تمام انبیاء اور رسل کی زندگیوں میں سب سے اہم چیز ان کی مبارک تعلیمات ہوتی ہیں۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی سب سے اہم چیز آپ کی پاکیزہ تعلیمات ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے”مجھے معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔“ (الحدیث)
اور صرف معلم ہی نہیں، بلکہ معلم اخلاق بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ ارشاد گرامی ہے۔”مجھے الله تعالیٰ نے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا ہے۔“ (الحدیث)
الله تعالیٰ نے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کو خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے” اور بے شک آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں ۔“ (القرآن) آپ پر قرآن مجید (کتاب الاخلاق) نازل فرماکر الله تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لیے اخلاقیات کا ایک عظیم رہبر ورا نما متعین فرما دیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا گیا کہ حضورا کے اخلاق کیا تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ حضور کے اخلاق قرآن کریم ہے۔ مندرجہ بالا گزارشات سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم معلم اخلاق اور قرآن مجید کتاب الاخلاق ہے۔
دینی مدارس او راخلاق کے حوالے سے اگر اتنا ہی کہہ دیا جائے تو کافی وشافی ہو گا کہ ان دینی درس گاہوں کا موضوع اور مقصود قرآن کریم (کتاب الاخلاق) اور معلم اخلاق کے پاکیزہ ارشادات کی تعلیم وترویج ہے، جو قال الله وقال الرسول کی صورت میں ہر دینی درس گاہ کی صدائے باز گشت بنی ہوئی ہے، جس کے ذریعے پاکیزہ اخلاق نشو ونما پاتے ہیں اور مردہ دلوں کو حیات جاودانی نصیب ہوتی ہے۔
اخلاق کی تعریف
دینی مدارس اور اخلاق کے موضوع پر مزید گفت گو کرنے سے قبل اخلاق کی تعریف کر دینا زیادہ مفید ہو گا۔ ”اخلاق“ عربی زبان کا لفظ ہے۔ مفرد اس کا خلق آتا ہے، بمعنی عادت اور طبیعت کے، اچھی عادات کو اخلاق حسنہ اور بری عادات کو اخلاق سیئہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ محققین نے اخلاق کی جامع تعریف یو ں کی ہے۔ اخلاق ایسا ملکہ نفسانی (باطنی ملکہ) ہے جس کے ذریعے انسان اپنے کاموں پر بسہولت عمل پیرا ہوتا ہے۔ مختصر طور پر اخلاق نام ہے تخلی عن الرذائل اور تحلی بالفضائل کے مجموعے کا۔ جس سے اس نظریے کی تردید خود بخود ہو جاتی ہے جو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ اخلاق دو میٹھے بول بول لینے یا چہرے پر مسکراہٹ سجا لینے کا نام ہے، چاہے وہ شخص دین وملت کا کتنا ہی بڑا دشمن ہو ،کر پشن، چوری، ڈاکا ، قومی دولت لوٹنے اور اس جیسے بہت سے موذی جرائم میں مبتلا ہو۔
ایسے لوگ بظاہر اخلاق ، خوش لباس، خوش گفتار، نظر آتے ہیں۔ کافر کی اس قبر کی مانند جوبظاہر خوب صورت اور دیدہ زیب ہوتی ہے اوراندر سے جہنم کا ایندھن بنی ہوئی ہے۔
دین اور اخلاق
پاکیزہ اخلاق کا حصول دین اسلام اور دینی مدارس کے بغیر ناممکنات میں سے ہے۔ مدارس دینی تعلیمات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ خصوصاً پاکستان، ہندوستان اور بنگلادیش کے دینی مدارس اخلاق حسنہ کی تعمیر میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان دینی درس گاہوں میں میراث نبوت ( علوم دینیہ) کی وہ اعلی تعلیم دی جاتی ہے جس کے بغیر اخلاقی اقدار کا حصول سرتاپاسراب ہے۔
ان دینی درس گاہوں میں طلبہ کو روحانی اور اخلاقی زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ طالبان علوم نبوت کو ہر بری عادت، مثلاً جھوٹ، گالی گلوچ، بدتمیزی، فضول اور غیر اخلاقی لٹریچر،ناول بینی، وغیرہ جیسی مختلف برائیوں سے نہ صرف اجتناب اور پرہیز کی ہدایت کی جاتی ہے، بلکہ عملی طور پر ان کو ان برائیوں سے روکنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کو کسی بھی دینی درس گاہ میں کسی بھی بداخلاقی کے عمل، مثلاً ہڑتال، مظاہرہ، کلاسوں کا بائیکاٹ، پولیس اور رینجرز کی چیکنگ تک نوبت آنے جیسے واقعات سننے کو نہیں ملیں گے۔ جب کہ دیگر اداروں، مثلاًکالجز، یونی ورسٹیز میں یہ شب وروز کا معمول بنا ہوا ہے۔
طلبائے کرام کو ہر اخلاقی وصف سے آراستہ کرنے کی حتی المقدور سعی اور کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً اچھا رہن سہن، اچھا طرز گفت گو، ادب واحترام، اچھی عادات، اصلاح معاشرہ ،خدمت دین،خلق خدا سے محبت، توکل مع الله جیسے اخلاق حسنہ کی تربیت وتعلیم دی جاتی ہے۔ دینی درس گاہوں میں طلبہ کی اخلاقی تربیت کی مختلف صورتیں ہیں۔
تزکیہ نفس:… چوں کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل تزکیہ نفس کے بغیر ناممکن ہے، اس واسطے طلبہ کرام کا تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ بعض مدارس میں بزرگ اساتذہ سے طلبہ کا روحانی اور اصلاحی تعلق قائم ہوتا ہے اور ہفتہ میں ایک بار طلبہ کی اخلاقی وروحانی اصلاح کے لیے خصوصیمجلس قائم کی جاتی ہے، البتہ بعض طلبہ خود اپنے طور پر بھی کسی بزرگ سے تعلق قائم کر لیتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اصلاح کی غرض سے ان کے پاس حاضر ہوتے رہتے ہیں۔
دعوت و تبلیغ… طلبہ کرام جہاں علم دین حاصل کرتے ہیں وہاں دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں، تبلیغی اجتماعات او ربیانات میں اپنا فارغ وقت اور چھٹیاں صرف کرتے ہیں، جہاں ان کی باطنی اصلاح ہونے کے ساتھ ساتھ خلق خدا سے محبت اور دعوت دینے کے جذبات ابھرتے ہیں۔
اس کے علاوہ دینی مدارس کے اساتذہ بھی درس کے اوقات میں وقتاً فوقتاً طلبہ کرام کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ غرض یہ کہ دینی مدارس میں جہاں د وسرے شعبوں میں کام ہو رہا ہے وہاں طلبہ کی اصلاحی واخلاقی تربیت بھی سرفہرست ہے۔
طلبہ کا اخلاقی معیار
دینی مدارس میں جو طلبہ پڑھتے ہیں ان کا اخلاقی معیار بلند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بزرگوں کے طرز زندگی پر ان کو ڈھالا جاتا ہے۔ دینی مدارس کے ماحول میں احکام دین کی پابند ی اور نشست وبرخاست کے اندر احتیاط بھی ایک قدرتی امر ہے۔ اساتذہ او ربڑوں کی عزت وتکریم ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔اساتذہ کے سامنے انتہائی ادب سے بیٹھنا، اونچی آواز سے نہ بولنا، استاد کے آنے پر کھڑے ہو جانا، ان کی جوتیاں سیدھی رکھنا، ان کی خدمت کو سرمایہ افتخار سمجھنا دینی مدارس کے طلبہ کی وہ امتیازی خصوصیات شمار کی جاتی ہیں جو دوسروں کو کم ہی نصیب ہیں۔
کھانا انسان کی روز مرہ ضروریات میں سے ہے، بڑے بڑے پروگراموں او رپارٹیوں میں یہ منظر بھی بارہا دیکھنا نصیب ہوا کہ جب کھانے کے لیے دو دو گھنٹے انتظار کرنے اور وقت برباد کرنے کے بعد کھاناملتا ہے تواعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ، بڑے بڑے عہدے دار، امراء، وزراء اور حکام جس طرح کھانے کی میزوں پرحملہ آور ہوتے ہیں تو شرم کے مارے آنکھیں جھک جاتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس طبقہ عالیہ کے اخلاق کا جنازہ نکل چکا ہے۔
جب کہ دوسری طرف چٹائیوں پر بیٹھنے والے دینی مدارس کے بااخلاق طلبہ، رزق کا، جس طرح عزت واحترام کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ باقی دنیا والوں کو بھی ان بوریا نشینوں کے طفیل رزق مل رہا ہے۔
دینی اور دنیاوی درس گاہوں میں طلبہ کے امتحانات ہوتے ہیں۔جہاں تک دنیاوی در س گاہوں، اسکول، کالجز کے امتحانات کا تعلق ہے۔ تو اپنے ملک کے اسکول اور کالجز کے اسٹوڈنٹس کے اخلاق کا یہ حال ہے کہ کسی اورشخص کے ذریعے امتحان دلوانا، امتحان ہال میں نقل کرنا، مائیکرو بنا کر نقل کے فن کو ترقی دینا وغیرہ غیر اخلاقی حرکات کا ظہور ہمیشہ کا معمول بن چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اعتبار سے پاکستان کا شمار دنیا کے تمام ملکوں کی صف میں سب سے آخر میں ہوتا ہے، جب کہ دینی درس گاہوں کے طلبہ کی اخلاقی کارکردگی اس طرح ہے کہ امتحان ہال میں نقل کرنا تو دور کی بات ہے، تین گھنٹے کے پرچے کے دوران آپس میں ایک دوسرے کی طرف اشارہ کرنا بھی محال ہے۔ اور یہ ہمارا چیلنج ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی اسکول کالج ایسا امتحانی سینٹر نہیں پیش کرسکتا۔ جن لوگوں نے دینی درس گاہوں کے امتحانی سینٹرز دیکھے ہیں وہ اب تک انگشت بدنداں ہیں۔
دینی طلبہ معاشی اعتبار سے کم زور ہوتے ہیں، یہ معاشی کم زوری ان میں فقروغنا کے وہ جذبات پیدا کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں زہد، صبر وقناعت،توکل مع الله جیسے پاکیزہ اخلاق جنم لیتے ہیں۔ روکھی سوکھی کھا کر بھی ان کی زبان سے خدا کا شکر ہی ادا ہوتا ہے۔ سستے قسم کے کپڑے پہن کر اور بوریانشیں ہو کر بھی ان کا عالم یہ ہوتا ہے #
جو تیری یاد میں بیٹھے ہر اک سے بے غرض ہو کر
تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تخت سلیمان تھا
دینی مدارس کے علماء کا اخلاق
دینی مدارس کے علماء وصلحاء معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خلق خدا سے محبت ، دین کی اشاعت ،دعوت الی الله اور اصلاح معاشرہ اورمسلم امت کی فلاح کا جذبہ ہر وقت ان کے دل میں مو ج زن رہتا ہے۔
دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء اور اکابرین امت کی سوانح کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے اخلاق وکردار پر رشک ہوتا ہے۔ دور کی بات نہیں ہے، ماضی قریب ہی میں قاسم العلوم والخیرات بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی ،شیخ الہند مولانا محمود حسن ، فقیہ امت مولانا رشید احمد گنگوہی ، عارف بالله مولانااشرف علی تھانوی، شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی، امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء الله شاہ بخاری وغیرہ ہستیاں کردار واخلاق کے آفتاب وماہتاب تھے۔ جن کے اخلاق وکردار نے آج تک ان کی محبت وعقیدت کو لوگوں کے قلب ودماغ میں قائم ودائم رکھا ہوا ہے۔
ہمارے بزرگ حضرت مولانا فضل محمد نے جو حضرت مدنی کے شاگرد رشید تھے، ایک مرتبہ حضرت مدنی کا واقعہ سنایا۔ حضرت مدنی ریل کے سفر میں تھے، دوران سفر ایک غیر مسلم شخص قضا ئے حاجت کے لیے بیت الخلاء گیا اور جلد ہی واپس آگیا، پھر ایک دوسرا شخص گیا، وہ بھی جلد واپس آگیا۔حضرت مدنی خود تشریف لے گئے او رجاکر دیکھا کہ نجاست کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ انہوں نے آستین اوپر کی اور ساری نجاست صاف کر دی اور پھر آکر اس غیر مسلم شخص سے پوچھا کہ آپ بیت الخلاء نہیں گئے؟ انہوں نے کہا وہاں نجاست کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ حضرت نے فرمایا جاؤ! اسے کسی نے صاف کر دیا ہے، اب کوئی نجاست نہیں ہے۔ جن کے دلوں میں خلق خدا سے محبت کا یہ جذبہ ہو ان کے اخلاق کی کیا تعریف کی جائے؟
حضرت مولانا سید عطاء الله شاہ بخاری کے نام سے کون واقف نہ ہو گا۔ ایک مرتبہ بھنگی کو اپنے ساتھ بیٹھا کر کھاناکھلایا، بھنگی نے کہا حضرت لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور آپ ساتھ بٹھا کر کھانا کھلا رہے ہیں۔ امیر شریعت نے جواب دیا کہ مجھ میں او رتجھ میں سوائے ایمان کے کوئی فرق نہیں ہے۔ تو لوگوں کی ظاہری نجاست صاف کرتا ہے اور میں باطنی نجاست صاف کرتا ہوں۔
یہ چودہ سو سال پرانی ہستیوں کا ذکر نہیں، اسی دور کے دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کی جماعت کا ذکر ہے۔
حضرت مولانا الیاس تبلیغی جماعت کے امیر دینی مدرسہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کے اخلاق وکردار کا یہ حال تھا کہ میوات کے جاہل مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا انہوں نے اپنے سر اٹھایا تھا۔ گھر گھر جاکر لوگوں کو دین کی دعوت دیتے تھے، اس پر خارراستہ میں ہر قسم کی تکالیف برداشت کیں۔ الله تعالیٰ نے ان کی حسن نیت واخلاص کی وجہ سے اس جماعت کو اتنی ترقی عطا فرمائی کہ آج پورے عالم اسلام میں اتنی بڑی کوئی جماعت نہیں ہے جو دین کی خدمت کر رہی ہو۔
معاشرے میں علماء کی خدمات
موجودہ دور کے علمائے کرام جو دینی مدارس کے فارغ شدہ علماء میں زیادہ تر چار شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ درس وتدریس امامت خطابت دعوت وتبلیغ۔
ان کی معاشرے میں مقبولیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امت کا ہر طبقہ علماء کی جماعت پر اتنا اعتمادکرتا ہے کہ اپنے ہزاروں مسائل ان علماء سے حل کرواتا ہے۔ جو صرف نماز روزہ کے مسائل نہیں ہوتے۔ بلکہ کروڑوں روپے کی جائیداد کی تقسیم،خاندانی تنازع، گھریلو مسائل، کاروباری مسائل او راس جیسے مختلف معاملات علماء سے حل کرواتے ہیں۔ جو مسائل ہمارے یہاں دیوانی مقدمات کی نذر ہو جاتے ہیں اورحکومتی ادارے ان کو بیس بیس، پچاس پچاس سالوں میں حل نہیں کراسکتے وہی مسائل یہ علماء چند گھنٹوں میں حل کر دیتے ہیں۔
جو لوگ علماء پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ یہ تشدد پسند یا دہشت گرد ہیں ان کو چاہیے کہ وہ پورے پاکستان کا سروے کریں اور مسجد مسجد جاکر علماء کا حال معلوم کر یں، تب ان کو اندازہ ہو گا کہ یہ بااخلاق علماء معاشرے میں کتنا اہم کردار ادار کر رہے ہیں۔ میں یہ بات انتہائی ذمے داری سے کہہ رہاہوں کہ جو دین آج ہمارے پاس محفوظ ہے وہ ان ہی دینی مدارس او رعلمائے کرام کی بدولت ہے، اگر دینی مدارس اور علماء خدانخواستہ ختم ہو گئے تو اخلاق کی ساری قدریں ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ دور میں دین دار لوگوں اور علماء کے روپ میں ایک ٹولہ موجود ہے جو دین اسلام کے ماتھے پر ایک بد نما داغ سے کم نہیں ہے۔ لیکن یہ صرف موجودہ دور کی ہی افسوس ناک صورت حال نہیں، بلکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں بھی مسلمانوں کے روپ میں ایک جماعت منافقین کے نام سے موجود رہی ہے۔ جس کی طر ف مفکر ملت علامہ اقبال امت کی توجہ مبذول کراچکے ہیں #
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں ملی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
امت کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ علمائے کرام اور دینی مدارس کے طلبہ بد اخلاق ، بد کردار اور دہشت گر دنہیں ہیں، بلکہ دہشت گردوں، بداخلاقوں اوربد کرداروں نے علماء کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔
حق کو حق کہنے والے اورباطل کو باطل کہنے والے بد اخلاق اوردہشت گرد نہیں ہوتے، بلکہ باطل کو حق کا جام پہنانے والے، کافر طاقتوں کے سامنے جھکنے والے، قومی خزانہ لوٹنے والے، ملک میں فسادات پھیلانے والے اور اپنی سیاست چمکانے کے لیے عوام کا خون بہانے والے دہشت گرد ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خاتمہ اخلاق وکردار کا اعلیٰ نمونہ ہو گا، نہ کہ غیروں کے اشارہ پر دینی مدارس او رعلماء کو مٹانے کی کوشش کرنا۔ ایسے لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے اور اپنے اپنے آقاؤں کو بھی یہ رپورٹ ارسال کر دینی چاہیے … #
”نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن“