یہودیت ایک مدتِ دراز سے عرب میں رائج تھی۔قبیلہ حمیر، بنوکنانہ، بنوحارث بن کعب، کندہ، یہ قبائل یہودی تھے۔ مدینہ منورہ میں یہود نے پورا غلبہ پالیا تھا او رتورات کی تعلیم کے لیے متعدد درس گاہیں قائم تھیں، جن کو”بیت المدراس“ کہتے تھے۔ حدیث کی کتابوں میں اسی نام سے اُن کا ذکر آتا ہے۔قلعہٴ خیبر کی تمام آبادی یہودی تھی۔ امرأ القیس کا ہم عصر مشہور شاعر سمویل بن عاد یا، جس کی وفاداری آج تک عرب میں ضرب المثل ہے، یہودی تھا۔
جب رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتلِ عام کیا اور پھر انھیں اِس سرزمین سے بالکل نکال باہر کیا، اس دور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیوں کہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آکر انھوں نے جہاں جہاں چشمے اور سرسبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھہر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سودخوری کے ذریعے سے ان پر قبضہ جما لیا۔ ایلہ، مقنا، تبوک، تیما، وادی القری، فدک اور خیبر پر ان کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا۔ اور بنی قریظہ، بنی نضِیر، بنی بہدل اور بنی قینقاع بھی اسی دور میں آکر یثرب پر قابض ہوئے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے مدینے کے یہودی قبائل سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ: جنگ کی صورت میں فریقین ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ جنگِ بدر کے موقع پر یہود نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور غیر جانب داررہنے کا اعلان کر دیا،حالاں کہ معاہدے کے تحت ان پر مسلمانوں کی مدد کرنا لازم ٹھہرتا تھا۔ جب مسلمان اکیلے ہی مشرکینِ مکہ پر فتح حاصل کرکے مدینے واپس لوٹے تو یہودیوں کو اور ناگوار گزرا۔ حسد میں وہ مسلم دشمنی پر اتر آئے۔ مجبورا ًمسلمانوں کو سب سے پہلے یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کو مدینے سے جلاوطن کرنا پڑا۔ س اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ: رمضان2 ھ میں حضور صلی الله علیہ وسلم جنگ ِ بدر کے معرکہ سے مدینہ واپس لوٹے۔ اس کے ایک مہینے بعدہی 15 شوال 2ھ میں غزوہ بنی قینقاع کا واقعہ درپیش ہوا۔ بدر کے بعد یہودیوں نے شر و عداوت کا مظاہرہ کیا۔ مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے تین بڑے بڑے قبائل آباد تھے:بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ۔ ان تینوں سے مسلمانوں کا معاہدہ تھا ،مگر جنگ ِ بدر کے بعد جس قبیلے نے سب سے پہلے معاہدہ توڑا ،وہ قبیلہ بنو قینقاع تھا۔اس قبیلے کے یہودی سب سے زیادہ بہادر اور دولت مند تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایک برقع پوش عرب عورت یہودیوں کے بازار میں آئی، دکان داروں نے شرارت کی اور اس عورت کالباس اتار دیا۔ اس پر تمام یہودی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے، عورت چلائی تو ایک عربی آیا اور دکان دار کو قتل کر دیا۔ اس پر یہودیوں اور عربوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ حضورصلی الله علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو تشریف لائے اور یہودیوں کی اس غیر شریفانہ حرکت پر ملامت فرمانے لگے۔ اِس پر بنوقینقاع کے خبیث یہودی بگڑ گئے اور بولے:
جنگ ِبدر کی فتح سے آپ مغرور نہ ہو جائیں۔ مکہ والے جنگ کے معاملہ میں بے ڈھنگے تھے، اس لیے آپ نے ان کو شکست دے دی، اگر ہم سے آپ کا سابقہ پڑا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جنگ کس چیز کا نام ہے اور لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں؟
جب یہودیوں نے معاہدہ توڑدیا تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے نصف شوال2ھ پیر کے دن ان یہودیوں پر حملہ کر دیا۔ یہودی جنگ کی تاب نہ لا سکے اور اپنے قلعوں کا پھاٹک بند کرکے قلعہ بند ہو گئے، مگر پندرہ دن کے محاصرے کے بعد بالآخر یہودی مغلوب ہو گئے اور ذی القعدہ کی چاند رات کو یہودی ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو گئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے مشورے سے ان یہودیوں کو جلاوطن کر دیا اور یہ عہد شکن،بدذات یہودی ملک شام کے مقام اذرعات میں جاکر آباد ہو گئے، مگر اسلام دشمنی سے پھر بھی باز نہ آئے اور بدستور سازشوں میں مصروف رہے۔ اسلامی لشکر نے جنگِ خیبر میں ان کی سرکوبی کی۔
محرم7ھ ،بمطابق مئی 628ء میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی، جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ اسلامی لشکر کی قیادت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس تھی، مدینہ منورہ کا خلیفہ حضرت سبابہ بن ابی عرفہ رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا گیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ علم بردار تھے ۔
خیبر یہودیوں کا مرکز تھا، جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا ۔یہ علاقہ ؛بالخصوص اس کے کئی قلعے ،یہودی فوجی طاقت کے مرکز تھے ،جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے خطرہ بنے رہے اور مسلمانوں کے خلاف کئی سازشوں میں شریک رہے۔ ان سازشوں میں غزوہ خندق اور غزوہ احد کے دوران یہودیوں کی کارروائیاں سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ خیبر کے یہود نے قبیلہ بنی نضیر کو بھی پناہ دی تھی، جو مسلمانوں کے ساتھ سازش اور جنگ میں ملوث رہے تھے۔ خیبر کے یہود کے تعلقات بنو قریظہ کے ساتھ بھی تھے، جنھوں نے غزوہ خندق میں مسلمانوں سے عہد شکنی کرتے ہوئے انھیں سخت مشکل سے دوچار کر دیا تھا۔ خیبر والوں نے فدک کے یہودیوں کے علاوہ نجد کے قبیلہ بنی غطفان کے ساتھ بھی مسلمانوں کے خلاف معاہدے کیے تھے۔ ان کا قضیہ چکا نا ضروری تھا،چناں چہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم1600 صحابہ کرام کی فوج کے ساتھ، جن میں سے ایک سو سے کچھ زائد گھڑ سوار تھے، خیبر کی طرف جنگ کی نیت سے روانہ ہوئے اور پانچ چھوٹے قلعے فتح کرلیے،اس میں پچاس مجاہدین زخمی اور ایک صحابی شہید ہوئے۔اس کے بعد قلعہ خیبر کا محاصرہ کر لیا، جو دشمن کا سب سے بڑا اور اہم قلعہ تھا۔ یہ قلعہ ایک نسبتاً اونچی پہاڑی پر بنا ہوا تھا اور اس کا دفاع بہت مضبوط تھا۔
یہودیوں نے عورتیں اور بچے ایک قلعے میں اور سامانِ خور و نوش اوردیگر سازوسامان ایک اور قلعہ میں رکھ دیا اور ہر قلعے پر تیر انداز تعینات کر دیے، جو قلعے میں داخل ہونے کی کوشش پر تیروں کی بارش کر دیتے تھے۔ یہودی رات کی تاریکی میں ایک سے دوسرے قلعے تک اپنا مال و اسباب اور لوگوں کو منتقل کرتے رہے۔ باقی دو قلعوں میں قلعہ قموص سب سے بنیادی اور بڑا تھا اور ایک پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے باری باری حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم کی قیادت میں افوج اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے بھیجیں، مگر مسلمان کام یاب نہ ہو سکے۔پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
کل میں اسے علم دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ شکست کھانے والا اور بھاگنے والا نہیں ہے۔ خدا اس کے دونوں ہاتھوں سے فتح عطا کرے گا۔
یہ سن کر اصحاب خواہش کرنے لگے کہ یہ سعادت انھیں نصیب ہو۔ اگلے دن حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو طلب کیا۔ صحابہ کرام نے بتایا کہ انھیں آشوبِ چشم ہے۔ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنا لعابِ دہن ان کی آنکھوں میں لگایا ،جس کے بعد تا زندگی انھیں کبھی آشوب چشم نہیں ہوا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ قلعے پر حملہ کرنے کے لیے پہنچے، تو یہودیوں کے مشہور پہلوان مرحب کا بھائی مسلمانوں پر حملہ آور ہوا ،مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسے قتل کر دیا اور اس کے ساتھی بھاگ گئے۔ اس کے بعد مرحب رجز پڑھتا ہوا خودمیدان میں اترا۔ اس نے زرہ بکتر اور خود ( جنگی ٹوپی )پہنا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ایک زبردست لڑائی کے دوران حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کے سر پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس کا خود اور سر درمیان سے دو ٹکڑے ہو گیا۔ اس کی ہلاکت پر خوف زدہ ہو کر اس کے ساتھی بھاگ کر قلعے میں پناہ گزین ہو گئے۔پھر تمام مسلمانوں ان پر ٹوٹ پڑے، اس جنگ میں 93 یہودی ہلاک ہوئے اور قلعہ فتح ہو گیا۔
مسلمانوں کو شان دار فتح ہوئی۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہودیوں کو ان کی خواہش پر پہلے کی طرح خیبر میں رہنے کی اجازت دی اور ان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اپنی آمدنی کا نصف بطور ِجزیہ مسلمانوں کو دیں گے اور مسلمان جب مناسب سمجھیں گے انھیں خیبر سے نکال دیں گے۔ اس جنگ میں بنی نضیر کے سردار حئی بن اخطب کی بیٹی صفیہ بھی قید ہوئیں، جن کو آزاد کر کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔رضی اللہ عنہا!
اس جنگ سے مسلمانوں کو ایک حد تک یہودیوں کی گھناوٴنی سازشوں سے نجات مل گئی اور انھیں معاشی فوائد بھی حاصل ہوئے۔ اسی جنگ کے بعد بنو نضیر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو بھیڑ کا گوشت پیش کیا، جس میں ایک سریع الاثر زہر ملا ہوا تھا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اسے یہ محسوس ہونے پر تھوک دیا کہ اس میں زہر ہے، مگرآپ صلی الله علیہ وسلم کے ایک صحابی، جو اُن کے ساتھ کھانے میں شریک تھے، شہید ہو گئے۔ ایک صحابی کی روایت کے مطابق بسترِ وفات پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ان کی بیماری اس زہر کا اثر ہے جو خیبر میں دیا گیا تھا۔