7/ربیع الاول1443ھ بروز جمعرات، حسب معمول حضرت اقدس دامت برکاتہم کی جامعہ کے اساتذہ کے ساتھ نشست ہوئی، جس میں حضرت اقدس دامت برکاتہم نے مختلف انتظامی امور کے ساتھ ساتھ تربیت کے حوالے سے نہایت مؤثر باتیں ارشاد فرمائیں، جن کو نذر قارئین کیا جاتا ہے۔
فرمایا:مدارس کا یہ جو سلسلہ قائم ہے یہ ہمارے اکابر کی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔
فرمایا: دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمة الله علیہ کا واقعہ پڑھ رہا تھا، مولانا رفیع الدین صاحب رحمة الله علیہ دارلعلوم دیوبند کے مہتمم تھے اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ الله سرپرست تھے، حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمة الله علیہ ایک دفعہ چندے کے لیے دہلی تشریف لے گئے، اس چندے میں تین سو روپے جمع ہوئے ،جو اس زمانے کے اعتبار سے بڑی رقم تھی، دہلی سے واپس آرہے تھے کہ وہ پیسے راستے میں ضائع ہو گئے، مولانا رفیع الدین صاحب دارالعلوم تشریف لائے او رگھر کے سازوسامان کو جمع کرکے بیچنے کا انتظام کرنے لگے، تاکہ اتنے پیسے دارالعلوم میں جمع کراسکیں۔
دارالعلوم کے ذمہ داروں کو پتہ چلا تو انہوں نے آکر عرض کیا کہ حضرت! یہ رقم تو امانت تھی، آپ کے پاس، جمع کرنا آپ کے ذمے نہیں، لیکن جب نہ مانے تو ذمہ داروں نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ الله کو خط لکھا کہ یہ صورت حال ہے، آپ انہیں سمجھا دیں، حضرت گنگوہی رحمہ الله نے ان کو خط لکھا کہ یہ آپ کے ذمے نہیں، آپ رقم اپنی طرف سے نہ دیں، اس پر مولانا رفع الدین صاحب رحمة الله علیہ نے فرمایا:
رشید احمد نے ساری فقہ میرے لیے پڑھی ہے اور دوسرا یہ کہ اگر ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا تو وہ خود کیا کرتے؟ چناں چہ مولانا رفیع الدین صاحب رحمہ الله نے وہ پیسے دارالعلوم میں جمع کرادیے۔
ہمارے والد ماجد ( شیخ المشائخ حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ) دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے، مفتاح العلوم جلال آباد میں آٹھ سال استاد اور ناظم رہے او ربہترین نظامت کی، مدرسے میں ابتدائی درجات تھے، حضرت نوّرالله مرقدہ نے الله تعالیٰ کے فضل وکرم اور اپنی محنت سے اسے ایسا عظیم الشان بنایا کہ دارالعلوم اور مظاہر العلوم کے اساتذہ اپنے بچوں کو پڑھنے بھیجتے۔
حضرت فرماتے کہ شروع سے میری خواہش تھی کہ اس نوزائیدہ اسلامی مملکت میں اپنا ایک بڑا ادارہ قائم کروں، چناں چہ اپنے استاداور مرّبی حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب رحمہ الله کے مشورے سے پاکستان تشریف لائے اور یہاں دارلعلوم ٹنڈوالہ یار میں تین سال تدریس کی اور پھر دارالعلوم دیوبند کراچی میں دس سال تدریس کی۔
جب دارالعلوم میں تھے تو مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة الله علیہ سے ابتدا میں فرمایا تھا کہ میری قبر دارالعلوم میں ہو گی۔
جامعہ فاروقیہ کے قیام سے پہلے، رمضان المبارک میں پہلی تراویح کے بعد، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله سے اس موضوع پر بات کی، مسجد سے حضرت کے گھر تک اسی موضوع پر بات جاری رہی او رگھر میں سحر ی تک اسی موضوع پر بات ہوتی رہی، حضرت فرماتے کہ ان ملاقاتوں کا سلسلہ پورا رمضان چلتا رہا، تراویح کے بعد سحر ی تک گفت گو ہوتی۔
حضرت فرماتے کہ میں نے ہندوستان سے آتے وقت یہ طے کیا تھا کہ اپنا ادارہ بناؤں گا، لیکن جب تک آپ پوری بشاشت اور شرح صدر سے اجازت نہیں دیں گے اس وقت تک نہیں۔
چناں چہ حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب رحمة الله علیہ نے اجازت دی، لیکن مشروط اجازت دی کہ آپ کو اجازت ہے آپ ادارہ بنائیں ،لیکن دو سا ل تک آپ دارالعلوم میں بھی باتنخواہ ہوں گے اور آپ کے گھر کے سارے سلسلے بھی اسی طرح رہیں گے، آپ کے بیوی بچے بھی دارالعلوم کے مکان میں رہیں گے۔
چناں چہ حضرت نے یہ جامعہ فاروقیہ بنایا، چند کمرے تھے، ہمارے زمانے میں طلباء پڑھنے کے لیے اساتذ ہ کے پاس جاتے تھے، چناں چہ حضرت کا جو کمرہ تھا وہ حضرت کی درس گاہ بھی ، قیام گاہ بھی اور وہی دفتر بھی اور جیسے طلباء جمعرات کو گھروں کو چلے جاتے ہیں اور شب ہفتہ میں واپس ہوتے ہیں ایسے ہی حضرت جمعرات کو دارالعلوم تشریف لے جاتے اور شب ہفتہ کو واپس آتے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله کا ظرف دیکھیں اور والدماجد رحمہ الله کی تعلیم وتربیت دیکھیں کہ اپنے بڑوں کو ذرہ برابر تکلیف نہیں دی، آج جو الله تعالیٰ نے جامعہ فاروقیہ کو دین کی خدمت کا موقع دیا ہے اس میں حضرت کے اساتذہ اور بڑوں کی دعائیں ہیں۔حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله، حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ الله اورحضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی رحمہ الله جامعہ کی تاسیس، اوربنیاد میں شامل رہے، اور اس کے بعد مرتے دم تک علماء اور اہل مدارس سے گہرا تعلق اور ربط رہا۔
ہمارے بزرگ، ہمارے بڑے جن راستوں پر ڈال کر گئے ہمیں بھی ان کا اہتمام کرنا چاہیے، جامعہ فاروقیہ کراچی بڑی قربانیوں سے اس مقام تک پہنچا ہے۔جامعہ کے مطبخ میں لکڑیوں پر کھانا پکتا تھا۔ عبدالغنی صاحب کی ٹال سے لکڑی آتی تھی اور وہ یہاں آکر صحن میں شور مچاتا تھا کہ پیسے ابھی تک نہیں دیے، کئی کئی مہینے گزر جاتے، لکڑی کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔
جامعہ کا راشن صوفی اعظم صاحبکی دوکان سے آتا تھا، سال سال بھر پیسے نہیں ہوتے تھے۔میری آپ سے درخواست ہے کہ ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلیں۔
والدماجد نوّرالله مرقدہ فیزII تشریف لے جاتے، اس وقت فیزII میں ایک کمرہ تھا، برسوں تک حضرت کا یہ معمول رہا ، شب جمعہ کو رات حضرت وہیں گزارتے،حالاں کہ اس وقت فیزII تک کا راستہ نہایت خراب تھا، لیکن حضرت تشریف لے جاتے، ان راتوں میں الله تعالیٰ سے حضرت نے کیا کیا مانگا یہ الله تعالیٰ کو معلوم ہے۔
اس لیے آپ حضرات سے گزارش ہے کہ آپ حضرات اسوہ ہیں، ایک بڑی تعداد استفادہ کے لیے کھڑی ہے، آپ اپنے آپ پر بھی محنت کریں ،وقت کے ساتھ ساتھ فتنے بڑھیں گے، لیکن حل صرف دین میں ہے۔
مشر ف کے دور میں مدارس کے حالات بہت سخت تھے، حضرت نے کراچی کے مدارس کے ذمہ داروں کو بلایا تھا، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے پوچھا حضرت کیا ہو گا؟ حضرت نے فرمایا: کچھ نہیں ہو گا،اور ایسے ہی ہوا، الحمدلله کچھ نہیں ہوا۔
لہٰذا ہم طلبا کی تعلیم وتربیت پر محنت کریں، نماز کا اہتمام ہو، تلاوت کا اہتمام ہو، ذکر کا اہتمام ہو، دعا کا اہتمام ہو۔ ماشاء الله ساتھی کوشش کرتے ہیں، مزید اہتمام ہو۔
الله تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
حضرت اقدس مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم
کا بحیثیت نائب صدر وفاق المدارس العربیہ انتخاب
جامعہ فاروقیہ کراچی کے اساتذہ، طلباء ، فضلاء اور جامعہ کے حلقہ احباب کے لیے انتہائی خوشی اور مسرت کا موقع ہے کہ جس وفاق المدارس العربیہ کو حضرت شیخ المشائخ مولانا سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ نے 27 سال دن رات کی محنت سے آفاق تک پہنچایا، اب ان کے جانشین حضرت اقدس مولاناعبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم وفاق میں نائب صدر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں گے۔
یا رب لک الحمد! ہم حضرت اقدس دامت برکاتہم کو مبارک باد پیش کرتے ہیں، الله تعالیٰ حضرت اقدس دامت برکاتہم کو صحت وعافیت کے ساتھ اس خدمت کو بھی بحسن وخوبی سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں۔