دنیا جس میں ہم رہتے سہتے ہیں، جس کی محبت میں ہم غرق ہیں، جس کی خوبی صورتی اور چمک دمک سے ہم متاثر ہیں، جس کو حاصل کرنے کے لیے ہم دن دیکھتے ہیں نہ رات،سردی د یکھتے ہیں نہ گرمی، بارش دیکھتے ہیں اور نہ طوفان جانتے ہیں۔ اس دنیا کی حقیقت وحیثیت کیا ہے؟ یہ کب تک رہے گی؟ اس کی عمر کیا ہے ؟الله کی نگاہ میں اس کی قدرومنزلت کیا ہے؟
الله نے سورہٴ حدید کی آیت نمبر بیس میں بڑے خوب صورت انداز میں دنیا کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے، چناں چہ الله نے دنیا کو لہو ولعب، کھیل تماشہ، زیب وزینت اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا او رمال واولاد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی طمع کرنا قرار دیا ہے جس کو حاصل کرنے کی فکر میں ہم ذہنی اور جسمانی دونوں طور پر مشغول ہیں، پوری زندگی گزار دیتے ہیں، لیکن نیک اعمال کرنے کی اور آخرت کی تیاری کی سوچ وفکر پیدا نہیں ہوتی، الله تعالیٰ نے اس دنیا کی مثال بارش سے بیان فرمائی ہے، جب بارش ہوتی ہے تو زمین سر سبز وشاداب ہو جاتی ہے، پودے لہلہانے لگتے ہیں، جسے دیکھ کر کاشت کار خوش ہوتے ہیں، پھر وہ پودے خشک ہو کر زرد او رپیلے ہو جاتے ہیں ،پھر وہ ریزہ ریزہ اور چورا چورا ہو جاتے ہیں، اس کی تروتازگی اور سرسبز وشادابی برقرار نہیں رہتی، یہی مثال اس دنیا کی ہے۔
جولوگ اس دنیا کی حقیقت سے ناواقف ہیں او راس کی چمک دمک سے متعلق دھوکے میں مبتلا ہیں۔انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ دنیا تھوڑی مدت تک کے لیے ہے، اس کا کوئی وجود نہیں، یہ جان لینا چاہیے کہ دنیا کی یہ زیب وزینت، چمک دمک، مال ودولت اور ناز ونعمت آنی جانی اور ختم ہو جانے والی ہے، باقی رہنے والی چیز نیک اعمال ہیں، جو انسان کے ساتھ رہیں گے او رجہنم سے نجات کا باعث ہوں گے۔ اسی طرح یہ دنیا جس پر ہم فریفتہ ہیں اس کو سراب یعنی ریت سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کو پیاسا شخص دور سے پانی سمجھ رہا ہوتا ہے او راس کی طلب میں دوڑتا بھاگتا جارہا ہوتا ہے، جب وہ اس کے پاس پہنچتا ہے تو وہ کچھ نہیں پاتا، یہاں تک کہ وہ پیاس سے مر جاتا ہے، یہی حال اس دنیا کا ہے کہ انسان اس دنیا کو حاصل کرتے کرتے مر جاتا ہے، سب کچھ یہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے، مال ودولت، زمین وجائیداد، عالی شان مکانات اور آل اولاد میں سے کوئی اس کے ساتھ نہیں جاتا۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ دنیا کی یہ زندگی ایک سپر مارکیٹ کی طرح ہے، اس میں گھو میں پھریں، جو چاہیں خریدیں، جتنا چاہیں خریدیں ، بے شک پوری ٹرالی بھر لیں، لیکن اس بات کو یاد رکھیں کہ محاسب (کیشیئر) کے پاس بھی جانا ہے، جتنا سامان لیا ہے اس کا حساب دینا ہے، یہی مثال دنیا کی ہے، جو کچھ بھی یہاں کریں گے، جائز وناجائز،حلال وحرام، خیر وشر،۱لله کی فرماں برداری اور نافرمانی ، اس دنیا کے ختم ہو جانے کے بعد آخرت میں الله احکم الحاکمین، جو خیر الحاسبین ہے ،کے پاس جانا ہے اور پوری زندگی کا حساب دینا ہے۔
یہ دنیا خواب کی طرح ہے ،کبھی سونے والا شخص ایسی انوکھی چیزیں دوران خواب دیکھتا ہے کہ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور وہ خواب میں ان چیزوں سے بہت زیادہ محظوظ ہو رہا ہوتا ہے، لیکن نیند سے بیدار ہوتے ہی اس کی ساری لذت اور لطف اندوزی ختم ہو جاتی ہے اوربیدار ہوتے ہی وہ جان لیتا ہے کہ وہ تو خواب میں تھا، اسی طرح دنیا دار لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ جمع کر رہے ہیں وہ قیمتی ہے اور اس کے ساتھ باقی رہنے والا ہے، جب کہ حقیقت میں وہ جلد ہی ختم ہو جانے والا ہے، ابھی وہ اس دنیا کی حقیقت نہیں سمجھتے، لیکن جب اس دنیا سے ان کے چل چلاؤ کا وقت آئے گا اس وقت وہ اپنی غفلت سے بیدار اور نیند سے جاگیں گے لیکن اس وقت کفِ افسوس ملنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
قرآن کریم میں دنیا کی زیب وزینت، خوب صورتی اور جمالیات سے متعلق دو قسم کے بیانات ملتے ہیں۔ ایک وہ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ دنیا کی زیب وزینت نہ صرف جائز ہے، بلکہ دنیا میں اہل ایمان ہی کے لیے تخلیق کی گئی ہے، (اعراف:32/7) جب کہ دوسری طرف ان کی مذمت کی گئی ہے۔ (حدید:20/57)
ان دو قسم کے بیانات میں بظاہر تضاد محسوس ہوتا ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہمارے ہاں بالعموم یہ بات مان لی گئی ہے کہ دنیا کی زینت تقویٰ اور ایمان کے اعلیٰ درجات کے منافی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ معاملہ یوں نہیں ہے۔ زینت ِ دنیا سے متعلق قرآن مجید کا اصل بیان وہی ہے جو سورہٴ اعراف میں بیان ہوا ہے۔ اس کی مذمت یا متاع دنیا کی بے وقعتی قرآن کریم میں جب کبھی زیر بحث آتی ہے تو وہ کفار کے اس رویے کا بیان ہوتا ہے جس میں وہ حق وانصاف اور اتفاق و احسان کو فراموش کرکے اپنی ساری تگ ودوکا مرکز دنیا اور اس کی خوب صورتیوں کو بنا لیتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ رویہ اپنی ذات میں ایک بڑا منفی رویہ ہے، لیکن ایک شخص ایمان واخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، اگر اپنے ذوقِ جمال کی تسکین کے لیے اور شکر گزاری کرتے ہوئے ،دنیا کی زینت اختیار کرتا ہے تو اس کی ممانعت کسی طرح سے نہیں کی جاسکتی۔
اصل ممانعت اس بات کی ہے کہ انسانے آخرت کو بھول جائے اوردنیا اور اس کی رنگینی کو مرکز نگاہ بنالے۔ انسان الله اور بندوں کے حقوق کو بھول جائے اور عیش وعشرت کی زندگی کو اپنالے۔ انسان حق وصداقت کو اختیار کرنے کے بجائے دنیا اور اس کے مفاد کو سب سے زیادہ اہم سمجھنے لگے۔ یہ وہ رویہ ہے جو کفر ونفاق کا ہے او ربلاشبہ ایک قابل مذمت رویہ ہے۔
انسان ہر روز اپنے عمل کا ایک مرحلہ طے کر رہا ہے، لیکن اپنے مقصد ِ تخلیق سے غافل ہے اور دنیا کی زندگی او ریہاں کے مشاغل میں اُلجھا ہوا ہے، اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا، جو برابر اس کے قریب آتا جارہا ہے، اپنی اس منزل کے لیے کوئی تیاری نہیں کر رہا جہاں اس کا جانا یقینی ہے ، جب وہ منزل آجائے گی تو اسے خبر ہو گی کہ اس نے کتنی عظیم شے کھودی۔
ارشاد باری تعالی ہے :
”اور ہم قیامت کے دن انصاف کا ترازوکھڑا کریں گے تو کسی شخص کی ذرا بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کسی کا عمل ہو گا تو ہم اس کو لاحاضر کریں گے او رہم حساب کرنے کو کافی ہیں۔“ (الانبیاء:27)
حساب کی یہ منزل بڑی ہی خوف ناک وشوار ہو گی، اس کو ہلکے پھلکے لوگ ہی طے کر پائیں گے اور وہاں کوئی کسی کے کام آئے گا نہ اپنا کوئی اندوختہ اور اثاثہ کام آئے گا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا اور نہ بیٹے، ہاں! جو شخص خدا کے پاس پاک دل لے کر آیا (وہ بچ) جائے گا۔ (الشعراء:89-88) قلب سلیم وہی ہے جو گناہ کی آلائشوں سے پاک ہو، کیا قلب سلیم او راعمال صالحہ ہمیں نصیب ہیں؟ کیا ہم حرام کھانے کے عادی تو نہیں ہیں ،سر سے پاؤں تک گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، خواہشاتِ نفسانی نے ہمیں مدہوش تو نہیں کر رکھا ہے، زندگی کے فریب میں ہم مبتلا تو نہیں ہیں، اس زندگی کے فریب میں جس کو ہم پچھلوں کے کھنڈرات پر گزار رہے ہیں، جانے والوں کے ترکہ پر ہمارا قبضہ ہے، گزرے ہوئے لوگوں کی رہائش گاہوں پر ہم قابض ہیں، کیا اس میں ہمارے لیے عبرت نہیں ہے کہ کل دوسرے ہمارے جگہ پر ہوں گے اور ہم آخرت کو سدھارچکے ہوں گے، الله تعالیٰ ہم کو اس انجام سے متنبہ کرتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ دیکھو! ہم نے تم سے پہلے والوں کو کس طرح ہلاک کیا اور وہ کچھ نہ کرسکے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آخرت سے غفلت ہلاکت وبربادی ہے، دنیا تو بڑی دل کش اور حسین وجمیل ہے، الله تعالیٰ نے اس میں ہمیں پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ ہمیں آزمائے اور ہمارا امتحان لے اور دیکھے کہ ہم کیا کرتے ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص دنیا کی فریبی او رعورتوں کے مکر ودھوکے سے اجتناب کرے، اس لیے کہ یہ شیطان کا جال ہیں او رایسے لوگوں سے بھی دور رہے جو الله تعالیٰ کی یاد سے منھ موڑ کر صرف دنیاوی زندگی کے حرص میں رہتے ہیں۔ الله پاک ہمیں سمجھ بوجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔