اسلام کی آمد سے پہلے انسان انفرادی، اجتماعی، سیاسی او رمعاشی مفادات کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا کر رہا تھا اور خاص طور سے رومی سلطنت اور کلیسا کے دور جبر واستبداد میں انسان مذہبی مفادات کا نشانہ بنا ہوا تھا اورزندگی کے ہر میدان میں وہ مصائب ومشکلات میں پسا ہوا تھا، محض شبہ اورجھوٹی تہمت کی بنیاد پر سخت ترین سزاؤں کا سامنا کر رہا تھا بلکہ اسے رجوع یا توبہ کرنے کی بھی مہلت نہیں دی جاتی تھی، قرون ِ وسطی میں انسان سیاسی اور معاشی مظالم کا شکار تھا او رتاریخ اس پر شاہد ہے۔ مغربی سام راج کے عہد میں انسانیت قسم قسم کے مظالم اور انسانیت سوز فتنوں سے دو چار ہوئی ہے اور یورپ میں ایسے افکار ونظریات نے سر اٹھایا جو انسانی شرافت کے قائل نہیں تھے، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ طاقت وقوت اور غلبہ حاصل کیا جائے اور کم زوروں اور مظلوموں پر حکومت کی جائے۔
اس تناظر میں یہ اعلان اس لائق تھا کہ وہ قومیں بڑھ کر اس کا استقبال کریں جو جنگوں سے نڈھال تھیں اور خاص طور سے مسلمان جن کے ملکوں پر مغربی سام راج کی یورش جاری تھی او ران کے عقیدہ، دین اور تہذیب وتمدن پر حملے ہو رہے تھے۔ لیکن اس اعلان کے بعد کازمانہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اعلان میں شامل تمام حقوق کی تنفید عمل میں نہیں آئی، بلکہ یہ اعلان صدا بصحرا ثابت ہوا، خاص طور سے مسلمانوں کے حقوق کی علانیہ پامالی کی جاتی رہی۔
زندگی کے تمام پہلوؤں کی راہ نمائی کے لیے اسلام میں موثر تعلیمات موجود ہیں، اگر کوئی مسلمان ان تعلیمات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا عمل قابل قبول نہیں اور نہ اس کا عمل اسلامی کہلائے گا، قرآن نے اسلام کو ”دین کامل“ قرار دیا ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے او راس کو انسانوں پر الله کا فضل واحسان اور نعمت قرار دیا ہے:﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا …﴾(سورہٴ مائدہ:3)
چناں چہ اسلامی تعلیمات کی صحیح اور سچی تصویر قرآن کریم، حدیث وسیرت نبوی، حیات صحابہ، علمائے ربانیین، صلحائے امت اور دینی تعلیمات پر عمل پیرا داعیان ِ اسلام کی زندگیوں میں نظر آتی ہے، نہ کہ نام کے مسلمان کی زندگی میں ، تاریخ اسلامی کے مختلف ادوار میں اس کی شان دار مثالیں موجود ہیں۔
انسانی حقوق حدیث نبوی کی روشنی میں
احادیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں شرافت انسانی اور احترام انسانیت کی بھرپور تلقین ملتی ہے،انسانوں، بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، چناں چہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
” الله تعالیٰ کی مخلوق الله کے زیر پرورش ہے، الله کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اس کے زیر پرورش مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔“ (رواہ البیہقی، حلیہ الاولیاء لابی نعیم)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا ، مگر تونے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا؟ آپ تو رب العالمین تھے؟ الله تعالیٰ فرمائے گا: میرا فلاں بندہ بیمار تھا، مگر تم نے اس کی عیادت نہیں کی، کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تم نے مجھے نہیں کھلایا! بندہ کہے گا: اے میرے ا رب! میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا؟ آپ تو رب العالمین تھے؟ الله تعالیٰ فرمائے گا: کیا تم نہیں جانتے کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا، مگر تم نے اسے کھانا نہیں دیا، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اگر تم اسے کھلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پالیتے، اے ابن آدم! میں نے تم سے پانی مانگا، تونے مجھے پانی نہیں پلایا؟ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں کیسے آپ کو پانی پلاتا؟ آپ تو رب العالمین ہیں؟ الله فرمائے گا: تم سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا مگر تم نے اسے نہیں دیا، اگر تم اسے پانی پلاتے تو تم مجھے اس کے قریب پاتے۔“ (رواہ مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل عیادة المریض، حدیث:2569)
حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ ایک غزوہ میں تھے کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو گھونسامار دیا تو انصاری نے انصاریوں سے فریاد کی او رمہاجر نے مہاجرین کو پکارا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو سن لیا اور فرمایا: یہ کیا ہے ؟ صحابہ کرام نے کہا: ایک مہاجر نے ایک انصاری کو گھونسا مار دیا تو انصاری نے انصاریوں کو پکارا اورمہاجر نے مہاجرین سے فریاد کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، یہ بدبودار اورگندی چیز ہے۔(مسلم، حدیث:6748)
حجة الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اے لوگو! تمہارا رب ایک اور تمہارا مورث اعلیٰ بھی ایک ہے، سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے ہیں، الله کے نزدیک تم میں سب سے مکرم وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت صرف تقویٰ ہی کی بنیاد پر دی جاسکتی ہے۔“ (مجمع الزوائد للبیہقی:3/266، مسند امام احمد:5/411، کنز العمال)
ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ :” الله تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی عصبیت اور آباء پر فخر کرنے کو ختم کر دیا ہے، انسان یا تو مومن متقی ہے یا فاجر بدبخت، سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے ہیں، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے، مگر تقویٰ کی بنیاد پر۔“ (رواہ الترمذی، ابوداود، امام احمد)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کسی کو جہاد کے لیے روانہ کرتے تو اسے وصیت کرتے کہ:” الله کا نام لے کر اور اس کے رسول کی برکت پر نکلو، دیکھو کسی بوڑھے، بچے او رعورت کو قتل نہ کرنا، نہ خیانت کرنا اور نہ مال غنیمت میں چوری کرنا۔ اصلاح اور احسان کرنا اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، الله تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ (رواہ ابوداؤد، الفتح الکبیر:1/282)
آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : ”جس نے کسی معاہد یا ذمی کو قتل کیا، اسے جنت کی خوش بو نصیب نہیں ہوگی،حالاں کہ اس کی خوش بو چالیس سال کی مسافرت سے ہی آنے لگتی ہے۔“ (رواہ البخاری، کتاب الجزیة،حاشیہ سندھی:2/202، فتح الباری:6/3166 وترمذی،حدیث:1403)
ایک حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ اس وقت تک دین کی حفاظت او رنگہبانی میں رہتا ہے جب تک کسی ناحق خون کا مرتکب نہ ہو۔“ (صحیح الجامع الصغیر وزیاداتہ، البانی:3275)
نبی کریم صلی االله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوش بو بھی نہیں پائے گا اور جنت کی خوش بو چالیس سال کی مسافت سے پہلے ہی آنے لگتی ہے۔“ (رواہ البخاری)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”سنو! جس نے کسی معاہد پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا یا اس کی طاقت سے زیادہ کا اس کو مکلف بنایا یا اس کی کوئی چیز اس کی رضا مندی کے بغیر لے لی تو میں قیامت کے دن اس کے آڑے آجاؤں گا۔“ (رواہ ابوداؤد)
حضرت جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” ظلم سے بچو، اس لیے کہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کا باعث ہو گا او ربخل سے بھی بچو، اس لیے کہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ وبرباد کر دیا، اس طرح کہ بخل نے ان کو خون ریزیاں کرنے پر آمادہ کیا اورمحرمات کو حلال بنانے پر اکسایا۔“ (رواہ مسلم:6741)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”قیامت کے دن تم سب حق دار کا حق ادا کرو گے، یہاں تک کہ بے سینگ بکری کا حق سینگ والی بکری سے دلایا جائے گا۔“ (رواہ مسلم:6745)
حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” مسلمان وہ ہے جس کی زبان او رہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ شخص ہے جو الله کی ممنوعہ چیزوں سے اجتناب کرے۔“ (بخاری:19، مسلم:2449)
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” آسانیاں پیدا کرو، سختی مت کرو، خوش خبری کے پیامبر بنو، متنفر کرنے والے مت بنو۔“ (متفق علیہ)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے دوسروں کے حقوق کے متعلق اتنی تاکید کی کہ صحابہ کرام کو یہ خیال ہونے لگا کہ ہمارے زائد مال میں ہمارا حق ہی نہیں ہے۔ حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ : ہم لوگ ایک سفر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک آدمی ایک سواری پر سوار ہو کر آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو اور جس کے پاس زائد کھانا ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس کھانا نہ ہو اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے بہت سے مال کا تذکرہ کیا، حتی کہ ہم کو یہ خیال ہونے لگا کہ زائد مال میں ہمارا حق ہی نہیں ہے۔“ (مسلم:1728)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے مظلوم کی بد دعا سے بھی آگاہ کیا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھیجتے وقت ان کو ہدایت دی کہ مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا، کیوں کہ مظلوم کی دعا او رخدا کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔ (مسلم)
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک ایسے حربی کے قتل کیے جانے پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا جس نے تلوار کا واردیکھتے ہی کلمہٴ شہادت پڑھ لیا تھا، روایت کی جاتی ہے کہ حضرت ابودردا نے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور قتل کرنے کے وقت اس نے کلمہٴ شہادت پڑھ لیا، چناں چہ اس کا تذکرہ حضور صلی الله علیہ و سلم سے کیا گیا تو حضرت ابورداء رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اس نے بچنے کے لیے ایسا کیا تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ (تفسیر ابن کثیر:2/417)
آپ صلی الله علیہ وسلم رسول توحید تھے اور اس کا دائرہ صرف عقیدہ ہی تک محدود نہیں، بلکہ یہ توحید زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے، اخلاق وسلوک اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں بھی اس کی جلوہ گری نمایاں ہے، حجة الوداع کے موقع پر میدان ِ عرفان میں آپ نے جو آخری خطبہ دیا، اس میں یہ پہلو صاف صاف نظر آتا ہے، فرمایا:
” تم میں سے کسی ایک کی جان اور مال اور عزت دوسرے کے لیے اسی طرح قیامت تک قابل حرمت واحترام والی ہیں جس طرح آج کا یہ دن، یہ مہینہ اور یہ شہر ، ہر ایک کا مال جو جاہلیت کے عہد میں جائز سمجھا جارہا تھا، اب قیامت تک اس کو جائز سمجھا جانا ختم کیا جارہا ہے، سب سے پہلا خون جو ختم کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب کا خونہے، اس نے بنی لیث میں پرورش پائی تھی اور ہذیل نے اس کو قتل کر دیا تھا،جاہلیت کے تمام سود بھی باطل کر دیے گئے، یہ الله تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور سب سے پہلا سود جوختم کیا جاتا ہے، وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اور دیکھو! عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو، کیوں کہ وہ تمہارے زیر اثر ہیں، وہ اپنے معاملہ میں اختیار نہیں رکھتیں ، لہٰذا ان کا تم پر حق ہے او رتمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے علاوہ تمہارے بستر پر کسی کو آنے نہ دیں او رنہ ایسے شخص کو تمہارے گھر آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو او راگر تم ان کی نافرمانی (غلط رویہ) سے خطرہ محسوس کرو تو انہیں نصیحت کر واور ان کی خواب گاہوں کو الگ کردو اور ہلکے طریقہ سے مارو اور دیکھو! انہیں کھانے، کپڑے کا حق پوری طرح حاصل ہے، تم نے انہیں خدا کی امانت کے طور پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان سے جنسی تعلق کو الله کے نام سے اپنے لیے جائز کیا ہے اور دیکھو! کسی کے پاس کسی کی امانت ہو تو وہ صاحب ِ امانت کو واپس کرے اور د یکھو! میں اپنے بعد تمہارے لیے ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑے رکھا تو تم گم راہ نہ ہو گے۔ وہ چیز کیا ہے؟ وہ ہے کتاب الله، یعنی قرآنی دستور العمل اوردیکھو! تم سے خدا کے ہاں میری نسبت پوچھا جائے گا، بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ صحابہ نے عرض کیا ہم کہیں گے کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا، اپنا فرض ادا کردیا، اس جواب پر آپ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور تین مرتبہ فرمایا: اے خدا !تو گواہ رہنا۔“ (صحیح مسلم)
شرافت انسانی کا لحاظ سیرت نبوی میں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا عظیم کارنامہ انسان کی زندگی اور اس کی عزت وشرافت کو تحفظ فراہم کرنا ہے، بنائے کعبہ کے وقت حجر اسود کو اپنی جگہ رکھنے کے شرف کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں ہونے والے جھگڑا کو جس خوبی سے حل کیا اس کی مثال نہیں ملتی،حالاں کہ یہ جھگڑا ایک بڑے خون خرابہ کا پیش خیمہ بن سکتا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ بعثت سے قبل کعبہ کی مرمت کی ضرورت محسوس کی گئی، اس کی چھت نہیں تھی، دیواریں بھی صرف قد آدم تھیں او رمکہ چوں کہ نشیب میں ہے، اس لیے سیلاب آنے پر سب خراب ہو جاتا تھا، لہٰذا قریش کو فکر ہوئی کہ اس کو ٹھیک کریں، اسی درمیان ان کو یہ واقعہ معلوم ہوا کہ جدہ میں ایک جہاز ٹوٹ کر بے کار ہو گیا ہے، قریش کے ایک سردار نے وہاں جاکر قریش کی طرف سے اس کی لکڑی کے تختے حاصل کیے او ران کے ذریعہ کعبہ کی تعمیر جدید شروع کی اور چوں کہ یہ مقدس عبادت گاہ کا کام تھا، اس لیے اس میں قریش کے سب خاندانوں کے نمائندے شریک ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر اس وقت 35 سال کی ہوچکی تھی، آپ بھی شریک ہوئے، آپ اپنے کاندھے پر پتھر رکھ کر لاتے اور جگہ تک پہنچاتے تھے، جس سے آپ کے شانے چھل بھی گئے، پھر جب حجر اسود کو اس کی مخصوص جگہ پر رکھنے کا وقت آیا تو قریش میں جھگڑا ہوگیا کہ ہر ایک اس شرف کو حاصل کرنا چاہتا تھا، قریب تھا کہ اس پر آپس میں لڑائی کی نوبت آجائے۔
بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ اگلے دن صبح سویرے جو بیت الله شریف میں سب سے پہلے پہنچے اس سے اس سلسلہ میں فیصلہ کرایا جائے اور وہ سب کو قبول ہو، اگلی صبح یہ خصوصیت حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو حاصل ہوئی، آپ سب سے پہلے وہاں پہنچے تھے، آپ کو دیکھ کر سب خوش ہوئے او رکہا کہ یہ تو ”الصادق الامین“ ہیں، یہ بالکل مناسب ہیں، چناں چہ آپ کے ذریعہ فیصلہ لیا گیا، آپ نے فیصلہ یہ دیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھ کر سب مل کر اٹھائیں، ہر ایک اپنی طرف کا کنارہ پکڑ لے، چناں چہ سب نے چاروں طرف سے چادر پکڑ کر اٹھایا او رجب اس کی مقررہ جگہ تک پہنچا دیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ (سیرت ابن ہشام:1/192)
انسانوں کے باہمی جھگڑے اور فساد کو روکنے، شرافت انسانی اورحقوق انسانی کی پاس داری کی ایک اور مثال حلف الفضول کا واقعہ ہے، ایک مرتبہ قبیلہٴ زبید کا ایک شخص مکہ سامان تجارت لے کر آیا، قریش کے ایک سردار او رمعزز شخص”عاص بن وائل“ کی طرف سے زیادتی ہوئی کہ اس نے اس سے سامان خرید لیا اور اس کا حق نہیں دیا، زبیدی نے سرداران قریش کی حمایت حاصل کرنا چاہی، لیکن عاص بن وائل کی حیثیت ووجاہت کی وجہ سے انہوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا او راس کو سخت سست کہہ کر واپس کر دیا تو قریش کے چند صاحب ہمت او رحق وانصاف کے حامی اشخاص نے حق داروں کے حق دلانے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی تو آپ بھی اس میں شریک ہوئے اور سب مل کر وائل کے پاس گئے اور زبیدی کا سامان واسباب اس سے زبردستی لے کر زبیدی کو واپس کیا۔ (الکامل فی التاریخ لابن الاثیر:2/41، سیرت ابن کثیر:1/257)
آپ صلی الله علیہ وسلم اس معاہدہ سے بہت خوش تھے او رفرماتے تھے کہ اس جیسے معاہدہ میں اگر اس کے نام پر اسلام کے بعد بھی بلایا جائے تو میں اس کی تکمیل کے لیے تیار ہوں، اس لیے کہ اسلام تو سراپا عدل وانصاف اورامن وسلامتی کا ہی نام ہے۔ (سیرت ابن کثیر:1/258)
انسانی حقوق کا منشور، میثاق مدینہ
انسانی حقوق کی پاس داری اور شرافت انسانی کی حفاظت کا بہترین نمونہ وہ معاہدہ ہے جو آپ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد کیا او رتاریخ وسیر میں ”میثاق مدینہ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ اس وقت کیا گیا جب کہ مدینہ اوس وخزرج اور یہود کے درمیان میدان جنگ بنا ہوا تھا۔ آپ نے مدینہ میں پُرامن او رانسانی بھائی چارہ، انسانی ہم دردی، مساوات اورانسانی غم خواری پر مشتمل معاشرہ قائم کیا، چناں چہ مدینہ میں آپ کی آمد امن وامان کا سبب بنی۔
ابن ہشام نے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو مدینہ آئے ہوئے ابھی تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ تقریباً مدینہ کے تمام عرب نے اسلام قبول کر لیا اور قبیلہ اوس کے چند افراد کو چھوڑ کر انصار کے خاندانوں کے تمام افراد مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کے درمیان ایک دستاویز لکھی، جس میں آپ نے یہود سے ایک معاہدہ کیا، انہیں ان کے مذہب اور مقبوضات پر باقی رکھا او ران کے لیے کچھ حقوق اور فرائض متعین کیے۔
دشمنوں کے ساتھ آپ کا معاملہ
دشمن اور وہ لوگ جو آپ کے قتل کے درپے تھے، ان کے ساتھ بھی آپ نے عفو ودرگزر کا معاملہ کیا اور غلبہ حاصل ہو جانے پر بھی انتقام اور خوں ریزی سے آپ نے بالکل اجتناب کیا، فتح مکہ کے دن حضور صلی الله علیہ وسلم نے عمومی معافی کا اعلان فرمایا، یہاں تک ان دشمنوں کو بھی معاف کیا جنہوں نے آپ کے راستہ میں کانٹے بچھائے اور آپ کو ہر طرح ستایا، یہاں تک کہ آپ مدینہ ہجرت کر گئے اور وہاں بھی چین سے رہنے نہ دیا، فتح مکہ کے دن آپ نے یہ اعلان کیا: اے قریشیو! تمہیں کیا توقع ہے کہ اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ انہوں نے جواب د یا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم وشریف بھائی کے بیٹے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا :”لا تثریب علیکم الیوم، اذھبوا فانتم الطلقاء“ (آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ! تم سب آزاد ہو۔ )
عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملا تو آپ نے فرمایا: ”اے عقبہ ! جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو، جو تم کو محروم کرے تم اس کو نوازو اور جو تم کو ستائے اس کو معاف کردو۔“ (احمد:17488)
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ چند یہودی آپ کے پاس آئے او رکہا: ” السام علیکم (تمہارا برا ہو) تو میں سمجھ گئی اور فوراً میں نے کہا: ” تمہارا بُرا ہو اور تم پر لعنت ہو۔“ یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا : عائشہ ٹھہرو! الله تعالیٰ ہر چیز میں نرمی پسند کرتا ہے،میں نے کہا: اے الله کے رسول ! کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: میں نے جواب میں”علیکم“ کہہ دیا ہے کہ ”تم پر ہو۔“ (بخاری:5678، مسلم:2165)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جب حضرت علی بن ابی طالب کو خیبر کی مہم پر روانہ کیا تو ان کو وصیت کی کہ آرام سے نکلو، یہاں تک کہ ان کے علاقہ میں پہنچ کر قیام کرو، پھر ان کو اسلام کی دعوت دینا او راسلام لانے کے بعد الله کا جو حق ان پر واجب ہو رہا ہے، اس سے واقف کرانا، اس لیے کہ اگر الله تعالیٰ نے تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دی تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بدرجہا بہتر ہو گا۔ ( بخاری:2847)
قیدیوں کے ساتھ سلوک
قیدیوں کے ساتھ آپ کا سلوک رحمت وشفقت، دور اندیشی، عدل وانصاف اور دعوتی مقاصد پر مبنی تھا، اسی وجہ سے آپ نے قیدیوں کے ساتھ معافی اور شفقت کے متعدد طریقے اختیار کیے، کسی موقع پر قیدیوں سے زرِ فدیہ قبول کیا، کسی کو بغیر زرِ فدیہ کے چھوڑ دیا، کسی کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو تعلیم دے اور بعض قیدیوں کو مسلم قیدیوں کے عوض رہا کر دیا۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب غزوہٴ بدر سے مدینہ واپس آئے، قیدیوں کو صحابہ کرام میں تقسیم کر دیا او ران کو تلقین کی کہ ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (طبرانی فی الکبیر:977، وفی الصغیر:409)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”استوصوابھم خیرا“ (ان سے اچھا معاملہ کرنا) ابو عزیز راوی ہیں کہ جب وہ مجھے بدر سے قیدی بنا کر لائے تو مجھے انصار کے ایک قبیلہ میں جگہ ملی، وہ دونوں وقت اپنے کھانوں میں سے روٹی تو مجھے دیتے اور خود کھجور پر اکتفا کرتے، یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اسی وصیت وہدایت کا اثر تھا۔ (طبرانی فی الصغیر:401)
ابوا لعاص بن الربیع کہتے ہیں: ”میں انصار کے ایک قبیلہ میں تھا، الله ان کو اچھا بدلہ عطا کرے،جب ہم شام یا دوپہر کا کھانا کھاتے تو روٹی مجھے کھلاتے اور خود کھجور پر اکتفا کرتے، حالاں کہ روٹی ان کے پاس بہت کم ہوتی، کسی کو کہیں سے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی مل جاتا تو مجھے لا کر دیتا، مجھے شرم محسوس ہوتی اور میں اسے لوٹا دیتا، لیکن وہ زبردستی مجھے دیتا اور خود اسے ہاتھ بھی نہ لگاتا۔“ ولید بن ولید بن مغیرہ کا بھی اسی طرح کا تاثر ہے، وہ مزید کہتے ہیں:” وہ ہمیں اپنی پیٹھوں پر بٹھا کر چلتے۔“ (مغازی للواقدی:1/119)
بوڑھوں کے ساتھ سلوک
ایک دن ایک سن رسیدہ شخص آپ کے پاس آیا اورلوگوں نے اس کے لیے جگہ دینے میں تاخیر کی تو آپ پر اس کا اثر پڑا اور فرمایا: ” وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے۔“ (ترمذی:919)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”الله کی تعظیم میں بوڑھے مسلمان کا احترام و اکرام ہے۔“ (ابوداؤد)
آپ صلی الله علیہ وسلم کا رشاد ہے : ”جو کوئی نوجوان کسی بوڑھے کا اس کی درازیٴ عمر کی بنا پر اکرام کرتا ہے تو اس کے بدلہ میں الله تعالیٰ بڑھاپے میں اس کے اکرام کا انتظام فرما دیتا ہے۔“ (ترمذی:2023)
بچوں کے ساتھ سلوک
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں نماز شروع کرتا ہوں اور دل چاہتا ہے کہ طویل نماز پڑھوں کہ کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس خیال سے نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کو دشواری اور تکلیف نہ ہو۔“ (بخاری:677)
حضرت انس رضی الله عنہ راوی ہیں کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے یہاں ابو طلحہ جایا کرتے تھے، ان کے ایک بیٹا ابو عمیرتھا، جس سے آپ مذاق کرتے تھے، چناں چہ ایک دن آپ نے دیکھا کہ وہ غم زدہ ہے، آپ نے پوچھا: اے ابوعمیر! کیا ہوا؟ میں تم کو غم زدہ دیکھ رہا ہوں، لوگوں نے جواب د یا کہ ان کی ایک چھوٹی چڑیا مرگئی ہے، جس سے یہ کھیلتے تھے، آپ نے فرمایا: ”ابو عمیر! نغیر کا کیا ہوا؟“ (بخاری:5850)
ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا او رکہنے لگا کہ میرا دل بہت سخت ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے اور تمہاری ضرورت پوری ہو جائے تو یتیم پر رحم کرو اور اس کے ساتھ شفقت وملاطفت کا معاملہ کرو ،اپنے کھانے سے اس کو کھلاؤ، تمہارا دل نرم پڑ جائے گا او رتمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔ (طبرانی، ترغیب وترہیب:2/676)