ناخوش گوار حالات و وقائع ، مصائب وآلام سے نجات کے لیے دعاؤں کے اندر جو قوی تاثیر ہے اس کے سامنے دوسری سعی وتدابیر ہیچ ہیں،حق تعالیٰ کے سامنے دست بستہ راز ونیاز، آہ وزاری، سابقہ گناہوں کا اعتراف، رحمت وعنایت کے نزول کا مکرر سوال اور پھر اس کے جواب میں حق تعالیٰ کاعفو ودرگذر اور حاجت برآری یہ ایک ایسا وسیع باب ہے جو سارے دین کاخلاصہ ولب لباب ہے، جو بمنزلہ حصن وحصین کے ہے، جس کے حصار میں رہنے والا شخص کبھی نامراد وناکام نہیں ہوتا، اسی بات کو پیش نظر رکھے۔ اس مضمون میں دعا کی حقیقت اور اجابت سے متعلقہ احکامات کو ذکر کیا گیا ہے۔
دعا کے لغوی معنی
کلمہ”دعا“یہ دعوة سے مشتق ہے، ابن فارس اس کا معنی یو ں بیان کرتے ہیں:
”إمالة الشیء إلیک بصوت وکلام یکون منک“صادر ہونے والے کلام وآواز کے ذریعہ کسی کو اپنی جانب مائل و مخاطب کرنا“ (مقاییس اللغة لابن فارس 2/272 ، مطبع دار الفکر )
اصطلاحی تعریف
اس سلسلہ میں امام خطابی لکھتے ہیں:”ومعنی الدعاء :استدعاء العبد ربّہ-عزّ وجلّ- العنایة واستمدادہ إیاہ المعونة․“
یعنی بندہ کا اللہ عز وجل سے عنایت ومددکے خواست گار ہونے کا نام ”دعا“ہے۔(شأن الدعاء للخطابی ص4، ط ۔ دار الثقافة العربیة)
حافط ابن القیم اس کو سادہ پیرائے میں یوں بیان کرتے ہیں: ”ھو طلب ماینفع الداعی، وطلب کشف مایضرّہ أو دفعہ․“
یعنی داعی کا اپنے واسطے نفع بخش چیز کا سوال کرنا اور باعث مضرّت چیز کے زوال کا طالب ہونا۔(بدائع الفوائد لابن القیم 3/2، مطبع دار الکتب العربی، بیروت، لبنان)
دعا کی حقیقت
حقیقت دعا سے متعلق امام رازی رقم طراز ہیں:”حقیقة الدعاء استدعاء العبد ربہ جلّ جلالہ العنایة واستمدادہ إیاہ المعونة․“
”دعا کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب سے مدد ورحمت کا طلب گار ہو۔“
حضرت مولانا الیاس صاحب دعا کی حقیقت یوں بیان فرماتے ہیں:”اپنی حاجتوں کوبارگاہ ذوالجلال میں پیش کرنا یہ دعا کی حقیقت ہے ، جتنی بلند بارگاہ ہے اتنا ہی دعاؤں کے وقت دل کو متوجہ کرنا اورالفاظِ دعا کو تضرع و زاری سے ادا کرنا مندوب ہے اور حاجت برآری کے یقین واذعان کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے، چوں کہ وہ سخی ذات ہے، زمین وآسمان کے خزانے اسی کے دست قدرت میں ہیں“۔(ملفوظات مولانا الیاس صاحب ، ملفوظ نمبر 53،ط مدنی کتب خانہ، کراچی)
اس سے معلوم ہوا کہ دعا کے مفہوم میں بہت وسعت ہے، اپنے دینی ودنیوی مطالب زبان سے، دل سے یا حال سے پیش کرنایہ تمام انواع اس وسیع مفہوم کے تحت داخل ہیں۔
حافظ ابن القیم حنبلی فرماتے ہیں:
دعاؤں کا اہتمام اور تعوذات یہ بمنزلہ اسلحہ وہتھیار کے ہیں، کسی بھی ہتھیار میں بذاتہ قوت وطاقت نہیں، بلکہ ضارب کے زور بازو پر اس کا مدار ہے، لہٰذا جب ہتھیار درست ہو، کوئی امرخارجی مانع نہ ہو، دست وبازو زور آور ہو تو وہ دشمن کے سینہ پر وار کرنے میں ضرور کام یاب ہوتا ہے، البتہ کسی ایک شرط کا فقدان بھی اس کے غیر مؤثر ہونے یا اس کی تاثیر میں کمی کا موجب ہوگا ، دعا مانگتے وقت دل وزباں آپس میں موافق ہوں اور امرخارجی بھی مانع نہ ہو تو وہ دعا (قبولیت میں) اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔ (الجواب الکافی لمن سأل عن الدواء الشافی، ص 15، ط دار المعرفة، المغرب)․
دعا مانگنے سے متعلق آداب
دنیاوی چند رقبوں پر محیط عارضی سلطنت وحکومت کرنے والے بادشاہ کے دربار شاہی میں مخصوص آداب کو بجالانا ضروری سمجھا جاتا ہے، تو جو تمام کائنات، آسمان و زمین کا، از اول تا آخر، مالک حقیقی ہے اس سے ہم کلامی کے آداب نہ ہوں گے؟ لہٰذا ذیل میں ان آداب کو درج کیا جاتا ہے، نیز ان آداب کی رعایت دعا کی قبولیت میں مؤثر ثابت ہوتی ہیں، جیسا کہ امام طرطوشی (مؤلف کتاب الدعاء والمأثور) فرماتے ہیں :
دعا مانگے کے چند آداب اسلاف سے منقول ہیں اور اس سے متعلق چند شرائط ہیں، جن کی رعایت کرنے کی صورت میں قوی امید ہے کہ وہ اپنی مراد کو پالے گا اور جس نے ان کا لحاظ کرنے سے غفلت برتی تو وہ خدا کی ناراضگی، رحمت الہٰی سے دوری اور نعمت ِ ابدیہ سے محرومی کا موجب ہوگا۔ (الدعاء والمأثور ص44)
وہ آداب درج ذیل ہیں:
سب سے پہلے اللہ رب العزت کی حمد وثنا بیان کرے، حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا اہتمام کرے ، پھر اپنی قلبی حاجات کو پیش کرے۔سابقہ گناہوں وغلطیوں کا اعتراف ہو، اللہ کے حضور حیل وحجت سے گریز کرے دعا سے قبل عمل صالح (صدقہ ونوافل)کا اہتمام کرے آہ وبکا کے ساتھ مکرّر سوال کرےخوشی وغمی، آسان ومشکل ہر گھڑی ولمحہ میں دعا پر مداومت اختیار کرے استقبال قبلہ کی رعایت کرےمسواک کا اہتمام رکھے طہارت بدنی وقلبی کا حصول، با وضو حالت میں دعا مانگے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگےبلند ہمتی وثواب کی امید رکھے۔
دعا کی قبولیت کی شرائط:
سہل بن عبداللہ تستری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبولیت دعا کے سات شرائط ہیں:
تضرع:قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ﴿اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً اِنَّہ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ﴾․(سورة الاعراف آیت نمبر 55)
ترجمہ:”تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو۔ یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“
خوف: خوف وخشیت الہی کے آثار نمایا ہوں ، جیسا کہ اسلاف کا مشہور مقولہ ہے:”الإیمان بین الخوف والرجاء“( ذخیرہ احادیث میں اس قسم کے الفاظ کے ساتھ تو روایت نہیں ملتی، البتہ اس مضمون کو سموئے متعدد روایات موجود ہیں)۔
یعنی ایمان امید و بیم(خوف) کے درمیانی کیفیت کا نام ہے۔
امید:روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”أدعوا اللہ وأنتم موقنون بالإجابة، واعلموا أن اللہ لایستجیب دعاء من قلب غافل لاہ“․(ترمذی، کتاب الدعوات)
”اللہ تعالی سے دعا کی قبولیت کا یقین رکھتے ہوئے دعا مانگو اور جان لو کہ اللہ تعالی غافل وبے دھیان دل سے کی جانے والی دعا کو قبول نہیں فرماتے۔“
مداومت:اجابت ِدعا میں جلدبازی سے کام نہ لے، جیسا کہ روایت میں آتا ہے کہ:
”بندہ کی دعا اس وقت تک مسلسل قبول کی جاتی ہے جب تک کہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی یا جلدبازی سے کام نہ لے، صحابہ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ، جلد بازی کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا:وہ یوں کہتا ہے کہ میں نے تو دعا مانگی، ابھی پھر دعا مانگی، مگر میں اس کو قبول ہوتا نہیں دیکھتا ہوں، جس کے بعد وہ مایوس ہوکر دعا مانگنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔“(صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب استحباب حمد اللہ تعالی بعد الأکل والشرب، رقم الحدیث: 2735)
خشوع:قرآن مجید میں ارشاد ہے :﴿اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھبًا وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْن﴾ (سورة الأنبیاء، آیت نمبر 9)
”یقینا یہ لوگ بھلائی کے کاموں میں تیزی دکھاتے تھے اور ہمیں شوق اور رعب کے عالم میں پکارا کرتے تھے اور ان کے دل ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔“
دعا کو محدود و مقید نہ کرے:اس کے متعلق ایک روایت میں آتا ہے صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کا بیٹا یہ دعا مانگ رہا تھا کہ اے اللہ، اگر میرے واسطے جنت لکھی ہو تو مجھے جنت کے دائیں جانب سفید محل عنایت فرما۔ جب آ پ رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ سنا تو نہایت شفقت سے سمجھایا:اے بیٹے، اللہ سے (مطلقا بدون تقیید مکان) جنت کا سوال کرو، اور جہنم سے پناہ مانگو،اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ”سیکون قوم یعتدون فی الدعاء“(عنقریب ایسی قوم پیدا ہوگی جو دعا میں حد اعتدال سے تجاوز کرے گی)۔ (ابن ماجہ، کتاب الدعاء ، باب کراھیة الاعتداء فی الدعاء ، رقم الحدیث: 4)
حلال روزی وآمدن کا اہتمام:اس سے متعلق روایت میں آتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ طیب ہیں، لہٰذا پاکیزہ چیز کو قبول فرماتے ہیں، پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو سفرِدراز کی مشقت اٹھائے، پراگندہ بال، غبار آلود حالت میں اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب دراز کیے پکارتا ہے، اے میرے رب، اے میرے رب! لیکن اس کی خورد ونوش حرام، اس کا زیب تن لباس اور پرورش حرام آمدنی سے ہوتی ہے، سو بھلا کہاں ا س کی دعا قبول کی جائے گی؟(صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب قبول الصدقة، رقم الحدیث: 1)
لمحہ فکریہ!!!
ایک مرتبہ ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں، مگر ہماری دعائیں قبول نہیں کی جاتیں ؟
حضرت نے جواب دیا:اس لیے کہ تم اللہ جل شانہ کو رب تو تسلیم کرتے ہو، مگر اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ تم رسول صلی الله علیہ وسلم کونبی برحق دل سے قبول کرتے ہو ،مگر ان کی سنتوں کی اتباع وپیروی سے روگردانی کرتے ہو۔ تم قرآن مجید کو سراپا پیغام ہدایت ومشعل راہ مان کر بھی اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔تم اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجود بھی اس کا شکر بجا نہیں لاتے۔ تم جنت اور اس کی لازوال نعمتوں سے بخوبی واقف ہو، مگر اس کی تمنا وآرزو نہیں کرتے۔ تم جہنم اوراس کی ہول ناکی کا علم رکھتے ہو ،مگر اس سے راہ نجات تلاش نہیں کرتے۔تم شیطان کو ازلی دشمن قرار دینے کے باوجود اس کی راہ پر گام زن ہوتے ہو۔ تم موت کو برحق تسلیم کرنے کے باوجود اس کی تیاری سے غافل ہو۔(المجالس السنیة فی شرح أربعین للنووی)
قبولیت دعا کا مفہوم
ایک اشکال عام طور پر سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں میں وارد ہوتا ہے کہ ہرشخص کو سوال کردہ چیز عطا کیوں نہیں کردی جاتی ہے؟یہ تو اجابت دعا کے معارض ہے۔
اس کا جواب فقہائے کرام نے مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں دیا ہے کہ: جب کوئی شخص آداب و شرائط کی رعایت بجالاتے ہوئے رب تعالیٰ کے حضور دعا مانگتا ہے تو وہ ہرگز رد نہیں کی جاتی، البتہ اس کی قبولیت کی چند صورتیں ہوتی ہیں مطلوبہ ومسؤولہ چیز سے نواز دیا جانااس کے عوض اس سے بڑھ کر نعمت کا عطا کیا جانا، مثلا پیش آمدہ آفات وبلیات کا اس کے عوض ازالہ فرمایا جاناآخرت کے واسطہ ذخیرہ کیا جانا۔ (ترمذی، باب انتظار الفرج، رقم الحدیث: 3573، تفسیر قرطبی 1/310، سورة البقرة، آیت نمبر 186)
مولانا منظور احمد نعمانی نے اپنی شہرہ آفاق تالیف ”معارف الحدیث “میں ایک عجیب نکتہ ذکر کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:”بسا اوقات بہت سے بندوں کی دعا جو بڑے اخلاص و اضطرار سے کرتے ہیں اس لیے بھی جلدی قبول نہیں کی جاتی کہ اس دعا کا تسلسل ان کے لیے ترقی اور تقرب الی اللہ کا خاص ذریعہ ہوتا ہے، اگر ان کی منشا کے مطابق ان کی دعا جلدی قبول کرلی جائے تو اس عظیم نعمت سے وہ محروم رہ جائیں۔ (کتاب الاذکار والدعوات، صفحہ 97، حصہ 5)
اللہ رب العزت سے دعا ہے وہ ہمیں مرتے دم تک اپنے در کا بھکاری بنائے، مخلوق کے سامنے دست سوال سے محفوظ فرمائے، آمین۔
وصلی اللہ وسلم علی سید الأنبیاء والمرسلین، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین․