حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْن﴾․(سورة الانبیاء، آیت:107) صدق الله مولانا العظیم․
وقال الله سبحان وتعالیٰ:﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَِ﴾․ (سورة الم نشرح، آیة:4)
وقال الله سبحان وتعالیٰ:﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾․ (سورة الحشر، آیة:7)
میرے محترم بھائیو، بزرگو! الله رب العزت نے سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو آخری نبی اور رسول بنا کر اس دنیا میں بھیجا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی اور کوئی رسول نہیں آئے گا، آپ پر نبوت بھی ختم اور آپ پر رسالت بھی ختم، جو دین آپ لے کر آئے وہ دین بھی کامل اور مکمل دین ہے، اس دین میں کوئی ترمیم اور اضافہ بھی تاقیامت ممکن نہیں، وہ کتاب جو الله تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی، وہ بھی آخری کتاب ہے، اب اس کے بعد آسمان سے کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی، یہی کتاب آخری کتاب ہے اور تا قیامت اس میں بھی کوئی ترمیم، اضافہ ممکن نہیں ہے اور اس سارے کے سارے نظام ، یعنی الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ، آپ کی رسالت، آپ کا لایا ہوا دین اور شریعت، آپ پر نازل کی ہوئی کتاب… اس سب کی حفاظت کا ذمہ الله تعالیٰ نے خود لیا ہے، اس کو کوئی کم یا زیادہ نہیں کرسکتا، اس کو کوئی بگاڑ نہیں سکتا، اس کو کوئی ختم نہیں کرسکتا۔
چناں چہ اسلام کی تاریخ کا اگر آپ مطالعہ کریں تو اس میں اتار چڑھاؤ آئے ہیں، لیکن بالآخر اسلام کو عروج حاصل ہوا، اسلام کو غلبہ حاصل ہوا۔
آج عام مسلمان یہ سمجھ رہا ہے کہ اسلام کو زوال ہو رہا ہے ، جب کہ حقیقت ایسی نہیں ہے، حقیقت اس کے بالکل برعکس اور برخلاف ہے، اسلام نہایت تیزی کے ساتھ، اسلام نہایت قوت کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمارے حضرت والد ماجد نوّرالله مرقدہ وہ اسی مسجد میں ایک بات فرمایا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام یورپ او رمغرب کے دروازوں پر دستک دے رہا تو حضرت والد ماجد فرمایا کرتے تھے، دستک نہیں دے رہا، اسلام یورپ کے دروازوں کے اندر داخل ہوچکا ہے، دستک سے بہت آگے چلا گیا ہے، دستک تو باہر سے ہوتی ہے،اسلام اندر چلا گیا ہے۔
میرے دوستو! چوں کہ عام مسلمان طاغوت کی ان سازشوں کا شکار ہے، جو طاغوت نے پورے عالم کے اندر سچ ، صدق اور حق کو چھپانے کے لیے اختیار کی ہیں، چناں چہ اس کا شکار ہو کر آج مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ ہم یا ہمارا مذہب تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہو رہا ہے، ایسا نہیں ہے، آپ نے بار بار یہ بات سنی ہے کہ جب قیامت قریب آئے گی، تواہل ایمان کی آزمائش کے لیے مسیح الدجال آئے گا ، اس کے پاس بہت سارے اختیارات ہوں گے، چناں چہ جو صاحب ایمان اپنے ایمان میں قوی اور مضبوط ہو گا وہ اس آزمائش سے بچ جائے گا اور جو لوگ اسلام اور ایمان کے حوالے سے کم زور اور بہت کم زور ہوں گے وہ اس کی آزمائش کا شکار ہوں گے۔ علماء فرماتے ہیں کہ مسیح الدجال بڑا دجال ہے جس کا ذکر احادیث کے اندر آیا ہے۔
دجال کا فتنہ ایک بڑا اور خوف ناک فتنہ ہے ، جو قیامت سے پہلے ظہور پذیر ہو گا۔
حدیث میں ہے:قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما بین خلق آدم إلی قیام الساعة خلق اکبر من الدجال، وفي روایة: أمر اکبر من الدجال․
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت آنے تک کوئی امر(کوئی واقعہ اور حادثہ) دجال کے فتنہ سے بڑا اور سخت نہ ہو گا۔ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب في بقیة من أحادیث الدجال، رقم:7396، والمعجم الکبیر للطبراني، ھشام بن عامر، رقم الحدیث:452، و جامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب التاسع في القیامة، الباب الأول في أشراطھا، رقم الحدیث:7847،10/355، ومسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:16253)
اتنا خوف ناک فتنہ ہونے کے باوجود حدیث میں آتا ہے کہ لوگ اور ائمہ اس کا تذکرہ کرنا چھوڑ دیں گے۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:لا یخرج الدجال حتی یذھل الناس عن ذکرہ وحتی تترک الأئمة ذکرہ علی المنابر․
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دجال اس وقت تکنہیں نکلے گا جب تک لوگ اس کے تذکرے سے غافل نہ ہوجائیں، یہاں تک کہ ائمہ بھی منبروں پر اس کا تذکرہ چھوڑ دیں۔ (مسند الامام احمد بن حنبل، رقم الحدیث:16667)
سوال: یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ جب دجال کا فتنہ سب فتنوں سے بڑھ کر ہے، تو پھر اس کا ذکر قرآن مجید میں کیوں نہیں؟
اس سوال کا جواب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله امداد الفتاوی میں اس طرح دیتے ہیں۔
الجواب: میرے مذاق کے موافق تو یہ جواب ہے کہ حکمت غیر منصوصہ کی تفتیش کی حاجت ہی نہیں۔
اور عام مذاق کے موافق جواب یہ ہے کہ اولاً یہ مسلم نہیں کہ مذکور نہیں ، بلکہ نزول عیسوی کے ضمن میں اس طرح مذکور ہے کہ عادة الله وسنت الله یہ ہے کہ ہر نبی کو کسی بڑے فتنہ کے دفع کے لیے بھیجا جاتا ہے، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری بھی کسی فتنہ عظیمہ کے دفع کے لیے ہونی چاہیے، آگے اس فتنہ کی تعیین یہ حدیثوں سے معلوم ہو گئی۔
نیز یہ فتنہ ایک یہودی کا ہو گا، کیوں کہ دجال یہودی ہے،جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت اول بھی یہود کے دفع فتنہ کے لیے ہوئی تھی۔
سو اول تو اس طرح سے مذکور ہے۔
لیکن اگر اس ذکر کو ذکر نہ مانا جائے تو پھر دوسری حکمت یہ ہوسکتی ہے (اور ہوسکتی اس لیے کہا گیا کہ ایسی حکمتیں ظنی ہوتی ہیں) کہ حوادث دو قسم کے ہیں، ایک وہ جن کے اثرو ضرر سے محفوظ رہنا یا اس کا دفعہ کرنا باختیار عباد نہ ہو، دوسری قسم وہ ہے جس میں اختیار عباد کو دخل ہو۔
قرآن مجید میں قسم اول مذکور ہیں، اس اعتبار خاص سے ان کو عظیم قرار دیا گیا، قسم ثانی مذکور نہیں، فتنہ دجال دوسری قسم میں ہے کہ اس کے اضلال سے بچنا ہر شخص کے اختیار میں ہے، نیز اس کا ہلاک ایک عبد ہی کے ہاتھ سے ہوگا، اس کو عظیم نہیں سمجھا گیا۔ والله اعلم۔ (امداد الفتاوی، مسائل شتی:4/571)
دجال کا ظہور چوں کہ حضرت مہدی کے دور خلافت میں ہو گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر کر دجال کو قتل کریں گے اور حضرت مہدی کے حوالے سے ناواقف عوام میں مختلف قسم کی باتیں پھیلا کر گم راہ کیا جاتا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے تذکرے سے پہلے احادیث کی روشنی میں مختصراً حضرت مہدی کا بھی تذکرہ آجائے۔
حضرت مہدی کے حوالے سے حدیث میں ہے کہ ان کا نام محمد ہو گا اور اہل بیت میں سے ہو ں گے او ران کے والد کا نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے والد کے نام پر ہو گا، یعنی عبدالله اور وہ ایسے خلیفہ ہوں گے کہ زمین کو انصاف سے بھر دیں گے۔
عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: لو لم یبق من الدنیا إلا یوم لطول الله ذلک الیوم ثم اتفقوا حتی یبعث فیہ رجلا منّی أو من أھل بیتی یواطیٴ اسمہ اسمی واسم أبیہ اسم أبی، یملأ الأرض قسطا وعدلا کما ملئت ظلماً وجوراً․
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی بچ جائے گا، تو الله تعالیٰ اسی دن کو اس قدر طویل فرمائیں گے کہ اس (ایک دن) میں ایک شخص مجھ سے، یا فرمایا میرے اہل بیت میں سے بھیجیں گے، کہ اس کا نام میرے نام جیسا (یعنی محمد) ہو گا اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام جیسا ( یعنی عبدالله) ہو گا۔
وہ شخص انصاف سے روئے زمین کو بھر دے گا، ( یعنی روئے زمین پر انصاف کا غلبہ ہوگا ) جیسا کہ وہ زمین ظلم او رزیادتی سے بھر گئی تھی۔ (سنن أبي داود، اول کتاب المھدی، رقم الحدیث:4282، والمعجم الأوسط، رقم الحدیث:1233، وجامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب التاسع في القیامة، الباب الأول في أشراطھا، رقم الحدیث:7833،10/330)
اسی طرح حدیث میں حضرت مہدی کا حلیہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
عن أبي سعید الخدری رضی الله عنہ قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: المھدی منی، أجلی الجبھة، أقنی الأنف، یملأ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما، یملک سبع سنین․
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مہدی میری اولاد میں سے ہیں ، ( ا ن کا حلیہ اور ان کے اوصاف یہ ہوں گے) کشادہ پیشانی ہو گی، کھڑی ناک والے ہوں گے، روئے زمین کو انصاف سے بھر دیں گے، جس طرح کہ زمین ظلم وزیادتی سے بھری ہوئی تھی اور وہ زمین کے سات سال تک مالک رہیں گے (یعنی سات سال تک حکومت کریں گے)۔ (سنن أبي داود، اول کتاب المہدی، رقم الحدیث:4285، جامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب التاسع في القیامة، الباب الأول في أشراطھا، رقم الحدیث:7836،10/331)
ظہور مہدی
مہدی کے ظہور سے پہلے مسلمانوں اور عیسائیوں کے ایک فرقے کے درمیان صلح ہو جائے گی اور عیسائی اور مسلمان مل کر دشمن سے لڑیں گے اور فتح یاب ہو جائیں گے، لیکن فتح یاب ہونے کے بعد مشترکہ لشکر میں سے ایک عیسائی کھڑا ہو گا اور صلیب اٹھا کر اعلان کرے گا کہ صلیب غالب آگئی، تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی کھڑا ہو گا اور اس نصرانی سے مارپیٹ کرے گا تو اس وقت اہل روم عیسائی صلح کا معاہدہ توڑ ڈالیں گے اور لوگوں کو جنگ کرنے کے لیے اکھٹا کریں گے اور اس جنگ میں عیسائیوں کو فتح حاصل ہو گی۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ستصالحون الروم صلحا آمنا فتغزون انتم وھم عدوًّا من وراء کم فتنصرون وتغنمون وتسلمون ثم ترجعون حتی تنزلوا بمرج ذی تلول فیرفع رجل من أھل النصرانیة الصلیب فیقول: غلب الصلیب، فیغضب رجل من المسلمین فیدقہ، فعند ذلک تغذر الروم وتجمع للملحمة․
وفي روایة: ویثور المسلمون إلی اسلحتھم فیقتتلون فیکرم الله تلک العصابة بالشھادة․ (سنن أبي داود، اول کتاب الملاحم، باب مایذکر من ملاحم الروم، رقم:4292، والمعجم الکبیر للطبراني، رقم الحدیث:4230، وجامع الأصول في احادیث الرسول، الکتاب الثالث في الفتن، الفصل الثانی، رقم الحدیث:7479،10/26، وصحیح ابن حبان، کتاب التاریخ، باب إخبارہ صلی الله علیہ وسلم عما یکون في امتہ من الفتن، رقم الحدیث:6709)
مسلمانوں کے ایک خلیفہ کا انتقال ہوگا اور مسلمانوں میں خلیفہ بنانے کے حوالے سے اختلاف ہو گا(کہ کس کو خلیفہ بنائیں…) اہل مدینہ میں سے ایک قریشی (جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہو گیا کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہو گا) مدینہ سے مکہ کی طرف نکل جائے گا ( اس ڈر سے کہ کہیں مسلمان مجھے نہ خلیفہ بنا دیں )۔ (لیکن مکہ میں مسلمان اس کو پہچان لیں گے کہ یہی مہدی ہیں ) تو مسلمان آپ کو مجبور کرکے آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔( یعنی آپ خلیفہ بننے پر راضی نہ ہوں گے، لیکن مسلمان آپ کو خلیفہ بننے پر مجبور کریں گے)۔
شام سے ایک لشکر آپ سے مقابلے کے لیے روانہ ہو گا، تو وہ لشکر مقام بیداء، جو مدینہ اور مکہ کے درمیان ہے، میں زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور شام او رعراق کے ابدال، اولیاء آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔
عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: یکون اختلاف عند موت خلیفة فیخرج رجل من أھل المدینة ھارباً، إلی مکة، فیأتیہ ناس من أھل مکة فیخرجونہ، وھو کارہ فیبایعونہ بین الرکن والمقام، ویبعث إلیہ بعث من أھل الشام فیخسف بھم بالبیداء بین مکة والمدینة فإذا رأی الناس ذلک أتاہ أبدال الشام وعصائب أھل العراق فیبایعونہ بین الرکن والمقام… إلخ (سنن أبي داود، أول کتاب المہدی، رقم الحدیث:4286، وصحیح ابن حبان، کتاب التاریخ، باب اخبارہ صلی الله علیہ وسلم عما یکون في أمتہ من الفتن والحوادث ،رقم الحدیث:6757، ومسند الإمام احمد بن حنبل، رقم الحدیث:26689، ومسند أبي یعلیٰ، مسند أم سلمة رضی الله عنہا، رقم الحدیث:6940، وجامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب الثالث في الفتن، الفصل الثانی، رقم الحدیث:7480، 10/27)
”مستدرک“ کی روایت میں ہے:عن أبي سعید الخدري رضي الله عنہ قال: قال نبی الله صلی الله علیہ وسلم: ینزل بأمتي في آخر الزمان بلاء شدید من سلطانھم، لم یسمع بلاء أشد منہ، حتی تضیق عنھم الأرض الرحبة وحتی یملأ الأرض جوراً وظلما لا یجد المومن ملجأ یلتجیٴ إلیہ من الظلم فیبعث الله عزوجل رجلاً من عترتی، فیملأ الارض قسطا وعدلا إلخ․ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث:8438،4/512)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ (آخری زمانے میں ) میر ی امت پر ان کے ارباب حکومت کی طرف سے سخت مصیبتیں آئیں گی، یہاں تک کہ الله کی وسیع زمین ان کے لیے تنگ ہو جائے گی، اس وقت الله تعالیٰ میری نسل سے ایک شخص کو کھڑا کرے گا، اس کی جدوجہد سے ایسا انقلاب برپا ہو گا کہ الله کی زمین جس طرح ظلم وستم سے بھر گئی تھی اسی طرح عدل وانصاف سے بھر جائے گی… إلخ
ظہور مہدی کے بعد عیسائی مسلمانوں کے خلاف جمع ہو جائیں گے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوگی، اس جنگ میں مسلمان بھی بڑی تعداد میں شہید ہوں گے، لیکن فتح مسلمانوں کو نصیب ہو گی اور بے تحاشا عیسائی اس جنگ میں قتل کیے جائیں گے اور جو تھوڑے بہت عیسائی بچیں گے وہ ذلت ورسوائی کے ساتھ بھاگ جائیں گے۔
حدیث میں ہے : عن یسیر بن جابر قال: ھاجت ریح حمراء بالکوفة، فجاء رجل لیس لہ ھجیری إلا یا عبدالله بن مسعود جاء ت الساعة، قال فقعد وکان متکئا، فقال:إن الساعة لا تقوم حتی لایقسم میراث، ولا یفرح بغنیمة، ثم قال بیدہ ہکذا ونحاھا نحوالشام فقال:عدو یجمعون لأھل الاسلام ویجمع لھم أھل الإسلام، قلت: الروم تعنی؟ قال: نعم، قال: ویکون عند ذاکم القتال ردة شدیدة، فیشترط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة، فیقتتلون حتی یحجز بینھم اللیل، فیفییٴ ھولاء وھؤلاء کل غیر غالب، وتفنی الشرطة ثم یشترط المسلمون شرطة للموت، لا ترجع إلاغالبة، فیقتتلون، حتی یحجز بینھم اللیل فیفییٴ ھؤلاء وھؤلاء کل غیر غالب، وتفنی الشرطة، ثم یشترط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة، فیقتتلون حتی یمسوا فیفیٴ ھؤلاء وھؤلاء کل غیر غالب، وتفنی الشرطة، فإذا کان یوم الرابع نھد إلیھم بقیة أھل الإسلام، فیجعل الله الدائرة علیھم، فیقتتلون مقتلة إما قال: لا یری مثلھا، وإما قال لم یر مثلھا، حتی إن الطائر لیمر بجنباتھم فما یخلفھم حتی یخر میتا، فیتعاد بنو الأب کانوا مائة، فلا یجدونہ بقی منھم إلا الرجل الواحد، فبأی غنیمة یفرح؟ ! أو أی میراث یقاسم؟ (الجامع الصحیح لمسلم، کتب الفتن، باب اقبال الروم في کثرة القتل عند خروج الدجال، رقم الحدیث:7281، والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث:8471،4/523، ومسند أبي یعلیٰ، مسند عبدالله بن مسعود، رقم الحدیث:5381، ومسند الإمام احمد بن حنبل، رقم الحدیث:4146)
یسیر بن جابر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ کوفہ میں سرخ آندھی آئی تو ایک آدمی آیا، جس کا تکیہ کلام یہی تھا کہ اے عبدالله بن مسعود! قیامت آگئی۔ یہ سن کر حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہٹیک لگائے ہوئے تھے تو سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ایک موقع ایسا نہ آجائے کہ میراث تقسیم نہیں ہو گی اور مسلمانوں کو جہاد میں ملنے والی مال غنیمت سے خوشی نہیں ہوگی۔ اس کے بعد ہاتھ سے ملک شام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ وہاں اہل اسلام کے دشمن جمع ہوں گے اور مسلمان ان کے مقابلے کے لیے جمع ہوں گے، میں نے کہا دشمن سے آپ کی مراد رومی ہیں؟ تو حضرت عبدالله بن مسعود نے فرمایا کہ ہاں! مسلمانوں کی ایک جماعت میدان جنگ میں یہ شرط لگا کر نکلے گی کہ وہ کفار پر غلبہ اور فتح حاصل کیے بغیر نہیں لوٹے گی، چناں چہ مسلمانوں کی وہ جماعت خوب لڑے گی، یہاں تک کہ رات ہو جائے گی اور اس دن اس جماعت میں سے اکثر شہید ہو جائیں گے اور جو بچ جائیں گے وہ واپس ہو جائیں گے۔
دوسرے دن بھی اسی طرح مسلمانوں کی ایک جماعت اسی عہد وپیمان کے ساتھ میدان جنگ میں کودے گی اور جام شہادت نوش کر لے گی اور بقیہ افراد واپس لوٹ آئیں گے، اسی طرح تیسرے دن بھی ایک جماعت نکلے گی اور اس جماعت کے بھی اکثر افراد شہید ہو جائیں گے۔
جب چوتھا دن ہو گا تو بقیہ مسلمان کفار پر حملہ کریں گے اور الله تعالیٰ کفار کو شکست دے دیں گے اور اس دن ایسی لڑائی ہو گی کہ اس طرح لڑائی کسی نے نہیں دیکھی ہو گی، یہاں تک کہ ایک پرندہ ان کے پہلوؤں کے پاس سے گزرے گا تو وہ ان کو پیچھے نہ چھوڑے گا، یہاں تک کہ مرکر گر پڑے گا، (یعنی اگر پرندہ مرنے والوں کا معائنہ کرنا چاہے تو وہ اڑتے اڑتے گر پڑے گا، کیوں کہ لاشوں سے تعفن پھیل رہا ہو گا اور دور دراز علاقوں تک لاشیں پھیلی ہوئی ہوں گی، فاصلے کے زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ پرندہ اڑنے سے عاجز آجائے گا) او رایک باپ (دادا) کی اولاد سو ہو گی، وہ شمار کی جائے گی تو ان میں سے ایک آدمی کے سوا کسی کو بچا ہوا نہیں پائیں گے، ( یعنی مسلمان بھی اس جنگ میں اتنی بڑی تعداد میں شہید ہوں گے) پس کون سی خوشی اس غنیمت سے ہو گی او رکون سی میراث تقسیم کی جائے گی؟
اس جنگ میں فتح یاب ہونے کے بعد حضرت مہدی ستر ہزار کا لشکر لے کر قسطنطنیہ (استنبول) پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوں گے او رجب اس شہر کی فصیل کے قریب پہنچ کر نعرہ تکبیر بلند کریں گے، تو اس کی فصیل گر جائے گی اور مسلمان شہر میں داخل ہو جائیں گے، حضرت مہدی قسطنطنیہ میں ہوں گے کہ ایک افواہ اڑے گی کہ دجال نکل آیا ہے، چناں چہ حضرت مہدی قسطنطنیہ سے جلدی میں شام کی طرف روانہ ہوں گے اور خبر کی تحقیق کے لیے کچھ افراد کو آگے بھیجیں گے، ان کے ذریعیمعلوم ہو جائے گا کہ خبر جھوٹی تھی اور حضرت مہدی جب شام پہنچیں گے اور کچھ عرصہ گزرے گا کہ دجال کا ظہور ہو جائے گا۔
عن أبي ھریرة رضي الله عنہ أن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: سمعتم بمدینة جانب منھا في البر وجانب منھا في البحر؟ قالوا نعم یا رسول الله! قال لا تقوم الساعة حتی یغزوھا سبعون الفا من بنی اسحاق فاذا جاؤوھا نزلوا فلم یقاتلوا بسلاح ولم یرموا بسھم قالوا: لا إلہ إلا الله والله اکبر فلیسقط أحد جانبیھا… ثم یقولوا الثانیة: لا إلہ إلا الله والله اکبر فیسقط جانبھا الآخر ثم یقولوا الثالثہ لا إلہ إلا الله والله اکبر فیفرج لھم، فیدخلوھا فیغمنوا فبینما ھم یقتسموں الغانم إذ جاء ھم الصریخ فیقال: ان الدجال قد خرج فیترکون کل شيء ویرجعون․
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم نے ایسے شہر کے متعلق سنا ہے جس کی ایک جانب خشکی میں اور دوسری جانب سمندر میں ہوگی؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں اے الله کے رسول! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ستر ہزار آدمی جہاد کریں گے، جب شہر کے پاس جا اتریں گے تو نہ وہاں ہتھیاروں سے لڑائی کریں گے نہ وہ ان پر تیر پھینکیں گے، وہ لا إلہ إلا الله والله اکبر کا نعرہ بلند کریں گے تو اس شہر کی فصیل کی ایک جانب گر جائے گی… پھر دوسری مرتبہ لا إلہ الا الله والله اکبر کہیں گے تو دوسری جانب والی فصیل گر جائے گی، پھر وہ تیسری مرتبہ لا إلہ إلا الله والله اکبر کہیں گے تو ان کے لیے کشادگی کر دی جائے گی، چناں چہ اس میں وہ داخل ہو کر غنیمت حاصل کریں گے، ابھی وہ غنیمت کی تقسیم میں مصروف ہوں گے کہ ان کے کانوں میں ایک زور دار آواز پڑے گی کہ دجال نکل آیا ہے! وہ ہر چیز کو چھوڑ کر واپس لوٹ آئیں گے۔(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب لا تقوم الساعة حتی یمرّالرجل بقبر الرجل فیتنمیٰ أن یکون مکان المیت، من البلاء، رقم الحدیث:7333، وجامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب التاسع في القیامة، الباب الأول، رقم الحدیث:7875،10/380) (جاری)