نام مبارک حسن او رکنیت ابو سعیدتھی، آپ رحمة الله علیہ کے والدکا نام یسا رتھا ، جو حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہ کے مو لی تھے اور والدہ کا نام بی بی خیرہ تھا، جو حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا کی باندھی تھی۔ آپ کے والد 12ھ میں حضرت ابوبکرصدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے۔
ولادت
آپ رحمة الله علیہ کی ولادت حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں وصال فاروقی سے دو سال قبل مدینہ منورہ میں ہوئی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ جب پیدا ہوئے تو حضرت عمر رضی الله عنہ کی خدمت میں لائے گئے۔ آپ رضی الله عنہ نے اپنے ہاتھ سے ان کے منھ میں کھجور کا لعاب ٹپکایا اور فرمایا سموہ حسنا فانہ حسن الوجہ یعنی اس (بچہ) کا نام حسن رکھو، کیوں کہ خوب صورت چہرے والا ہے۔ آپ رحمة الله علیہ کی تربیت ونگہداشت میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا کا بڑا حصہ ہے۔ حضرت ابوزرعہ فرماتے ہیں کہ حسن بصری رحمة الله علیہ حضرت علی کرم الله وجہہ کے ہاتھ پر چودہ سال کی عمر میں بیعت ہوئے۔ اس کے بعد حسن بصری رحمة الله علیہ کو فہ اور بصرہ کی طرف چلے گئے۔ آپ رحمة الله علیہ کے تین فرزند ، علی، محمد اور سعید تھے۔ اسی بنا پر آپ رحمة الله علیہ کی تین کنیتیں مشہورہیں، آپ رحمة الله علیہ ان تمام صفات سے متصف تھے جو ایک ولی کامل میں ہوتی ہیں۔ علم وعمل میں ان کا کوئی ہم سر نہیں تھا۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا دینی طبقہ ان کی تعریف اور مدح وستائش میں رطب اللسان رہا ہے۔ حجاج بن ارطاة کہتے ہیں کہ میں نے عطاء بن ابی ریاح سے حسن بصری رحمة الله علیہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم اس شخص کو مضبوطی سے پکڑ لو، وہ بڑے امام ہیں، اُن کی پیروی کی جاتی ہے۔ حماد بن سلمہ، یونس بن عبید اور حمید طویل سے نقل کرتے ہیں کہ ہم نے فقہاء بہت دیکھے ہیں۔ حسن بصری رحمة الله علیہ جیسا مروت والا کسی او رکو نہیں دیکھا۔ اعمش فرمایا کرتے تھے کہ حسن بصری رحمة الله علیہ ہمیشہ حکمت جمع کرتے رہے، پھر اس کو کہنا شروع کیا۔ امام باقر رحمة الله علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حسن بصری رحمة الله علیہ کا کلام انبیاء کے مشابہ ہوتا ہے۔ آپ رحمة الله علیہ ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے۔
اوصاف حمیدہ
حضرت حسن رحمة الله علیہ پرہیز گاری اور زہد وتقویٰ میں بے مثال تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ تقویٰ اور پرہیز گاری دین کی بنیاد ہے۔ لالچ او رحرص اس بنیاد کو ختم کر دیتے ہیں۔ سنت نبوی کے ساتھ والہانہ اور عاشقانہ تعلق رکھتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ اتباع سنت کا لحاظ فرماتے۔ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔ خوف وخشیت حد درجہ آپ میں موجود تھا۔ بسا اوقات فرمایا کرتے تھے کہ اس خوف سے روتا ہوں کہ کہیں کوئی ایسا قصور نہ مجھ سے سر زد ہو گیا ہو جس کی وجہ سے حق تعالیٰ یہ فرما دیں کہ اے حسن! ہماری درگاہ میں تمہارا کچھ مرتبہ نہیں رہا۔ اور اب ہم تمہاری کوئی عبادت قبول نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ کسی جنازہ کے ہم راہ قبرستان تشریف لے گئے، تدفین کے بعد آپ رحمة الله علیہ قبر کے سرہانے پر بیٹھ کر خوب روئے۔ پھر فرمایا اے لوگو! خبر دار ہو جاؤ۔ دنیا کی انتہا اور آخرت کی ابتدا یہی قبر ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے ایک منزل ہے۔ لہٰذا ایسی دنیا سے کیوں محبت رکھتے ہو جس کا انجام یہ قبر ہے اور اس قیامت سے کیوں نہیں ڈرتے جس کی ابتداء یہ قبر ہے؟ آپ رحمة الله علیہ کی یہ نصیحت کچھ ایسے درد بھرے الفاظ میں تھی کہ سارا ہی مجمع رونے لگا۔ فرمایا کر تے تھے کہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے او راس کے گھر والے رونا شروع کرتے ہیں تو ملک الموت اس مکان کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ میں نے اس کی روزی نہیں کھالی۔ یہ اپنی روزی ختم کرچکا تھا، میں نے اس کی عمر کم نہیں کی، مجھے تو اس گھر میں پھر آنا ہے اور بار بار آنا ہے، یہاں تک کہ سب ختم نہ ہو جائیں۔ پھر فرمایا خدا کی قسم! اگر گھر والے اس وقت اس فرشتہ کو دیکھ لیں اوراس کی بات سن لیں تو مردہ کو بھول کر اپنی فکر میں پڑ جائیں۔
تواضع وانکساری آپ رحمة الله علیہ میں بہت تھی، ہمیشہ اپنے آپ کو ایک معمولی آدمی، بلکہ اس سے بھی کم تر سمجھا۔بسا اوقات کسی کتے کو دیکھ کر فرماتے کہ اے الله! مجھے اس کتے کے صدقے میں قبول فرمالے۔ اُن کا ارشا دہے کہ آدمی سے جب تہجد چھوٹتی ہے توکسی گناہ کی وجہ سے چھوٹتی ہے۔ شروع رات میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا کر واور دن میں اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ کر لیا کرو، تاکہ تہجدنصیب ہو۔ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ تہجد اس شخص پر گراں ہوتا ہے جس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں۔حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ کو حق تعالیٰ شانہ نے تقریر کرنے کا بڑا ملکہ عطا فرمایا تھا ،ہفتہ میں ایک بار وعظ ہوتا تھا۔ عوام کی بہت بڑی تعداد آپ رحمة الله علیہ کا وعظ سننے کے لیے جمع ہوا کرتی تھی، جس میں اپنے اپنے زمانے کے صلحا واتقیا تک شریک ہوا کرتے تھے۔ حضرت علی کرم الله وجہہ جب بصرہ میں تشریف لائے تو حسن بصری رحمة الله علیہ کی محفل میں تشریف لے جاکر دریافت کیا کہ حسن تم عالم ہو یا طالب علم؟ فرمایا کچھ بھی نہیں ۔ہاں !جتنا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پہنچا ہے، اس کو بتلا دیتا ہوں۔ حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا یہ جوان وعظ کہنے کے لائق ہے۔ یہ فرما کر وہاں سے روانہ ہو گئے اور تمام واعظوں کو وعظ کہنے کی ممانعت کر دی۔
واقعات اور ارشادات
کتب تواریخ میں آپ رحمة الله علیہ کے بہت سے واقعات اور ارشادات موجو دہیں، جن میں سے چند اس کتاب کے موضوع کے مناسب یہاں تحریرکیے جاتے ہیں۔
٭… حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ نے ایک نوجوان آدمی کو دیکھا کہ ہنسنے میں مشغول ہے۔ آپ رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ کیا تو پل صراط پر سے گزرا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ رحمة الله علیہ نے پوچھا کہ تجھے معلوم ہے کہ تو جنت میں جائے گا یا دوزخ میں؟ اس نے عرض کیا نہیں، آپ رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ پھر یہ ہنسی کیسی ہے ؟ راوی کہتا ہے اس قصہ کے بعد اس کو کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔٭… فرمایا کرتے تھے کہ الله جل شانہ کسی بندہ کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو اہل وعیال میں مشغول نہیں ہونے دیتے۔ (یہاں یہ بات خاص طور سے یاد رکھنے کی ہے کہ اہل وعیال کے حقوق کی ادائیگی او رچیز ہے او ران میں مشغول ہونا، دوسری چیز ہے )۔ ٭… فرمایا کرتے تھے کہ تواضع کی شرط یہ ہے کہ جب آدمی گھر سے نکلے تو جس کو بھی دیکھے اپنے سے افضل سمجھے۔ ٭… فرمایا کرتے تھے کہ جب آدمی سے گناہ ہوجائے او رپھر وہ سچی توبہ کر لے تو پھر اس توبہ سے الله تعالیٰ شانہ کے یہاں تقرب میں زیادتی ہوتی ہے۔٭… ایک شخص نے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو فرمایا کہ ذکر کی مجلسوں میں شریک ہوا کرو۔٭… فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ان اکابر کو پایا ہے کہ جو حلال چیزوں میں بھی اتنی بے رغبتی فرمایا کرتے تھے جتنی تم حرام چیزوں میں بھی بے رغبتی نہیں کرتے۔٭… فرمایا کرتے تھے کہ لالچ عالم کو عیب دار بنا دیتا ہے، قسم کھا کر فرمایا کرتے تھے کہ جوآدمی بھی روپیہ پیسہ کو عزیز سمجھتا ہے اس کو الله ذلیل کر دیتا ہے۔٭… فرمایا کرتے تھے کہ دنیا تیرے لیے ایک سواری ہے، اگر تو اس پر سوار ہو گا، جب تو وہ تجھ کو منزل تک پہنچا دے گی، لیکن اگر وہ تجھ پر سوار ہوگئی تو تجھ کو ہلاک وبرباد کر دے گی۔٭… فرمایا کرتے تھے کہ اگر تیری کسی سے دشمنی ہوجائے اور وہ الله کا مطیع اور اس کا فرماں بردار ہو تو اس کے ساتھ دشمنی کرنے سے بچنا، کیوں کہ اس کو الله تیرے حوالہ نہیں کرے گا۔ او راگر وہ گناہ گار ہے تو وہ اپنے کیے ہوئے کو خود دیکھے گا، لہٰذا تو اس کی عداوت سے پریشان مت ہو۔٭… ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا کہ وہ یہ حدیث پڑھ رہا تھا ”المرء مع من أحب “( یعنی آدمی اس کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ وہ محبت رکھے)تو فرمایا اس حدیث سے دھوکہ میں مت آجانا، یہ معیت اسی وقت ہو گی جب کہ تو ان جیسے اعمال بھی کرے گا۔ ٭…معمول تھا کہ جب کوئی شخص ان کی غیبت کرتا تو اس کو تحفہ بھیجا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو ہدیہ (غیبت کا) تم نے مجھے بھیجا ہے، وہ میرے ہدیہ سے بہت بڑھ کر ہے۔٭… فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص الله کے لیے محبت کا دعویٰ کرے اور پھر وہ اس سے اس کے گناہوں کی وجہ سے نفرت کرے تو وہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹا ہے کہ مجھ کو الله واسطے کی محبت ہے۔
انتقال
ہشام بن عبدالملک کے دور حکومت میں باختلاف روایات چار محرم یا یکم رجب110ھ میں 89 سال کی عمر میں انتقال فرمایا اور بصرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ صاحب سیرا الاقطاب نے آپ رحمة الله علیہ کے پانچ خلیفہ شمار کرائے ہیں۔ ان میں ہمارے چشتیہ سلسلہ مذکورہ میں شیخ عبدالواحد بن زید رحمة الله علیہ ہیں۔
(ماخوذ: تاریخ مشائخ چشت:862)