امریکہ، برطانیہ،یورپ ہو یا پھر افریقہ …اسلام پوری دنیا میں جتنی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ویسے ہی یہودو ہنود کی سازشیں بھی پروان چڑھ رہی ہیں۔ نزولِ اسلام کے وقت بھی یہودی مسلمانوں کوایذا رسانی پہنچانے کے لیے ہمہ وقت مضطرب رہتے تھے۔یا درہے کہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اسلام دشمنی کا کھل کر اظہار کیاتھااور صدر منتخب ہونے کے بعد باقاعدہ اسلام کو دہشت گرد مذہب قراردے کربعض اسلامی ممالک کے شہریوں کے امریکہ داخلے پر پابندی لگادی تھی۔فرانسیسی صدر نے بھی اب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کا انتخاب کرتے ہوئے تشدد کی راہ اپنانے والے دہشت گردوں، چاہے وہ سفید فام نسل پرست یا نازی نظریات کے حامی یا پھر کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ان کے خلاف کوئی بیان دینے کے بجائے اسلام پر حملہ کیا۔ جب کہ امریکہ میں سب سے بڑی مسلم شہری حقوق اور وکالت کی تنظیم،دی کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز نے بھی 35 خیراتی ادارے اور فاونڈیشنزکی جانب سے 26 مسلم مخالف گروپوں کو تقریباً 106 ملین ڈالر کی رقم فراہم کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ فنڈ دینے والوں میں جیوش کمیونل فنڈ اور نیشنل کرسچن چیریٹیبل فاونڈیشن شامل ہیں۔ ان میں پرائیویٹ فیملی فاونڈیشنز بھی شامل ہیں، جیسے ایڈیلسن فیملی فاونڈیشن، جو مسلم مخالف سرگرمیوں کی حمایت کے لیے لاکھوں ڈالر کا تعاون کرتی ہے۔ رپورٹ میں 2019-2020کے درمیان اسلامو فوبیا کے منظر نامے کا بھی خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس میں ایک درجن سے زائدمسجد مخالف واقعات اور اسکولوں، امریکی سیاست اور سوشل میڈیا میں مسلم مخالف سرگرمیوں کی تفصیل دی گئی ہے۔
دوسری جانب ایک نہتی و غیرت ایمانی کامظاہرہ کرنے والی بھارتی ریاست کر ناٹک کی باحجاب طالبہ اوڑھے آر ایس ایس کے غنڈوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ویڈیو وائرل ہوئی، کفریہ کلمات کے سامنے نعرہ تکبیر لگانے نے خوابیدہ امتِ مسلمہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تو دوسری جانب وطنِ عزیز میں ہر کوئی اس طالبہ کے جوشِ ایمانی کو تحسین پیش کرنے میں سبقت لے جانے میں مصروف ہے، لیکن یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ اس بہادر بیٹی کا تعلق ہندوستان سے ہے اور دوسرے ملک پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ہمیں اپنی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ یہاں اگر کوئی ان کالجوں، یونی ورسٹیوں میں سر پر دوپٹہ یا حجاب سے چہرہ ڈھانپنے کی بات کرے تو اسے دقیانوسی کہہ کر اُس کا مذاق اڑایا جاتاہے ،جب کہ بھارت کے مسلم لیڈر اسد الدین اویسی نے تو برملا کہہ دیا ہے کہ یہ ان کا اندورنی معاملہ ہے۔ یعنی انہوں نے صاف لفظوں میں ہمیں تنبیہ کی ہے کہ ہم ان سے دور رہیں۔اس وقت سوشل میڈیا پر اس جرات مند طالبہ کی وڈیوز کی بھر مار ہے۔ حسبِ معمول دو چار دن اس کا اثر رہے گا اور پھر مسلمانانِ عالم لمبی تان کر سو جائیں گے۔آر ایس ایس کا بنیادی ایجنڈا ہندو راشٹر کا قیام ہے۔اسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے آر ایس ایس ہندو مت کو ایک مذہب کے بجائے ایک تہذیب قرار دے رہی ہے اور تمام ہندوستانیوں کو اس سے جوڑ رہی ہے، تاکہ ہندو راشٹر کا راستہ صاف ہوجائے، اس مشن اور مقصد پر کوئی اعتراض نہ کیاجائے،کوئی اس پر سوال نہ اٹھائے اور ملک ایک سیکولر اسٹیٹ کے بجائے مذہبی ریاست میں تبدیل ہوجائے۔پورے بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ملک بھر میں جو دکانیں، علاقے، ہوٹل، پارک یا تمام مقامات مسلمانوں کے نام پر ہیں، انھیں تبدیل کر دیا جائے۔ ہندو دہشت گرد تنظیم وشوا ہندو پریشد کی جانب سے بھارتی مسلمانوں کو الٹی میٹم دیاگیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے نام والے تمام کاروباری اداروں کے نام تبدیل کر دیں۔حالاں کہ بھارت کاآئین آرٹیکل 15،میں صاف طورپرلکھاہے کہ (1) مملکت محض مذہب، نسل، ذات،جنس،مقام پیدائش یاان میں سے کسی کی بناپرکسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی۔اسی طرح آرٹیکل 19،یہ بتاتاہے کہ تمام شہریوں کوحق حاصل ہوگاتقریراوراظہارکی آزادی کا۔یونہی آرٹیکل 25،میں یہ تحریرہے کہ تمام اشخاص کوآزادی ضمیراورآزادی سے مذہب قبول کرنے،اس کی پیروی اوراس کی تبلیغ کرنے کامساوی حق ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھی فاشسٹ مودی کی درندہ صفت افواج نے ظلم ووحشت کی انتہا کر رکھی ہے۔ وہاں پر 7 سال کی بچی سے لے کر 70 سالہ مسلمان کشمیری عورت کی عزت پامال کی جا رہی ہے۔2سال کا عرصہ بیت گیا ہے اور کشمیری بھارتی فوج کے محاصرے میں ہیں۔ میرا سوال ہے کہ اس پر ہمارا میڈیا کیوں نہیں چیختا؟ کیوں مسلم حکمرانوں نے چپ سادھ رکھی ہے؟ دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں؟ برما میں جس طرح مسلمان خواتین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا اس پر ہم محوِ تماشا رہے اور آج بھی میانمار سے بے دخل کی گئی مسلمان عورتیں کسی محمد بن قاسم کے انتظار میں ہیں جو ان کے ننگے سروں پر چادریں ڈالے۔ امریکہ ویورپ سے لے کر بھارت تک پوری دنیا میں اسلاموفوبیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہنود و یہود گٹھ جوڑ کی اسلام و مسلمانوں کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں۔ مسلمان اپنی شناخت کے بحران سے دو چار ہیں۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلم عورتوں سے ان کا دینی تشخص چھینا جا رہا ہے۔ جس کی شروعات فرانس سے ہوئی۔
فرانس جیسے یورپی ملک میں حجاب پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ مسجدوں پر تالے لگائے جا رہے ہیں۔