سیّدِ عرب و عجم، ہادی اعظم، حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلمکی شخصیت و سیرتِ عظمٰی ازل سے ابد تک زمان و مکاں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کائنات کی ہر شے رسالتِ مآب صلی الله علیہ وسلم کی نبوّت و رسالت کے بے کراں جلال و جمال کی گرفت میں ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ سرکارِ دو جہاں،رحمة لّلعالمین، سیّدالمرسلین صلی الله علیہ وسلم کی مدحت و رفعت کا شاہد ہے:﴿ اِنّا اعطیناک الکوثر﴾ اور﴿ و رفعنا لک ذِکرک﴾ کی دل آویز صداؤں سے زمین و آسمان گونج رہے ہیں۔ سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کا نامِ نامی، اسمِ گرامی محمّد رسول اللہ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکر اِتنا بلند ہوا کہ کون و مکاں کی ساری رفعتیں اور تمام بلندیاں اس اسمِ مقدّس اور اِس عظیم ہستی کے سامنے پَست ہوکر رہ گئیں۔ فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک سب اُن کے ذکرِ مبارک سے معمور ہیں۔ یہ رتبہ بلند کُل کائنات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے سِوا نہ کسی اور کو نصیب ہوا اور نہ ہوگا۔اس ابدی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے سیّد صبیح رحمانی کیا خُوب کہتے ہیں #
کوئی مثل مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کا کبھی تھانہ ہے، نہ ہوگا
کسی اور کا یہ رتبہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا
مشہور مفسّرِ قرآن، علّامہ سیّد محمود آلوسی قرآنِ کریم کی آیتِ مبارکہ﴿ و رفعنا لک ذِکرک﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں،:س سے بڑھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و رفعت، آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرتِ عظمٰی اور نامِ نامی کی بلندی کیا ہوگی کہ کلمہ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نامِ نامی کے ساتھ اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کا نام ملادیا، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلمکی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجا اور اہلِ ایمان کو آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم دیا اور جب بھی خطاب کیا، معزّز القابات سے مخاطب فرمایا۔ گزشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکرِ خیر فرمایا۔ تمام انبیائے کرام صلی الله علیہم وسلم اور اُن کی اُمّتوں سے عہد لیا کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے۔
آج کرّہ ارض پر آباد کوئی خطّہ زمین ایسا نہیں، جہاں شب و روز سرورِ دو عالم، حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو۔ 24 گھنٹوں کے 1440 منٹس میں زمین کے کسی نہ کسی کونے اور دنیا کی آبادی کے کسی نہ کسی گوشے میں اذان کی آواز ضرور سُنائی دیتی ہے۔ چوں کہ اذان میں خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کا نامِ نامی بھی بلند ہورہا ہے، تو اسمِ محمّد صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و رفعت اس سے بھی نمایاں ہے کہ جب تک کرّہ ارض پر اذان کی آواز گونجتی رہے گی، اللہ کے نام کے ساتھ اس کے محبوب پیغمبر، سیّدنا حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلم کا نامِ نامی بھی پوری آب و تاب کے ساتھ سماعتوں میں رَس گھولتا رہے گا۔
لادینیت کے اِس دَور میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے دینِ متین کی تبلیغ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت و پیغام عام کرنے کی کوششیں پورے خلوص کے ساتھ جاری ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا اسم گرامی لے کر، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کر کے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے محاسن سُن کر کروڑوں دِلوں کو جو سرور اور فرحت نصیب ہوتی ہے، اس کا جواب نہیں۔ اپنے تو رہے ایک طرف، بیگانوں اور متعصّب مخالفین کا بھی بارگاہِ رسالت صلی الله علیہ وسلم میں خراجِ عقیدت پیش کیے بغیر چارہ نہ رہا۔ اگر آپ اُن حالات کو پیشِ نظر رکھیں، جن میں یہ آیت نازل ہوئی اور پھر اِس آیت کو پڑھیں، تو پڑھنے کا لُطف دوچند ہوجائے گا۔ کفر و شرک کی تاریکیوں میں ڈوبی پوری دنیا مخالف ہے، مکّے کے نام وَر سردار چراغِ مصطفوی صلی الله علیہ وسلم بجھانے کے درپے ہیں۔
اِن حالات میں یہ آیت نازل ہوئی۔کون تصوّر کرسکتا تھا کہ مکّے کے اِس یتیم صلی الله علیہ وسلم کا ذکرِ پاک دنیا کے گوشے گوشے میں بلند ہوگا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے دین کی روشنی سے مہذّب دنیا کا بہت بڑا علاقہ منوّر ہوگا اور کروڑوں انسان آپ صلی الله علیہ وسلم کے نام پر جان دینے کو اپنے لیے باعثِ صد افتخار و سعادت سمجھیں گے، لیکن جو وعدہ ربّ العالمین نے اپنے محبوب رسول اور برگزیدہ بندے، حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلم سے کیا تھا، وہ پورا ہوکر رہا اور قیامت تک ذکرِ محمد صلی الله علیہ وسلم کا آفتاب، عالم تاب ضوفشانیاں کرتا رہے گا۔مولانا عبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں:”آخر خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ جس کا نام زبانوں پر آتا ہے، اللہ کے ذکر کے ساتھ جس بندے کا ذکر کانوں تک پہنچتا ہے، وہ کسی قیصر و کسریٰ کا نہیں، دنیا کے کسی شاعر و ادیب کا نہیں، کسی حکیم وفلسفی کا نہیں، کسی جنرل اور سردار کا نہیں، کسی گیانی اور کسی راہب کا نہیں، کسی رشی کا نہیں، یہاں تک کہ کسی دوسرے پیغمبر کا بھی نہیں، بلکہ عبداللہ کے لختِ جگر، آمنہ کے نورِ نظر، خاکِ بطحیٰ کے اسی اُمّی و یتیم کا۔ “
کشمیر کے سبزہ زار میں، دکن کی پہاڑیوں میں، افغانستان کی بلندیوں میں، ہمالیہ کی چوٹیوں میں، گنگا کی وادیوں میں، چین میں، جاپان میں، جاوا میں، برما میں، روس میں، مِصر میں، ایران میں، عراق میں، فلسطین و عرب کی پوری سرزمین میں، تُرکی میں، نجد میں، یمن میں، مراکش میں، طرابلس میں، ہندوستان کے گاؤں گاؤں میں، لندن، پیرس اور برلن کی آبادیوں میں ہر سال نہیں، ہر ماہ نہیں، ہر روز پانچ پانچ مرتبہ بلند و بالا میناروں سے جس نام کی پکار خالق کے نام کے ساتھ فضا میں گونجتی ہے، وہ اسی عظیم اور مقدّس ہستی کا ہے، جسے بصیرت سے محروم دنیا نے ایک زمانے میں محض ایک بے کس ویتیم کی حیثیت سے جانا تھا، یہ معنیٰ ہیں، یتیم کے راج کے، یہ تفسیر ہے ورفعنالک ذِکرک کی۔ کسی ایک صوبے پر، کسی ایک جزیرے پر نہیں، دنیا پر، دنیا کے دِلوں پر آج حکومت ہے، تو اسی یتیم صلی الله علیہ وسلم کی، راج ہے تو اسی امّی صلی الله علیہ وسلم کا۔
صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم ،حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا، میرا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا ربّ مجھ سے سوال کرتا ہے کہ مَیں نے کس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکر بلند کیا؟ مَیں نے عرض کیا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا، تو میرے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا بھی ذکر کیاجائے گا۔تکبیر میں، کلمے میں، نمازوں میں، اذان میں ہے نامِ الٰہی سے ملا نامِ محمد صلی الله علیہ وسلم۔ آج زمان و مکاں کا وہ کون سا گوشہ، وہ کون سی ساعت، وہ کون سا لمحہ ہے، جو ذکرِ حبیب صلی الله علیہ وسلم سے خالی ہے، اس عالم شش جہات کے گوشے گوشے میں، گردشِ زمین کے ساتھ ساتھ ہر اذان میں، ہمہ وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کا نامِ نامی بلند ہو رہا ہے۔ بلند و بالا میناروں سے سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کا اسمِ گرامی خالقِ کائنات کے نامِ نامی کے ساتھ پکارا جارہا ہے۔ دشت و جبل، صحراو دریا، بحر و بر، شہروں اور دیہات، آبادیوں اور ویرانوں، سمندروں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں میں ہمہ وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے نامِ نامی محمّد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی پکار ہے۔ دنیا کا گوشہ گوشہ اور کرّہ ارض کا چپّہ چپّہ، سیّدِ عرب و عجم، ہادی عالم ،حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلم کے نامِ مبارک کی پکار سے گونج رہا ہے۔ورفعنالک ذکرک بلندی ذکر کی یہ وہ تفسیر ہے، جو اوراقِ لیل و نہار پر 14 سو سال سے ثبت چلی آرہی ہے۔ چشمِ روزگار اسے صدیوں سے پڑھتی چلی آرہی ہے۔اقبال کیا خُوب کہتے ہیں #
خیمہ افلاک کا استادہ اِسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اِسی نام سے ہے
دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراکش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ ورفعنالک ذکرک دیکھے
سرکارِ دو جہاں صلی الله علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مقدسہ کا یہ تاریخی اور ابدی اعجاز ہے کہ اپنے اور بے گانے، مسلم اور غیرمسلم سب ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ثنا خواں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و رفعت کے معترف نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کو تو اِس وقت چھوڑ دیجیے کہ ان کا تو دین و ایمان ہی رسول اللہ،حضرت محمّد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت و محبّت میں مضمر ہے، غیروں اور غیرمسلموں کے کیمپ میں آئیے، وہ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی شخصی عظمت اور رفعت کے قائل نظر آتے ہیں۔ معروف ہندو شاعر، منوہرلال دل کہتے ہیں #
کیا دل سے بیاں ہو تِرے اخلاق کی توصیف
عالَم ہوا مدّاح ترے لُطف و کرم کا
ڈاکٹر میخائل ایچ ہارٹ، مشہور امریکی ماہرِ فلکیات اور عیسائی مورّخ ہیں، اُنہوں نے اور اُن کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی نے دنیا کی نام وَر اور مشہور شخصیات کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کیا، اس مطالعے کا حاصل اُنہوں نے 572 صفحات کی ایک انگریزی کتاب "The 100 Aranking of the Most Influential Persons in history” کی صُورت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کتاب نے عالمی سطح پر شہرت پائی، دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور متعدّد ایڈیشنز شائع ہوئے۔
اِس کتاب میں سرکارِ دوجہاں، حضرت محمّد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کو سرِفہرست رکھا گیا ہے، کیوں کہ مصنّف کے مطالعے کے مطابق، آپ صلی الله علیہ وسلم دنیا کے سب سے عظیم، منفرد اور انسانی تاریخ کے نمایاں ترین انسان ہیں۔ ہارٹ میخائل لکھتا ہے،قارئین میں سے ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو تعجب ہو کہ مَیں نے دنیا جہاں کی موثر ترین شخصیات میں محمد صلی الله علیہ وسلم کو سرِفہرست کیوں رکھا ہے؟ اور وہ مجھ سے اس کی وجہ طلب کریں گے، حالاں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صرف وہی ایک عظیم انسان تھے، جو دینی اور دنیوی اعتبار سے غیرمعمولی طور پر کام یاب و کام ران اور سرفراز ٹھہرے۔
موصوف مزید رقم طراز ہیں:میرا یہ انتخاب کہ محمّد صلی الله علیہ وسلم دنیا کی تمام انتہائی بااثر شخصیتوں میں سرفہرست ہیں، کچھ قارئین کو اچنبھے میں ڈال سکتا ہے، کچھ اس پر معترض ہوسکتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم تاریخ کے واحد شخص ہیں، جنہوں نے ایک عظیم ترین مذہب کی بنیاد رکھی اور اس کی اشاعت کی، ان کے وصال کے 14 سو سال بعد آج بھی ان کے اثرات غالب اور طاقت ور ہیں۔مشہور مغربی مصنّف، ای ڈرمنگھم سیرتِ طیبہ پر اپنی کتاب "Life of Muhammad” میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتا ہے:محمّد صلی الله علیہ وسلم اِس اعتبار سے دنیا کے وہ واحد پیغمبر ہیں، جن کی زندگی ایک کُھلی کتاب کی طرح ہے، اُن کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی نہیں، بلکہ روشن اور منوّر ہے۔مہارانی آرٹس کالج میسور (بھارت) کے پروفیسر راما کرشنا راؤ اپنی کتاب محمّد صلی الله علیہ وسلم، دی پرافٹ آف اسلام میں لکھتے ہیں: محمّد صلی الله علیہ وسلم میرے نزدیک ایک عظیم مفکّر ہیں۔ تمام اعلیٰ اور تمام انسانی سرگرمیوں میں آپ صلی الله علیہ وسلم ہیرو کی مانند ہیں۔
20 ویں صدی کے اوائل 1911ء میں بیروت کے مسیحی اخبار الوطن نے دنیا کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا کہ دنیا کا سب سے عظیم انسان کون ہے؟ اس کے جواب میں ایک عیسائی دانش وَر، داور مجاعص نے لکھا، دنیا کا سب سے عظیم انسان وہ ہے، جس نے دس برس (مدنی زندگی) کے مختصر عرصے میں ایک عظیم مذہب، ایک نئے فلسفے، ایک نئی شریعت اور ایک نئے تمدّن کی بنیاد رکھی، جنگ کا قانون بدل دیا، ایک نئی قوم پیدا کی، ایک نئی طویل العمر سلطنت قائم کی، ان تمام کارناموں کے باوجود یہ عظیم انسان اُمّی اور ناخواندہ تھا، وہ کون ؟
محمّدبن عبداللہ قریشی۔ اسلام کے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم۔
21 ویں صدی کے آغاز میں رابطہ عالمِ اسلامی، مکّہ مکرمہ نے اپنے مشہور ہفت روزہ عربی جریدہ ”العالم الاسلامی“ 28ربیع الاوّل 1421ھ 30جون 2000ء میں ایک اہم خبر انٹرنیٹ سے متعلق شائع کی کہ کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کرنے والی دنیا کی مشہور کمپنی ”Microsoft“ نے الفِ ثالث یعنی تیسرے ہزاریے( (Millenniumکے موقعے پر انٹرنیٹ پر دنیا کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ دنیا کی وہ عظیم ترین شخصیت کون ہے، جس نے اپنے فکر و عمل سے انسانی تاریخ اور انسانی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کیے اور دنیائے انسانیت اس کی فکر و اثر سے زیادہ متاثر ہوئی؟
کمپنی نے رائے دہی اور شخصیت کے انتخاب کے لیے امیدوار کے طور پر17 شخصیات کے نام ذکر کیے تھے، جن میں انبیائے کرام میں حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ساتھ سیّد المرسلین، خالم النبیّین صلی الله علیہ وسلم کا نامِ نامی بھی شامل تھا۔ سوال کے جواب میں ناظرین نے اپنے علم، مطالعے، معلومات، انسانی تاریخ اور انسانی تہذیب و تمدّن کے تجزیے کی روشنی میں اپنی اپنی رائے انٹرنیٹ پر پیش کی کہ انسانی تاریخ کی وہ عظیم ترین اور بااثر شخصیت جس نے اپنی فکری، عملی اور اخلاقی قوّت سے دنیا میں ایک عظیم اور مثالی انقلاب برپا کیا اور انسانی فکر و تاریخ کا دھارا موڑ کر سسکتی اوربلکتی انسانیت کو سعادت و فلاح کی راہ پر گام زن کیا، وہ پیغمبرِ اسلام، سرورِ کائنات، حضرت محمّد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے۔
یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ انٹرنیٹ پر رائے دہندگان میں غالب اکثریت مغرب کی مسیحی دنیا پر مشتمل تھی، جس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو نہ صرف 21 ویں صدی، بلکہ ہر صدی کا ہیرو اور عظیم انسان قرار دیا۔ سرکارِ دوجہاں صلی الله علیہ وسلم کی مدحت و رفعت اور تعریف کا یہ وہ مثالی اور تاریخ ساز پہلو ہے، جس کی روشنی میں اجالا بڑھتا ہی جارہا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذکر مبارک سے دنیا روشن اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے دین و تعلیمات کے نور سے انسانیت منوّر ہوتی جارہی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ بھی ایک ابدی اور تاریخی حقیقت ہے کہ #
لایمکن الثناء کما کان حقّہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر!