اللہ جلّ جلالہ کے ساتھ ہمارے رشتے کی کوئی سبیل سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ ہم اس کے ساتھ ربط اور تعلق اور جوڑ کیسے پیدا کریں اور اس کے حقوق کہ وہ ہمارا مالک و خالق ہے اور اس حوالے سے ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ انہیں کس طرح ادا کریں۔ اس رشتے اور تعلق کو بتانے کے لیے اور حقوق و فرائض کی خبر دینے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنا قاصد اور نمائندہ بنا کر بھیجا ۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ، مالک اورمعبود ہے اور اس کی یہ مرضی ہے اور یہ اس کو پسند ہے اور یہ نا مرضی ہے اور اس کوناپسند ہے ۔ اس کی مرضی پر چلو گے تو تم کام یاب ہوجاؤ گے اور اگر اس کی ناپسند کو تم نے پسند کیا تو تم ناکام ہوجاؤگے۔ اس نے تمہیں اختیار دیا ہے ۔ چاہے مرضیات کا انتخاب کرلو اور سر خ رو ہوجاؤ۔ چاہے نا مرضیات کا انتخاب کر لو اور ناکام رہو۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے صحیح ربط و تعلق قائم کرنے کے لیے ،اس کی مرضیات و نا مرضیات کے علم کے لیے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو نام زد فرمایا اور دنیا کے اندر بھیجا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اللہ کی مرضیات کا بھی اعلان کیا اور جو چیزیں نا مرضیات اور ناپسندیدہ تھیں وہ بھی بتادیں۔ اس لیے اذان میں توحید کے اعلان کے بعد رسالت کا اعلان کرایا گیا ہے۔پھر جو اصل مدعا تھا، حی علی الصلوٰة ، حی علی الفلاح ، نماز کے لیے آؤ اور نماز ہی کام یابی ہے۔ اس کا اعلان کرایا گیا ۔ یہ کام یابی کا دوسرا تصور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرض کی ہوئی نماز ادا کرے ، اس کا دل و دماغ اللہ تعالیٰ کی بڑائی و کبریائی کے عقیدے سے، اس کی توحید اور پیغمبر صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی رسالت کے اعتقاد سے سرشار ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر اللہ و رسول کی اطاعت کے لیے کمر بستہ رہے۔
لیکن کیا وہ اس کے ساتھ کھیتی یا دکان، مزدوری نہیں کرسکتا یا نوکری نہیں کرسکتا؟ کر سکتا ہے، بلکہ وہ تو ان سارے کاموں کو بھی عبادت بناسکتا ہے۔ آپ نہیں جانتے بازار میں جو آدمی سامان کا انبار لا کر لگاتے ہیں، وہ ہماری کتنی خدمت کرتے ہیں۔ ہمیں اگر ضرورت ہے کپڑے کی تو گھر سے نکلو اور کپڑا لے لو ، سبزی کی ضرورت ہے تو سبزی لے آؤ، گوشت کی ضرورت ہے تو گوشت لے آؤ، چولہے کی ضرورت ہے ، پلیٹ اور دیگچی کی ضرورت ہو، بازار جاؤ اور لے آؤ۔ اللہ کے بندوں نے آپ کی سہولت اور آپ کی راحت کے لیے اتنا سامان لا کر جمع کردیا ہے کہ آپ کو بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ اللہ کا بندہ جو مخلوق کو راحت پہنچانے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے سامان بازار میں لا کر رکھ رہا ہے، اگر یہ نماز کی طرف بھی آئے اور اس کو بھی کام یابی تصور کرے تو اس کے خوش نصیب ہونے کی انتہا نہ رہے گی۔