حضرت شیخ الحدیث نے ﴿بل تؤثرون الحیوٰة الدنیا﴾ کے تحت دو واقعے ذکر کیے ، ایک شخص ایک بڑی مسجد میں گیا، اس نے دیکھا ایک بزرگ ایک گوشے میں مراقبے میں مشغول ہیں، دوسرے گوشے میں ایک مست مرد قلندر مراقبے میں مشغول ، تیسرے کونے میں بھی یہی نقشہ نظر آیا ، ایک کونا خالی تھا، یہ وہاں جا کر بیٹھا ، رات کا کچھ حصہ گزرا، ایک خاتون آئی اور اس نے ان میں سے ایک کے پاس جا کر اپنے پاس سے ہاتھ دھونے کا برتن سامنے کیا، ان کے ہاتھ دھلائے اور انواع واقسام کا کھانا پیش کیا، اس کے بعد وہ وہاں سے دوسرے کونے میں گئی ، پھر یہی عمل دہرایا ، پھر تیسرے کونے میں یہی ہوا ،یہ دیکھ رہا تھا کہ وہاں کیا ہوا؟ یہاں کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ پہلے آدمی کے کھانے میں ہڈی نکلی ،اس نے اٹھا کر اس عورت کے منھ پر دے ماری ، دوسرے نے بھی اسی طرح کیا ، تیسرے کے پاس آئی، اس نے بھی اسی طرح کیا، ان تینوں سے فارغ ہو کر اس کے پاس آئی ، ہاتھ دھلائے کھانا ،پیش کیا، اس نے سمجھا کہ یہا ں دستور ہے کہ ہڈی نکلے تو منھ پر مارو تو اس نے بھی اسی طرح کیا تو اس عورت نے زور سے تھپڑ مارا، اس نے کہا کہ سب نے اس طرح کیا تھا ، عورت نے کہا پتہ ہے، میں دنیا ہوں اور یہ لوگ دنیا سے ناراض ہیں اور میں ان کو راضی کرنے آئی تھی، تو انہوں نے اس طرح کیا اور جب میں انہیں کھلارہی تھی تو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا، تجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ اس طرح کرے۔ تو جو دنیا سے اعراض کرے گا دنیا خود اس کے پاس آتی ہے۔ایک شخص مسجد میں آیا، امام سے ملاقات کی، اجازت طلب کی کہ مسجد میں رہنا چاہتا ہوں ، امام صاحب نے پوچھا کہ کھانا لاؤں؟ کیا کھاؤگے؟ اس نے کہا میں تو صرف مرغ پلاؤ کھاتا ہوں ، امام تو ہوتے ہیں ٹیڑھے دماغ کے، تو وہ ناراض ہوگیا اور کہا ہمارے ہاں مرغ پلاؤ نہیں ہے، اس کے بعد کچھ رات گزری، دروازے پر کسی نے دستک دی ، امام کا خیال تھا کہ کوئی تعویز یا دم کے لیے آیا ہوگا ، بڑ بڑاتے ہوئے آیا تو دیکھا کہ ایک عورت مرغ پلاؤ لائی ہے ، عورت نے کہا میرا بچہ گم ہوا تھا، میں نے مرغ پلاؤ کی نذر مانی تھی ، بچہ مل گیا تو مرغ تلاش کرنے میں دیر ہوگئی اور مجھے بنانا نہیں آتا، پڑوس کی خوشامد کی اور اس کو راضی کیا تو دیر ہوگئی ، امام صاحب نے خوشی خوشی مہمان کو اٹھایا تو مہمان نے کہا آپ بھی آجائیے ، امام نے کہا کہ میں نے آپ کو لعنت و ملامت کی، اب میں کیسے آپ کے ساتھ کھاؤں؟ تو اس نے کہا کہ میں کل کے لیے نہیں بچا ؤں گا اور یہ زیادہ ہے ختم بھی نہیں کر سکتا ، اس لیے آؤ ! ورنہ صبح باسی کھانی پڑے گی۔ تو معاملہ ہر ایک کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ علیحدہ ہوتا ہے، آپ جس طرح گمان کریں گے اس طرح معاملہ ہوگا، ہم نے دنیا کو مقصد بنا رکھا ہے، اسی پر اتراتے ہیں، اس کے لیے دوڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا پیش نظر نہیں ہوتی۔