حضرت دادا جان نوّرالله مرقدہ کااپنے اساتذہ اور اکابرین دیوبند کے ساتھ جو تعلق، محبت اور عشق تھا، وہ محتاج بیان نہیں، اپنی اس دلی محبت اور قلبی کیفیت کا اظہار حضرت دادا جان نوّر الله مرقدہ اپنے ان چند الفاظ کے ساتھ بار بار فرماتے تھے:
”کہ میں اکابرین علمائے دیوبند کا اندھا مقلد ہوں“۔
حضرت دادا جان نوّرالله مرقدہ کی اپنے اکابرین او راساتذہ سے محبت او راحترام اس درجے تھا کہ یہ محبت او راحترام صرف اپنے اساتذہ کرام کی ذات تک محدود نہیں تھا، بلکہ اپنے اساتذہ کی اولاد کے ساتھ آپ اپنی آخر عمر تک جس محبت اور احترام سے پیش آتے تھے، وہ صرف آپ ہی کی خاصیت تھی۔حضرت دادا جان نوّرالله مرقدہ کے ہندوستان سے پاکستان منتقل ہونے کے بعد بھی اپنی مادر علمی دارالعلوم دیوبند او راکابرین ومشائخ دارالعلوم دیوبند سے بھرپور تعلق رہا اور اپنی ہزاروں مصروفیات اور ضعف و پیرانہ سالی اور طرح طرح کی بیماریوں کے باوجود ہندوستان کا سفر صرف اپنی مادر علمی اور وہاں کے مشائخ کی زیارت کی غرض سے فرماتے۔ اور وہاں کے حضرات مشائخ کو اپنے ہاں (جامعہ فاروقیہ) بھی مدعو فرماتے تھے۔اسی سلسلے میں ایک موقع پر حضرت مولانا سیّد محمد انور شاہ صاحب رحمة الله علیہ کے جانشین حضرت مولانا سیّد محمد انظر شاہ صاحب کشمیری رحمة الله علیہ (المتوفی19/ربیع الثانی1429ھ مطابق26/اپریل2008ء) حضرت دادا جان مولانا سلیم الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ کی دعوت پر جامعہ فاروقیہ میں افتتاح ختم بخاری شریف کی تقریب میں تشریف لائے اور اس موقع پر حضرت مولانا سیّد محمد انظرشاہ صاحب رحمة الله علیہ نے طلباء سے ایک گراں قدر خطاب فرمایا۔بندہ اس خطاب کو نذر قارئین کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔
حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ صاحب رحمة الله علیہ کے خطاب سے پہلے حضرت دادا جان نوّرالله مرقدہ نے ان الفاظ سے حضرت مولانا سیّد محمد انظر شاہ صاحب کو خطاب کی دعوت دی۔” یہ بات آپ حضرات کو معلوم ہے کہ باہر سے آنے والے مہمانان ِ گرامی وہ یہاں پر جس حیثیت میں ہوتے ہیں، اس میں ان کا اختیار تو کم رہ جاتا ہے اور ان کے چاہنے والے، ان سے محبت کرنے والے او ران سے تعلق رکھنے والے ان تمام لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ مہمان کچھ وقت ہمیں دیں اور اس صورت میں اور لوگ اپنی طرف سے اضافے کر لیتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پروگرام اپنے وقت پر مکمل نہیں ہوتا، حضرت مولانا کے ساتھ بھی آج یہی ہوا اور ان کو یہاں پہنچنے میں تاخیر ہو گئی، بہرحال آپ حضرات نے انتظار فرمایا: یہ بھی ضائع نہیں ہے اور اب حضرت تشریف لے آئے ہیں، بغیر کسی خاص تمہید کے میں گزارش کروں گا کہ حضرت مولانا اپنا بیان شروع فرمائیں ، حضرت مولانا کا تعارف آپ سب حضرات کو پہلے سے حاصل بھی ہے اور میں شروع میں عرض بھی کرچکا ہوں۔
أعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم
﴿سبحانک لا علم لنا إلا ما علمتنا إنک أنت العلیم الحکیم﴾
حضرات اساتذہ کرام، حضرت صدر محترم اور برادران عزیز اور عزیر طلباء! جیسا کہ ابھی آپ نے اپنے حضرت الشیخ سے سنا کہ مہمان میزبان کے ہاتھ میں بالکل ایسا ہوتا ہے جیسا کہ مردہ غسل دینے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں طب یونانی اصل میں فارسی سے بہت زیادہ متاثر ہے او راس کے نسخہ جات کے اندر بیشتر تعبیرات فارسی زبان میں ہوتی ہیں، تو وہ جب دوائی کسی مریض کے لیے لکھتے ہیں اور اس دوائی کے متعلق یہ چاہتے ہیں کہ یہ کُوٹ کر، چھان کر مریض کو کھلائی جائے، تو ایک لفظ لکھتے ہیں: کوفتہ بیختہ، دوائی کو ٹو، خوب کوٹو او راسے پھر چھان لو، اسی سے وہ کوفتہ ہے ایک سالن، چوں کہ اس میں گوشت کو، قیمے کو، بے حد باریک کیا جاتا ہے اس لیے اسے کوفتہ کہتے ہیں، درحقیقت آج میرا حال بھی کوفتہ اور بیختہ ہی ہو رہا ہے، کوئی طاقت اور قوت نہیں ہے، صبح دس بجے سے میں قیام گاہ سے نکلا ہوا ہوں اور پڑھا لکھا جاہل دیکھ لیا آج، ایک ایسے ساتھی جو کراچی کے بڑے مشہور اور بڑے نامور ہیں، لیکن اب ان کے متعلق اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ پڑھے لکھے جاہل ہیں، مجھ سے گھر پر دعوت کے لیے کہا اور دعوت ہوئی بلوچستان حب کے مقام پر، جو غالباً یہاں سے اسی کلو میٹر ہے، پھر وہاں سے میں نے اصرار کیا کہ مجھے مغرب سے پہلے مدرسے پہنچا دیجیے، تاکہ میں وعدے کے مطابق پہنچ جاؤں ، تو خدا کے بندے مجھے اپنے دوسرے مکان بھینس کالونی لے گئے اور وہاں پھر چائے کے اوپر شدید ترین اصرار کیا اور اصرار کرنے کے بعد اب چھوڑا اور یہ جو میں لفظ استعما ل کر رہا ہوں کہ ان کے ہاں سے چُھوٹ گیا، ورنہ میں تو ایسا مبتلا ہوا تھا کہ نجات کی نہ توقع تھی نہ امکان، بہرحال آپ نے انتظا رکیا اور زحمت انتظار خود ایک بڑی تکلیف ہے، جس کے لیے میں معذرت چاہتا ہوں، آپ کے سامنے میں اب کیا عرض کروں؟ آپ کے اساتذہ گرامی قدر اور خاص طور پر مدرسے کے مہتمم، مدرسے کے بانی ، مدرسے کے معمار، یہ تو آپ کے سامنے وقتاً فوقتاً بہترین بلند پایہ نصیحتیں او رنہایت ہی ضروری او رکار آمد ہدایات آپ کو دیتے رہتے ہیں تو ایسی صورت حال میں میں کیا عرض کروں؟ جب کہ میری حیثیت ایک طالب العلم کی ہے اور طالب علم سے زیادہ میری کوئی حیثیت نہیں، غالباً آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ ہم بڑے قابل ہیں، بڑے ماہر ہیں بڑے عابد ہیں بڑے علامہ ہیں، حقیقت میں آپ ہی علامہ ہیں اور ہم آپ کے مقابلے میں بالکل ہی جاہل ہیں ، وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ تو نام کے طالب علم ہیں اور ہم کام کے طالب علم ہیں، جس وقت آدمی پڑھانے کے لیے بیٹھتا ہے تو اس وقت اس کی طالب علمی کی ابتدا اور طالب علمی کا آغاز ہوتا ہے۔
اونٹ کے متعلق مشہور ہے کہ اپنے آپ کو بڑا بلند قامت سمجھتا ہے او رکسی چیز کے متعلق یہ باور نہیں کرتا کہ وہ مجھ سے طویل قامتی کے اندر زائد ہے، لیکن جب پہاڑ کے نیچے سے گزرتا ہے، تو اب اسے احساس ہوتا ہے کہ دنیامیں مجھ سے بھی زیادہ بلند قامت والی چیزیں موجود ہیں، تو آپ کو اس وقت احساس نہیں، آپ اپنے آپ کو سب سے بڑا علامہ سمجھ رہے ہیں اور پاکستان میں تو لفظ علامہ ایک ایسا لفظ ہو گیا ہے کہ جس کی حقیقت ہی نہیں رہی، جسے چاہیں علامہ کہہ کر پکاریں۔
تاہم محسوس یہ ہوتا ہے کہ جب آدمی پڑھانے کے لیے بیٹھتا ہے تو وہ اس کی طالب علمی کا پہلا دن ہوتا ہے۔
حضرت شیخ الہند رحمة الله علیہ کا واقعہ
سیدنا ومولانا محمود حسن صاحب رحمة الله علیہ،حضرت کو ا لله تعالیٰ نے نظر کیمیا عطا فرمائی تھی، جس کے اوپر حضرت کی توجہ ہو گئی، نظرالتفات پڑ گئی ،وہ شخص کامل ہو گیا، مکمل ہو گیا اور علم میں اور عمل کے اند رایک نمایاں اورامتیازی مقام حاصل کیا او رحجت الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمہ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے ہیں او رکتنی مشہور شخصیت ہیں؟ لیکن جب دارالعلوم میں انہیں معین المدرس منتخب کیا گیا اور حضرت کو پڑھانے کے لیے قدوری دی گئی ہے تو حضرت شیخ الہند غائب ہو گئے اور تین دن تک نہیں ملے، چوتھے دن ہاتھ لگے ہیں، تو حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ یہ کیا حرکت ہے ؟ تو حضرت شیخ الہند زار وقطار رونے لگے اور عرض کیا کہ حضرت! آپ نے کیسے فیصلہ کر لیا کہ میں دارالعلوم کا استاد ہونے کے قابل ہوں؟! اور پھر قسم کھا کر فرمانے لگے کہ مجھ میں کوئی ایسی صلاحیت نہیں ہے کہ میں دارالعلوم کی مسند تدریس کے اوپر بیٹھ جاؤں، گھبرائے ،نہایت ہی خوف زدہ ہوئے، اساتذہ کی موجودگی کے اندر درس وتدریس کی ذمہ داری قبول کرنے سے طبیعت نہایت ہی پیچھے ہٹی، لیکن حضرت رحمة الله علیہ کے ان الفاظ کو حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ نے سمجھا کہ تواضع ہے اور جوش کے اندر فرمایا: میاں محمود! ہماری موجودگی میں تمہارا یہ احساس صحیح ہے، استاد کی موجودگی میں طالب علم کو یہی احساس ہونا چاہیے، لیکن جب ہم نہ ہوں گے تو تم ہی تم ہو گے، تمہارے سوا اور کوئی نہیں ہوگا۔
حضرت سید سلیمان ندوی رحمة الله علیہ کا نام آپ نے سنا ہے، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله علیہ کے نہایت ہی ممتاز ترین خلفاء میں سے ہیں ، ان خلفاء میں سے ہیں کہ جو حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کو جانتے ہیں، حضرت کی ضابطہ پسندی، حضرت کے قواعد حضرت کے اصول کوئی شخص حضرت کے یہاں ایسا نہیں تھا کہ جو ضابطے کاپابند نہ ہو، بے ضابطگی کو اختیار کرے او رحضرت اگر بے ضابطگی بھی اگر کسی وجہ سے اختیار کرتے تھے، تو اسے بھی ضابطہ بنا دیاکرتے تھے۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ الله کا واقعہ
ایک مرتبہ حضرت مولانا سیّدحسین احمد مدنی رحمة الله علیہ تھا نہ بھون پہنچے ہیں، رات کے اوقات میں، خانقاہ بند ہوچکی تھی، خانقاہ کے سامنے ایک جگہ بستر کھول دیا، حضرت مدنی نے اور نوافل شروع کردیے اور جوخادم تھا وہ بھی پڑ کر سو گیا، صبح حضرت تھانوی رحمة الله علیہ تشریف لائے، تو ذرہ ہلکا ہلکا سا اندھیرا دیکھا، پھرذرا گھور کر دیکھا ، پھر قریب آکر دیکھا، جسم وجثے سے مشخص کر لیا کہ حضرت مولانا مدنی رحمة الله علیہ ہیں، تو قریب ہو کر فرمایا: مولوی حسین احمد صاحب؟ تو حضرت مدنی رحمة الله علیہ نے عرض کیا، کہ جی ہاں حضرت !السلام علیکم، پوچھا کب تشریف لائے؟ فرمایا: رات حاضر ہوا ہوں، فرمایا کہ پھر خانقاہ میں کیوں نہیں قیام فرمایا؟ کہا کہ حضرت اس وقت خانقاہ بند ہوچکی تھی، فرمایا کہ آپ نے کھلوا کیوں نہیں لی؟ کہا کہ حضرت! وہ آپ کا ضابطہ ہے کہ جب بندہو خانقاہ تو پھر کھلتی نہیں، تو حضرت رحمة الله علیہ نے صبح نماز پڑھی او رنماز پڑھنے کے بعد ایک اعلان لگوایا، اعلان کے الفاظ یہ تھے کہ آج خانقاہ کا ضابطہ یہ ہے کہ کوئی ضابطہ نہیں ،جب تک مولوی حسین احمد صاحب یہاں پر رہیں گے کوئی ضابطہ نہیں، تو بے ضابطگی اختیار کی ایک محترم شخصیت کی وجہ سے تو اسے بھی ضابطہ بنا دیا حضرت تھانوی رحمة الله علیہ نے، تو حضرت کییہاں کسی کی کوئی قیمت نہیں تھی، کوئی حیثیت نہیں تھی او روجہ یہ ہے کہ حضرت بے نیاز تھے اور جو شخص مستغنی ہوتا ہے، پھر اس کی نظر میں بادشاہ، شہزادہ، مہاراجہ نہ کوئی حیثیت رکھتے ہیں اور نہ ان کا وقار ہوتا ہے، ہر ایک کے ساتھ یکساں معاملہ اور ایک طرح کا انداز او ربڑے بڑے لوگ حضرت سے درخواست ،تمنا اور آرزو کیا کرتے تھے کہ کسی طرح بیعت ہو جائیں، لیکن حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے ضابطے کے مطابق نہ ہوتا تو کوئی بھی ہو درخواست رد ہو جاتی۔
ایک مرتبہ ایک صاحب نے بیعت کی درخواست دی، حضرت نے فرمایا کہ بیعت ہونا ضروری نہیں، کام ضروری ہے، کام کرو، وہ خدا کا بندہ جواب میں بولا کہ حضرت! میرے نزدیک بیعت ضروری ہے، حضرت نے فرمایا کہ اچھا تو آپ محقق ہیں، میں غیر محقق ہوں، تو محقق غیر محقق کے پاس کیوں آئے؟ تو اب وہ سنبھلا اور سنبھل کر بولا کہ حضرت! میں جاہل ہوں، جہالت کا میرے سے معاملہ ہو گیا، حضرت نے فرمایا کہ اس سے میں بھی متفق ہوں کہ آپ جاہل ہیں، بہرحال اب آپ کا راستہ وہ ہے اور میرا راستہ یہ ہے، ہذا فراق بینی وبینک․
لیکن جب حضرت سیّدسلیمان ندوی رحمة الله علیہ پہنچے ہیں، حالاں کہ حضرت سید صاحب نے جو درخواست دی تھی بیعت کی وہ بھی عجیب وغریب تھی، خط کے اندر یہ ذکر کیا تھا کہ کتب خانے کے کتب خانے علم کے میں دماغ میں انڈیل چکا ہوں، لیکن جسے طمانینت قلبی کہتے ہیں، وہ نصیب نہیں ہوئی، یہ بھی ایک قسم کا تکبر تھا، اگرچہ اسے سید صاحب نے بطور اظہار واقعہ پیش کیا تھا ، سیّد صاحب حضرت تھانوی رحمہ الله کی خدمت میں پہنچے ہیں تو حضرت تھانوی نے سیّد صاحب سے فرمایا کہ بھائی! آج میرے دل میں بے تکلف یہ خیال پیدا ہوا کہ سید صاحب مجھ سے بیعت ہو جائیں اور یہ بھی فرمایا کہ پھر دعابھی ہو گئی، دعا بھی نکلی، تو جو لوگ مجلس میں شریک تھے اورحضرت کے مزاج، حضرت کے معیار، حضرت کے اصول پر مطلع تھے، انہیں بڑی حیرت ہوئی کہ یہ آج پہلا واقعہ ہے، تو پھر حضرت نے حیرت دیکھ کر فرمایا کہ جیسے انبیاء علیہم الصلاة والسلام کے علوم میں آرزو بشکل دعا سامنے آتی ہے، کہ فلاں شخصیت ایمان قبول کر لے اور اس کے قبول ایمان سے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ فرمایا کہ استاد کے قلب میں بھی تمنا پیدا ہوتی ہے کسی جو ہر قابل کو دیکھ کر کہ یہ میرا شاگرد ہو جائے اور میرے نام کو اونچا رکھے اور آپ نے بھائی دیکھا ہی ہو گا سنا ہو گا، اپنی درس گاہوں کے اندر۔امام لیث کے متعلق، جو امام مصر ہیں، محققین کا یہ قول ہے کہ سیدنا امام مالک علیہ الرحمہ سے تفقہ کے اندرفقاہت میں، ہزار مراحل آگے ہیں ،مگر اس کے ساتھ ساتھ تمام علماء لکھتے ہیں کہ لیث کو ضائع کر دیا ان کے شاگردوں نے، ایسے شاگرد نہیں ملے، جو حضرت کے نام اور کام کی حفاظت کرتے۔
ابن تیمیہ کو ابن قیم مل گئے، حافظ ابن حجر عسقلانی کو سخاوی مل گئے، حافظ ابن ہمام کو قاسم بن قطلو بغا اور امیر الحاج مل گئے، ان لوگوں نے اپنے نام کو زندہ رکھا، بلکہ سخاوی نے حافظ کے علوم کو چمکا دیا اور قاسم ابن قطلوبغا نے حافظ ابن ھمام کے علوم کو چمکا دیا، اگرچہ کہیں کہیں حافظ ابن ھمام کے بارے میں شدید تنقید بھی لکھی، ابن ھمام کو کہتے ہیں کہ حنفیہ کے بیرسٹر ہیں، لیکن بعض مسائل میں ابن ھمام نے امام اعظم علیہ الرحمہ کے مقابلے میں ایک دوسری رائے اختیار کی۔
وہ وضو میں وجوب بسم الله کے قائل ہیں اور بڑا زور لگایا ، بڑا زور لگایا فتح القدیر میں ابن الھمام نے، قاسم ابن قطلو بغا نے وہیں پر لکھا کہ ہمارے استاد کے تفردات قابل قبول نہیں، یہ لکھ دیا اوربڑی معرکے کی بات لکھ دی کہ ہمارے استاد کے تفردات قابل قبول نہیں ہیں، مگر اس کے باوجود قاسم بن قطلو بغا نے نام اونچا کر دیا اور واقعہ یہ ہے کہ ابن الھمام صوفی تھے اور مصر کی ایک خانقاہ کے مجاور تھے اور خانقاہ سے جو آمدنی ہوتی تھی، اسی کو خرچ کرتے تھے او رتلامذہ بڑے نامور موجو دتھے، مگر حافظ ابن الھمام نے جانشین کی حیثیت سے قاسم بن قطلوبغا کا انتخاب کیا تھا، معلوم ہوا قدیم دور میں اہل علم اور اہل خانقاہ جانشین کے انتخاب میں بے حد محتاط تھے، حدیث میں ہے:
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إذا وسد الأمر إلی غیر أہلہ فانتظر الساعة“․ ( الجامع الصحیح للبخاري، کتاب العلم، باب فضل العلم، رقم الحدیث:59)
جب امور نااہلوں کو سپرد کیے جانے لگیں توقیامت کا انتظار کرو۔ سید نا الشافعی الإمام علیہ الرحمة نے اپنے جانشین کے انتخاب میں جو احتیاط برتی وہ بھی آپ حضرات کے علم میں ہوگی، انتہائی زبردست حیرت انگیز واقعہ ہے ،بے حد احتیاط فرماتے تھے۔
بہرحال میں تویہ عرض کر رہا تھا کہ شاگردوں نے علوم چمکا دیے، شخصیتیں چمکا دیں، حضرت نانوتوی اور حضرت گنگوہی علیہ الرحمہ نے سیدنا الحاج امداد الله رحمة الله علیہ کی شخصیت کو متعارف کرادیا۔
تو استاد کے قلب میں آرزو پیدا ہوتی ہے جو ہر قابل کو دیکھ کرکہ یہ ہمارا شاگرد ہو جائے اور ہمارے علوم کی اشاعت کا ذریعہ اور اس میں بھی اخلاص ہوتا ہے کہ میرے فیوض قیامت تک باقی رہیں گے اور میرے لیے وسیلہ نجات ہوگا۔
اور پھر حضرت نے فرمایا کہ مرشد کے قلب میں تمنا پیدا ہوتی ہے کہ فلا ں شخص مجھ سے تعلق بیعت کا قائم کر لے اور یہ میرے لیے سرمایہ آخرت ہو گا، یہ تھی حضرت سید صاحب کی شخصیت، ان کے علوم تو تھے ۔
یہاں پشاور میں جمعیت علماء کا سالانہ جلسہ ہو رہا تھا ، علامہ کشمیری رحمة الله علیہ اس کی صدارت کر رہے تھے، سید صاحب بھی مدعو تھے، رات کو علامہ کشمیری رحمة الله علیہ کسی ضرورت سے باہر نکلے ہیں، تو دیکھا کہ سید صاحب زمین پر سورہے ہیں، حالاں کہ سید صاحب کی علمی شہرت ہو چکی تھی او رایک وقار علمی ان کا قائم ہو چکا تھا، علامہ کشمیری اتنے متاثر ہوئے سید صاحب کی تواضع د یکھ کر، بار بار تذکرہ کرتے تھے کہ بھائی! تواضع ہو تو ایسی ہونی چاہیے کہ اتنا نامور، اتنا بڑا دانش ور لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے، دیکھا کہ بغیر کسی امتیاز کے زمین پر پڑے سو رہے تھے۔
یہی سید صاحب، جن کا میں تذکرہ کر رہا ہوں، ندوے میں جب ان کو نورالایضاح پڑھانے کے لیے دی گئی اور سید صاحب سبق پڑھانے کے لیے بیٹھے، طلباء سید صاحب کو پریشان کر دیتے تھے اشکال کرکرکے، اعتراض کرکے، نکتہ چینی کرکے، طرح طرح کے سوالات کرکے، یہاں تک کہ سید صاحب جب طلباء کو مطمئن نہ کر پاتے تھے تو درس گاہ میں طلباء کے سامنے بے اختیار رو دیتے تھے۔
بھلا بتاؤ تو سہی؟ کیا سید صاحب کو اس وقت اس کا احساس تھا کہ آج جو نورالایضاح پڑھانے میں طلباء کے سامنے رو رہا ہے آنے والی کل میں اس کی موت کے اوپر دنیائے علم روئے گی سید صاحب کو اس کا احساس نہیں تھا، تو بھائی طالب العلم تو ہم ہیں، تمام دنیا آرام کرے گی مگر مدرس کو چین نہیں ہے، اسے رات کو بھی بیٹھ کر مطالعہ کرنا ہے، اسے درس گاہ کے اندر پہنچنا ہے تو یہ تصور لے کر کہ اکھاڑے کے اندر اتر رہا ہوں، ایک حریف میں ہوں، دوسرے مقابل طلباء ہیں او راتنا اہتمام مطالعہ کا کہ حضرت شیخ الہند رحمة الله علیہ سے حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی نے، جب دارالعلوم میں وہ مدرس تھے، دریافت کیا کہ حضرت !صبح فجر کے بعد تلاوت قرآن کا التزام ہے، اہتمام ہے او رپہلے ہی گھنٹے میں، دارالعلوم میں ملا حسن، آج تلاوت نہیں کرسکا، اپنے التزام کو پورا کروں، تلاوت کر لوں؟ یا ملا حسن کا مطالعہ کروں؟ سیدنا شیخ الہند علیہ الرحمہ نے بے تکلف اور بلا تاخیر فرمایا: مولوی صاحب! ملا حسن کا مطالعہ کیجیے، تلاوت قرآن چھوڑ دیجیے، درس گاہ میں بغیر مطالعہ کے نہ جائیے۔
تو ہم اگر مطالعہ نہ کریں ہمارا کام نہ چلے، پڑ کر سو جائیں اور مطالعہ چھوڑ دیں، صبح کو درس گاہ کے اندر یا خیانت کریں گے ادائیگی حق کے اندر او راگر خیانت نہیں تو پھر جہالت کا مظاہرہ کریں گے تو بھائی! آپ کہاں طالب علم ہوئے؟ صرف اتنا فرق ہے ہمارے اور آپ میں کہ ہمیں ذرہ طالب علمی کرتے ہوئے مدت دارز ہو گئی، اس وقت عمر غالباً چالیس سال کے قریب کا عرصہ ہوتا ہے مدرسی کرتے ہوئے، تو کچھ تجربات حاصل ہو گئے، وہ تجربات آپ کے سامنے بیان کرنے ہیں۔
آداب حصول علم میں سے پہلا ادب: تصحیح نیت
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سیدنا امام بخاری رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب کے بالکل ابتداء میں جو عنوان قائم کیا اور جو حدیث لائے اورکوئی مطابقت نہیں مل رہی او ربڑے پریشان ہیں شارحین کہ یہ کیا ہوگیا؟ یہ کیا ہو گیا؟ عنوان قائم کر دیا:”کیف کان بدء الوحی إلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم؟“ اور حدیث لے آئے:” انما الاعمال بالنیات“․
لیکن امام بخاری نے ایک بہت بڑی حقیقت کا سراغ دیا ہے، تمام امور میں، تمام کاموں کے اندر نیت وحسن نیت اور اخلاص فی العمل یہ مؤثر ہے، نیت ایسی چیز ہے کہ اس کا اثر جانوروں پر بھی پڑتا ہے، محی الدین ابن عربی المقلب بشیخ اکبر، علامہ کشمیری رحمة الله علیہ سبق میں فرماتے تھے کہ علوم اسرار وحکم کو سب سے زیادہ جانتا ہوں، اسرار وحکم سمجھانے کی ضرورت نہیں، آپ سب کے سب علماء ہیں، اسرار وحکم کو خوب جانیں گے، چناں چہ انور شاہ صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں کہ: علم اسرار وحکم کو سب سے زیادہ جانتا ہوں، بجز شیخ اکبر کے کہ شیخ اکبر مجھ پر اس فن میں فائق ہیں۔
شیخ اکبر نے ایک عجیب وغریب واقعہ لکھا ہے کہ ہم حج کے لیے نکلے ،احرام باندھ لیا، بیٹھے ہوئے تھے ،عرب کا مشہور شکار گورخر ہمارے خیمے میں گھس آیا او رہمارے ساتھ لگ لگ کے گزرے، اب سب حالت احرام کے اندر، اچھی خاصی پریشانی، بعض ساتھیوں نے بعض ساتھیوں کو آنکھ سے اشارے دیے ، یہ دیکھو! کیامزہ آرہا ہے اور یہ بھی ہوا خیال بعض کو، بھائی! چلو شکار کر لو، یہ تو خود ہی آگیا گھر میں، وہ مشہوراردو کے اندر ایک مقولہ ہے۔
کہ گھر آئے سانپ نہ پوجے بگی پوجنڑ جائے
کہ سانپ کو اس کے سوراخ میں تو پوجنے کے لیے جاتے ہیں اور گھر میں اگر آجائے تو کوئی نہیں پوجتا، یہ تو گھر ہی میں آگیا، تو ایک دم گورخرنے زور سے جست لگائی اور یہ جا وہ جا، تو وہ دوست کہنے لگے، کہ بھائی! عجیب وغریب معاملہ ہے، یہ آگیا تھا اندر اور بغیر کسی وجہ کے نکل کے بھاگا اور اس طریقے پر بھاگا، شیخ اکبر نے کہا کہ میں وجہ بتاؤں؟ کہا بتاؤ، فرمایا کہ جب تک تمہارے دل صاف تھے، تمہاری نیتوں میں فتور نہیں پیدا ہوا تھا، نیتوں میں فساد پیدا نہیں ہوا تھا، جانور تمہارے سے بے خبر ہو گیا تھا اور جیسے ہی تمہاری نیتوں کے اندر فتور آیا، جانور پر تمہارے فساد نیت کا اثر پڑا اور وہ بھاگ پڑا۔
معلوم ہوا کہ نیت ایسی چیز ہے کہ جانوروں تک پر اثر انداز ہے اب بھائی! آپ علم جیسی دولت عظیم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں، پہلے اپنی نیتیں درست فرما لیجیے۔
علامہ کشمیری علیہ الرحمہ نے ایک مرتبہ سال کے آخر میں طلباء کے سامنے وداعی تقریر فرمائی کہ ایک طالب علم آتا ہے او راس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ میں پڑھوں گا اور پڑھ کر اپنی تمام توانائیاں اپنا علم، اپنا کمال، اپنا فہم، اپنی جدوجہد دین کے لیے صرف کروں گا، فرمایا کہ عظیم ترین نیت ہے، اس سے بڑھ کر افضل نیت او رکوئی نہیں ہو سکتی، ایک اور طالب علم آتا ہے، اس کی نیت علم سے خدمت دین تو نہیں، مگر پڑھ رہا ہے پڑھنے کے لیے، جیسے آپ نے سنا ہو گا، جدید اصطلاح چل پڑی، صحافت کے اندر، ادب برائے ادب، اسی طریقے پر علم برائے علم، مقصود اس کا فقط حصول علم ہے، اپنے علم سے دین کی خدمت نہیں کرنا چاہتا، فرمایا کہ یہ اتنی افضل تو نہیں، جتنی پہلی بات افضل تھی، تاہم یہ بھی قابل برداشت ہے۔ فرمایا کہ ایک طالب علم تیسرا آتا ہے، اس کی نیت یہ کہ پڑھوں گا، اقتدار حاصل کروں گا، بڑی زبردست ملازمت حاصل کروں گا، اعزاز حاصل کروں گا ، امتیاز حاصل کروں گا، تمام مقاصد جو اس کے ذہن میں ہیں، دماغ میں ہیں ، وہ سب کے سب حصول دنیا میں الجھے ہوئے ہیں ،دین کی طرف ادنی بھی توجہ نہیں، فرمایا کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بازار سے کوئی بڑا رومال لائے اور جب اس سے پوچھیں کہ بھائی یہ رومال کیوں لائے ہو؟ تو کہے کہ جوتے صاف کرنے کے لیے کہ علم جیسی عظیم الشان دولت حاصل کی، لیکن مقصد یہ ہے کہ دنیا حاصل کروں گا۔
حصول علم میں محنت کرنا
آداب، تعلیم، تدریس، متعلم کے آداب، معلم کے آداب، کتاب کے آداب درس گاہ کے آداب، سب امام بخاری نے بیان کر دیے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ علم کے معاملے کو انہوں نے اتنا عظیم الشان سمجھا کہ وحی اور ایمان کے بعد متصلاً انہوں نے ”کتاب العلم“شروع کی، نیت کی درستگی کے بعد اب سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آپ حقیقی معنی میں پڑھ رہے ہوں، رسماً نہ پڑھ رہے ہوں۔
حضرت اقدس حکیم الامت رحمة الله علیہ نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چھتے کی مسجد میں حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، سردی کا زمانہ تھا، حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ نے جو لباس کے اوپر (کوٹ) پہن رکھا تھا، حضرت تھانوی رحمة الله علیہ نے لکھا کہ وہ کوٹ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا اور سر کے اوپر ٹوپا پہن رکھا تھا، وہ ٹوپا بھی پھٹا ہوا تھا، اور جس رضائی لحاف کو لیے ہوئے تھے، اس کے بھی بقول حضرت تھانوی رحمة الله علیہ لیترے ہورہے تھے۔ حضرت تھانوی رحمہ الله نے فرمایا: کہ میں بیٹھ گیا، اس زمانے میں میں، ہدایہ پڑھتا تھا۔
حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ نے دریافت فرمایا کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت ہدایہ پڑھ رہا ہوں، فرمایا کہ پڑھ رہے ہو یا بُن رہے ہو؟ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ نے عرض کیا کہ حضرت میں پڑھنے میں اور بُننے میں فرق نہیں جانتا کہ کیا فرق ہے پڑھنے اور بُننے میں؟! حضرت نانوتوی رحمہ الله نے فرمایا کہ دو طالب علم تھے ایک نے ہدایہ کو نوک پر ذبح کر لیا، دوسرے نے ہدایہ کو سمجھ کر پڑھا، اگرچہ ہدایہ کی عبارت اسے قطعاً بھی محفوظ نہیں تھی، ایک مرتبہ دونوں میں بحث ہو گئی، یہ جس نے ہدایہ کو سمجھا تھا، اس نے ایک دم کہا کہ یہ مسئلہ ہدایہ میں ہے، وہ جو دوسرا ہدایہ کا حافظ تھا، وہ بولا، غلط کہتے ہو، غلط کہتے ہو، غلط کہتے ہو، یہ مسئلہ ہدایہ میں ہے ہی نہیں، قطعا بھی نہیں اور اگر ہے تو مجھے دکھاؤ، اس نے ایک ہدایہ کی عبارت پڑھی اوریوں کہا کہ یہ مسئلہ اس عبارت سے نکل رہا ہے، اب حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ وہ طالب علم ہدایہ پڑھ رہا تھا اور یہ طالب علم ہدایہ بُن رہا تھا، فرمایا کہ پڑھنا مت ، بلکہ بُننا اور یہ بُننا کس طریقے پر ہو گا؟ بھائی! اس کے لیے کچھ شرائط ہیں، کچھ آداب ہیں۔
کتاب کا ادب
پہلی بات تویہ ہے کہ کتاب کا اکرام کرو، میری والدہ ماجدہ فرمایا کرتی تھیں کہ میرے والد مرحوم سردیاں ہو رہی ہیں اور ہماری طرف جاڑا ، کڑا کے کا جاڑا، قیامت کا جاڑا، لیکن ایسے جاڑے میں بھی وضو کے بغیر رات میں بھی کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے، کانپور میں ایک مرتبہ ختم بخاری کی تقریب میں شرکت کی اور طلباء کے سامنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ بالغ ہونے کے بعد میں نے دین کی کسی کتاب کو وضو کے بغیر نہیں چھوا۔
فرمایا کہ مطالعہ کے دوران کتاب کو میں نے اپنے تابع نہیں کیا، بلکہ کتاب کا تابع ہو کر مطالعہ کیا، فرمایا کہ اگر یوں کتاب کو دیکھ رہا ہوں، اور حاشیہ اس طریقے پر ہے تو میں نے کتاب کو اپنی جانب نہیں کیا، بلکہ اٹھ کر دوسری جانب گیا اور کتاب کا مطالعہ کیا۔
شمس الائمہ کے حالات میں لکھا ہے کہ کثرت بول کی بیماری میں مبتلا تھے او رقیامت کے سردیاں ہوتی تھیں، مگر کتاب کو بغیر وضو کے نہیں چھوتے تھے۔
حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی علیہ الرحمہ نے خانقاہ میں ایک طالب علم کو دیکھا کہ جلالین اس کے ہاتھ میں ہے اور اسی ہاتھ میں موزہ اور موزہ جلالین کے ساتھ لگ رہا ہے، مس کر رہاہے، بس حضرت غصے سے کانپ اٹھے اور فرمایا: کہ تمہیں علم کیسے آئے گا؟ پاؤں کا موزہ او رتم نے جلالین کے ساتھ لگا رکھا ہے؟! جیسا کہ حضرت کا مزاج تھا، مستقل ایک رسالہ تصنیف فرمایا کہ کتابوں کے رکھنے میں بھی ترتیب کیا ہونی چاہیے۔تو بھائی کتاب کا اکرام۔
اساتذہ کرام کا احترام
تیسری چیز یہ ہے کہ حضرات اساتذہ کا احترام او راکرام ہو اور ایسا اکرام، ایسا اکرام، میری والدہ مرحومہ نے بیان کیا کہ رات کو سوتے ہوئے بھی شاہ صاحب سیدنا شیخ الہند رحمة الله علیہ کے گھر کی جانب اپنے پاؤں نہیں کرتے تھے، مجھے یقین نہیں آیا، میں نے کہا یہ ایسے ہی روایت ہے کہ پیر نہیں اڑتے، مرید اڑا دیتے ہیں، یہ بات ایسے ہی گھڑ لی گئی، لیکن حال ہی میں ”بدائع الصنائع“ مدینے سے چھپ کر آئی ہے او ربدائع الصنائع کو جانتے ہو؟ علامہ کشمیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو اس کتاب کا مطالعہ کر لے گا، فقیہ ہو جائے گا۔ کتاب کے مصنف کو فقیہ النفس فرماتے تھے، فقیہ النفس وہ صرف ابن نجیم کے لیے استعمال کرتے تھے اور صاحب بحرالرائق، فقیہ النفس سہیلی کے لیے استعمال کرتے تھے۔
متأخرین میں سے حضرت شاہ عبدالعزیز الدہلوی رحمة الله علیہ اور قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ۔
حضرت گنگوہی رحمة الله علیہ کو شامی کے اوپر ترجیح دیتے تھے، شامی کے تفقہ کے اوپر اعتماد نہیں تھا، حضرت گنگوہی رحمة الله علیہ کے تفقہ کے اوپر بے حد اعتماد فرماتے تھے۔
تو صاحب بدائع کے متعلق بڑے اونچے الفاظ فرماتے تھے، اس کے دیباچے میں سیدنا امام اعظم رحمة الله علیہ کے حالات لکھے ہیں، ان حالات میں یہ بھی ہے کہ حضرت امام اعظم علیہ الرحمة اپنے استاد حماد کے گھر کی جانب سوتے ہوئے پاؤں بھی نہیں کرتے تھے، درانحالیکہ کہ درمیان میں کئی محلے حائل تھے، اب یقین آگیا کہ اساتذہ کا اس درجہ احترام کرنے والے طلباء دنیا کے اندر گزرے ہیں، آپ جس قدر اپنے اساتذہ کا حترام کریں گے، میں یقین کے ساتھ آپ کے سامنے عرض کر دوں کہ علم اتنا ہی چمکے گا۔
حضرت مولانا انور شاہ صاحب اور استاد کا ادب
حضرت مولانا محمد انوری لائل پوری نے ایک سوانح والد مرحوم کی لکھی ہے، کمالات انوری کے نام سے ،اس میں لکھا ہے کہ میں دیوبند داخل ہونے کے لیے گیا، میرے والد مجھے لے کر پہنچے، دوپہر کو ہم دیوبند پہنچے تھے، سامان رکھ کر ظہر کے بعد ہم سیدنا شیخ الہند کے مکان پر گئے تو واردین وصادرین آرہے تھے او رحضرت سے ملاقات کر رہے تھے، اس زمانے میں بجلی کے پنکھے نہیں آئے تھے، فرشی پنکھے ہوتے تھے چھت میں اور ان پنکھوں کو بیٹھ کر ڈوری سے کھینچا کرتے تھے، چناں چہ ایک صاحب پنکھا کھینچ رہے تھے، شیخ الہند رحمة الله علیہ کو اور آنے والوں سے چپکے سے کہہ رہے تھے، ذرہ ہٹ ہٹ کے بیٹھو، کہیں حضرت کو تکلیف نہ ہوجائے، تو والد مرحوم نے مجھ سے پوچھا کان میں کہ ان پنکھا کرنے والوں کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا کہ میں کہاں سے پہچانوں گا، میں تو دیوبند میں ابھی آپ کے ساتھ آیا ہوں، فرمایا: یہی مولانا انور شاہ صاحب کشمیری ہیں۔
مولانا انوری نے یہ واقعہ نقل کرکے لکھاکہ میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی کہ یہی مولانا انور شاہ صاحب کشمیری ہیں کہ جن کے علم کی شہرت شرق وغرب کے اندر پہنچ چکی، اپنے استاد کو کتنے شغف کے ساتھ پنکھا کر رہے ہیں۔
میرے استاد حضرت شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی صاحب نوّرالله مرقدہ نے مجھ سے ایک دن فرمایا کہ حضرت شاہ صاحب جب شیخ الہند رحمة الله علیہ کے سامنے آتے تھے اتنا جھک جاتے تھے، اتنا جھک جاتے تھے کہ ہمیں خطرہ ہوتا تھا کہ کہیں شاہ صاحب زمین پر نہ گر جائیں۔
استاد کے متعلقین کا بھی احترام ہو
حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ کی وفات کے بعد حضرت کی اہلیہ محترمہ کو امرو ہے میں حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ کے دو شاگردوں نے دعوت دی ، تشریف لے گئیں، ان میں سے ایک شیخ التفسیر حضرت مولانا عبدالرحمن امروہی تھے، جن کاامتیاز یہ تھاکہ علامہ کشمیری علیہ الرحمہ نے ان سے تفسیر کے اندر سندلی تھی، جب امرو ہے کے اسٹیشن پر پالکی لگا دی گئی، ریل کے ڈبے سے اورحضرت کی اہلیہ پالکی میں بیٹھگئیں، پالکی کے اٹھانے کے لییکمہار لوگ آگے بڑھے ہیں، تو دونوں شاگردوں نے کہا کہ ہمارے استاد کی اہلیہ اور کمہار لوگ اٹھائیں گے، ایک جانب مولانا عبدالرحمن صاحب لگے او ردوسری جانب حضرت کے دوسرے شاگرد اور بازار سے اس شان سے گزرے ہیں کہ تمام امروہہ انہیں جانتا تھا اور پہچانتا تھا ،معلوم ہوا کہ فقط استاد کا احترام نہیں، بلکہ استاد کے متعلقین کا بھی احترام ہو، استاد کے اقرباء کا بھی احترام ہو، استاد کے اعزاء کا بھی احترام ہو۔
حضرت شیخ الہند رحمہ الله اور استاد کا ادب
حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ کے والد ماجد شیخ اسد، زمین دار تھے، آخر مرض میں دیوبند آگئے اور بیماری تھی دستوں کی اور دست بے پناہ آرہے تھے، لحاف بھی خراب، گدّا بھی خراب، چادر بھی خراب،حضرت شیخ الہند رحمة الله علیہ اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے تھے، حالاں کہ حضرت شیخ الہند رحمة الله علیہ دیوبند کے معزز شیوخ میں سے تھے اور ان کا خاندان دیوبند کے ممتاز ترین خاندانوں میں سے تھا۔
تو بھائی! اساتذہ کی جتنی بھی آپ سے خدمت ہو، جتنا بھی آپ احترام کرسکیں او راحترام زبان سے نہیں، ظاہر سے نہیں، بلکہ قلوب میں ان کا احترام ہو، اتنا ہی آپ اپنے علم کو منور پائیں گے، اپنے علم کو مرصَّع پائیں گے۔
والدین او راستاد کو ستانے والے کو دنیا میں بھی وہی سزا ضرور ملتی ہے
جس اولاد نے اپنے ماں باپ کو ستایا، یاد رکھنا کہ اس کی اولاد اسے بخشے گی نہیں، حضرت شیخ الحدیث مولانا فخر الدین علیہ الرحمہ مراد آبادی، جو بعد میں دارالعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث ہوئے ہیں، فرماتے تھے کہ یہ واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مراد آباد میں ایک نوجوان اپنے بوڑھے باپ کو گھرمیں سے مارتے ہوئے لایا، باپ پٹ رہا ہے اورکچھ نہیں بولتا، ایک لفظ بھی، مجمع پورا کا پورا ساتھ لگا ہوا ہے، مگر مجمع یہ سوچ رہاہے کہ بھائی! جب یہ بڈھا ہی نہیں بولتا، تو ہم کیوں مداخلت کریں! مگر سارے کے سارے مجمع کو بڑی تکلیف اورکلفت کہ کم بخت مار رہا ہے باپ کو، اچانک نکڑ آگیا ،تو اب بڈھا بولا، بس بیٹے! بہت ہو گئی اب چھوڑ دے، تو مجمع، جو تنگ آچکا تھا اور بڑا غصے میں بپھرا ہوا، وہ بڈھے پربگڑا کہ کم بخت مر جا اس کے ہاتھ سے، اتنی دیر سے تو پٹ رہا ہے، نہ تیری زبان کے اوپر آہ، نہ تیری زبان کے اوپر کوئی بکا، اب کہہ رہا ہے کہ بس بیٹے، توبڈھا بولا کہ نہیں، یہ بات نہیں، تو پھر کیا بات ہے؟ کہا بات یہ ہے کہ میں اپنے باپ کو گھر سے مارتے ہوئے لایا تھا اور اسی نکڑ تک لا یا تھا، مجھے یقین تھا کہ میرا بیٹا مجھے مارے گا اور یہیں تک مارے گا۔
دوسری بات۔ جو معاملہ تم اپنے اساتذہ کے ساتھ کرو گے یقین رکھو کہ تمہارے شاگرد وہی معاملہ تمہارے ساتھ کریں گے۔
میر ے ساتھی تھے اعظم گڑھ کے ، یک چشم، معقولات کے اندر بڑے فاضل، بڑے قابل، دارالعلوم دیوبند کے ایک استاذ کے یہاں ان کا درس ہو رہا تھا، تو وہ ان استاد کو اپنی نظر میں نہیں لاتے تھے، یہ اشکال، یہ اشکال ،یہ اشکال اور اشکال کا مقصد کتاب کو سمجھنا نہیں، بلکہ استاد کی توہین واہانت، چلے گئے، فارغ ہو گئے ، دارالعلوم میں دورہ حدیث میں نمبر اول آئے، تقربیاً گیارہ ، بارہ سال کے بعد آئے، میں موجود تھا اتفاقاً، ان استاد کے سامنے ہاتھ جوڑے ہوئے بیٹھے تھے کہ حضرت! جومعاملہ میں نے آپ کے ساتھ کیا تھا، بعینہ میرے شاگرد میرے ساتھ وہ معاملہ کر رہے ہیں۔
اورایک تجربے کی بات میں تمہیں خود سنا دوں، ہمارے استاد الله تعالیٰ غریق رحمت فرمائے، حضرت مولانا معراج الحق صاحب رحمة الله علیہ، جو بعد میں دارالعلوم کے صدر مدرس بن گئے، حضرت کے یہاں ہماری قطبی تھی، اب اول تو یہ منطق کا معاملہ ہی عجیب وغریب…، خوش قسمتی ہے کہ سمجھے او رسمجھا دے، پھر دوسرے حضرت کی تقریر بڑی فاضلانہ، بڑی عالمانہ، ہمارے بس میں نہ آئے تو سولہ سترہ طلباء نے، ایک درخواست تعلیمات میں دے دی کہ ہماری کتاب بدل دی جائے، بدقسمتی سے میں نے بھی دستخط کر دیے۔
حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمة الله علیہ ناظم تعلیمات تھے، جب درخواست حضرت کے سامنے گئی، مجھے بلوالیا، میں پہنچا ، حضرت کا تو معاملہ بڑا عجیب وغریب تھا، خداداد رعب، حضرت مدنی رحمة الله علیہ فرمایا کرتے تھے لائیے، لائیے، اپنا چشمہ مجھے دے دیجیے، میں لگا دوں اسے، طلباء میرے سر پر چڑھتے ہیں اور آپ کو دیکھ کر کانپتے ہیں۔
حضرت نے بلا لیا، میں جاکے بہت مؤدب ہو کر بیٹھ گیا، فرمانے لگے کہ مولوی صاحب، مولوی صاحب! آپ بھی سیاسی ہو گئے، مولوی صاحب مولوی صاحب! آپ بھی سیاسی ہوگئے، مولوی صاحب، مولوی صاحب!آپ بھی سیاسی ہو گئے، جیسا کہ عادت مبارکہ تھی کہ ایک جملے کو بار بار فرماتے تھے، وہ مشہور مقولہ ہے کہ ایک چُپ سو کو ہرائے۔
میں چپ گردن جھکا کر بیٹھ گیا ، کوئی جواب ہی نہیں دیا، جب حضرت تھک گئے، تو خود فرمانے لگے کہ میرا یہ خیال تو نہیں ہے کہ مولانا معراج الحق صاحب قطبی نہ پڑھا سکیں، لیکن آپ حضرات کی میں کتاب کاٹ دیتا ہوں، سب کی نہیں کاٹوں گا، جتنوں نے اس پر دستخط کیے ہیں، ان کی کاٹ دیتا ہوں، کتاب کاٹ دی اور حضرت مولانا خلیل صاحب کیرانوی کے ہاں قطبی چلی گئی، بھائی میں نے پڑھا لکھا کچھ نہیں، میں پہلے جاہل تھا، اب ابوجہل ہوں۔
کتابیں چھوڑ چھوڑ، چھوڑ چھوڑ کے جلدی سے، اس لیے کہ میں انگریزی میں لگ گیا تھا اور یونی ورسٹی سے امتحانات دے رہا تھا، کل چار سال کے اندر میں نے عربی پڑھی، لیکن آپ کی جوتیوں کا فیض کہ تدریس میں مجھے کبھی پریشانی پیش نہیں آئی، میں نے بیضاوی بھی پڑھائی، ہدایہ آخرین بھی پڑھائی، ملا حسن بھی پڑھایا اور ملا حسن کے اندر یہ تھا کہ حضرت مولانا فخر الدین علیہ الرحمہ سبق میں آکے بیٹھتے تھے اور سنتے تھے، کبھی پریشانی پیش نہیں آئی۔
لیکن جب قطبی مجھے پڑھانے کے لیے ملی، مطالعہ کروں اور کچھ سمجھ میں نہ آئے، مطالعہ کروں او رکچھ سمجھ میں نہ آئے، تقریباً پندرہ سولہ دن ہو گئے اوراس سال قطبی کے اندر بڑے تیز قسم کے طالب علم تھے، ایک عبدالواحد بلوچستانی، ایک عزت الله بلوچستانی، ایک اشرف بلوچستانی، جنہوں نے اب بلوچستان کے اندر مدرسے قائم کر رکھے ہیں، یہ سب اس سال طالب علم تھے۔
سولہ سترہ دن کے بعد مجھے ہو ش آگیا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ سردی کا زمانہ تھا، حضرت مولانا معراج صاحب رحمة الله علیہ دوپہر کو اپنے کمرے کے سامنے بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے اور ان کے پاس رشید الوحیدی بیٹھے ہوئے تھے کسی کام سے، بس میں گیا اور میں نے ادب سے پیر پکڑ لیے، وہ گھبرا گئے، کہنے لگے کیا بات ہے؟ کیا بات ہے ؟ میں نے پورا واقعہ سناکر عرض کیا کہ آپ کو تو یاد بھی نہیں ہو گا، لیکن اس کی نحوست اور بے برکتی میں بھگت رہا ہوں، حضرت نے معاف فرمایا، آپ یقین کیجیے کہ جیسے ہی حضرت نے معاف فرمایا، اس کے ساتھ ہی جیسے کسی نے بند گرہ کھول دی، یہ ہے اساتذہ کا معاملہ۔
درس گاہ کا احترام
بھائی اس کے بعد پھر درس گاہ کا احترام یہ مسجد کا کیوں احترام کرتے ہو؟ یہ خانہ کعبہ کا کیوں احترام کرتے ہو؟ یہ مسجد نبوی کا کیوں احترام کرتے ہو؟ نسبتیں ہیں، جو آپ کو احترام کی دعوت دیتی ہیں، آپ کو احترام پر مجبور کرتی ہیں، جب یہ بات آپ کی سمجھ میں آگئی، یہ درس گاہیں، علم کی درس گاہیں ہیں ، یہ دین کی درس گاہیں ہیں ،یہاں فیضان علم ہوتا ہے، یہاں پر انسان بنایا جاتا ہے، یہاں قول خدا کے رمز سمجھائے جاتے ہیں ، یہاں قول رسول کے اسرار پر اطلاع دی جاتی ہے، ان درسگاہوں کا احترام ، موجودہ وقت کے اسٹرائیک، ہنگامے، درس گاہوں کے اندر شور وغل، درس گاہوں کی بے حرمتی علوم اورتحصیل علم میں بے برکتی کا موجب ہوتا ہے۔
زمانہ طالب علمی میں حصول علم کے علاوہ کوئی اور مشغلہ اختیار نہیں کرنا چاہیے
ایک پانچویں بات ، خبر نہیں حضرت اجازت دیں گے یا نہیں؟ لیکن تجربے کے طور پر طالب علمی کے دور میں کسی اور چیز کی طرف توجہ نہ ہو، ذرہ سابھی آپ کوئی دوسرا مشغلہ اختیار کریں گے، بس علم کا حصول اتنا ہی مشکل ہو جائے گا، بس ایک دروازہ پکڑ لو۔
یہ نہیں کہ انگریزی بھی پڑھ لوں، سائنس بھی پڑھ لوں، معاشیات بھی پڑھ لوں اور فلاں بھی اور فلاں بھی اور حصہ سیاست میں بھی لے لوں، اور وقت کی تحریکات میں بھی حصہ لے لوں، یہ علم کو کھا جانے والی چیزیں ہیں، شیطان متعدد طریقے استعمال کرتا ہے، حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتوی رحمة الله علیہ، ہمارے دارالعلوم دیوبند کے اول صدر مدرس ہیں ، حضرت حکیم الامت رحمة الله علیہ نے دورہ حدیث انہیں سے پڑھا، بہت جلالی تھے، جوتا چلاتے تھے طلبا پر اور اپنے جوتے کا نام رکھا تھا ۔تنبیہ الغافلین․
ایک عجیب وغریب واقعہ
حضرت تھانوی رحمة الله علیہ نے ایک عجیب واقعہ لکھا کہ ایک طالب علم پٹھان، اس کی شادی ہو گئی، اب اس پٹھان نے اپنی بیوی کی دے مار پٹائی، دے مار پٹائی، گھر والوں کو شکایت ہوئی، انہوں نے حضرت سے آکر کہا، اس طالب علم کو کہیں سے پتہ چل گیا کہ حضرت کو شکایت ہو گئی ، وہ غائب ہو گیا، کئی دن کے بعد آگیا، حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے لکھا کہ وہ ہمارے دورہ حدیث کا سال تھا کہ وہ طالب علم آیا اور حضرت مولانا یعقوب نانوتوی نے جوتا اٹھا کر دمادم دمادم دمادم… حضرت نے بٹھا کر غالباً تین جوتے توڑے اوراس کے بعد فرمایا کہ طلاق دو اپنی بیوی کو، اس نے بلاتامل طلاق دے دی، بلا تامل او ربلاتاخیر۔
اب سنو، حضرت اقدس نے لکھا کہ بعد میں جب میں اپنی خواب گاہ میں تھا، اچانک ایک صاحب داخل ہوئے، بشکل حضرت مولانا محمدیعقوب صاحب نانوتوی، حضرت تھانوی نے لکھا کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ حضرت کی روح متجسد ہو کر آگئی، متشکل ہو کر، اس کے بعد ملاقات ہوئی، تعارف ہوا تو وہی طالب علم نکلا، ہمارا ساتھی، میں نے اسے کہا کہ وہ جوتو پٹا تھا، حضرت مولانا یعقوب صاحب سے اور تونے اس کے اوپر نہ آہ کی نہ چیخ نکالی تھی اور پوری سعادت کا مظاہرہ کیا تھا، اس نے تجھے شکلاً بھی حضرت سے أشبہ کر دیا، باطنی اعتبار سے نہیں، بلکہ ظاہر کے اعتبار سے بھی حضرت سے أشبہ کر دیا تو حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتوی رحمة الله علیہ طالب علم پربجاتے تھے جوتا۔
خدا تعالیٰ آپ حضرات کے علوم میں برکت عطا فرمائے، آپ کے اساتذہ کو آپ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی سعادت عطا فرمائے، ان کی شفقتوں میں اضافہ، آپ کی درس گاہ کا نام اونچا ہو، ممتاز درس گاہوں میں اس کا شمار، بلکہ ممتاز درس گاہوں کی یہ امام ہو ، جو مدرسے کے مؤسس ہیں او ربانی ہیں ( حضرت شیخ المشائخ مولانا سلیم الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ) الله ان کی عمر میں اضافہ فرمائے او ران کے کام کو قبول فرمالے اورمعاونین کو احسن الجزاء عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا أن الحمدلله رب العالمین․