام الدین کا گھرانہ اور خیرآباد کا مشہور علمی خانوادہ سینکڑوں میں چند ممتاز مثالیں ہیں، ایسے حضرات ہر قسم کے حوادثات ومصائب برداشت کر کے اپنے کام میں مصروف اور علمی خدمت میں ہمہ تن لگے ہوئے تھے کہ 1857ء کی دار وگیر کا قیامت خیز ہنگامہ پیش آگیا، گنے چنے علماء جو باقی رہ گئے تھے ان پر برطانوی حکومت نے بغاوت کا جرم عائد کر دیا، ان میں سے بعض کو پھانسی دی گئی، بعض کالے پانی بھیج دیے گئے اورکسی کو جلا وطن کر دیا گیا، جو بچے ان میں سے اکثر ممالک اسلامیہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب دہلوی رحمة الله علیہ جو اس وقت ولی اللہی مسند ِ علم کے جانشین تھے، مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرکے چلے گئے۔1838ء میں اوقاف کی ضبطی نے جو قدیم مدارس کو عظیم نقصان پہنچایا تھا ،انیس سال کے بعد 1857ء کے حادثے نے اس کی تکمیل کر دی ، اب رہا سہا تعلیمی نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔
قدیم مدارس او رمذہبی تعلیم کے ذرائع آمدنی اور اس کے متعلقہ لاکھوں روپیوں کے ان اوقاف کے تباہ او ربرباد کرنے کے علاوہ ( جن پر مذہبی تعلیم کا دار ومدار تھا) کمپنی کی حکومت کے 1813ء کے ایک قانون کے ذریعہ یورپ کے پادریوں کو ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ واشاعت کے لیے مشن اسکول کھولنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ پادریوں کی سرگرمیاں جار ی تھیں، مشن اسکول کھولے جارہے تھے، جن میں حصول تعلیم کے لیے سہولتیں مہیا کی جارہی تھیں، کمپنی کے حکام پشت پناہ تھے اور ہر قسم کی امداد واعانت بہم پہنچاتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملازمتوں کا لالچ تھا۔ دوسری طرف کمپنی کی اسکیم یہ تھی کہ ہندوستان کے بسنے والوں خصوصاً مسلمانوں کو مفلس بنا کر اور ملازمتوں کے حصول کی ترغیب دلا کر مشن اسکول میں تعلیم دلانے پر مجبو رکر دیا جائے، جو اس وقت عیسائیت کی تبلیغ کے لیے سب سے بڑے ذریعے سمجھے جاتے تھے، اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹیں مسلمانوں کے علوم او ران کا دینی شعور او رمذہبی شغف تھا۔
اس لیے1835ء کا تعلیمی نظام مرتب کیا گیا جس کی روح لارڈ میاکالے(جو کہ 1835ء کی تعلیمی کمیٹی کا صد رتھا)کے نزدیک یہ ہے، وہ لکھتا ہے :
”ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہمارے او رہماری رعایا کے درمیان مترجم کا کام دے سکے او رایسی جماعت ہونی چاہیے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو، مگر مذاق، رائے اور الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو“۔
دارالعلوم دیوبند کا قیام
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کمپنی کی یہ اسکیم اور اس کا یہ نظام ِ تعلیم مسلمانوں کی مذہبی زندگی، قومی روایات اور علوم فنون کے لیے سخت تباہ کن اورمہلک ترین حربہ تھا، اسی دوران 1857ء کا ہنگامہ پیش آگیا، جس کی بے پناہ تباہ کاریوں اور ہول ناکیوں نے دلوں کو ہیبت زدہ، دماغوں کو ماؤف اورروحوں کو پژمردہ اور پوری قوم کو مفلوج کر دیا، حالت یہ ہو گئی کہ مسلمانوں کو ذرائع معاش سے یکسر محروم کر دیا گیا، تعلیم سے بے رغبتی اور مذہب سے بیگانگی میں روز افزوں ترقی اور اضافہ ہو رہا تھا اور یہ وقت قریب تھا کہ علماء کی وہ نسل جو سابقہ درس گاہوں کی تعلیم یافتہ اور مذہبی شعور واحساس اپنے اندر رکھتی تھی رفتہ رفتہ ختم ہوجائے، ایسے حالات تھے جس کی وجہ سے ملک کے ارباب علم وفضل نے یہ محسوس کیا کہ سیاسی زوال وانحطاط اور حکومت سے محرومی کے ساتھ ساتھ اب مستقبل میں مسلمانوں کا علم ، مذہب اور قومی زندگی بھی سخت خطرے میں ہے، ان کی دوربین نگاہیں دیکھ رہی تھی کہ فاتح قوم کے اثرات اور اس کے خصائص مفتوح قوم کے دل و دماغ اور علم وفکر پر اثر انداز ہو کر اس کے ملی شعائر ، قومی خصائص اور فکر وعمل کی صلاحیتوں کو مٹا کر رکھ دیں گے، جس کا لازمی نتیجہ ہو گا کہ وہ اسلامی روایات اوراسلامی طور طریقہ سے نفرت کرنے لگے گی او راس کے لیے صرف فاتح قوم کی نقالی اورکورانہ تقلید واتباع ہی سرمایہ افتخار واعزاز بن کر رہ جائے گی، اس وقت مذہبی تعلیم کے سوا او رکوئی چیز فائدہ مند اور کارگر نہیں تھی، جس سے اس خطرہ کا سد باب ہو سکے، یہی ایک ایسی چیز تھی جس کے ذریعے سے مسلمان اپنے مذہبی شعائر اور قومی خصائص کا تحفظ کرسکتے تھے اور مغلوب ومحکوم ہونے کے باوجود بحیثیت مسلمان قوم کے زندہ رہ سکتے تھے، اسی لیے اس وقت علمائے کرام اورمذہبی راہ نماؤں نے گردوپیش کے غیر مساعد حالات او رزمانے کے دنیاوی تقاضوں سے بے نیاز ہو کر فاتح قوم کے ارادوں او راسکیموں کے علی الرغم مسلمانوں کو اسلامی علوم وفنون کی طرف توجہ دلائی، جس کے ذریعے ان میں آئندہ مذہبی شعور کو برقرار رکھا جاسکتا تھا اور اس کے لیے قدیم مذہبی مدارس کی نشاة ثانیہ کو ضروری سمجھا گیا اور اس مقصد کے لیے مدارس عربیہ قائم کیے گئے۔
مدارس عربیہ کی نشاة ثانیہ کا یہ کام ایسے ماحول اور دور میں شروع ہوا جب کہ قوم ِ مسلم بحیثیت قوم مفلس ونادار اور حکومت ِ متسلطہ کی دست نگر تھی اور وہ تمام اوقاف وغیرہ پہلے ہی ضبط کر لیے گئے تھے، جن پر دینی تعلیمی کی کفالت کا مدار تھا، اسی مفلسی وناداری سے متاثر ہو کر بعض ہم دردان ِ قوم نے محض دنیوی خیر خواہی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت متسلطہ کی زبان اورعلوم وفنون کے پڑھنے کو ضروری سمجھا،تا کہ اس کے ذریعے سے ملک میں منصب وعہدے بھی حاصل کیے جاسکیں اور اس سے معاشی ضروریات بھی پوری کی جاسکیں، اس لیے انہوں نے لارڈ میکالے کی تجویز کردہ تعلیمی اسکیم کی ہم نوائی کرتے ہوئے ایسے اسکولوں اور کالجوں کی طرف رُخ کیا جن کی ڈگریوں اور سرٹیفکیٹوں کے حصول پر ہی ملازمتوں اور عہدوں کے ملنے کا مدار تھا، مگر اس کسم پرسی، بے بسی اور بے سروسامانی کی حالت میں بعض اہل دل الله والوں کے قلوب میں مدارس دینیہ کے احیاء کا داعیہ پیدا ہوا او رایک مرد حق آگاہ اور درویش کامل، عالم ِ ربانی حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ نے 1867ء میں توکلا علی الله دیوبند ضلع سہارن پور کی تاریخی مسجد چھتہ میں دارالعلوم کی بنیاد رکھ دی او رتعلیم وتبلیغ نبوی کا نظام پھر سے قائم کردیا۔
الحمدلله! ایک مسجد میں شروع ہونے والا یہ دارالعلوم بہت جلد دنیا کی ایک بہت بڑی دینی درس گاہ بن گئی اور دور دراز ممالک اور ہندوستان کے گوشے گوشے سے نہ صرف یہ کہ لوگ جوق درجوق علوم دین کے حاصل کرنے لیے یہاں جمع ہونے لگے ،بلکہ ملک کے کونے کونے ، شہر شہر، قریہ قریہ اس کی شاخیں قائم ہو گئیں اور شجر طوبیٰ کی شاخوں کی طرح ہر طرف پھیل گئیں۔ اس دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل حضرات میں سے بہت سے حضرات آسمان ِ علم پر مہر وماہ کی طرح چمکے، جیسے: حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب، شیخ المحدثین مولانا خلیل احمدسہارن پوری صاحب، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم الله تعالیٰ رحمة واسعة وغیرہم۔
ان میں سے صرف حضرت تھانوی کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پرانے قصبہ تھانہ بھون کی، پرانی مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھ کر ،اس زندہ دل درویش نے، اصلاح ِ امت کے لیے تعلیمی اور تبلیغی کتنا عظیم الشان کام کیا ہے۔ حضرت والا کی تقریباً نو سو (900) تصانیف، تالیفات، مواعظ وملفوظات کے اوراق کو زندگی کے ایام پر پھیلایا جائے تو اوراق کی تعداد ایام ِ زندگی سے بڑھ جاتی ہے۔
ہندوستان میں ان دینی مدارس سے کیسے کیسے علمائے حق پیدا ہوئے او رانہوں نے مذہب وملک کی کیا کیا گراں قدر خدمات انجام دیں، یہ ہمارے موضوع میں داخل نہیں، اس وقت صرف اتنی بات عرض کر دینا ضروری سمجھا گیا کہ علمائے حق نے یہ دینی مدارس ایسے وقت میں قائم کیے جس وقت ان مدارس کے نظام تعلیم وتبلیغ کو نہ کسی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی اور نہ قومی خزانے کی پشت پناہی اور نہ ہی ملک کے لاکھوں روپیوں کی اوقاف کی آمدنی سے ان کو امداد حاصل ہوتی تھی ، بلکہ یہ نظام بظاہر صرف ملک کے دینی شعور واحساس رکھنے والے اہل خیر کی ما لی امداد وتعاون اورچندے کے موجودہ طریقے پر چل رہا تھا اور در حقیقت بے سروسامانی اورمحض الله کے بھروسے پر اس نظام کی بنیاد تھی، غرض یہ کہ چندے کے موجودہ طریقے کی بنیاد پر مدارس دینیہ کا قیام کیا گیا او رملک میں جا بجا مدارس قائم کر دیے گئے، اس وقت سے یہ نظام مدارس کے لیے جاری ہو گیا۔
علماء نے قوم کے سامنے دست ِ سوال دراز کیا، مدارس کے لیے چندے مانگے، ہر طرح کے طعنے سنے، کئی قسم کے اعتراضات برداشت کیے، مگر تعلیم ِ مذہب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور فاتح قوم انگریز کے منصوبے کو کام یاب نہ ہونے دیا۔ مدارس نے نہ صرف یہ کہ کمپنی کی تجویز کردہ لا مذہب بنانے والی مذکورہ تباہ کن اسکیم او رمہلک ترین حربے کی زد سے علم ومذہب کو بچا لیا اور عیسائیت کے تیز وتند طوفان اور بڑھتے ہوئے سیلاب ِ عظیم کی لپیٹ سے ملک کو محفوظ کر لیا، بلکہ مسلمانوں کو بحیثیت ِ قوم ِ مسلم کے مٹنے اورختم ہونے سے بھی بچا لیا، ورنہ یہ نظام تعلیمی اورمشن اسکول اور عیسائیت کی اشاعت کے لیے پادریوں کی سرگرمیاں جس کے پیچھے حکومت وقت کی بے پناہ قوت کام کررہی تھی، ہندوستان کے مسلمانوں کو اسی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور ہندوستان کے مسلمانوں کا وہی حال ہوتا جو اسپین کے مسلمانوں کا ہو چکا تھا کہ وہاں کی عیسائی حکومت کی بدولت وہاں کے تمام باشندے عیسائی ہوچکے تھے۔ (نعوذ بالله منہ)
ان مدارس کا ملت ومذہب اور قوم ِ مسلم کو اغیار کے حملوں سے بچا لینا ہی کیا ایسا ناقابل معافی عظیم جرم ہے کہ جس کی پاداش میں سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان کے بسنے والے بعض طبقے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ تعلیم ِ جدید کے اس دور میں دینی مدار س کا کیا فائدہ ہے او ران پر قوم کی دولت اور وقت کیوں ضائع کیا جارہا ہے ؟
قوم کے ان بہی خواہوں اور ہم دردوں سے یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ اگر ان مدارس کا قیام نہ کیا جاتا اور لارڈ میکالے کا مرتب کردہ نظام ِ تعلیم اور عیسائیت کی تبلیغ کے لیے حکومت ِ متسلطہ کی مساعی کے سامنے علمائے حق بھی گھٹنے ٹیک دیتے او ربڑے بڑے منصوبوں ، عہدوں اور تنخواہوں کے لالچ میں آکر انگریزی اسکولوں اور کالجوں کا رُخ کر لیتے تو کیا 1857ء کے بعد انگریزی دور کے تقریباً سو سالہ زمانہ میں مذہب کے تحفظ او راس کے بقا کی کوئی صورت باقی رہ گئی تھی۔ غور فرمایا جائے کہ جب مذہب ہی باقی نہ رہتا او رمسلمانوں کو بحیثیت قوم مسلم کے ختم کرکے عیسائیت اور لا دینیت میں جذب کر لیا جاتا تو پھر پاکستان کا مطالبہ کرنے او راس کی عمارت قائم کرنے کے لیے مسلم قومیت کا بنیادی نظریہ کہاں سے دست یاب ہوتا؟
یہ مدارس دینیہ کیا اس لیے بے ضرورت ہیں او ران پر قوم کی دولت اور وقت کا خرچ کرنا قومی سرمایہ کا ضیاع ہے کہ ان مدارس نے مسلم قومیت کا تحفظ کیا او راس کو حکومت ِ وقت کی پوری کوشش کے باوجود مٹنے نہیں دیا، جس کے نتیجے میں دنیا ئے اسلام کی سب سے بڑی سلطنت پاکستان، قوم ِ مسلم کو خدا وند قدوس کی جانب سے عطا کی گئی ہے، مگرہم نے اس کی قدر نہیں کی اور اس میں اسلامی نظام جاری نہیں کیا، جس کی وجہ سے اس کا ایک بہت بڑا حصہ علیحدہ ہو گیا او رباقی حصہ بھی خطرے میں ہے۔ جس قوم کو ان مدارس کی مساعی جمیلہ کی بدولت اتنی عظیم الشان حکومت حاصل ہوئی ہو اور جو مدارس حکومت کی بنیاد ( مذہب) کے محافظ ہوں ، کیا اسی قوم کا سرمایہ ان مدارس پر صرف کرنا بے فائدہ اور ضائع کرنا ہے؟
یاد رکھیے! جس طرح دینی مدارس سے مذہب او راسلامی قومیت کی حفاظت ہوتی ہے اسی طرح ملک کی حفاظت اور اس کے استحکام کا دار ومدار بھی انہی مدارس پر ہے او رجس طرح مطالبہ پاکستان کے لیے مسلم قومیت اور مذہب اسلام مستحکم اور مضبوط چٹان کی طرح ثابت ہوئے، جوان سے ٹکرایا پاش پاش ہو گیا، اسی طرح آج بھی پاکستان کی بقا واستحکام کے لیے ان کو وہی حیثیت اور مقام حاصل ہے، جس کا ستمبر65، کی جنگ میں مشاہدہ بھی ہو چکا ہے او راسلام اور مسلم قومیت کی بقا اور حفاظت کی ضامن چوں کہ صرف یہی دینی تعلیم ہے جو مدارس دینیہ سے حاصل ہوتی ہے، اس لیے جتنی اہمیت اور ضرورت انگریزی دو رمیں دینی مدارس کی بقا اور قیام کی تھی اس سے بڑھ کر ان مدارس کی آج پاکستان میں ضرورت ہے، اس لیے کہ یہ مدارس جس طرح ملت اسلام اور دینی تعلیم کی حفاظت کے واسطے مضبوط قلعے ہیں، اسی طرح ملک پاکستان کو بھی اغیار کے حملوں سے بچانے کے مضبوط ومستحکم اڈے ہیں۔ ان مدارس سے غفلت برتنا او ران کے وجود کو ہی بے کار سمجھنا او رحسب استطاعت ان کی ترقی میں حصہ نہ لینا ملت اسلامیہ اور ملک ِ پاکستان دونوں کی بنیاد سے بے پرواہی برتنے او رچشم پوشی کرنے کے مترادف ہے۔
الله تعالیٰ ہم سب کو ملت اسلام او رملکِ پاکستان کے پاسبان ومحافظ” مدارس ِ دینیہ“ کی امداد وحفاظت او ران کے ساتھ تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین، وما علینا إلا البلاغ المبین، وآخر دعوانا أن الحمدلله رب العالمین!