ہر نبی اور ہر آسمانی کتاب نے اپنی امت کو اپنے بعد پیش آنے والے حالات کے بارے میں اطلاعات دی ہیں۔ کتب آسمانی میں یہ اطلاعات بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ گزشتہ مقدس کتب میں اگرچہ انسانوں نے اپنی طرف سے بہت سی تبدیلیاں کر دیں، اپنی مرضی کی بہت سی نئی باتیں ڈال دیں اور اپنی مرضی کے خلاف کی بہت سی باتیں نکال دیں، لیکن اس کے باوجود بھی جہاں عقائد کی جلتی بجھتی حقیقتوں سے آج بھی گزشتہ صحائف کسی حد تک منور ہیں وہاں آخری نبی اور قیامت کی پیشین گوئیاں بھی ان تمام کتب میں موجود ہیں۔ یہود ونصاری نے بعثت نبوت آخری کے بعد ان نشانیوں کو مٹانے کی بہت کوشش کی، لیکن پھر بھی بکثرت آثار اب بھی باقی ہیں اور علمائے امت مسلمہ نے انہیں تلاش کرکے عالم انسانیت کے سامنے پیش بھی کر دیا ہے۔ اسی طرح بعد میں آنے والے حالات، مستقبل قریب سے تعلق رکھتے ہوں یا مستقبل بعید سے متعلق ہوں، ان کی جزوی تفصیلات ہر کتاب اور نبی نے پیش کی ہیں، تاکہ امت کی راہ نمائی ہرحال میں جاری رہے۔
گزشتہ کتب اور گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی طرح آخری نبی صلی الله علیہ وسلم نے اور آخری کتاب قرآن مجید نے بھی اپنے بعد آنے والے حالات کے بارے میں امت مسلمہ کو بہت تفصیل سے بتایا ہے۔ نئے آنے والے حالات، اچھے ہوں یا بُرے ہوں، وہ دور فتن سے تعلق رکھتے ہوں یا قیامت اور آخرت کی نشانیوں کے طور پر ظہور پذیر ہونے والے ہوں ، وہ انسانوں کے رویوں سے متعلق ہوں یا آسمانی آفات وبلیات کی پیش آمدہ اطلاعات ہوں یا آنے والے حالات کے تجزیے، اسباب ونتائج ہوں یا ان کے اثرات ہوں یا امت میں آنے والی مقدس ہستیاں ہوں یا امت کے مقابلے میں آنے والے ظالم وجابر وقاہر افراد ہوں، سب کی تفصیلات قرآن مجید میں اجمالاً اور کتب حدیث میں تفصیلاً وارد ہوئی ہیں۔ بعض محدثین نے تو ان حالات کے بیان کے لیے الگ ابواب باندھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب حالات اور افراد اہم تھے یا کسی نبی کی آمد کی اطلاع اہم تھی؟ ظاہر ہے مذکورہ حالات تو ایمان کا حصہ نہیں ہیں، لیکن اگر کسی نبی نے آنا ہوتا تو نبی تو ایمان کا حصہ ہی نہیں،بلکہ ایمان کی بنیاد ہوتا ہے۔ پس اگر کسی نبی نے آنا ہوتا او رمشیت ایزدی میں کسی نبی کی بعثت اگر باقی ہوتی تو قرآن وحدیث کے مندرجات اس نبی کی اطلاعات سے بھرے پڑے ہوتے۔ یہ بات بہت بڑا دستاویزی ثبوت او رناقابل انکار شہادت او رناقابل تردید امر ہے، چوں کہ قرآن وحدیث میں ایسی کسی پیشین گوئی کا ذکر نہیں ہے جس میں کسی نبی کی آمد کی اطلاع ہو، اس لیے اب قیامت تک کسی نبی کی آمد قطعاً نہیں ہوگی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایمان ویقین جیسے نازک معاملے میں کوئی نبی اپنی امت کو یوں اندھیرے میں چھوڑ جائے۔ قرآن مجید میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں کسی آنے والے نبی کا ذکر موجود ہونا چاہیے تھا، مثلاً سورہٴ بقرہ کے آغاز میں ہی فرمایا:﴿والذین یومنون بمآ انزل الیک ومأ انزل من قبلک وبالآخرة ھم یوقنون﴾
ترجمہ:…” اس پر ایمان رکھتے ہیں جوآپ پر نازل کیا گیا اور آپ سے پہلے نازل کیا گیا۔“ (2/4)
اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی کتاب ، کوئی شریعت ، کوئی نبوت ورسالت یا وحی کا کوئی سلسلہ باقی ہوتا تو اس مقام پر ضرور اس کا ذکر کیا جاتا۔
محسن انسانیت خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے انسانیت کے جملہ معیارات اخلاق کو مکمل کیا ہے، آج کئی صدیاں گزرنے کے باوجود ان معیارات میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکا۔ خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے معاشرت کو، مساوات کو قائم کیا، امیر، غریب ، عالم،جاہل اور عوام حکم ران سب کو تاقیامت ایک صف میں کھڑا کر دیا اور کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ پہلی صف میں جماعت شروع ہوچکنے کے باوجود اپنے لیے جگہ کو خالی رکھوائے ،بلکہ ” پہلے آؤ پہلے پاؤ“ کی بنیاد پر نماز میں جگہ حاصل کرنے کا اصول دیا۔ اسی طرح حج میں بھی مساوات قائم کی، سب لوگ ایک ہی لباس پہنے، ایک ہی بیت الله کے گرد ،ایک ہی رخ میں چکر لگاتے ہوئے او رایک ہی کلمہ زبان سے ادا کرتے ہوئے حج کرتے ہیں۔ آج صدیاں گزر گئیں، کتنے ہی نئے نظام ہائے فکر وعمل آئے،کتنے ہی فلسفہ ہائے اخلاق آئے اور تہدیب وتمدن نے کتنی ہی ترقی کر لی لیکن انسانی معاشرے کو خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے درس ومساوات سے بڑھ کر کوئی درس میسر نہ آسکا۔ آپ نے معاشرے کے لیے مساوات کے درس اخلاق کومکمل کر دیا، جس میں آ ج تک اضافہ ممکن نہ ہو سکا۔
خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے انسانی معیشت کو سود کی ممانعت، تقسیم دولت او رحقوق کی ادائیگی کا درس دیا اور یہ درس دیا کہ: ”مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔“اس کے دو مطلب ہیں، ایک تو وہی جو سمجھ آگیا، یعنی ادائیگی بر وقت ہو جانی چاہیے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مزدور بھی مزدوری کرتے ہوئے اپنا پسینہ نکالے، یعنی اپنے کام کاحق تو ادا کرے۔ آج صدیاں بیت گئیں، ماضی قریب میں کمیونزم، سوشلزم یا اشتراکیت کے نام سے، بہت بڑے بڑے، معاشی انقلابات آئے، جنہوں نے دنیا کے جغرافیے سمیت عالمی معیشت کو نیچے سے اوپر تک ہلا مارا،ان کی پشت پر تاریخی شہرت کے حامل اہل فکر ودانش کی کاوشیں کار فرما تھیں اور نسلوں کے استحصال کے بعد بہت بڑے بڑے افکار پیش کیے گئے، جن کو بنیاد بنا کر، لاکھوں انسانوں کے خون کی قیمت پر، ان معاشی نظاموں کو نافذ کیا گیا، لیکن ان سب کے باوجود بھی وہ حقوق کی ادائیگی سے بڑھ کر کوئی نیا درس انسانوں کے سامنے پیش نہ کرسکے، جب کہ یہی درس صدیوں پہلے خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم اپنی معاشی تعلیمات میں پیش کر چکے تھے۔ آج کی تہذیب نے راتوں کو دنوں سے زیادہ روشن کر دیا لیکن معیشت کے میدان میں، سوائے اندھیروں کے، کچھ نہ دے سکی او رمحسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم جن معاشی، اخلاقی حقوق واعلیٰ معاشی معیارات کا تعین فرما گئے ان میں بال برابر بھی اضافہ ممکن نہ ہو سکا۔
خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے انسانیت کو مذہب کا درس دیا، جنگی قیدیوں کو حق زندگی دیا، غلاموں کی آزادی کو رواج دیا، دشمنوں کو معاف کیا، قاتلوں پر انعامات کی بارش کی، رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بجائے اخوت کو مذہب کا وسیع البنیاد پلیٹ فارم عطا کیا، خدمت کو انسانیت کی معراج قرار دیا اور صلہ رحمی کے احکامات جاری کیے۔ ہندومت آج بھی حقوق العباد کااستحصال کرتا ہے، عیسائیت نے حقوق الله میں غلو سے کام لیا، یہودیوں نے محض حقوق النفس ہی ادا کیے، دنیا میں کم وبیش پچیس ہزار مذاہب پر انسانوں کے گروہ عمل پیرا ہیں، لیکن تمام مذاہب افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ ان مذاہب سے تنگ آکر یورپ نے ”سیکولر ازم“ کے نام پر مذہب سے روگردانی اختیار کرنا چاہی او رانسانیت کے نام سے اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی اور اسی انسانیت کے ہی نئے معیار قائم کیے، ان پر عمل پیرا بھی ہونے کی کوشش کرتے رہے، اس کاحق ادا کیا یا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے، لیکن تب بھی انسانیت سے بڑھ کر کوئی نیا درس تو انہوں نے بھی پیش نہ کیا اور اسی درس کو خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم صدیوں پہلے پیش کرچکے تھے۔ سیکولر ازم نے انسانیت کے نام پر انسانیت کا استحصال کیا، لیکن انسانیت کی کوئی خدمت بجا نہ لاسکی وہ انبیاء علیہم السلام ہی تھے جو بغیر کسی معاوضے کے خدمت انسانیت کے اعلی ترین منصب پر فائز ہوئے اور آخری نبی صلی الله علیہ وسلم نے تو اس معیار انسانیت کو اس کے بام عروج تک پہنچا دیا او ران کے بعد اس میں کوئی اضافہ ممکن ہی نہ ہو سکا، اگرچہ تعلیم وتہذیب کا سفر کائنات کے اسرار ورموز کی تلاش میں زمین کے مدار سے باہر بھی نکل گیا۔
خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے سیاست کو ”خلافت“ کا درس دیا کہ اقتدار ایک امانت ہے، جو الله تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ملی ہے، خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں واضح کیا کہ اقتدار کوئی موروثی حق نہیں ہے، زور آوری اور طاقت وقوت کے بل بوتے پر حاصل ہونے والی چیز نہیں، جسے ذاتی ملکیت سمجھ لیا جائے، بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، جس کے بارے میں سختی سے جواب دہی کی جائے گی، صدیاں گزر گئیں، پولٹ بیورو، پارلیمانی نظام، صدارتی نظام ، بنیادی جمہوریت اور نہ جانے کتنے ہی اور سیاسی نظام اس دنیا میں آئے، کتنے ہی سیاسی مفکرین نے اپنے اپنے سیاسی افکار پیش کیے ”علم سیاسیات“ کے نام سے علم وفن کی ایک شاخ بھی وجود میں آگئی او رجمہوریت نامی سیاسی نظام سمیت کئی سیاسی نظاموں کو انسانیت نے آزما کر بھی دیکھ لیا، لیکن گھوم پھر کر، چکر لگا کر اسی نقطے کے گرد ہی سب نظام گھومتے رہے کہ ”اقتدار“ امانت ہے۔ کسی نے اسے عوام کی امانت کہا تو کسی نے اسے تاریخ کی امانت کہا ، کسی نے اسے آنے والی نسلوں کی امانت کہا، خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے عطا کردہ درس سے آگے بڑھ کر، کسی نے کوئی درس پیش نہ کیا۔ خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے میدان سیاست کی تمام اخلاقیات کو ان کی معراج تک پہنچا دیا اور آپ کے مقدس وارثین نے ان سیاسی اخلاقیات کو اس زمین کے سینے پر جاری وساری ونافذ العمل کرکے ان سیاسی اخلاقی معیارات کوہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ اس کے بعد آج تک یہ آسمان ان سیاسی اخلاقی معیارات میں کوئی اضافہ نہ دیکھ سکا۔
خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے عدالتوں کو عدل وانصاف کا درس دیا، صدیاں گزر جانے کے باوجود اور تہذیب وتمدن میں اتنی ترقی ہوچکنے کے باوجود کہ راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہو گئی ہیں، اس درس میں کوئی اضافہ آج تک نہ ہو سکا۔
خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے میدان جنگ کو جن اصولوں کا پابند بنایا ان میں آج تک کوئی اضافہ ممکن نہ ہو سکا۔
خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے بین الاقوامی قوانین میں برداشت ورواداری کی جو ریت ڈالی اس میں یہ آسمان آج تک کوئی بڑھوتری نہ دیکھ سکا۔
خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم نے خانگی زندگی میں پیار ومحبت کا درس دیا اور نوجوانوں کو نکاح کا درس دیا، ان سے زیادہ پاکیزہ درس آج تک کہیں سے ابھر نہ سکا او ر ایک ایک فرد کو تقویٰ کا درس دیا، بھلا اس سے بہتر درس کب ممکن ہے؟! یہ سب تشریح ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین تھے اور جو معیارات آپ قائم کر گئے چوں کہ ان میں اضافہ ممکن نہیں، اس لیے کسی نئے نبی کی آمد بھی ممکن نہیں۔
ہماری عقل کہتی ہے کہ جس کسی نے ان معیارات اخلاق میں اضافہ کیا ہم اسے خاتم النبیین مانیں گے او رہمارا ایمان کہتا ہے کہ اب تا قیامت ان معیارات میں اضافہ ممکن نہیں، ایمان چوں کہ عقل سے بڑاہے،اس لیے ہم ایمان کو عقل پر ترجیح دیں گے۔ سب انسان سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور چاہیں کہ ان تعلیمات میں کوئی اضافہ کر سکیں یا ان میں کوئی سقم ڈھونڈکر اس کو ختم کرسکیں یا کوئی کمی تلاش کرکے اس کو پورا کرسکیں یا کسی طرح کی کوتاہی کا ازالہ کر سکیں تو اس کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ حکم ربی ہے اور خدائی فیصلہ ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، کسی اور کا کلمہ نہیں پڑھا جائے گا اور کوئی اور ”مطاع“ اب تاقیامت پیدا نہیں ہو گا ۔جس کسی نے اس طرح کے دعوے کیے باجماع امت وہ کذاب ہو گا او رامت سے خارج سمجھا جائے گا۔ تاریخ نے ایسے لوگ دیکھے ا ورممکن ہے مزید بھی نظر آنے لگیں،لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہو گی اور نہ ہی ان کا کوئی دینی واخلاقی مقام ہو گا۔ جو کوئی خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کا قلا دہ اپنی گردن میں ڈالے گا وہی دنیا وآخرت میں مسلمان گردانا جائے گا۔
تاریخ اسلام میں سینکڑوں لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے، ان میں خواتین بھی شامل رہیں، لیکن کل امت نے اجماعی طور پر انکا انکار کیا۔ کہیں بھی کسی عالم دین یاکسی حق پرست گروہ نے ایسے مدعیان نبوت کے بارے میں، کسی طرح کے نرم گوشے کا قطعاً اظہار نہیں کیا۔ کل امت کی کل تاریخ میں تاشرق، غرب اور صحابہ کرام کے مقدس گروہ کے دور سے آج دن تک ختم نبوت پر کسی طرح کا سمجھوتہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے فوراً بعد تو کذابین کی وبا پھوٹ پڑی تھی، لیکن اصحاب رسول کے پہاڑوں جیسے ایمان نے انہیں برداشت نہ کیا او راکثر کے ساتھ تو قتال تک کی نوبت آئی ،لیکن اجماع صحابہ نے اس قتال سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان مدعیان نبوت کے حالات پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ حرص ولالچ کی کثرت کے باعث شیطان نے انہیں اس راستے پر ڈال دیا۔ جب کہ ماضی قریب میں د ور غلامی کے دورا ن جب کل میدان ہائے حیات میں تلبیس کے باوجود جب امت کے عقائد کو گم راہ نہ کیا جاسکا تو گورے سام راج نے عقیدہٴ نبوت میں نقب لگانے کی ناپاک سعی کی۔امت نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اس ناپاک سعی کے خلاف بندباندھا او راسے کفر کے اندھیرے غار میں دھکیل دیااور آئندہ بھی اس طرح کی کوئی کاوش ناقابل برداشت ہو گی، تاآنکہ قیامت کا سورج طلوع ہو جائے۔