اسلامی تعلیمات کے اصولی مآخذ قرآن کریم اور حدیث شریف کو بعینہ مکمل امانت داری کے ساتھ آنے والی نسلوں تک پہنچانے کا نام روایت ہے اور ان مآخذ میں سموئے ہوئے موتی او رجواہرات کو نکالنے، مقصد ِ کلام الہٰی (عزوجل) اور مراد ِ نبوی ( صلی الله علیہ وسلم) کے کامل ادراک کو فقاہت کہتے ہیں، صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین جس طرح روایت کے باب میں سب سے اعلیٰ معیار پر قائم ہیں، اسی طرح فقاہت کے باب میں بھی ان کا کوئی مثل نہیں، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جہاں اپنے اصحاب رضوان الله علیہم اجمعین کی دینی، عملی اور علمی تربیت کی، وہیں صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کی فقہی تربیت بھی فرمائی۔
عہد رسالت میں فقہی تربیت کا نمونہ
مرفوع حدیث کی اقسام میں ایک قسم تقریر کی ہے اور یہ تقریر فقہی تربیت کااہم ترین عنصر اور جز ہے، جس کا عام فہم مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم اجمعین بعض حالات میں اپنی صواب دید پر، موقع محل کے مناسب کوئی عمل کر لیتے، پھر آکر حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں واقعہ عرض کرتے، جو عمل اسلامی روح اور مراد شریعت کے عین موافق ہوتا، حضور صلی الله علیہ وسلم اس کی تصویب فرماتے، سب کے سامنے حوصلہ افزائی فرماتے او رجب اس کے خلاف کوئی عمل سامنے آتا تو برملا برأت فرما دیا کرتے، مسبوق شخص کس طرح اپنی نماز پوری کرے گا، یہ حضرت معاذ بن جبل رضی الله تعالیٰ عنہ (ت18ھ) کے عمل سے معلوم ہوا، ان کے اس اجتہادی عمل کی نہ صرف آپ صلی الله علیہ وسلم نے تصویب فرمائی، بلکہ ان کے اس عمل میں ان کی پیروی کا حکم دیا۔ (مسند احمد بن حنبل)
اسامہ بن زید رضی الله تعالیٰ سے میدان جنگ میں ایک نو مسلم شخص قتل ہو گیا، یہ ان کا اجتہاد تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے برملا ان کے اس عمل سے برأت کی اور بر ملا اعلان اس لیے تھا کہ کوئی ان کی اس خاص عمل میں اقتدا نہ کرے۔ (صحیح البخاری)
یہ فقہی تربیت کا ایک نمونہ ہے اور فقہی تربیت کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ کچھ معاملات میں قرآن اور شارع علیہ الصلوٰة والسلام خاموش رہیں اور دین اسلام کے اولین علم بردار صادقین ومتقین صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کسی نووارد حادثہ او رمسئلہ کا شکار ہو کر، موجودہ ذخیرہ علم کو سامنے رکھ کر، اپنے غور وفکر سے کوئی عمل کر گزریں اور شارع علیہ الصلوٰة والسلام اس پر خاموشی اختیار کریں یا تصویب اور حوصلہ افزائی فرمائیں یا پھر اس سے روک دیں۔
دین کا ایک بڑا حصہ تقریریرات ِ نبوی (صلی الله علیہ وسلم) سے ثابت ہے، کئی عبادات ومعاملات اور شرعی احکام تقریرات ِ نبوی ( صلی الله علیہ وسلم) کی روشنی میں ہم تک پہنچے ہیں اور چوں کہ تقریرات ِ نبی ( صلی الله علیہ وسلم) صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کی فقاہت وفہم شریعت کے کامل ادراک پر کھلی دلیل ہے، جس سے فقہاء صحابہ کی پیروی کرنا بھی لازم آتا ہے تو ائمہ مجتہدین کی فقہی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے او ران کی اتباع کو اپنی نجات کا ذریعہ گرداننا چاہیے، کیوں کہ جس طرح روایت کے باب میں اولین سہرا،ا ولین مخاطبین کے سرپر ہے اور اس کے بعد یہ نصیب محدثین کرام کو حاصل ہوا ہے او ران کی روایت کو دینی امور میں اس طرح قبول کرنا جس طرح صحابی کی روایت کو قبول کرنا ضروری ٹھہرا ہے، تو اسی طرح فقاہت واجتہاد بھی موروثی ہے، جس طرح صحابی کے اجتہاد کے اتباع کا حکم ہے، اسی طرح ائمہ مجتہدین کی فقاہت کی اتباع بھی مطلوب ہے۔
عہد صحابہ وتابعین میں فقہی تربیت کی مثال
اگر دل میں یہ خیال گزرے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کی فقاہت کی تربیت تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کی، اس لیے ان کے اجتہاد کو قبول کیا گیا ہے، جب کہ مجتہدین کی فقاہت تو نبی صلی الله علیہ وسلم کی تربیت سے نہیں گزری۔
تو ہر گز اس خیال کو دل میں نہیں پنپنے دینا چاہیے ،کیوں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے جس طرح فقہی تربیت کرکے صحابہ کو فقیہ بنایا، اسی طرح انہیں فقہی تربیت کرنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے، چناں چہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین نے صغار صحابہ کرام رضی الله عہنم اجمعین اور تابعین رحمہم الله تعالیٰ کی فقہی تربیت فرمائی، حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کا حضرت عبدالله بن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ مشاورتی مجالس میں رکھنا، ان کی فقہی تربیت کا حصہ تھا، اسی طرح بعض تابعین نے بعض صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کے پاس رہ کر فقہی تربیت پائی ،جیسے سعید بن المسیب ( ت94ھ) نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ (ت59ھ) کی خدمت میں، علقمہ رحمہ الله تعالیٰ (ت62ھ) نے حضرت عبدا لله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ(ت32ھ) کی خدمت میں رہ کر فقاہت کا درس لیا اور مدینہ کے فقہاء سبعہ نے بھی فقہاء صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین سے تربیت پائی تھی، یہی سلسلہ چلتا ہوا ائمہ متبوعین تک پہنچتا ہے، جس دلیل وحکم سے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کی فقاہت واجتہاد کا اتباع لازم ہے، اسی حکم سے ائمہ متبوعین کے اجتہاد کا اتباع ضروری ہے۔
انہی تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین میں ایک نام عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ کا ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف کے مختصر حالات
عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ کی واقعہ فیل کے دس سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدائش ہوئی، دارِ ارقم کے قیام سے کچھ قبل حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے،حبشہ اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، مدینہ منورہ کے نامور تاجروں اور غنی ومال دار صحابہ میں شمار ہوتا ہے، تمام غزوات میں شرکت کی، سریہ دومة الجندل میں لشکر کے امیر مقرر کیے گئے، سخاوت وضیافت میں مشہور ہیں۔ عشرہٴ مبشرہ میں سے ایک ہیں، حضرت عمررضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کی سپردگی کا کام جن چھ صحابہ کرام کے ذمہ لگایا تھا، ان میں ایک نام آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کا تھا، بعد ازاں حضرت عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہ کی خلافت کا حتمی فیصلہ آپ ہی نے کیا،آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے وصال کے بعد امہات المؤمنین کی ذمہ داری آپ کے سپرد فرمائی ، فقہاءِ سبعہ میں حضرت ابو سلمہ رحمہ الله تعالیٰ آپ ہی کے فرزند ہیں، 32 ہجری میں وفات پائی۔ (الطبقات لابن سعد)
حضرت عبدالرحمن بن عوف کے فقہی استنباطات
آپ رضی ا لله تعالیٰ عنہ کا امامت کے لیے آگے بڑھنے کا استشہاد او رحضور صلی الله علیہ وسلم کی توثیق۔
آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی فقاہت پر سب سے بڑی اور پہلی دلیل غزوہٴ تبوک کے سفرکا وہ واقعہ ہے، جس میں آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فجر کی نماز میں صحابہ کی امامت کرائی اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے آپ کی اقتدامیں نماز ادا فرمائی۔ (الطبقات لابن سعد)
اس واقعہ کی تین دفعات سے آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی فقاہت ثابت ہوتی ہے۔
واقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے امامت کے لیے آگے پیش ہونا: کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے ہمراہ، قافلہ سے جدا ہو کر، قضائے حاجت کے لیے گئے ہوئے تھے،جس سے لوٹنے میں تاخیر ہوئی، صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم نے آپ کا انتظار کیا ، مگر نماز کا وقت ہو جانے کی بنا پر صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم نے مشورہ کیا، ایسے وقت میں یہ فیصلہ لینا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بغیر کوئی اور امام بنے یقینا مشکل ترین فیصلہ تھا، خاص طور پر جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی آمد متوقع بھی ہو، تاہم حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ اپنی فقہی بصیرت کی بنیاد پر آگے بڑھے اور امامت کرائی۔
صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم اجمعین کا آپ کی امامت پر متفق ہونا اور صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم اسی کی امامت پر متفق ہو سکتے تھے جو علم وعمل اور فقاہت میں اعلیٰ مقام رکھتے ہوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ان کی اقتدا کرنا، آپ کی امامت کو برقرار رکھنا علاوہ ازیں آپ کی تائیدمیں یہ جملہ فرمانا کہکوئی نبی اس وقت تک دار فانی سے کوچ نہیں کرتا جب تک اپنی امت کے کسی نیک آدمی کی اقتدامیں نماز نہ پڑھ لے۔
تعیین حد میں آپ کا استنباط
حدود شرعیہ وہ سرزنشیں اور سزائیں کہلاتی ہیں جو کسی معاشرتی اور اخلاقی وکرداری بے راہ روی کی روک تھام کے لیے شریعت کی جانب سے مقرر کی گئی ہوں، جیسے حد زنا، حد سرقہ وغیرہ۔ انفرادی او راجتماعی زندگی کے بگاڑ کا ایک بڑا سبب شراب نوشی ہے، گو کہ زمانہٴ جاہلیت میں شراب بکثرت پی جاتی تھی، مگر شریعت کی تدریجی تربیت کی وجہ سے اس کی شناعت دلوں میں بیٹھ گئی، تاہم پھربھی کسی سے یہ جرم سرزد ہو جاتا تو کوئی مقرر حد نہیں تھی، بلکہ حسب حال کسی کو چالیس کوڑے مار دیے جاتے یا اس سے کم کوئی سزا دے دی جاتی، عہد صدیقی میں چالیس کوڑے مار ے جاتے، لیکن جب حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کا دور ِ خلافت آیا اور اسلامی قلم رو میں فتوحات کی بنیاد پر مسلسل اضافہ ہونے لگا تو اطراف کے مسلمانوں کی شراب سے قربت بڑھ گئی، شراب نوشی کے واقعات بڑھنے لگے تو آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے مجلس مشاورت میں یہ بات رکھی اور فرمایا ایک حد مقرر ہونی چاہیے، اب کتنی حد مقرر ہونی چاہیے؟ اس پر گفت گو جار ی تھی کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا شریعت میں مقرررہ حدود میں سب سے کم حد کو مقرر کیا جائے اور وہ ہے 80 کوڑے، اسی پر حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے بھی فرمایا کہ شراب پینے سے فحش گوئی اور تہمتوں کا دروازہ کھلتا ہے اور تہمت کی سزا 80 کوڑے ہیں، تو شارب ِ خمر کو بھی اسی کوڑے لگائے جائیں، چناں چہ آپ رضی الله تعالیٰعنہ اور حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کے مشورے پر 80 کوڑوں کا فیصلہ کیا گیا۔
اس واقعہ میں سابق الذکر دونوں حضرات کی فقہی بصیرت اور ملکہ ِ استنباط واستشہاد کا ظہور ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم)(نوٹ صحیح مسلم کی روایت میں عبدالرحمن بن عوف رضی ا لله تعالیٰ عنہ اور المؤطا کی روایت میں علی کرم الله وجہہ کا ذکر ہے،امام نووی نے دونوں کوجمع کیا ہے ،ہم نے وہی اختیار کیا ہے۔ )
استلام رکن اور آپ کا جتہادی عمل
یہ بات بالکل واضح او رمسلم ہے کہ امور عبادت میں فرائض وواجبات اور سنن کی اصطلاحات عہدرسالت میں رواج پذیر نہیں تھیں، بلکہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم اجمعین بالخصوص فقہاء صحابہ شارع علیہ الصلوٰة والسلام کو عبادات کرتے دیکھتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے عمل سے اوراپنی فقہی بصیرت سے اس کا درجہ متعین کر لیتے تھے، جس کی بسا اوقات حضور صلی الله علیہ وسلم توثیق فرماتے۔ اسی طرزِ عمل کی ایک عملی مثال سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالی کے بیان سے ملتی ہے، موصوف صحابی جلیل فرماتے ہیں کہ جب میں بیت الله کے طواف سے فارغ ہوا تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ استلام رکن میں آپ نے کیا عمل اختیار کیا؟ میں نے عرض کیا کہ کبھی استلام کیا اور کبھی چھوڑا ( یعنی فرض اور واجب سمجھ کر ہمیشہ نہیں کیا بلکہ سنت ومستحب سمجھ کر کبھی استلام کیا اور کبھی ترک کیا) آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آپ نے درست راہ اختیار کی۔ (معجم الصغیر للطبرانی)
اسی سے جہاں آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی فقاہت پر مہر نبوت ثبت ہوتی ہے وہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی فقہی تربیت کا اسلوب وانداز بھی معلوم ہوتا ہے۔
آپ رضی الله عنہ کی روایات میں فقاہت کی جھلک
صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم میں آپ کے فقہی اور حدیثی مقام ومرتبہ کا اندازہ ان روایات سے لگایا جاسکتا ہے جو صرف آپ سے منقول ہیں، کیوں کہ عموماً ہر شخص اس فن کی احادیث کو زیادہ یاد رکھتا ہے، جس کا وہ ماہر ہو، فقہاء صحابہ کرام سے فقہی روایات ہی زیادہ تر منقول ہوتی ہیں، جیسے عام طور پر اقضیہ کی احادیث میں حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ، فرائض ومیراث کی روایات میں زید بن ثابت رضی الله تعالیٰ عنہ اور حلال وحرام کی احادیث میں معاذ بن جبل رضی الله تعالیٰ عنہ کی روایات کو ترجیح حاصل ہوتی ہے کیوں کہ وہ ان فنون کے ماہر اور خوگر تھے۔ (التقیید والایضاح للعراقی) بطور مثال تین روایات پیش کی جاتی ہیں۔
مجوس سے جزیہ قبول کرنا
مجسوسیوں سے جزیہ قبول کرنے کے سلسلے میں سیدنا عمر فاروق رضی الله تعالیلله عنہ متردد تھے، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ نے آکر خبر دی کہ حضور صلی الله علیہ و سلم نے مقام ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا، یہ حدیث آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کے سوا موجودہ لوگوں میں کسی کے پاس نہ تھی، حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے صرف آپ کی روایت کی وجہ سے جزیہ قبول کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے خبر واحد کی حجیت معلوم ہوتی ہے ۔ (السنن ابی داؤد)
وبائی علاقوں کے متعلق نبوی ہدایت
18 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے ہم راہ شام کے سفر پر نکلے، مقام سرغ تک پہنچنے پر خبر ملی کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے، آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے اولاً مہاجرین ِ اولین سے مشاورت کی، مجلس مشاورت میں اختلاف ہوا، کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا، پھرانصار صحابہ سے مشاورت کی، اس میں بھی اختلاف ہوا او رکسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے، پھر آپ نے قریش کے بڑے سردار جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر ہجرت کی، ان سے مسئلہ کا حل دریافت کیا، سب ایک رائے پر متفق ہوئے کہ خود کو وبا میں د اخل نہیں کرنا چاہیے اور واپس لوٹ جانا بہتر ہے، آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے واپس لوٹنے کا فیصلہ سنایا،اس پر ابوعبیدہ بن جراح رضی الله تعالیٰ عنہ نے استفسار کیا کہ آپ الله تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ تب آپ نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ :
”جی ہاں ! ہم تقدیر الہٰی سے تقدیر الہٰی کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔“
اس تمام کارروائی میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ شامل نہ تھے، وہ کسی کام سے کہیں گئے ہوئے تھے، اچانک وہ تشریف لائے اورجب انہیں تمام ماجرے کا علم ہوا تو فرمایا ایسے موقع کے لیے تو میرے پاس حضور صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
”جب تم کسی علاقے کے متعلق سنو کہ اس میں وبا ہے، تو وہاں داخل مت ہونا اور اگر جہاں تم رہ رہے ہو، وہاں وبا پھیل جائے تو بھاگنے کی غرض سے نہ نکلنا۔“
حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ بہت خوش ہوئے، شکر ادا کیا اورلوٹ گئے۔ (صحیح بخاری)
نماز میں بھول جانے کے وقت بنا کرنا
نماز میں تعداد رکعات میں اشتباہ اور وہم ہونے کی وجہ سے استیناف کیا جائے یا بناء؟ ایک بار حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے حضرت عبدالله بن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ سے اس مسئلہ کے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم کی روایت اور نبوی راہ نمائی دریافت فرمائی، ابن عباس رضی الله تعالی ٰ عنہ نے فرمایا: میرے پاس تو کوئی حدیث نہیں، یہی گفت گو چل رہی تھی کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا، تو ان سے مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا،جب آپ نے مسئلہ کے متعلق سنا، تو فرمایا میرے پاس اس مشکل کا حل موجود ہے، میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ:
”جب تم نماز میں ہو اور شک ہو جائے ، اگر پہلی اور دوسری رکعت میں شک ہو تو پہلی پر بنا کرے، دوسری اور تیسری میں شک ہو تو دوسری پر بنا کرے، تیسری اور چوتھی میں اختلاف ہو تیسری کو اصل بنائے اورپھر سلام سے قبل سجدہ سہو کرے، بعد ازاں سلام کرے“۔ (مسند احمد ن حنبل)
یہ تین روایات آپ کی فقہی بصیرت اور فقیہانہ مقام ومرتبہ کی عکاسی کرتی ہیں۔