بسم الله الرحمن الرحیم․ الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی، أما بعد․
عدل وانصاف ایک ایسا وصف ہے جس پر نظام عالم اور اس کی درستی موقوف ہے، خود الله تعالیٰ نے اپنی ذات کے لے یہ وصف قرآن کریم میں ذکر کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کارخانہٴ عالم او راس کا ٹھیک ٹھیک نظام الله تعالیٰ کے عدل وانصاف کے بل بوتے پر چل رہا ہے، لہٰذا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم میں بھی یہ وصف اپنے پورے کمال کے ساتھ موجود تھا۔
عدل وانصاف حکومت وسلطنت کے لیے تو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،لیکن اس کا تعلق انسان کی اجتماعی اور انفرادی زندگی اور زندگی کے ہر شعبہ سے بھی نہایت قوی ہے، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم ان تمام چیزوں میں عدل وانصاف کے اس بلند ترین مرتبہ پر تھے کہ اس سے بلند کا تصور نہیں ہو سکتا، چناں چہ آپ کی انفرادی زندگی اور اس کا ہر گوشہ عدل کامل کا نمونہ تھا، آپ بیک وقت نبی ورسول تھے، حاکم وبادشاہ بھی اور قاضی ومنتظم بھی، شوہر بھی تھے او رباپ بھی، دوست بھی تھے اور مصلح بھی، کامل انصاف کے ساتھ ان تمام گوشوں پر عمل کرنا ،حق یہ ہے کہ آپ کا ہی منصب تھا، عدل کا حاصل یہ ہے کہ اس طرح عمل کیا جائے جس سے کسی ادنی سی حق تلفی نہ ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم اسی اصول پر انفرادی او راجتماعی زندگی میں عمل فرماتے تھے، چناں چہ آپ اپنے جسم اطہر کا بھی حق ادا فرماتے اور روح ِ مقدس کا بھی، آرام کے وقت آرام او رکام کے وقت کام کرتے تھے، آپ کھاتے پیتے بھی تھے اور روزے بھی رکھتے تھے، سوتے بھی جاگتے بھی، بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ چند حضرات صحابہ نے حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی عبادت وغیرہ کا حال دیکھا تو کہنے لگے کہ آپ تو ہر گناہ اور عیب سے پاک ہونے کے باوجود ایسی عبادت کرتے ہیں، ہم گناہ گاروں کو تو اور زیادہ عبادت کرنا چاہیے۔ چناں چہ ان میں سے ایک صاحب نے یہ عہد کیا کہ آئندہ بہت روزہ رکھا کریں گے، دوسرے نے عہد کیا کہ رات بھر نماز میں کھڑے رہ کر گزار دیا کریں گے اور تیسرے نے عہد کیا کہ عمربھر نکاح نہ کریں گے، تاکہ فراغت کے ساتھ عبادت میں ہروقت مشغول رہیں، حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے ایک عام خطاب کے ذریعہ ان کی اصلاح فرمائی، پھر فرمایا کہ مجھے تو دیکھو! میں روزہ رکھتا بھی ہوں، چھوڑتا بھی ہوں، سوتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی میں اعتدال وتوازن برقرار رکھا جائے۔ یہی اس کے ساتھ عدل وانصاف ہے۔
عدل وانصاف کا نازک پہلو وہ ہوتا ہے کہ خود اپنی ذات کے معاملہ میں راستی اور حق پرستی کے ساتھ اس پر قائم رہے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اس میں بھی سب سے ممتاز ہیں، آپ سب سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ عدل کا معاملہ فرماتے، حدیث میں ہے کہ ایک یہودی نے آپ سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا اور گستاخانہ رویہ اختیار کیا، حضرت عمرؓ نے اس کو سزا دینے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت نہ دی، اسی طرح ایک بدّو نے سختی کے ساتھ آپ سے قرض کا مطالبہ کیا، حضرات صحابہ نے اس سے کہا کہ تو جانتا ہے کس سے اس طرح بات کر رہا ہے؟ اس نے کہا کہ میں تو اپنا حق مانگ رہا ہوں، آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ اس کو کچھ نہ کہو، حق دار کو بولنے کا حق ہے ایک گوشہ نشین کے لیے عدل وانصاف سے کام لینا آسان ہوتا ہے ،لیکن جس کا تعلق اہل وعیال، خاندان،دوست احباب او رمختلف مزاج کے بے شمار لوگوں سے ہو تو اس حالت میں عدل وانصاف پر پورا اترنا نہایت دشوار ہو جاتا ہے۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم اس میدان میں سب سے آگے تھے، آپ اپنی بے انتہا تبلیغی اور اصلاحی مشغولیتوں کے باوجود اہل وعیال وغیرہ کے معاملہ میں پورا پورا عدل فرماتے، کیا مجال کہ جھکاؤ کسی ایک طرف آپ سے ظاہر ہوا ہو۔ ایک مرتبہ آپ حضرت عائشہؓ کے پاس تھے، آپ کی کسی دوسری زوجہ محترمہ نے ایک پیالہ میں کھانے کی کوئی چیز آپ کو بھیجی، حضرت عائشہؓ نے غیرت کے مارے اس پیالہ پر ہاتھ مارا، جس سے وہ گر کر ٹوٹ گیا تو آپ نے حضرت عائشہؓ کے گھر سے ایک پیالہ ان کے یہاں بھجوایا۔
اسی طرح عدل وانصاف کے معاملہ میں نہ رشتہ داری آڑے آتی تھی نہ دوستی، ایک دفعہ قریش کی کسی عورت نے چوری کر لی اور وہ چوری ثابت بھی ہوگئی، قریش کی عزت کی وجہ سے بعض لوگ چاہتے تھے کہ چور سزا سے بچ جائے اور کسی طرح معاملہ دب جائے، حضرت اُسامہ بن زیدؓ جو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے خاص محبوب تھے، ان سے لوگوں نے کہا کہ آپ اس معاملہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم سے سفارش کر دیجیے کہ اس کو معاف فرمادیں، انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے معاف کر دینے کی سفارش کی، آپ صلی الله علیہ وسلم اس پر غضب ناک ہو گئے اور فرمایا کہ الله تعالیٰ کے قانون ِ حد میں سفارش کرتے ہو، بنی اسرائیل اسی کی بدولت تباہ ہوئے کہ وہ غریبوں پر قانون نافذ کرتے اور بڑے لوگوں سے درگزر کرتے تھے، پھر فرمایا کہ قانون خداوندی کی زد میں ( خدا نہ کرے)اگر میری جگر گوشہ فاطمہؓ بھی آجائے گی تو میں اس پر وہ قانون جاری کردوں گا… ۔آپ کو ہر وقت عرب کے مختلف قبائل اور دوسرے لوگوں سے واسطہ رہتا تھا، ان میں دوست بھی تھے، دشمن بھی، جاں نثار بھی تھے اور خون کے پیاسے بھی، لیکن جب عدل وانصاف کا معاملہ آتا تو بلا امتیاز آپ حق کے مطابق فیصلہ فرماتے، ابوداؤد میں ہے کہ صخر ایک قبیلہ کے سردار اور بڑے با اثر شخص تھے، انہوں نے اہل طائف کو مجبور کرکے حضور کا مطیع وفرماں بردار بنایا تھا ،جو ایک عظیم احسان تھا، لیکن جب صخر کے خلاف بعض حضرات نے ایک مقدمہ آپ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے ان کے خلاف فیصلہ دیا او ران کے احسان کی پروا نہ کی…۔ یہودیوں کی دشمنی آپ سے او راہل اسلام سے کوئی پوشیدہ چیز نہ تھی، لیکن جب عدل وانصاف کا مسئلہ آجاتا اور یہودی حق پر ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اسی کے حق میں فیصلہ فرماتے، مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ایک صحابی جن کا نام ابو حدرد تھا، ایک یہودی کے مقروض ہو گئے، اس نے اپنے قرض کا مطالبہ کر دیا،ان کے پاس بدن کے کپڑوں کے سوا او رکچھ نہ تھا، جس سے اس کا قرض ادا کرتے، انہوں نے اس یہودی سے مہلت طلب کی، لیکن وہ نہ مانا اور ان کو پکڑ کر حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لایا، آپ ے پوری کارروائی سن کر اپنے جان نثار صحابی سے فرمایا کہ اس کا قرض ادا کردو، انہوں نے عذر کیا کہ میرے پاس ان کپڑوں کی سوا کچھ بھی نہیں، آپ نے پھر یہی حکم دیا( جس کا مطلب یہ تھا کہ بقدر ضرورت بدن کے کپڑے رکھ کر باقی سے قرض ادا کردو) چناں چہ انہوں نے اپنا تہہ بند اتار کر عمامہ اس کی جگہ باندھ لیا اور اس تہبند سے قرض ادا کر دیا… اسی طرح خیبر میں جہاں تمام آبادی یہودیوں کی تھی ایک صحابی مقتول پائے گئے، قاتل کا علم نہ ہو سکا، ظاہر ہے کہ قاتل کوئی یہودی ہو گا۔ مقتول کے وارثوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں استغاثہ کیا اور اپنا شبہ یہودیوں پر ظاہر کیا، مگر کوئی ثبوت مہیا نہ کرسکے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہودیوں سے کچھ نہ کہا اور بیت المال سے دیت ادا کر دی۔
اسی عدل وانصاف کا یہ اثر تھا کہ مسلمان تو ایک طرف، یہودی بھی، جو آپ کے جانی دشمن تھے، اپنے مقدمات آپ ہی کی بارگاہ عدالت میں لاتے، آپ صلی الله علیہ وسلم انصاف کے ساتھ فیصلہ فرماتے اور وہ خوش خوش واپس جاتے، یہودیوں نے اپنے یہاں بڑے اور چھوٹے کا امتیاز قائم کر رکھا تھا، کم زور قبیلہ والے سے قصاص لے لیتے اور طاقت ور قبیلہ والے کو چھوڑ دیتے، ایسا ہی ایک مقدمہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے طاقت ور قبیلہ سے قصاص دلوایا، اسی لیے اہل اسلام کے نزدیک یہ طے شدہ بات ہے کہ اس روئے زمین پر حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ اور کوئی عدل وانصاف کرنے والا نہیں۔
آپ نے اسی عدل وانصاف پر حکومت وسلطنت کی بنیاد رکھی، جو اس قدر مضبوط او رمستحکم تھی کہ ایک ہزار سال تک نہ کوئی زلزلہ اس کو ہلا سکا نہ کسی طوفان سے اس میں رخنہ پیدا ہوا، اگر عد ل وانصاف کا معیار قائم رہتا تو رہتی دنیا تک ایسی حکومت کو کوئی ہٹا نہیں سکتا تھا۔ ا لله تعالیٰ ہم سب کو نیکی پر اور عدل وانصاف پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔وآخردعوانا أن الحمدلله رب العالمین․