قرآن پاک کی سورہٴ نساء میں الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: ”اے ایمان والو، ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، بلکہ باہمی اتفاق سے تجارت کرو۔ ایک دوسرے کو یا اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ بے شک الله تعالیٰ رحم فرمانے والا ہے“۔ تاہم تمام تر امیدوں نے تاحال دم نہیں توڑا، آج بھی آپ ایک ایسے مسلمان تاجر کو تلاش کرسکتے ہیں جو آپ کے کاروبار کو اسلامی کاروباری اصولوں کے تحت لا کر حلال دولت حاصل کرسکتا ہے۔
تاجروں کو چاہیے کہ حلال طریقے سے لین دین کریں۔ الله تعالیٰ نے یہ ارشاد فرما کر ایک قسم کے منافع کو ہمارے لیے ناجائز قرار دیا ہے کہ: ”اے ایمان والو! دوگنا اور اس سے زائد سود نہ کھاؤ اور الله سے ڈرتے رہو، تا کہ تم فلاح پاجاؤ“۔ سود کے علاوہ مسلمانوں کا شراب، جوا ، فحش ویڈیوز اور دیگر اشیاء سے کاروبار کرنا بھی حرام ہے، جنہیں اسلام نے ناجائز قرار دیا۔ ان میں سے بعض کاروبار انتہائی منافع بخش بھی نظر آتے ہیں، تاہم بادی النظر میں شیطانی عوامل کو فروغ دینا کسی بھی طرح کا م یابی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اس کے علاوہ ہمیں اشیائے خورد ونوش کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں کی قیمتیں بڑھانے کے لیے ذخیرہ اندوزی سے بھی سختی سے منع کیا گیا ہے۔
اعتماد سازی کیجیے۔ اس کی ایک اچھی مثال رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے لی جاسکتی ہے۔ لین دین میں جائز، ناجائز کا فرق سمجھیے۔ اسلام نے منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی۔ کسی گاہک کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اس کا ناجائز فائدہ اٹھانا بھی جائز نہیں۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ جو دوسروں کو دھوکادے، وہ ہم میں سے نہیں۔
حالیہ وقتوں میں ایک اور رجحان فروغ پارہا ہے، جو ناپ تول میں کمی بیشی ہے۔ یہ انتہائی ناقابل برداشت ہے کہ بعض گیس اسٹیشنز بھی کچھ جغرافیائی مقامات پر ناپ تول میں کمی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ یہ بے حد تکلیف دہ اور الله تعالیٰ کے غیض وغضب کو دعوت دینے والا فعل ہے۔
نچلی سطح سے کاروبار شروع کرکے ترقی پر توجہ دی جاسکتی ہے۔ کاروبار کی کام یابی کا ایک خفیہ اصول تنوع او رمنافع کے حصول کے بعد دوبارہ سرمایہ کار ی ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کی زندگی سے ایک اچھی مثال حاصل کی جاسکتی ہے۔ جو ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اوران کے ایک انصار ی بھائی نے انہیں اپنی دولت کا نصف حصہ پیش کیا۔
جواباً حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے انہیں دولت اورخاندان میں برکت کی دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے صرف بازار کا راستہ بتا دیجیے۔ انہوں نے صرف دو درہم سے خشک دودھ فروخت کرنے کا کام شروع کیا اور پھر گھوڑوں کی تجارت سمیت دیگر مختلف کاروبار کیے او راپنی دولت میں اضافہ کرتے رہے۔ الله تعالیٰ انہیں مزید دولت دیتا گیا اور وہ زرعی پیداوار سمیت دیگر کاروباروں کے مالک بن گئے۔
اپنی استعداد سے زیادہ وعدے نہ کرنے کی پالیسی اپنانا اہم ہے۔ اگر تاجر حضرات ایسے وعدے کرتے ہیں جو پورے نہ کرسکیں تو اپنے بہت سے گاہک کھوبیٹھیں گے۔ یہ کاروبار کے لیے نقصان دہ عمل ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بھی خرید وفروخت میں زیادہ وعدوں(یا شرائط) سے محتاط رہو، اس سے زیادہ منڈیاں حاصل ہو سکتی ہیں ،تاہم برکت کھو جاتی ہے۔
اب چوں کہ آپ کو اسلامی کاروبار کے اخلاقی اصولوں میں سے کچھ کا علم ہو چکا ہے ، ان پر عمل کرنا یا نہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے۔ اسلام ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کا درس دیتا ہے، تاکہ ہم دنیا کے ہر کام میں کام یابی حاصل کرسکیں۔
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے خرید وفروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضا مندی پر رکھا ہے اور منافع کے حوالہ سے کسی قسم کی پابندی یا حد مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابندبھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور یہ اسلامی معاشیات کی اہم خوبی ہے۔ حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے الله کے رسول ! بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو الله تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اورکشادگی کرتا ہے اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ الله تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا۔ ایک بہترین تاجر کو خرید وفروخت کس طرح کرنی چاہیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” بہترین کمائی ان تاجروں کی ہے جوجھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے اور وعدہ خلافی نہیں کرتے۔“ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سچے اور دیانت دار تاجر کی کس قدر فضیلت ہے کہ نبی مہربان صلی الله علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا کہ: ”ایک دیانت دار تاجر کو الله تعالیٰ وہی ثواب دیتا ہے جو غازیوں اور شہداء کو عطا فرماتا ہے۔“
الله تعالیٰ نے انسان کو مکمل بنایا، اسے ہاتھ پاؤں دیے، تاکہ وہ محنت ومشقت سے اپنے کام کرنے کا عادی ہو اور دماغ دیا، جس میں سوچنے کی صلاحیت موجود ہے، اگر انسان الله تعالیٰ کی تخلیق کو کام میں نہیں لاتا تو اسے بیٹھ کر کھانے کی عادت ہو جاتی ہے او رایسا انسان دوسرے تمام لوگوں کے لیے ایک بوجھ بن جاتا ہے ،اس کے برعکس جو انسان محنت کرنے کا عادی ہواسے بیٹھ کر کھانے کی عادت نہیں ہوتی اور وہ دوسروں پر بوجھ نہیں بنتا۔ یہ وہ تمام دلائل ہیں جو قرآن وسنت کی روشنی میں تجارت او رتاجر کی فضیلت کو بیان کرتے ہیں۔ اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جو جہاں عقائد ،عبادات اور روحانیات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہاں سیاسی، سماجی، معاشی اوراخلاقی مسائل کے حل کے لیے بھی انسانیت کی رہ بری کرتا ہے۔ مطلب کہ زندگی کا کوئی بھی ایسا پہلو نہیں جس کے بارے میں اسلام کی بنیادی اور اصولی ہدایات موجود نہ ہوں۔