پیغمبر اسلام جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بحیثیت نبی اوررسول سب سے بڑی خصوصیت او رامتیازی وصف آپ کا ”خاتم النبیین“ ہونا ہے ، یعنی نبوت کا سلسلہ آپ کی ذات اقدس پر ختم ہو چکا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آئے گا اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ایک پیغمبر کے بعد دوسرے پیغمبر کی آمد یا تو اس لیے ہوتی ہے کہ پہلے پیغمبر کے ذریعہ انسانیت کو جو تعلیم حاصل ہوئی وہ محفوظ نہ رہے اور اس میں ملاوٹ اور آمیزش ہو جائے یا اس لیے کہ پہلے پیغمبر کی شریعت میں جو احکام نازل ہوئے ہوں، اس میں الله کی طرف سے کوئی تبدیلی یا کمی بیشی عمل میں آنے والی ہو، عام طور پر ان ہی دو اسباب کے تحت ایک پیغمبر کے بعد دوسرے پیغمبر کی آمد ہوتی ہے، پیغمبر اسلام محمدرسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اورآپ پر نازل ہونے والی کتاب الہٰی پوری طرح محفوظ وموجود ہے اور خود الله تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾․ (الحجر:9) اورجہاں تک شریعت اسلامی میں ترمیم وتغیر کی بات ہے تو شریعت پایہٴ کمال کو پہنچ چکی ہے اور احکام شرعیہ کی نسبت سے الله تعالیٰ کی جو نعمت ہدایت انسانیت کو عطا کی جانی تھی، وہ تمام ہوچکی ہے ﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً﴾․(المائدہ:3) یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ یہ شریعت آخری شریعت ہے، اب اس میں کسی قسم کی ترمیم اور اضافہ وکمی کی گنجائش نہیں۔
اس لیے ظاہر ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد اب کسی نبی کے آنے کی نہ ضرورت باقی رہی اور نہ اس کی گنجائش ہے، اس لیے خود قرآن مجید نے پوری صراحت ووضاحت کے ساتھ اعلان کر دیا ہے کہ محمد صلی الله علیہو سلم الله کے رسول اور آخری نبی ہیں:﴿وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ﴾․(الاحزاب:40) قرآن کے اس صریح اور واضح اعلان کی مزید تائید وتشریح احادیث نبویہ سے ہوتی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنوا سرائیل میں انبیا قیادت وانتظام کا فریضہ انجام دیتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہو جاتی تو اس کے بعد دوسرا نبی آجاتا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، البتہ خلفاء ہوں گے:”إنہ لانبي بعدي، وسیکون خلفاء“ (بخاری، باب ماذکر عن بنی اسرائیل) حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے آپ کا ایک ارشاد مروی ہے کہ مجھے انبیاء پر چھ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ اس میں ایک خصوصیت آپ نے یہ ذکر فرمائی کہ سلسلہٴ نبوت مجھ پر ختم ہوچکا ہے:”وختم بي النبیون“ (مسلم) ایک موقعہ پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ رسالت ونبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا، اب نہ کوئی رسو ل آئے گا اور نہ کوئی نبی:”إن الرسالة والنبوة قد انقطعت، فلا رسول ولانبي“ (ترمذی، باب ذہاب النبوة) حضرت ثوبان رضی الله عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اُمت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، جو نبوت کے دعوے دار ہوں گے، حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی اور نبی نہیں آسکتا۔ (ابوداؤد، کتاب الفتن)
آخری نبی ہونے کی حیثیت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا صفاتی نام ”عاقب“ ہے، عاقب کے معنی” بعد میں آنے والے“کے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں عاقب ہوں، جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا:” أنا العاقب الذی لیس بعدہ نبي“(ترمذی، باب أسما ء النبی) ہرنبی کے ساتھ ظاہر ہے کہ اس کی اُمت بھی ہوتی ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں او رتم آخری اُمت ہو:”أنا أخر الأنبیاء، وأنتم آخر الأمم“۔ (ابن ماجہ، باب الدجال) ایک حدیث میں یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ میری مسجد نبوت سے نسبت رکھنے والی آخر مسجد ہوگی:”إن مسجدي آخر المساجد“ ․(مسلم، باب فضل الصلاة بمسجدي مکة والمدینة)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سلسلہٴ نبوت کے اختتام کو بڑی عمدہ مثال سے سمجھایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری او رمجھ سے پہلے پیغمبروں کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص نے گھر تعمیر کیا، خوب عمدہ او رنہایت خوب صورت، لیکن کونہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے، لوگ آتے ہیں، اس کے حسن وجمال پر حیرت زدہ ہیں او رکہتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہیں لگا دی گئی؟ تو میں وہی ”اینٹ“ ہوں اور خاتم النبیین ہوں۔(بخاری، باب خاتم النبیین) گویا الله تعالیٰ نے بہترین انسانوں کاانتخاب کرکے ایک قصر نبوت تعمیر کیا، اس عظیم الشان محل میں صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، جو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے پُر ہو گئی، اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر طرح کی نبوت آپ صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہوچکی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی صاحب شریعت نبی آسکتا ہے اور نہ کوئی ایسا نبی جو آپ کے تابع ہو اور آپ ہی کی شریعت کا متبع ہو، یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعض اور ارشادات سے بھی واضح ہوتی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میرے بعد سلسلہ نبوت جاری رہتا تو عمر بن خطاب نبی ہوتے:” لو کان بعدی نبي لکان عمر بن الخطاب“ (ترمذی، کتاب المناقب) اسی طرح ایک موقع پر حضرت علی رضی الله عنہ سے ارشاد فرمایا کہ تم میرے مقابلہ میں ایسے ہی ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ ہارون علیہ السلام، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا:”ألا إنہ لانبي بعدی“ (بخاری، کتاب فضائل الصحابہ) غور فرمائیے کہ اگر ذیلی اور غیر مستقل نبوت کی گنجائش آپ کے بعد باقی رہتی تو حضرت عمر رضی الله عنہ اور حضرت علی رضی الله عنہ اس سے کیوں نہ سرفراز کیے جاتے ؟ حضرت ہارون علیہ السلام کوئی صاحب شریعت نبی نہیں تھے، بلکہ شریعت موسوی ہی کے مبتع تھے، اس کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ہارون علیہ السلام کی سی نبوت کو بھی حضرت علی رضی الله عنہ کے لیے ناممکن قرار دیا، معلوم ہواکہ اگر کوئی شخص حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی بھی طرح کی نبوت کو باقی مانتا ہو،تو وہ ایک ایسی گم راہی کی بات کرتا ہے کہ خداکے ساتھ شرک کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی اور گم راہی نہیں ہو سکتی۔
اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد صحابہ کا اس بات پر اجماع واتفاق تھا کہ آپ کی ذات پر سلسلہٴ نبوت ختم ہوچکا ہے، چناں چہ جب مسیلمہ ٴ کذاب نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نبی مانتے ہوئے اپنی نبوت کا بھی دعویٰ کیا تو صحابہ نے بالاتفاق اسے مرتد قرار دیا، اس سے جنگ کی گئی اور بالآخر وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچا، یہ جنگ ایسی تھی کہ اسی لیے امام ابوحنیفہ رحمةالله علیہ نے تو فرمایا کہ اگر کوئی شخص نبوت کا دعو ے دار ہواور کوئی مسلمان اس سے معجزہ اور نبوت کی علامت طلب کرے تو یہ مطالبہ ہی اس کو ایمان سے محروم کر دے گا، کیوں کہ گویا اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد نبوت کو ممکن تصور کیا۔
دراصل آپ کی بعثت تمام انسانیت کے لیے ہے، قرآن کا ارشاد ہے:﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّةً لِّلنَّاس﴾․(سباء:28) تمام لوگوں میں قیامت تک آنے والے انسان داخل ہیں، گویا یہ اس بات کا اعلان ہے کہ آپ کی نبوت قیامت تک کے لیے ہے، جب آپ کا دائرہ نبوت قیامت تک وسیع ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت محفوظ ہے اور آپ کی شریعت میں کسی نسخ اور تبدیلی واضافہ کا امکان نہیں تو ظاہر ہے کہ آپ کے بعد کسی پیغمبر کی بعثت کے کوئی معنی نہیں، اگر آپ کے بعدبھی سلسلہٴ نبوت جاری ہوتا تو ضروری تھا کہ جیسے ہر پیغمبر نے بعد میں آنے پیغمبر کے بارے میں اطلاع دی اور اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی، آپ بھی اس کا اعلان فرماتے، لیکن یہی نہیں کہ آپ نے آئندہ کسی نبی کی پیشین گوئی نہیں فرمائی، بلکہ یہ بھی اعلان فرما دیا اور اس کو بار بار واضح کر دیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔
بدقسمتی سے انگریزوں کے تسلط کے دور میں پنجاب کی سر زمین سے حکومت وقت کی شہ پر ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا، جس کے غلامانہ مزاج ومذاق کا حال یہ تھا کہ خود ہی اپنے آپ کو حکومت انگلشیہ کا خود کاشتہ پودا کہا کرتاتھا اور حکم رانوں کی چوکھٹ پر جبین سائی سے اسے ذرا بھی عارنہ تھی، بدقسمت سے آج تک یہ گم راہ فرقہ موجود ہے اور وہ ناواقف مسلمانوں کو دھوکہ دے کر ان کو نبوت محمدی کے سایہ سے محروم کرنا چاہتا ہے، یہ ایک ایسا فتنہ ہے جس سے بڑا کوئی فتنہ نہیں اور یہ ایسی گم راہی ہے جس سے بڑھ کر کوئی گم راہی نہیں، اگر اس دنیا میں اعتقاد وعمل کی نجاستیں محسوس پیکر میں ڈھل سکتیں اور اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے تو یہ ایسی بات ہوتی کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جاتا تو وہ بھی متعفن ہو جاتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ختم نبوت اُمت کے لیے ایک بڑی رحمت ہے، یہ اس اُمت کی عالم گیریت، اس کی وحدت ، اپنے عقیدہ پر جماؤ اور استقامت اورا عتقادی انتشار اور فرقہ بندیوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے، کیوں کہ اگر سلسلہٴ نبوت باقی ہو تو ہمیشہ ایک نئے نبی کا انتظار ہوگا او راپنے عقیدہ پر استقامت نہ ہو گی، پھر جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے اس کے سچے اورجھوٹے ہونے کو جانچنا اور پرکھنا خود ایک امتحان ہے، کیوں کہ حقیقی نبی کا انکار بھی کفر ہے او رجھوٹے نبی پر ایمان لانا بھی کفر، اس لیے جب بھی کوئی نبی آئے گا تو کچھ اس پر ایمان لانے والے ہوں گے اور کچھ اس کے منکر ہوں گے، ظاہر ہے کہ اس سے فرقہ بندیاں جنم لیں گی، اس لیے ختم نبوت مسلمانوں کے لیے الله تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے اور اعدائے اسلام چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کو اس عظیم نعمت سے محروم کر دیں؛ لیکن وہ کبھی اس میں کام یاب نہیں ہوسکتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو اور خاص کر دیہات اور قریہ جات کے مسلمانوں کو ختم نبوت کی حقیقت سے واقف کرایا جائے، تاکہ وہ بکرے کی کھال میں آنے والے بھیڑیوں کو پہچان سکیں او راپنی حفاظت کرسکیں کہ ختم نبوت کا عقیدہ ایمان اور کفر کی اساس اور ہدایت وگم راہی کے درمیان خط فاصل ہے،﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا﴾․