دعاء کی اہمیت
ایک مسلمان شخص کی زندگی میں دعا کی بڑی اہمیت ہے، دعا اللہ تعالیٰ سے مانگنے کانام ہے، دنیا وآخرت میں جو کچھ مسائل ومشکلات پیدا ہوسکتے ہیں،دعاسب کے حل کا ایک مفید ترین راستہ اور کامیاب ذریعہ ہے۔اگر اس راستہ پر چلنے کے باوجود نشانِ منزل نظر نہ آئے تووہ در حقیقت اپنے ہی کسی غلطی یا کوتاہی کی وجہ سے ہوتاہے۔
دعا کی اس غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے مسلمان ایک دوسرے سے بھی اس بات کی درخواست کرتے رہتے ہیں کہ اپنی دعاؤں میں ہمیں شامل کرلیں، یہ درخواست اگر رسم ورواج کے طور پر نہ ہو، بلکہ دل سے ہو توبہت بہتر ہے ،روایات سے بھی اس کا سبق ملتا ہے، چناں چہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حج کے لیے جاتے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے لیے دعا کی درخواست فرمائی تھی۔اور عمومی طور پر ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غائبانہ دعا زیادہ جلدی قبول ہوتی ہے،اس لیے ایک دوسرے سے دعا کی درخواست کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کی دعاؤں کی افادیت
لیکن اس کائنات میں سب سے زیادہ جس ہستی کی دعائیں قبول ہونے کی امید کی جاسکتی ہے وہ ہمارے حضورنبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مبارک ہستی ہے۔آپ صلی الله علیہ ودسلم نے اپنی امت کے لیے مختلف قسم کی دعائیں کیں ہیں، کچھ دعائیں تو پوری امت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، جس میں سب مسلمان داخل ہیں اور کچھ دعائیں ایسی بھی ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کچھ کچھ خاص عمل کرنے والوں کے حق میں فرمائی ہیں،ان دعاؤں کا فائدہ انہی خوش نصیب افراد کو ملے گا جو ان اعمال کو بجالائیں گے،اس لحاظ سے نہایت اہمیت کی بات یہ ہے کہ ہم حضور صلی الله علیہ وسلم کی دعاؤ ں میں اپنے آپ کو شامل کرنے کی کوشش کرلیں۔
اسی کی خاطر ذیل میں احادیث کی کتابوں سے آپ کی بعض ایسی دعائیں نقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جہاں کسی مخصوص عمل کرنے والوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی دعا دی ہو۔
پہلا عمل:فراخ دل اور نرم خو ہونا
”صحیح بخاری“میں ہے؛عن جابر بن عبد اللہ رضي اللّٰہ عنہما: أن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: رحم اللّٰہ رجلا سمحا إذا باع، وإذا اشتری، وإذا اقتضی“․ (صحیح البخاري،کِتَابُ البُیُوعِ،بَابُ السُّہُولَةِ وَالسَّمَاحَةِ فِی الشِّرَاء ِ وَالبَیْعِ،وَمَنْ طَلَبَ حَقًّا فَلْیَطْلُبْہُ فِی عَفَافٍ:3/57)
ترجمہ:”جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا کہ:اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو خریدوفروخت اورمطالبہ کے وقت نرمی کرے“۔
جو شخص خرید وفروخت اور اپنے حق کے مطالبہ کے وقت فراخ دلی اور نرمی سے کام لیتاہے،اس کے لیے اس روایت میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا فرمائی گئی ہے۔ رحمت کا لفظ زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے بسا اوقات اس کا حقیقی مفہوم ہماری ذہنوں سے اوجھل ہوجاتاہے،اس لیے جن اعمال پر رحمت کی خوش خبری دی جاتی ہے یا اس کی دعا کی گئی ہے،وہ ہمارے اندر کچھ زیادہ حرکت پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے۔ غور کیاجائے تو رحمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق پیدا ہوجاتاہے جس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی طرف ہر قسم کے الطاف وعنایات کا دروازہ کھل جاتا ہے اور ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق متنوع نعمتیں حاصل کرتا ہے، لہٰذا رحمت کی دعا کو معمولی خیال نہ کیاجائے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ہر قسم کی نعمتیں حاصل کرنے کا ایک راستہ ہے۔اس قدر عظیم دولت حاصل کرنے کے لیے اگر کوئی نرم خوئی اور وسعت ظرفی کا مزاج بنائے تو کچھ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
دوسرا عمل: حدیث سیکھنا ،سکھانا
”سنن ابی داؤد“میں ہے؛عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:”نَضَّرَ اللَّہُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیثًا، فَحَفِظَہُ حَتَّی یُبَلِّغَہُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلَی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیہٍ“․(سنن أبي داود،کتاب العلم،باب فضل نشر العلم: 3/322)
ترجمہ:”زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ارشادفرماتے ہوئے سنا:اللہ تعالی اس شخص کو تازہ رکھے،جس نے ہم سے ایک بات سنی اور یاد کرکے آگے پہنچائی،کیوں کہ بعض حامل فقہ (یعنی علم دین کے حامل )یہ بات اس شخص کو پہنچادیتاہے جو اس سے زیادہ سمجھ دار ہوتاہے اوربعض حامل فقہ سمجھ دار نہیں ہوتے “۔
اس روایت میں اس شخص کے لیے خوش وخرم رہنے کی دعا فرمائی گئی ہے جو حضور نبی کرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث سن کر اپنے پاس اچھی طرح محفوظ کرے اور پھر آگے لوگوں کو پہنچائے۔ یہ بھی بڑی جامع دعا ہے،سرسبز وشاداب رہنے کاصرف یہی مطلب نہیں ہے کہ اس کا رنگ وروغن اچھا دکھائی دے، بلکہ اس کے اندر زندگی کے وہ تمام اہم نشیب وفراز داخل ہوجاتے ہیں جو انسان کے سر سبز وشاداب رہنے میں مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں، اس لیے اس کے ضمن میں تمام اہم معاملات داخل ہوجاتے ہیں۔
یہاں حدیث شریف میں حدیث سن کر آگے پہنچانے کا ذکرہے، لیکن ملا علی قاری صاحب وغیرہ شارحین نے ذکر فرمایاہے کہ یہ دعا صرف سننے سے متعلق نہیں ہے، بلکہ کسی بھی ذریعے سے حضور صلی الله علیہ وسلمکی سنت پر مطلع ہونا مقصود ہے، البتہ عام طور پر چوں کہ نئی باتیں سماعت ہی کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں،اس لیے اس کا ذکر کیاگیا ہے، لہٰذا حضور صلی الله علیہ وسلم کے اعمال واقوال سب کے بارے میں یہ فضیلت عام ہے اور سبھی کو محفوظ کر کے آگے پہنچانا اس دعاء کا مصداق ہے، نیز کوئی شخص کسی محدث سے حدیث سن کر آگے پہنچائے، یا یوں ہی کسی کتاب وغیرہ میں پڑھ کرآگے پہنچائے ، دونوں ہی اس فضیلت کے تحت داخل ہیں۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ نے یہ بھی ذکر فرمایاہے کہ یہاں حضور صلی الله علیہ وسلمنے”منّا“کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو کہ جمع کا صیغہ ہے ،لہٰذا اس میں صحابہ کرام کے اعمال واقوال بھی داخل ہیں اور جو شخص حضرات صحابہ کرام کی باتیں یا ان کے اعمال محفوظ کرکے آگے نسل کواس سے متعارف کرواتے ہیں،وہ بھی اس فضیلت کے تحت داخل ہوجاتے ہیں۔
تیسرا عمل:میاں بیوی کا رات کو نماز پڑھنا
”سنن ابی داؤد“میں ہی؛عَنْ أَبِي ہُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:”رَحِمَ اللَّہُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّی، وَأَیْقَظَ امْرَأَتَہُ، فَإِنْ أَبَتْ، نَضَحَ فِی وَجْہِہَا الْمَاءَ․ رَحِمَ اللَّہُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّتْ، وَأَیْقَظَتْ زَوْجَہَا، فَإِنْ أَبَی، نَضَحَتْ فِی وَجْہِہِ الْمَاءََ“. (سنن أبي داود،کتاب الصلاة،باب قیام اللیل:2/33)
ترجمہ:”حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالی اس شخص پر رحم کرے جورات کو اٹھ کر نماز پڑھتاہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اگروہ نہیں اٹھتی تواس کے چہرے پر پانی ڈالتاہے۔ اس عورت پر بھی اللہ تعالی رحم کرے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑہتی ہے اور اپنے شوہر کو بھی جگاتی ہے ،اگروہ نہیں اٹھتا تو وہ اس کے چہرے پر پانی ڈالتی ہے“۔
اس روایت میں اس شخص کے لیے رحمت کی دعا فرمائی گئی ہے جو خود بھی رات کو اٹھ کرنماز پڑھے اور بیوی کو بھی اہتمام کے ساتھ اس کے لیے جگائے،اسی طرح جو بیوی خود بھی اس کے لیے اٹھے اور میاں کو بھی اہتمام کے ساتھ اس کے لیے جگائے۔ رحمت کی دعا کا مفہوم پہلے لکھاجاچکا ہے۔
چوتھا عمل:نماز عصر سے پہلے چار رکعت نفل پڑھنا
”سنن ابی داؤد“میں ہے؛عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:رَحِمَ اللَّہُ امْرَأً صَلَّی قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا“(سنن أبي داود، کتاب الصلاة،باب الصلاة قبل العصر:2/23)
ترجمہ:”ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرمائے جو عصرکی نماز سے پہلے چار رکعات پڑھ لے“۔
اس روایت میں اس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہونے کی دعا فرمائی گئی ہے جو نماز عصر سے پہلے چاررکعت نماز پڑھ لے۔ یہ نماز گو فرض یا سنت مؤکدہ نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت سنت غیر مؤکد ہ اور نفل کی ہے،تاہم اس پر اس قدر بڑی دعا دی گئی ہے، مختصر عمل پر عظیم اجر وثواب کی یہ بہترین مثال ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ کے وہ خاص بندے جن کو لوگ اولیا ء اللہ کہتے ہیں،وہ ان چار رکعت کی پوری پابندی کرتے ہیں۔
پانچواں عمل:حقوق العباد کی تلافی کروانا
”سنن ترمذی“میں ہے:عن أبي ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: رحم اللہ عبدا کانت لأخیہ عندہ مظلمة فی عرض أو مال، فجاء ہ فاستحلہ قبل أن یؤخذ ولیس ثم دینار ولا درہم، فإن کانت لہ حسنات أخذ من حسناتہ، وإن لم تکن لہ حسنات حملوہ علیہ من سیئاتہم“ (سنن الترمذي ت بشار،أبواب صفة القیامة والرقائق والورع عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،باب ما جاء فی شأن الحساب والقصاص:4/191)
ترجمہ:”حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ :اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جس نے اپنے بھائی کے آبرو یا مال کو نقصان پہنچایا اورموت سے پہلے اس نے اس سے معافی مانگی ،اس لیے کہ وہا ں درہم و دینا ر نہیں ہوگا،پس اگر اس کے پاس نیکیاں ہوں تووہ اس سے لے لی جائیں گی،اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہو تو ان کے گناہ اس پر ڈال دے جائیں گے“۔
اس روایت میں اس شخص کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے جو دنیا میں ہی ان حقوق کی تلافی کا اہتمام کرتاہے جو اس پر لوگوں کے عائد ہوتے ہیں، ان کو حقوق العباد کے ساتھ تعبیر کیاجاتاہے۔ یہ حقوق بنیادی طور پر تین قسم کے ہیں:
الف:وہ حقوق جو جان سے متعلق ہیں،مثال کے طور پر کسی کو قتل کردیا، کوئی عضو تلف کردیا ،یا یوں ہی کسی کو زد وکوب کیا،ان کو جانی حقوق کہاجاتاہے۔
ب:وہ حقوق جو دوسرے کے املاک سے متعلق ہیں،مثال کے طور پر کسی کی کوئی چیز ضائع کردی، یا کسی کا کوئی مالی حق ذمہ پر باقی ہے، ان کو مالی حقوق سے تعبیر کیاجاتاہے۔
ج:وہ حقوق جو دوسرے کی عزت ومقام سے مربوط ہیں،مثال کے طور پر کسی کو لوگوں کے سامنے بے عزت وذلیل کیا، بر ا بھلا کہا، اس کی غیبت کی ۔ان کو عرضی حقوق یا حقوق عزت سے تعبیر کیاجاسکتاہے۔
اگر کسی شخص کے ذمہ دوسرے افراد کے ان تین قسم کے حقوق میں سے کوئی حق برقرار ہو،تو اس کی تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ جس کا حق ہے، اس سے معافی تلافی کروائے، یا اگر کوئی حق ایسا ہے جس کی ادائیگی ہوسکتی ہے تو اس کا دوسرا طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی کردے۔”جانی حقوق“کی نوبت عام طور پر کم پیش آتی ہے،شاید اس لیے درج بالا روایت میں اس کا ذکر نہیں کیا اور بقیہ دو اقسام کے ذکر کرنے پر اکتفاء کیاگیا۔
چھٹاعمل:دینی تربیت کے لیے گھر میں کوڑا لٹکانا
امام سیوطی رحمہ اللہ کی”جامع کبیر“میں ہے:”رَحِم اللَّہ عَبْدًا عَلَّقَ فی بَیْتِہِ سوْطًا یُؤَدبُ بِہِ أَہْلہ“․(الدیلمی عن جابر․جمع الجوامع المعروف ب الجامع الکبیر،القسم الأول:الأقوال،حرف”الراء:5/146)
ترجمہ:”اللہ تعالی اس شخص پر رحم کرے جس نے اپنے گھر میں اہل وعیال کی تادیب کے لیے کوڑارکھا ہو“۔
اس روایت میں اس شخص کے لیے رحمت کی دعا فرمائی گئی ہے جو گھر میں اس لیے کوڑا رکھتاہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے اہل وعیال کی تادیب کرے۔ یہاں ”تادیب“کالفظ استعمال فرمایاگیاہے جس کامفہوم ادب سکھاناہے،اور تادیب کی ضرورت کسی ناجائز یانا مناسب اقدام کے وقت پیش آتی ہے،اب کس چیز کو ناجائز یانامناسب سمجھاجائے اور کس کو نہیں؟ اس کے حدود کیا ہوں گے؟ ان باتوں کی درست درست راہ نمائی کرنا دین وشریعت کا منصب ہے، جس میں اسی کی طرف رجوع کرنا اور اسی سے راہ نمائی حاصل کرنا ضروری ہے۔شرعی تعلیمات کا سہارا لیے بغیر کسی چیز کو ناجائز قرار دینا کسی طرح درست نہیں ہوسکتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو چاہیے کہ:
الف: دین وشریعت کی کم ازکم بنیادی باتیں اور موٹے موٹے مسائل اس کو بہر حال معلوم ہوں۔
ب: اوردل میں اس کی اس قدر اہمیت راسخ ہو کہ دیگر تمام تقاضوں پر اس کو مقدم رکھے ۔
ج:اپنے اہل وعیال کی دینی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھے، بلکہ اس راہ میں ان کو مارنے کی ضرورت پڑے توبھی اس سے نہ رُکے۔
د:دینی تربیت اور شریعت کے مطابق گھر کا ماحول بنانے کے لیے عام طور پرکوڑے کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔یہ ضروری نہیں، بلکہ بسا اوقات تو جائز بھی نہیں ہے کہ بات بات پر اہل وعیال کو مارتا رہے، بلکہ ضرورت کے وقت ہی اس کا استعمال کرلینا چاہیے اور اس وقت بھی ضرورت کی مقدار پر اکتفاء کرلینا چاہیے، لیکن بہرحال گھر میں رکھنا اور اپنے ماتحت کو باور کرانا کہ اگر کوتاہی ہوجائے تواس کے استعمال کرنے کی بھی نوبت آسکتی ہے، یہ ضروری ہے۔ اور تجربہ ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ اس طرح یقین دہانی دیے بغیر دینی تربیت کاخواب پوری طرح شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا، اس لیے متعدد شارحین نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ بسا اوقات مارنا معاف کرنے سے زیادہ بہتر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتاہے۔(فیض القدیر،حرف الراء :4/25)
ساتواں عمل:حج وعمرہ کے موقع پر حلق یا قصرکرنا
”صحیح بخاری“میں ہے:عن عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:”اللہم ارحم المحلقین․ قالوا:والمقصرین یا رسول اللہ، قال:اللہم ارحم المحلقین․ قالوا: والمقصرین یا رسول اللہ، قال: والمقصرین․ وقال اللیث:حدثنی نافع: رحم اللہ المحلقین مرة أو مرتین، قال: وقال عبید اللہ:حدثني نافع، وقال في الرابعة:والمقصرین“․ (صحیح البخاري، کِتَابُ الحَجِّ،باب الحلق والتقصیر عند الإحلال:2/174)
ترجمہ:”عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے اللہ سرمنڈوانے والوں پررحم فرما۔صحابہ کرام نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول اور قصرکرنے والے،فرمایاکہ:اے اللہ سرمنڈوانے والوں پر رحم فرما۔صحابہ کرام نے دوبارہ کہا:اے اللہ کے رسول اورقصرکرنے والے ،فرمایاکہ:اور قصرکرنے والوں پر بھی رحم فرما“۔
اس روایت کے مطابق آپ صلی الله علیہ وسلمنے حج کے موقع پر حلق یا قصر کرنے والوں کو رحمت کی دعا دی، مجموعی طور پر تو دونوں کے حق میں یہ دعا فرمائی ہے، لیکن حلق کرنے والوں کو اس دعا میں مقدم فرمایا اور ایک یا دو بار ان کے لیے خصوصیت کے ساتھ دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائیں ۔ علامہ تورپشتی رحمہ اللہ وغیرہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ دعا آپ صلی الله علیہ وسلم نے عمرہ کے موقع پر مانگی تھی اور حجة الوداع کے موقع پربھی۔ (المیسر فی شرح مصابیح السنة للتوربشتی،کتاب المناسک،باب الحلق:2/621)۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ حلق کرنا قصر کرنے سے زیادہ بہتر اور اس سے بڑھ کر رحمت خداوندی کا موجب ہے، اس لیے جہاں تک ہوسکے ،اسی کو مقدم رکھنا افضل ہے۔
حلق کو مقدم کرنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ پہلے زمانے سے اب تک لوگوں کی عادت رہی ہے کہ وہ بالوں کو زینت وزیبائش کا ذریعہ خیال کرتے ہیں ،مختلف طریقے سے رکھنے اور کاٹنے کوایک قابل تقلید فیشن تصور کیاجاتاہے،سرے سے بال مونڈنے کی صورت میں حب جاہ کی ایک بڑی شاخ کٹ جاتی ہے جو ظاہر ہے کہ بہترین اعمال میں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض مشائخ نے توبہ کرتے وقت بھی بال کاٹنے کو بہتر قرار دیا۔( بذل المجہود في حل سنن أبي داود،أول کتاب المناسک،باب الحلق والتقصیر:7/454)
آٹھواں عمل:حفاظتی فوج کی حفاظت کرنا
”سنن ابن ماجہ“میں ہے:عن عقبة بن عامر الجہني قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: رحم اللہ حارس الحرس“․(سنن ابن ماجہ، کتاب الجہاد، باب فضل الحرس والتکبیر فی سبیل اللہ:2/925)
ترجمہ:”عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ :رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکا ارشادہے:اللہ تعالی حفاظتی فوج کی چوکیداری کرنے والے پررحم کرے“۔
اس روایت میں اس شخص کے لیے رحمت کی دعا فرمائی گئی ہے جو اسلامی سرحدات کی حفاظت کرنے والی فوج کی چوکیداری کرے۔ ملک کے باشندے اگر امن وامان کے ساتھ زندگی گزارتے اور مختلف قسم کی عبادات بجالاتے ہیں تووہ درحقیقت ان لوگوں کے بل بوتے پر ہے جو ملکی سرحدات پر کھڑے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور دیگر اقوام وممالک کی یورشوں سے اس کو بچانے کی پوری کوشش کرتے ہیں،اگر اسی نیت کے ساتھ وہ لوگ یہ کام کریں تو ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی بڑے اجر وثواب کا کام ہے اور ملک کے تمام باشندگان کی عبادات میں ان کا کسی حد تک حصہ ہوجاتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ محافظین بھی آخر انسان ہی ہیں ،ان کو بھی آرام وراحت وغیرہ کی ضرورت لاحق ہوسکتی ہے ،ایسے موقع پر جو لوگ ان محافظین کی حفاظت کرتے ہیں اور حفاظت کے لیے ان کے چوکیدار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں،ان کے لیے اس روایت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا فرمائی گئی ہے۔
نواں عمل:دینی تعلیمات کی حفاظت کرنا
”کنز العمال“میں ہے؛”رحمة اللہ علی خلفائي․ قیل ومن خلفاؤک یا رسول اللہ؟ قال الذین یحیون سنتي ویعلمونہا الناس…“(کنز العمال ، کتاب العلم من قسم الأقوال، الباب الثالث في آداب العلم، الفصل الأول: فی روایة الحدیث وآداب الکتابة، رقم الحدیث 26209:10/229)
ترجمہ:”اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو میرے خلفاء پر۔کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول تمہارے خلفاء کون ہیں ؟فرمایا کہ:وہ جومیری سنتوں کو زندہ کرتے ہیں اوراسے لوگوں کوسکھاتے ہیں“۔
جو لوگ اسلامی تعلیمات واحکام کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور دیگر لوگوں تک یہ چیزیں پہنچاتے ہیں، اس روایت سے ان لوگوں کیلیے دو بشارتیں ملتی ہیں:
الف: پہلی بشارت تویہی ہے کہ وہ حضورصلی الله علیہ وسلم کے جانشین اور خلفاء ہیں۔ یہ بہت بڑی فضیلت اور عظیم خوش خبری ہے،جس طرح ہر شخص کو اپنے نائب کے ساتھ خاص قسم کاتعلق اورخصوصی توجہ والتفات ہوتی ہے،یوں ہی ان افراد کے ساتھ حضور صلی الله علیہ وسلم کا خصوصی ربط وتعلق ہوتا ہے، جب کہ عقل مند شخص پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی توجہ بہت بڑی عنایت ہے، جودینی واخروی ترقیوں کا زینہ ہے۔
ب:دوسری بڑی بشارت خود یہی دعا ہے جو اس روایت میں ان لوگوں کے لیے فرمائی گئی ہے ،حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایسے خوش نصیب افراد کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا فرمائی ہے۔
”احیاء سنت“کا مفہوم ومصداق
یہاں حدیث مبارک میں”سنت“کے احیاء کا ذکر فرمایاگیاہے، عام طور پر اس سے یہ سمجھاجاتاہے کہ جوشخص ایک سنت کو بھی زندہ کرے گا، اس کو یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی، اسی نوع کی ایک دوسری روایت میں ایک ”سنت“کے لازم پکڑنے کو سو شہیدوں کے برابر اجر وثواب کا باعث قرار دیاگیاہے،وہاں بھی عام طور پر یہی خیال کیاجاتاہے کہ شاید کسی ایک سنت کی ادائیگی سے بھی یہ ثواب مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے داد ودہش کا تو کوئی حساب نہیں ہے، تاہم فضیلت اور مجازات کا باب تعبّدی ہے، جس میں عقل وقیاس سے کام لینا بالکل بے جا ہے،یہاں تو وحی کی طرف مراجعت کرنے سے کوئی بات کی جاسکتی ہے،اس لیے اس باب میں خاصی احتیاط برتنا ضروری ہے۔
اس تناظر میں یہاں سنت میں اس قدر وسعت پیدا کرنا کہ ہر چھوٹی بڑی سنت اس میں شامل ہوجائے اور ہرہرسنت کیساتھ مستقل طور پر اس فضیلت کا تعلق پیدا کیاجائے، درست معلوم نہیں ہوتا، بلکہ اس سے پورا دین مراد لینا ہی مناسب ہے۔ درج بالا روایت میں تواس کا ایک بے غبار طریقہ یہ بھی ہے کہ یہاں”سنت“زندہ کرنے والوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم اپنا جانشین اور خلفاء قرار رے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پورے ہی دین کی تعلیمات کو اجاگر فرمایاتھا۔ لہٰذا اس روایت کا اصل مصداق وہی خوش نصیب اور سعادت مند افراد معلوم ہوتے ہیں جو پورے دین اور اس کی تعلیمات واحکام کو اجاگر کرنے میں اپنی زندگی گزاریں۔
یہ چند ایسے اعمال ہیں جن کے کرنے والوں کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔ایک مسلمان کی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق ان سب دعاؤں کا مصداق بننے کی کوشش کرے، اس میں بڑی ہی برکت وخیر مضمر ہے۔یہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی سب دعاؤں کا استیعاب مقصود نہیں ہے، بلکہ کچھ تلاش اور ورق گردانی سے جو دعائیں معلوم ہوئیں اور سند کے لحاظ سے وہ روایات قابل استدلال ہوئیں،ان کو ذکر کیاگیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب سمیت پوری امت مرحومہ کوعمل واستقامت کی توفیق سعید نصیب فرمائیں۔
دسواں عمل:امت مرحومہ کیساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا
صحیح مسلم میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ فِي بَیْتِي ہَذَا:”اللہُمَّ، مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَیْئًا فَشَقَّ عَلَیْہِمْ، فَاشْقُقْ عَلَیْہِ، وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَیْئًا فَرَفَقَ بِہِمْ، فَارْفُقْ بِہِ“.(صحیح مسلم،کتاب الإمارة،باب فضیلة الإمام العادل،وعقوبة الجائر، والحث علی الرفق بالرعیة، والنہی عن إدخال المشقة علیہم: 3/1458)
ترجمہ:”حضرت عائشہ فر ماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنے اس گھر میں ارشادفرماتے ہوئے سنا ہے :اے اللہ جو میری امت کے کسی کام کا والی بنا اور اس نے ان پرسختی کی، تو تو بھی ان پر سختی کر۔اور جو کوئی ان کے ساتھ کسی کام میں نرمی کرے ،تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرما“۔
اس روایت میں اس شخص کے لیے بددعا کی گئی ہے جو مسلمانوں کا امیر یا سربراہ بنے ،خواہ وہ کسی بھی معاملہ میں سربراہ ہو اور پھر ان کے ساتھ سختی اور درشت روئی کا معاملہ کرے، کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھی ایساہی معاملہ کرے۔ اور جوشخص اختیار ملنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ رکھے،اس کے لیے یہ دعا فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ فرمائے۔
یہ بددعا اور دعا صرف بادشاہ اور وزیر وغیرہ ہی کے ساتھ خاص نہیں ہیں، بلکہ ہر اس شخص کیساتھ اس کا تعلق ہے جس کوکسی بھی معاملہ میں مسلمانوں کے اوپر کچھ اختیار حاصل ہوجائے، چاہے تمام معاملات میں اختیار وولایت حاصل ہویاجزوی باتوں میں۔ نیز یہاں سختی اور نرمی کا ذکر فرمایاگیاہے،اس سختی ونرمی کا مفہوم وہ نہیں ہے جو ہم عام طور پر ان الفاظ سے سمجھتے ہیں کہ کسی کو کچھ نہ دیاجائے تو اس کو سختی اور بسا اوقات ظلم سے تعبیر کیاجاتاہے، خواہ وہ اس کا مستحق ہو یا نہ ہو ،اسی طرح کسی کو کچھ دیاجائے تو اس کو انصاف اور نرمی کہاجاتاہے خواہ لینے والا اس چیز کا استحقاق رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ بلکہ اس کو شریعت کے ترازو سے تولنا ضروری ہے ، لہٰذا اگر کوئی شخص کسی رعایت یا حق کا مستحق نہ ہو تو اس کونہ دینا مذموم نہیں ہے، البتہ نہ دینے کی صورت میں بھی نرم خوئی کالحاظ رکھ لینا چاہیے،اسی طرح اگر کوئی شخص کسی رعایت کا استحقاق رکھتا ہو تو نرم خوئی کے ساتھ دیدینا چاہیے۔
اس روایت سے حضور صلی الله علیہ وسلمکی اس غیر معمولی محبت اورخاص تعلق کا اندازہ لگایاجاسکتاہے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کو امت کے ساتھ تھا کہ دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد بھی اس بات کا خوب اہتمام فرمایا کہ امت بلا وجہ کسی ظلم یاسختی کی شکار نہ ہو۔