رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مبعوث ہوئے‘ اس وقت انسانوں کی اس دنیا میں اس زمانہ اور ماحول کے معیار کے مطابق سب کچھ تھا۔ ہاں! اللہ پر ایمان اور اس سے صحیح تعلق رکھنے والے اور اس کی طرف بلانے والے بندے موجود نہیں تھے‘ ایسے بندوں کے وجود سے اس وقت دنیا گویا خالی تھی اور اس وجہ سے گویا پوری دنیا بحرِ ظلمات بنی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی لیے مبعوث ہوئے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ سے آشنا اور وابستہ کریں اور زندگی کا صحیح طریقہ دین حق ان کو بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نبی کی حیثیت سے اس دنیا میں کھڑے ہوئے اور دین حق، یعنی زندگی کے صحیح طریقے کی آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعوت دینی شروع کی تو اس وقت تنہا آپ ہی اس دین اور اس زندگی کے حامل تھے‘ شروع میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو ایک ایک ، دو دو آدمیوں نے قبول کیا اور ہدایت کاکام بہت سست رفتاری سے چلا۔اسی حال میں قریباً تیرہ سال مکہ معظمہ میں رہے‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی‘ وہاں کی زمین دین حق کی دعوت کے لیے زیادہ تیار اور ساز گار تھی‘ تھوڑی ہی مدت میں وہاں کی قریب قریب پوری آبادی نے دین قبول کرلیا‘ اس وقت دنیا کے بحرِ ظلمات میں مدینہ طیبہ نور اور ہدایت کا گویا ایک جزیزہ اور مرکز تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور تعلیم وتربیت کے نتیجے میں مدینہ طیبہ کی قریب قریب پوری آبادی آپ صلی الله علیہ وسلم کے رنگ میں رنگ گئی‘ اس وقت مدینہ منورہ اس طرز زندگی کا پورا نمونہ تھا‘ جس کی دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے اور جو خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تھی۔
اس زندگی کا اگر تجزیہ اور تحلیل کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے چار بنیادی امتیازات تھے:
٭…ایک اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تمام غیبی حقیقتوں پر کامل یقین‘ ایسا یقین جو اللہ تعالیٰ سے اور ان حقیقتوں سے کبھی غافل نہ ہونے دے۔
٭… دوسرے اس بات کا یقین کہ ہر قسم کی فلاح وسعادت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ، صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری میں ہے او راس بنا پر پوری اطاعت اور فرماں برداری اور معصیتوں سے پرہیز۔
٭… تیسری چیز دنیا کی ساری فکروں کے مقابلے میں آخرت کی فکر کا غلبہ اور اس کی وجہ سے تنہائیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں رونا۔
٭…چوتھے اس بات کی فکر کہ یہ ایمان اور ایمان والی زندگی‘ جس کی دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں اور جس کی توفیق ہم کو مل گئی ہے‘ ساری دنیا میں پھیل جائے اور سارے انسان اس سعادت کو اپنا کے اللہ تعالی کے ساتھ اپنے تعلق کو صحیح کرلیں اور پھر دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کے مستحق ہوجائیں۔
یہ چار باتیں وہ تھیں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک میں بدرجہ کمال موجود تھیں اور آپ کی دعوت اور تعلیم وتربیت کے نتیجہ میں آپ کے تمام صحابہ کرام فرق مراتب کے با وجود ان صفات اور امتیازات کے حامل تھے‘گویا اس وقت مدینہ طیبہ ایک ایسی بستی تھی‘جس کے ہر شخص کا یہ حال تھا کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی صفات وذات پر اور دوسری ایمانی حقیقتوں پر ایسا یقین تھا‘ جو اس کی پوری زندگی پر حاوی تھا۔ آخرت کی فکر دوسری تمام فکروں پر غالب تھی، جوان کو رات کی اندھیریوں میں بھی رلاتی تھی‘ نفس کے تقاضوں کے مقابلہ میں اللہ ورسول کے احکام پر چلنا ان کا شعار تھا‘ عام انسانوں کی ہدایت اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے صحیح ہونے کا مسئلہ ان کے نزدیک اپنے تمام دنیوی مسئلوں سے مقدم اور اہم تھا۔
یہ تھی وہ زندگی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم لے کر آئے تھے اوراس زندگی کی حامل امت کا تیار کرنا آپ کا وہ خاص کام تھا، جس کے لیے آپ کو الله تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا۔
اس زندگی کی وہ خاصیتیں تھیں‘ ایک یہ کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد اور رحمت تھی، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ دنیا کی جو طاقت سر کشی اور استکبار کے ساتھ اس زندگی سے ٹکرائی‘ اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور پھر اس زندگی کی حامل امت کے قدموں میں ڈال دیا‘ پہلے اللہ کی اس نصرت کا ظہور عرب میں ہوا اور فتح مکہ پر گویا اس کی تکمیل ہوگئی‘ بعد میں روم اور فارس کی حکومتوں کے ساتھ یہی ہوا اور یہ دونوں حکومتیں اس امت کے قدموں کے نیچے آگئیں۔ بہر حال ایک خصوصیت اس زندگی کی یہی تھی کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد تھی۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے اور قیامت تک کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور گویا از لی ابدی آسمانی منشور ہے:
”( ایمان اور ایمانی زندگی کے داعی) اپنے رسولوں کی اور ان کی راہ چلنے والے اہل ایمان کی ہم مدد اور حمایت کریں گے ،اس دنیوی زندگی میں اور آخرت کے اس دن بھی، جب کہ خداوندی عدالت قائم ہوگی اور اس میں گواہ پیش ہوں گے۔“(سورہ مومن:51)
دوسری جگہ فرمایا گیا:
”تمہارے دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ میں تم کو بالا اور برتر رکھا جائے گا‘ بشرطیکہ تم ایمان کی راہ پر قائم رہو گے۔“
دوسری خصوصیت اس ایمانی زندگی کی یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص کشش اور تاثیر، بلکہ تسخیر کی طاقت رکھی ہے، جو شخص اس زندگی کو صحیح صورت میں دیکھے گا اور اس کا تجربہ کرے گا‘ وہ اس سے ضرور متاثر ہوگا اور اس کا گرویدہ ہوجائے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن ملکوں میں گئے اور جن قوموں نے انہیں دیکھااور ان کی مومنانہ اور خدا پرستانہ زندگی کا تجربہ ومشاہدہ کیا‘ وہ اس کی گرویدہ ہوگئیں اور بہت تھوڑی مدت میں وہ پورے ملک دارالاسلام بن گئے۔ یہ شام‘عراق‘ یہ مصر’ یہ ایران‘ یہ سب وہی تو ہیں‘ جنہوں نے شروع میں اسلام کا سخت مقابلہ کیا تھا۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک فتوح الشام اور فتوح العجم اور فتوح المصر وغیرہ کتابیں مسلمانوں میں عام طور سے پڑھی جاتی تھیں۔ آپ میں سے بہت سوں نے یہ کتابیں پڑھی یا سنی ہوں گی اور آپ کو یادہوگا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں یہ سب ملک اور ان کے بسنے والے اسلام کے کیسے سخت دشمن تھے‘ لیکن ان ملکوں پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہونے کے بعد جب مسلمان ان ملکوں میں رہے‘ بسے اور یہاں کے رہنے والوں نے ان کو دیکھا‘ برتا تو انہوں نے عام طور ان کے دین اور ان کے طریق زندگی کو اپنا لیا۔