حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
” المستدرک“ کی روایت میں ہے: یقال: إن ھذہ المدینة ھي القسطنطنیة، قد صحت الروایة أن فتحھا مع قیام الساعة․
یعنی جس شہر کا تذکرہ حدیث میں آیا ہے، یہ شہر قسطنطنیہ ہے، جو قرب قیامت مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہو گا۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث:8469، 4/532)
اسی طرح روایت میں ہے: فبیناھم کذلک اذ سمعوا ببأس، ھو اکبر من ذلک فجاء ھم الصریخ إن الدجال قد خلفھم في ذراریھم فیرفضون ما في أیدیھم، ویقبلون فیبعثون عشر فوارس طلیعة، قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إنی لأعرف أسماء ھم وأسماء آبائھم وألوان خیولھم، ھم خیر فوارس علی ظھر الأرض یومئذ، أو من خیر فوارس علی ظھر الأرض یومئذ“․ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب إقبال الروم في کثرة القتل عند خروج الدجال، رقم الحدیث:7281، وصحیح ابن حبان، کتاب التاریخ، باب إخبارہ صلی الله علیہ وسلم عما یکون في أمتہ من الفتن والحوادث، رقم الحدیث:6786)
حضرت مہدی کے حوالے سے ایک ضروری انتباہ
اہل سنت والجماعت کے نزدیکحضرت مہدی کا ظہور قرب قیامت میں ہو گا جیسا کہ ماقبل میں احادیث کی روشنی میں تفصیل آگئی ہے۔
البتہ ایک فرقہ کے لوگ حضرت مہدی کے حوالے سے باطل داستانیں گھڑ کر، ناواقف مسلمانوں کو گم راہ کرتے ہیں اور یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مہدی کے حوالے سے اہل سنت والجماعت اور ان کا اتفاق ہے، حالاں کہ یہ سراسر دھوکہ اور فریب ہے۔
ذیل میں اس حوالے سے ”حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ الله“ کی باتوں کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
فرماتے ہیں: حضرت مہدی سے متعلق احادیث کی تشریح کے سلسلہ میں یہ بھی ضروری معلوم ہوا کہ ان کے بارے میں اہل سنت کے مسلک وتصور اور شیعی عقیدہ کا فرق واختلاف بھی بیان کر دیا جائے، کیوں کہ بعض شیعہ صاحبان ناواقفوں کے سامنے اس طرح بات کرتے ہیں، گویا ظہور مہدی کے مسئلہ پر دونوں فرقوں کا اتفاق ہے، حالاں کہ یہ سرا سر فریب اور دھوکہ ہے۔
مہدی کے بارے میں شیعی عقیدہ
شیعوں کا عقیدہ ہے، جوان کے نزدیک جزوایمان ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد سے قیامت تک کے لیے الله تعالیٰ نے بارہ امام نامزد کر دیے ہیں، ان سب کا درجہ (نعوذ بالله) رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے برابر اور دوسرے تمام نبیوں ورسولوں سے برتر وبالا ہے۔
ان بارہ اماموں میں سے پہلے امام حضرت علی رضی الله عنہ، دوسرے حضرت حسن رضی الله عنہ، تیسرے حضرت حسین رضی الله عنہ، ان کے بعد ان کے بیٹے علی بن الحسین، اسی طرح ہر امام کا بیٹا امام ہوتا رہا، یہاں تک کہ گیارہویں امام حسن عسکری تھے، جن کی وفات 260ھ میں ہوئی، ان کی وفات سے چار پانچ سال پہلے ان کی کنیز کے بطن سے بیٹاپیدا ہوا اور وہ اپنے والد کے انتقال سے دس دن پہلے چار یا پانچ سال کی عمر میں معجزانہ طور پر غائب اور اپنے شہر ”سر من رأی“ کے ایک غار میں روپوش ہو گئے، اس وقت سے وہ اسی غار میں روپوش ہیں، ان کی روپوشی پر اب تقریباً بارہ سو برس کا زمانہ گزر چکا ہے، شیعہ صاحبان کا عقیدہ او رایمان ہے کہ وہی بارہویں اور آخری امام مہدی ہیں، وہی کسی وقت غار سے برآمد ہوں گے اور (نعوذ بالله) صحابہ کرام رضی الله عنہم کو قبروں سے نکال کر سزا دیں گے۔
اہل سنت والجماعت کے نزدک اول سے آخر تک یہ صرف خرافاتی داستان ہے۔ (معارف الحدیث، علامات قیامت:8/120-118)
دجال
جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت مہدی قسطنطنیہ سے شام آجائیں گے او رکچھ عرصہ بعد دجال ظاہر ہو جائے گا، دجال کا فتنہ بڑا سخت فتنہ ہو گا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا دعاؤں میں معمول تھا کہ دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتے تھے۔
عن عائشة زوج النبی صلی الله علیہ و سلم أخبرتہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کان یدعوفي الصلاة: ”اللھم إني أعوذ بک من عذاب القبر وأعوذ بک من فتنة المسیح الدجال وأعوذ بک من فتنة المحیا وفتنة الممات، اللھم إنی أعوذ بک من المأثم والمغرم․(الجامع الصحیح للبخاري،کتاب الأذان، باب الدعاء قبل السلام، رقم الحدیث:832، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب المساجد، باب ما یستعاذ منہ في الصلاة، رقم:1325، وسنن أبي داود، کتاب الصلاة، باب الدعاء في الصلاة، رقم الحدیث:880
نیز آپ صلی الله علیہ و سلم یہ دعاء صحابہ کرام رضی الله عنہم کو قرآن کی سورة کی طرح سکھاتے تھے۔
عن ابن عباس رضی الله عنہما أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یعلمھم ھذا الدعاء کما یعلمھم السورة من القرآن، یقول: اللھم إني أعوذ بک من عذاب جہنم، وأعوذ بک من عذاب القبر، وأعوذ بک من فتنة المسیح الدجال، وأعوذ بک من فتنة المحیا والممات․ (سنن أبي داود، أبواب الوتر، باب في الاستعاذة، رقم الحدیث:1544، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب المساجد، باب ما یستعاذ منہ في الصلاة، رقم:1333، وسنن الترمذي، أبواب الدعوات، رقم الحدیث:3494)
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا دجال اور اس کے فتنوں سے اپنی امت کو ڈرانا
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو دجال او راس کے فتنوں سے مکمل آگاہ فرمایا، چناں چہ حدیث میں ہے:عن ابن عمر رضی الله عنہما قال: کنا نتحدث بحجة الوداع والنبي بین أظھرنا ولا ندري ما حجة الوادع، فحمدالله وأثنی علیہ، ثم ذکر المسیح الدجال، فأطنب في ذکرہ وقال: ما بعث الله من نبي إلا أنذر أمتہ، أنذرہ نوح والنبیون من بعدہ، وإنہ یخرج فیکم، فما خفي علیکم من شانہ فلیس یخفی علیکم أن ربکم لیس علی ما یخفی علیکم ثلاثا، إن ربکم لیس بأعور، وإنہ أعور عین الیمنی، کأن عینہ عنبة طافیة․
حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ہم حجة الوداع کا تذکرہ کرتے تھے، اس وقت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہمارے درمیان (باحیات) تھے اور ہم نہیں سمجھتے تھے کہ حجة الوداع (وداعی حج) کا مفہوم کیا ہو گا؟( یعنی ہمیں معلوم نہیں تھاکہ وداعی حج کا مطلب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا وداع ہے یا مکہ معظمہ کا وداع؟ آخر کچھ ہی دنوں کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ و سلم کا انتقال ہو گیا تو وداع کا مفہوم سمجھ میں آیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا دنیا سے انتقال تھا) پس نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کی حمد بیان کی او رتعریف کی، اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے دجال کا ذکر فرمایا او راس کے بیان کو لمبا کیا، (یعنی بہت تفصیل سے بیان کیا) آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ الله تعالیٰ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو نہ ڈرایا ہو( یعنی سب انبیاء نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا) اور حضرت نوح علیہ السلام او ران کے بعد والے پیغمبروں نے بھی ڈرایا اوروہ تم ہی میں سے نکلے گا، پس اگر اس کا کچھ حال تم پر پوشیدہ رہے ( یعنی دجال کے متعلق اشتباہ ہو او راس کے جھوٹے ہونے کی کوئی دلیل معلوم نہ ہو ) تو تم پر یہ بات پوشیدہ نہ رہے کہ تمہارا رب کا نا نہیں ہے اوروہ دجال بلاشبہ دائیں آنکھ کا کانا ہو گا، اس کی آنکھ ایسی ہوگی جیسے پھولا ہوا انگور۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، رقم الحدیث:4402، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال، رقم الحدیث:426، وسنن أبي داود، کتاب السنة، باب في الدجال، رقم الحدیث:4759، وسنن الترمذی، کتاب الفتن،باب علامة الدجال، رقم الحدیث:2235)
دجال کی پیدائش
حدیث میں آتا ہے: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: یمکث أبوالدجال وأمہ ثلاثین عاما، لا یولد لھما ولد ثم یولد لھما غلام أعور أضرشيء وأقلہ منفعة، تنام عیناہ ولا ینام قلبہ… إلخ․
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے ماں باپ کی تیس سال تک کوئی اولاد نہیں ہوگی، تیس سال بعد ان کا ایک لڑکا ہو گا، جو سب چیزوں سے زیادہ ضرر رساں اور سب چیزوں سے زیادہ بے منفعت ہو گا، اس (دجال) کی دونوں آنکھیں سوئیں گی، مگر اس کا دل نہیں سوئے گا۔ ( سنن الترمذی، أبواب الفتن، باب ذکر ابن صائد، رقم الحدیث:2248، وجامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب التاسع في القیامة، الباب الأول، رقم الحدیث:7858)
دجال کی جسمانی علامات
حدیث میں ہے :عن أنس رضي الله عنہ قال: قال النبي صلی الله علیہ وسلم: ما بعث نبی إلا أنذر أمتہ الأعور الکذاب ألا إنہ أعور، وإن ربکم، لیس بأعور وإن بین عینیہ مکتوب ”کافر“․
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیغمبر نے اپنی امت کو کانے کذاب سے ڈرایا، خبردار بے شک وہ (دجال) کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں، اس کی آنکھوں کے درمیان ”کافر“ لکھا ہوا ہو گا۔ ( الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال، رقم الحدیث:7131، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب ذکر ابن الصیاد، رقم الحدیث:7363، وسنن الترمذي، کتاب الفتن، باب قتل عیسی بن مریم الدجال، رقم الحدیث:2245)
دجال کی آنکھوں کی کیفیت سے متعلق مختلف قسم کی روایات مروی ہیں، بعض میں ہے کہ دجال کی بائیں آنکھ کانی ہوگی، بعض میں ہے کہ دائیں آنکھ کانی ہوگی، بعض میں ممسوح العین، کے الفاظ ہیں۔ ملا علی القاری رحمہ الله ان میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ووجہ الجمع بین ھذہ الأوصاف المتنافرة أن یقدر فیھا أن إحدی عینیہ ذاھبة والأخری معیبة، فیصح أن یقال لکل واحدة عوراء․ (مرقاة المفاتیح، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدي الساعة و ذکر الدجال:10/109)
یعنی دجال کی ایک آنکھ تو غائب ہو گی اور دوسری آنکھ عیب دار ہے، اس لیے دونوں آنکھوں پر اعور کا اطلاق ہوسکتا ہے۔
دجال کے حوالے سے حضرت تمیم داری رضی الله عنہ کا واقعہ
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے منادی کو یہ اعلان کرتے سنا، الصلوٰة جامعة، جماعت تیار ہے، یہ سن کر میں مسجد کی طرف گئی، میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اس وقت آپ کے چہرے مبارک پر تبسم تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہر شخص اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہے، پھر فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا الله اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے تمہیں بشارت وانداز کے لیے جمع نہیں کیا، مگر اس لیے جمع کیا ہے کہ تمیم داری ایک عیسائی تھا، وہ آکر مسلمان ہوا او راس نے ہم کو ایک ایسی خبر دی جو اس کے موافق ہے جو ہم تمہیں مسیح دجال کے متعلق بتلایا کرتے تھے۔
اس نے اطلاع دی کہ وہ قبیلہ لحم وجذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ دریائی جہاز میں سوار ہوئے، ایک ماہ تک موج سمندر میں ان سے کھیلتی رہی،غروب آفتاب کے وقت ایک دن ان کو ایک جزیرہ کے قریب پہنچا دیا، پھر وہ چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرہ میں داخل ہوئے، جو کہبڑی کشتی کے ساتھ تھی، وہاں ان کو بہت زیادہ بالوں والا ایک جانور ملا، بالوں کی کثرت کے سبب اس کا اگلا پچھلا حصہ یکساں معلوم ہوتا تھا، وہ پہچانا نہیں جاسکتا تھا، لوگوں نے حیرت زدہ ہو کر اسے کہا، تیرے لیے خرابی ہو تو کون ہے؟ اس چوپایہ نے جواب دیا میں جاسوس ہوں اور خبر پہنچانے والا ہوں، تم لوگ اس گرجے میں جاؤ، کیوں کہ وہ تمہاری خبروں کا شوقین ہے، تمیم دار ی کہتے ہیں کہ جب اس نے ہم میں سے ایک آدمی کا نام لیا تو ہمیں خوف ہوا کہ یہ تو خبیث (جن) ہے، بہرحال ہم تیز چل کراس گرجے میں داخل ہو گئے، ہم نے وہاں ایک بہت بڑا بھاری بھر کم آدمی پایا، جو کہ نہایت خوف ناک تھا، اس جیسی شکل وشباہت کا آدمی ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا، وہ نہایت مضبوط بندھا ہوا تھا، اس کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے اور گھٹنوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا، ہم نے اس سے دریافت کیا، تو برباد ہو بتاؤ کہ تم کون ہو؟ وہ کہنے لگا میری خبر پر تم نے اطلاع پالی ہے، تم بتلاؤ کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں… اس نے کہا مجھے بیسان کے باغ کی اطلاع دو، کیا وہ ابھی پھل دے رہا ہے ؟ ہم نے کہا جی ہا ں !اس نے کہا عنقریب ایک ایسا وقت آئے گا جب وہ پھل نہ دے گا۔
اس نے کہا مجھے بحیرہ طبریہکے متعلق بتاؤ؟ کیا اس میں پانی موجود ہے ؟ ہم نے کہا اس میں کثرت سے پانی موجود ہے، اس نے کہا قریب ہے کہ اس کا پانی خشک ہو جائے، پھرکہنے لگا مجھے چشمہ زغر کے متعلق بتلاؤ کہ کیا اس چشمہ میں پانی موجود ہے؟ اور کہا وہاں کے باشندے کھیتی باڑی کر رہے ہیں ؟ ہم نے کہا اس میں بہت پانی ہے اور اس کے باشندے اس کے پانی سے خوب کھیتی باڑی کر رہے ہیں، اس نے کہا مجھے ان پڑھ لوگوں کے پیغمبر کی خبر دو کہ انہوں نے کیا کہا؟ ہم نے کہا وہ مکہ سے تشریف لے جاکر یثرب میں قیام پذیر ہیں، وہ کہنے لگا کیا عرب نے ان سے جنگ کی؟ ہم نے کہا جی ہاں! اس نے کہا ان کے ساتھ نبی نے کیا سلوک کیا؟ ہم نے بتلا دیا کہ وہ متصل عرب پر غالب آگئے ہیں اورعرب نے ان کی اطاعت کر لی ہے۔ اس نے کہا عربوں کے لیے ان کی اطاعت ہی بہتر ہے۔
میں تمہیں اپنے متعلق بتلاتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، اگرمجھے نکلنے کی اجازت دی جائے تو میں نکل کر ساری زمین میں چلوں گا اورمجھ سے کوئی بستی بھی نہ بچ سکے گی، مگر وہاں صرف چالیس دن اتروں گا، سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے، کیوں کہ وہ دونوں بستیاں مجھ پر حرام ہیں۔
جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنا عصا منبر پر مار کر فرمایا: یہ ہے مدینہ، یہ ہے مدینہ، تم بتلاؤ کہ کیا ہم نے تمہیں خبریں بتلائی ہیں؟ لوگوں نے کہا جی ہاں ، پھر فرمایا: خبردار وہ شام یا یمن کے جنگل میں سے نہیں، بلکہ وہ مشرق کی جانب ہے اور آپ صلی الله علیہ وسل نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ ( الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب قصة الجساسة، رقم الحدیث:7386، وسنن أبي داود، کتاب الملاحم، باب في خبر الجساسة، رقم الحدیث:4328)
دجال کا خروج
دجال مشرق کی طرف سے ظاہر ہو گا۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الدجال یخرج من أرض بالمشرق یقال لھا خراسان، یتبعہ أقوام کأن وجوھھم المجان المطرقة․
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دجال مشرقی علاقہ سے نکلے گا، جسے خراسان کہا جاتا ہے، اس کے پیروکار کچھ ایسے لوگ ہوں گے گویا کہ ان کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھال کی طرح ہیں۔ (سنن الترمذي، کتاب الفتن، باب من أین یخرج الدجال، رقم الحدیث:2237)
یہودی دجال کے پہلے پیروکار
عن أنس رضي الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: یتبع الدجال من یہود أصبھان سبعون ألفا،علیہم الطیالسة․
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اصفہان کے ستر ہزار یہودی دجال کی پیروی کریں گے ۔ ( الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب فيبقیة من أحادیث الدجال، رقم:7392، ومشکوٰة المصابیح،کتاب الفتن،باب العلامات بین یدی الساعة وذکر الدجال، رقم الحدیث:5478)
دجال کی شعبدہ بازیاں
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إن الدجال یخرج وإن معہ ماءً وناراً فأما الذی یراہ الناس ماء فنار تحرق، وأما الذي یراہ الناس ناراً، فماء بارد عذب، فمن أدرک ذلک منکم فلیقع في الذي یراہ ناراً، فإنہ ماء عذب طیب․
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال نکلے گا او راس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی، پس جس چیز کو لوگ پانی کی صورت دیکھیں گے وہ جلانے والی آگ ہے، اور لوگ جس کو آگ کی صورت میں دیکھیں گے وہ حقیقت میں ٹھنڈا میٹھا پانی ہے، پس جو شخص تم میں سے اس کو پائے تو وہ اس (دجال) کی آگ میں گرے، اس لیے کہ وہ ٹھنڈا میٹھا پانی ہے ۔ (یعنی دجال اپنی مخالفوں کو آگ میں ڈالے گا، جب کہ الله تعالیٰ اس آگ کو مومنوں کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دے گا)۔ ( الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب ذکر ابن صیاد، رقم الحدیث:7370، والجامع الصحیح للبخاري، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال، رقم الحدیث:7130)
ایک اور تفصیلی روایت میں ہے (جو کچھ اختصار کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے ) آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دجال زمین میں چالیس دن تک رہے گا، (فساد برپا کرے گا) او رایک دن ایک سال کی طرح ہو گا او رایک دن ایک مہینے کی طرح ہو گا او رایک دن پورے ہفتے کی طرح ہو گا اور بقیہ دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا اے الله کے رسول! وہ دن جو ایک سال کی مانند ہو گا کیا اس میں ہمیں ایک دن کی نمازیں کافی ہو جائیں گی؟ فرمایا نہیں، بلکہ تم اس کے لیے وقت کا اندازہ لگاؤ، صحابہ نے عرض کیا، اے الله کے رسول! زمین میں اس کی تیز رفتاری کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس طرح بادل جس کو پیچھے سے ہوا دھکیل رہی ہو، چناں چہ اس کا گزر ایک قوم کے پاس سے ہو گا، دجال اس قوم کو دعوت دے گا، وہ اس پر ایمان لے آئیں گے، چناں چہ وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ ان پر بارش برسائے گا، زمین کو حکم دے گا، تو وہ ان کے لیے کھیتیاں اُگائے گی، ان کے چر کر آنے والے جانور شام کو لمبی کوہانوں کے ساتھ لوٹیں گے او ران کے تھن زیادہ دودھ سے بھرے ہوئے ہوں گے، پھر اس کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہو گا جنہیں وہ دعوت دے گا اور وہ اس کی بات کو رد کر دیں گے تو دجال اس قوم سے لو ٹ کر جائے گا، تو صبح کے وقت وہ لوگ قحط زدہ ہو جائیں گے ، ان کے ہاتھوں میں ان کے اموال میں سے کوئی چیز نہ ہو گی۔
دجال کا گزر ویرانے کے پاس سے ہو گا تو وہ اسے کہے گا اپنے خزانے اگل دو تو اس کے خزانے اس طرح دجال کے پیچھے چلیں گے جیسے شہد کے پیچھے مکھیاں چلتی ہیں، پھر دجال ایک آدمی کو بلائے گا، جو بھرپور جوان ہو گا، اس کو دجال تلوار سے دو ٹکڑے کر دے گا اور تیر پھینکے کے فاصلے کے برابر (یعنی جتنی دور تیر جاتا ہے اتنا دور اس کو پھینک دے گا) پھر دجال اس مرے ہوئے اور ٹکڑے کیے ہوئے جوان کو بلائے گا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو گا اور اس کا چہرہ خوشی سے ٹمٹمارہا ہو گا۔
وہ اسی حال میں ہو گا کہ الله تعالیٰ حضرت عیسی علیہ السلام کو بھیجے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے۔(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب ذکر ابن صیاد، رقم الحدیث:7373، وسنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب فتنة الدجال وخروج عیسی ابن مریم، رقم الحدیث:4075، ومشکوٰةالمصابیح،کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی الساعة وذکر الدجال، رقم الحدیث:5475)
ایک روایت میں ہے کہ دجال ایک بدوی کے پاس آئے گا او راسے کہے گا کہ اگر میں تیرا اونٹ زندہ کردوں تو کیا تو یقین کرے گا کہ میں تیرا رب ہوں؟ وہ کہے گا جی ہاں، تو شیطان اس کے سامنے اس کی اونٹنی کی شکل میں آجائے گا، جس کے بہترین تھن اور شان دار کو ہان ہو گا،اس طرح دجال دوسرے شخص کے پاس جائے گا، جس کا بھائی او رباپ مر چکا ہو گا، تو دجال اسے کہے گا کہ اگر تیرے سامنے تیرے بھائی اور باپ کو زندہ کردوں تو کیا تو یقین کرلے گا کہ میں تیرا رب ہوں؟ وہ کہے گا، ہاں، تو اس کے سامنے شیاطین اس کے بھائی اور باپ کی شکل میں آجائیں گے۔ (مسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:27568، ومشکوة المصابیح، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی الساعة وذکر الدجال، رقم الحدیث:5491)
دجال مکہ ومدینہ میں داخل نہ ہوسکے گا
قال النبي صلی الله علیہ وسلم: یجیٴ الدجال حتی ینزل في ناحیة المدینة، ثم ترجف المدینة ثلاث رجفات، فیخرج إلیہ کل کافر ومنافق․
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال آئے گا اور مدینہ کے ایک کنارے میں قیام کرے گا، پھر مدینہ منورہ میں تین زلزلے آئیں گے، تو مدینہ کے سارے کافر اور منافق (ڈر کی وجہ سے ) مدینہ سے نکل کر دجال کے پاس چلے جائیں گے۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال، رقم الحدیث:7124، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب قصة الجساسة، رقم الحدیث:7390)
مکہ اور مدینہ کی فرشتے حفاظت کریں گے، جس کی وجہ سے دجال مکہ او رمدینہ میں داخل نہ ہوسکے گا۔(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب قصة الجساسة، رقم الحدیث:7390، والجامع الصحیح للبخاری، کتاب الفتن، باب لایدخل الدجال المدینة، رقم الحدیث:7134)
دجال کو حضرت عیسی علیہ السلام قتل کریں گے
جیسا کہ ماقبل میں گزر چکا ہے کہ حضرت مہدی قسطنطنیہ سے شام آئیں گے تو دجال کا ظہور ہو جائے گا اور دجال اپنے لشکر سمیت شام کی طرف آئے گا، حضرت مہدی اپنے لشکر کو تیار کر رہے ہوں گے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دمشق شہر میں اتریں گے اور دجال کو باب لد کے قریب قتل کریں گے۔
عن النواس بن سمعان الکلابی، قال: ذکر رسول الله صلی الله علیہ وسلم الدجال إن یخرج وأنا فیکم فأنا حجیجہ… ثم ینزل عیسی ابن مریم عند المنارة البضاء شرقی دمشق فیدرک عند باب لد فیقتلہ․(سنن أبي داود، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال، رقم الحدیث:4323، وجامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب التاسع في القیامة، الباب الأول، رقم الحدیث:7840،10/341)
دجال کے فتنے سے حفاظت کا طریقہ
آپ صلی الله علیہ وسلم نے دجال کے فتنے سے حفاظت کا طریقہ بھی بیان فرمایا ہے۔
وہ طریقہ ہے سورہ کہف کی تلاوت، اگر پوری سورت کی تلاوت نہ ہوسکے تو کم از کم سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات یا آخری دس آیات یاد کرنے پر بھی یہ فضیلت آئی ہے کہ وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
قال النبي صلی الله علیہ وسلم: من حفظ عشرآیات من أول سورة الکہف عصم من فتنة الدجال․ ( سنن أبي داود، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال، رقم الحدیث:4325، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب فضائل القرآن، باب فضل سورة الکہف، رقم الحدیث:1883)
وفي روایة: من قرأ عشرآیات من آخر الکہف عصم من فتنة الدجال․ (مسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:27516)
لیکن اس دجال کے آنے سے پہلے چھوٹے چھوٹے بہت سارے دجال آئیں گے اور وہ چھوٹے چھوٹے بہت سارے دجال اس مسیح الدجال کا مقدمة الجیش یا اس کا پیشہ خیمہ ہوں گے۔
چناں چہ انہی چھوٹے چھوٹے دجالوں میں ایک بہت بڑا دجال وہ اس وقت کا میڈیا ہے، جس نے پوری انسانیت کو کنٹرول کیا ہوا ہے، چاہے آپ کسی مسلمان ملک کا اخبار پڑھیں یا کسی کافر ملک کا اخبار پڑھیں، آپ کسی مسلمان ملک میں خبریں سنیں یاکسی غیر مسلم ملک میں خبریں سنیں، خبر پر اس دجال کا کنٹرول ہے، وہ جتنی اور جیسی خبر دینا چاہتا ہے اتنی ہی خبر نکلتی ہے، ویسی ہی خبر نکلتی ہے اور صبح شام اس کا مشاہدہ ہوتا ہے، وہ جس طرح کا پوری دنیا میں ماحول بنانا چاہیں، جس طرح کا کسی بھی ملک میں ماحول بنانا چاہیں، وہ بہت مختصر سے وقت کے اندر اس دجالی میڈیا کے ذریعے سے ماحول بنا دیتے ہیں۔
چناں چہ اس وقت بھی جو ایک بہت بڑی جنگ ہے، وہ اسلام اور کفر کے درمیان ہے اور وہ جنگ پورے عالم میں ہے، کسی ایک ملک میں نہیں ہے ، الحمدلله ثم الحمدلله باوجود اس کے کہ طاغوت ، دجال اور کافر قوتیں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں اسلام پھر بھی پھیل رہا ہے، وہ زور اسی لیے لگا رہے ہیں کہ اسلام ان کے اندر داخل ہوچکا ہے، اسلام برطانیہ کے اندر داخل ہوچکا ہے، اسلام فرانس کے اندر داخل ہو چکا ہے، اسلام ہالینڈ کے اندر داخل ہو چکا ہے، اسلام سوئزر لینڈ کے اندر داخل ہوچکا ہے، اسلام امریکا کے اندر داخل ہو چکا ہے اور نہ صرف یہ کہ اندر داخل ہو چکا ہے، بلکہ روزانہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، اس پر یہ ساری کی ساری طاغوتی قوتیں لرزہ براندام ہیں، یہ جو پریشانی آپ دیکھ رہے ہیں یہ اس کی پریشانی ہے اور یہ سچ ہیکیوں کہ یہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بہت جلد وہ قت آنے والا ہے، جب ہر کچے اور پکے،ہراونی اور ہر سوتی خیمے میں اسلام کا کلمہ داخل ہو کر رہے گا۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لا یبقی علی ظھر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ الله کلمة الإسلام إما بعز عزیز وإما بذل ذلیل، إما یعزھم الله فیجعلہم من أھلہ، فیعزوا بہ، وإما یذلھم فیدینون لہ․(السنن الکبری للبیہقي، کتاب السیر، باب إظہار دین النبي صلی الله علیہ وسلم علی الأدیان، رقم الحدیث:19589، و صحیح ابن حبان،کتاب التاریخ، باب إخبارہ صلی الله علیہ وسلم عما یکون في أمتہ من الفتن، رقم:6699، ومسند الإمام أحمد بن حنبل ، رقم الحدیث:23814)
میں نے عرض کیا کہ آج جو دجال ہے میڈیا، اس کا کنٹرول ہے، آپ جتنی خبریں پڑھتے ہیں، دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، وہ چاہے مشرق میں سنیں، مغرب میں سنیں، شمال میں سنیں، جنوب میں سنیں، مسلمان ملکوں میں سنیں، یا غیر مسلم ملکوں میں سنیں، وہ طاغوت کے کنٹرول میں ہیں۔
میرے دوستو! ایک وقت تھا اور یہ بات میں پچاس کی دہائی کی کر رہا ہوں، آپ کو سن کر ہنسی آئے گی او ر تعجب ہو گا، لیکن واقعہ ہے کہ 1950 کی دہائی میں برطانیہ میں جو تھوڑے سے مسلمان تھے، وہ جمعے کی نماز اتوار کے دن پڑھتے تھے۔
کیوں؟ اس لیے کہ اتوار کے دن چھٹی ہوتی تھی، جمعے کے دن چھٹی نہیں ہوتی تھی، لہٰذا جمعے کی نماز اتوار کے دن پڑھتے تھے، پورے لندن کے اندر مسجد نہیں تھی، مشکل سے دس بائی پندرہ فٹ کا ایک کمرہ تھا، جو جائے نماز کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔
میرے دوستو! اس وقت سن2018ء میں صرف لندن شہر کے اندر ساڑھے چارسو سے زیادہ مساجد ہیں، اسلام پوری قوت سے آرہا ہے اور یہ جو ساڑھے چار سو مساجد صرف لندن کی ہیں، ان میں آدھی سے زیادہ وہ مساجد ہیں جنہیں گرجوں سے مسجد بنایا گیا، جنہیں یہودی کنیساؤں سے مسجد بنایا گیا، مسلمانوں نے گرجوں کو خریدا ہے، یہودی کنیساؤں کو خریدا ہے اور خرید کر ان کے اندر مسجدیں بنائی ہیں، میں یہ بات پورے برطانیہ کی نہیں کہہ رہا، صرف برطانیہ کے ایک شہر لندن کی بات کر رہاہوں۔ میرے دوستو! آج برطانیہ میں ایسے ایسے ادارے ہیں اگر آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر، آپ کو ہاں پہنچا دیا جائے اور آپ کو بتایا نہ جائے تو آپ کسی صورت یقین نہیں کریں گے کہ آپ برطانیہ میں ہیں، برطانیہ کوئی بہت بڑا ملک نہیں ہے، برطانیہ کا رقبہ، اس کا جغرافیہ ہمارے صوبہ پنجاب کے برابر ہے، یعنی رحیم یار خان سے شروع ہو کر اٹک پر ختم ہو جاتا ہے ، کل برطانیہ اتنا بڑا ہے۔
اس برطانیہ میں ایسے ایسے دینی مدرسے، دارالعلوم، دینی مراکز موجود ہیں او ران میں روز بروزاضافہ ہو رہا ہے، عظیم الشان مساجد اور وہ مسلمانوں سے بھری ہوئی، علماء، طلباء، درسگاہیں، فلاں فلاں۔
میرے دوستو! اس وقت جو آپ کو بہت کش مکش کی صورت حال نظر آرہی ہے، جو لوگ باشعور ہیں، باخبر ہیں، خاص گہری نظر رکھتے ہیں، وہ خوب اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ اصل میں مسئلہ کیا ہے؟
ان کی حکومتیں سخت پریشان ہیں، وہ کچھ نہیں کرسکتے، یہ تو میں نے آپ کو ایک برطانیہ کی مثال دی ہے، آپ فرانس چلے جائیں، تیزی کے ساتھ، پوری طاقت کے ساتھ، اسلام چل نہیں رہاہے، اسلام دوڑ رہا ہے، گھر گھر میں داخل ہو رہا ہے او رمجھے آپ معاف فرمائیے گا کہ وہاں کے جو مسلمان ہیں وہ ہماری طرح موروثی اور بے حمیت مسلمان نہیں ہیں، بڑے غیرت مند مسلمان ہیں، ہماری حکومت نے تو کوئی پابندی نہیں لگائی کہ جی عورتیں حجاب نہیں کرسکتیں، وہاں تو پابندی ہے، فرانس کے اندر تو پارلیمنٹ سے قانون پاس کروایا گیا ہے کہ کوئی عورت حجاب نہیں کرسکتی او راگر حجاب کرے گی تو اتنا جرمانہ لگے گا، مسلمان عورتیں پوری قوت اور طاقت سے حجاب کرتی ہیں اور اگر کوئی جرمانہ کرے تو جرمانہ بھرتی ہیں، ہم حجاب کریں گے، ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، ہمارا دین ہے، ہمارا مذہب ہے۔
وہاں کے ایک سابق وزیر اعظم سے صحافیوں نے پوچھا کہ جناب یہ اسلام اتنی تیزی کے ساتھ آپ کے ملک میں پھیل رہا ہے، اگر سب مسلمان ہو گئے تو آپ کیا کریں گے؟ اس نے کہا بھائی! ہمارا ملک جمہوری ہے، جب سب مسلمان ہو جائیں گے تو میں بھی مسلمان ہوجاؤں گا۔
آپ جرمنی چلے جائیے، ہالینڈ چلے جائیے، ناروے چلے جائیے، یا کسی بھی مغربی ملک چلے جائیے، آپ کو وہاں اسلام پوری طاقت اور قوت کے ساتھ نظر آئے گا۔
آپ مشرق کے اندر جاپان ، کوریا چلے جائیں، دوسرے غیر مسلم ممالک میں جائیں ہر جگہ اسلام تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
لہٰذا آج جو بے چینی ہے، اس کی وجہ اسلام کا تیزی سے پھیلنا ہے۔ قریب میں ہمارے ہاں ایک واقعہ پیش آیا ”عاصیہملعونہ“ کا، آپ کو معلوم ہے، ساری دنیا کا طاغوت اس کے پیچھے کھڑا ہوا ہے، امریکا اس کے پیچھے ہے، کینیڈا اس کے پیچھے ہے، یورپی یونین اس کے پیچھے ہے اور ہمارے قاضیوں نے جو فیصلہ کیا، اس پر وہاں شادیانے بجائے جارہے ہیں، خوشیاں منائی جارہی ہیں،اگر آپ صرف اسی ایک بات کو میٹر اور پیمانہ بنالیں تو آپ حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں کہ اس ساری صورت حال کے پیچھے کیا ہو رہا ہے؟
میرے دوستو! جو سچ ہے، جو حق ہے اور پوری دنیا میں ہے ، وہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، پوری دنیا میں آج مسلمان باشعور ہو رہا ہے، آج مسلمان دین پر عمل کے حوالے سے آج سے دس ، بیس ، تیس سال، پچاس سال پہلے کے مقابلے میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور میں نے عرض کیا کہ اس میں وہ خبر صادق ہے، وہ سچی خبر ہے ،جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمائی ہے کہ: وہ وقت بہت جلدی آنے والا ہے، جب ہر کچے اور پکے گھر میں اسلام داخل ہو گا، وہ داخل ہو رہا ہے، اس کو کوئی نہیں روک سکتا، آپ جیسے کیسے ہی انتظامات کر لیں ،چاہے کیسی ہی حکومت او رحکم ران بٹھا دیں، اسلام اپنا راستہ خود بنائے گا، اس لیے کہ اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری الله تعالیٰ نے لی ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، 70 کی بات ہے، ہمارے حضرت والد ماجد رحمة الله علیہ عمرے کے لیے تشریف لے گئے، اس وقت کراچی سے جدہ او رجدہ سے کراچی پی آئی اے کا ٹکٹ گیارہ سو روپے تھا او ربہت کم لوگ جانے والے ہو تے تھے، حج پہ جانے والے بھی بہت کم لوگ ہوتے تھے، آج سے چند برس پہلے لوگ یہ سوچتے تھے کہ شعبان، رمضان میں حرمین شریفین میں رش بہت ہوتا ہے، لیکن میرے دوستو! اب صورت حال یہ ہے کہ ہر مہینے میں رش ہے، محرم میں بھی رش ہے، صفر میں بھی رش ہے، ربیع الاول میں بھی رش ہے اور وہ رش صرف پاکستان والوں کا نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا سے جہاز آرہے ہیں۔
میں عرض کر رہاہوں کہ اصل اور اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے اسلام پر فخر کریں، ہمارے ہاں اسلام کے حوالے سے بہت بڑا طبقہ آج بھی ایسا ہے جو شرمندہ ہے، اسے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے شرم آتی ہے، انالله وانا الیہ راجعون․
مسلمان ہیں، کلمہ گو ہیں ، لا إلہ الا الله محمد رسول الله پڑھنے والے ہیں، اگر کوئی کافر کہہ دے تو لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں، لیکن محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ان کا تعلق اتنا کم زور ہے کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہیں، وہ عمل کرنے کے لیے تیار نہیں، ہاں! وہ محمد رسول الله صلی وسلم کے دشمنوں کے طریقے پر عمل کرنے کے لیے فخر یہ طور پر تیار ہیں، وہ صبح شام الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو ذبح کرتے ہیں ۔میرے دوستو! یہ میں نے ایک مثال دی ورنہ ہر چیز میں ، آپ صبح شام دیکھیں۔
ا لله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے تعلق ہی کام یابی کی کنجی ہے، عزت کی کنجی ہے، دنیا میں غلبے کی کنجی ہے۔
آپ یاد رکھنا، آپ کے توپ ، آپ کے ٹینک ، آپ کے جیٹ طیارے اور آپ کے ایٹم بم سے طاغوت کو اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی آپ کے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر عمل سے اسے تکلیف ہوتی ہے۔
ہماری غیرت ، ہمار ی حمیت اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے امتی ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کے وفادار رہیں اورآپ صلی الله علیہ وسلم کی ہر ہر سنت پر عمل کی کوشش کریں، الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطافرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ،وَتُبْ عَلَیْْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾․