آپ بہت ہی اہل تقویٰ بزرگوں میں سے ہوئے ہیں اور بہت سے مشائخ سے شرف نیاز حاصل کیا۔ تذکرة الاولیاء میں لکھا ہے کہ آپ کو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی صحبت بہت عرصہ تک حاصل رہی۔ ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ کی مجلس میں حاضر ہوئے تو لوگوں نے حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا۔ لیکن امام ابوحنیفہ نے ”سیدنا“ کہہ کر خطاب کیا اور اپنے نزدیک جگہ دی اور جب لوگوں نے سوال کیا کہ انہیں سرداری کیسے حاصل ہوگئی ؟تو امام صاحب نے فرمایا کہ ان کا مکمل وقت ذکر وشغل میں گزرتا ہے اور ہم دنیاوی مشاغل میں بھی حصہ لیتے رہتے ہیں۔
سبق آموز واقعات
ابتداء میں آپ بلخ کے سلطان اور عظیم المرتبت حکم ران تھے۔ پھر سلطنت چھوڑ کر درویشی اختیار کر لی اور نیشاپور کے قریب میں ایک غار کو اپنا مسکن بنایا۔ مکمل نوسال تک عبادت میں مصروف رہے اور ہر جمعہ کو لکڑیاں جمع کر کے فروخت کردیتے اور جو کچھ ملتا، آدھا راہ مولا میں دے دیتے اور باقی ماندہ رقم سے روٹی خرید کر نماز جمعہ ادا کرتے اور پھر ہفتہ بھر کے لیے غار میں چلے جاتے۔
ایک دن آپ کے پاس حضرت شقیق بلخی آئے اور سوال کیا کہ آپ نے دنیا سے فرار کیوں اختیار کیا؟ فرمایا کہ: اپنے دین کو آغوش میں لیے صحرا بہ صحرا، قریہ بہ قریہ اس لیے بھاگتا ہوں کہ دیکھنے والے مجھے یا تو مزدور تصور کریں یا دیوانہ۔ تاکہ اپنے دین کو سلامت لے کر موت کے دروازے سے نکل جاوٴں۔ ماہ رمضان میں آپ جنگل سے گھاس لے کر فروخت کیا کرتے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو خیرات کر کے پوری شب مصروف عبادت رہتے۔ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ کو نیند نہیں آتی؟ فرمایا کہ جس کی آنکھوں سے ہمہ وقت سیلاب اشک رواں ہو، اس کو بھلا نیند کیوں کر آسکتی ہے؟! آپ کا یہ معمول تھا کہ فراغت نماز کے بعد اپنا چہرہ چھپا کر فرماتے کہ مجھے یہ خوف رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری نماز کو میرے منھ پر نہ ماردیں۔
ایک مجذوب قسم کا شخص پراگندہ حال اور چہرہ غبار آلود آپ کے سامنے آگیا تو آپ نے اپنے ہاتھوں سے اس کا منھ دھویا اور فرمایا کہ جو منھ ذکر الہٰی کا مظہر ہو اس کو پراگندہ نہیں ہونا چاہیے۔ جب اس مجذوب کو کچھ ہوش آیا تو لوگوں نے پورا واقعہ اس سے بیان کیا، جس کو سن کر اس نے توبہ کی۔ پھر آپ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ تم نے محض خدا کے واسطے سے ایک مجذوب کا منھ دھویا۔ اس لیے اللہ نے تمہارا قلب دھو ڈالا۔
ساحل دجلہ پر آپ اپنی گدڑی سی رہے تھے کہ کسی نے آکر کہا حکومت چھوڑ کر تم نے کیا حاصل کیا؟ یہ سن کر آپ نے اپنی سوئی دریا میں پھینک دی تو بے شمارمچھلیاں اپنے منہ میں سونے کی ایک ایک سوئی دبائے نمودار ہوئیں۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ مجھے تو اپنی سوئی درکار ہے۔ چناں چہ ایک مچھلی آپ کی سوئی لے کر آگئی۔ آپ نے سوئی لے کر اس شخص سے فرمایا کہ حکومت کو خیرباد کہہ کر ایک معمولی سی شے حاصل ہوئی ہے۔
آپ کچھ بزرگوں کے ہم راہ ایک قلعہ کے نزدیک پڑاوٴ ڈال کر آگ روشن کرنے لگے تو کسی نے کہا کہ اس جگہ آگ اور پانی دونوں کا انتظام ہے۔ لہٰذا اگر کہیں سے جائز قسم کا گوشت مل جائے تو بھون کر کھائیں۔ آپ یہ فرما کر کہ اللہ کو سب قدرت ہے، مشغول نماز ہوگئے۔ اس وقت کہیں سے شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی اور تمام بزرگوں نے کہنا شروع کیا کہ شیر ایک گورخر کو ہماری جانب گھیر کر لارہا ہے۔ چناں چہ سب نے گورخر کو پکڑ کر ذبح کیا اور جب تک سارے لوگ کھانا کھاتے رہے۔ وہ شیر نگرانی کرتا رہا۔ (تذکرة الاولیاء، مصنفہ شیخ فرید الدین عطار)
حضرت سفیان بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں مولدا لنبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس ابراہیم بن ادہم کو بہت روتے ہوئے دیکھا۔ وہ مجھے دیکھ کر راستے سے پرے ہٹ گئے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور وہاں نماز پڑھی۔ پھر ان سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی۔ کیوں رورہے ہو؟ وہ کہنے لگے خیریت ہے۔ کچھ نہیں۔ میں دوبارہ، سہ بارہ بھی سوال کیا۔ وہ یہی جواب دیتے رہے۔ میں نے بار بار سوال کیا تو وہ کہنے لگے کہ اگر میں وجہ بتادوں تو تم اس کو پوشیدہ رکھو گے یا لوگوں پر ظاہر کر دوگے؟ میں نے کہا تم شوق سے کہو (یعنی میں مخفی رکھوں گا) کہنے لگے کہ:
تیس برس سے میرادل سکباج (ایک قسم کا کھانا، جس میں سرکہ اور گوشت اور میوہ جات پڑتے ہیں) کھانے کو چاہتا تھا اور میں مجاہدہ کے طور پر اس کو روکتا تھا۔ رات مجھ پر نیند کا بہت غلبہ ہوا۔ میں نے خواب میں ایک جوان کو دیکھا کہ وہ نہایت حسین شخص ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک سبز پیالہ ہے، جس سے بھاپ اٹھ رہی ہے اور سکباج کی خوش بو اس میں سے آرہی ہے۔ میں نے اپنے دل کو سنبھالا۔ اس نے میرے پاس آکر کہا: ابراہیم لو، اس کو کھالو۔ میں نے کہا جس چیز کو اللہ کے واسطے چھوڑدیا ۔ اس کو اب نہیں کھانا ہے۔ وہ کہنے لگا اگر چہ اللہ جل شانہ خود کھلائیں؟ مجھ سے رونے کے سوا اس کا کوئی جواب بن نہ پڑا۔ وہ کہنے لگا: اللہ تجھ ر رحم کرے، اس کو کھالے۔ میں نے کہا ہمیں یہ حکم ہے کہ جب تک ہمیں پورا حال کسی چیز کا معلوم نہ ہو جائے (کیا چیزہے، کہاں سے آئی ہے؟) اس وقت تک اپنے برتن میں نہ ڈالیں۔ وہ کہنے لگے اللہ تمہاری حفاظت کرے۔ اس کو کھالو۔ یہ مجھے (جنت کے ناظم) رضوان نے دی ہے اور یہ کہا ہے کہ: اے خضر! یہ ابراہیم کو کھلادو۔ اس نے بہت صبر کرلیا اور خواہشات کو بہت روک لیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ ابراہیم! اللہ جل شانہ کھلاتے ہیں اور تم انکار کرتے ہو۔ میں نے فرشتوں سے سنا ہے کہ: ”جو شخص بے طلب ملنے سے انکار کرتا ہے۔ اس کو طلب پر بھی نہیں ملتا۔“میں نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں آپ کے سامنے حاضر ہوں۔ میں نے تو اپنے عہد کو اب تک نہیں توڑا۔ اتنے میں ایک جوان اور آیا اور اس نے حضرت خضر کو کچھ دے کر کہا کہ اس کا لقمہ بنا کر ابراہیم کے منھ میں دے دو۔ وہ مجھے اپنے ہاتھ سے کھلاتے رہے اور جب میری آنکھ کھلی تو اس کی شرینی میرے منھ میں تھی اور زعفران کا رنگ میرے ہونٹوں پر تھا۔ میں زمزم کے کنویں پر گیا اورمنھ کو دھویا، مگر نہ منھ میں سے مزہ جاتا ہے، نہ ہونٹوں پر سے رنگ جاتا ہے۔ میں (سفیان بن ابراہیم) نے بھی دیکھا تو واقعی اس کا اثر موجود تھا۔
آپ کا وصال جمادی الاولیٰ میں ہوا۔ آپ کے مزار کے متعلق بعض حضرات نے کہا کہ بغداد میں ہے اور بعض کی رائے ہے کہ آپ حضرت لوط علیہ السلام کی قبر کے نزدیک شام میں مدفون ہیں۔