” عن انس بن مالک عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: ألا أخبرکم بنسائکم في الجنة؟ قلنا: بلیٰ یا رسول الله! قال:ودود ، ولود اذا غضبت أو أسیٴ إلیھا أو غضب زوجھا قالت ھذہ یدي فی یدک لا أکتحل بغمض حتیٰ ترضیٰ․“ (ترغیب)
حضرت انس سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو جنتی عورت کے بارے میں نہ بتا دوں ، وہ کون ہے؟ ہم نے کہا: ضرور اے الله کے رسول ! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: شوہر پر فریفتہ ، زیادہ بچے جننے والی،جب یہ غصہ ہو جائے یا اسے کچھ بُرا بھلا کہہ دیا جائے یا اس کا شوہر ناراض ہو جائے تو یہ عورت (شوہر کو راضی کرتے ہوئے) کہے میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے، میں اس وقت تک نہ سوؤں گی جب تک کہ تم خوش نہ ہو جاؤ۔“
تشریح: اس حدیث پاک میں جنتی عورت کی صفت بیان کی گئی ہے کہ جنت میں جانے والی یہ عورت ہے جس میں یہ اوصاف پائے جائیں:
ودود: بہت زیادہ شوہر سے محبت کرنے والی ، شوہر پرفریفتہ کہ ذرا سی ناراضگی سے اس کا چین وسکون ختم ہو جائے۔ محبت وچین کا تعلق اس کا شوہر سے وابستہ ہو، اسے ناراض چھوڑ کر الگ بیٹھنے والی نہ ہو۔ فریفتگی اور محبت کا یہ فائدہ ہو گا کہ دوسرے کی جانب اس کا خیال اور دھیان نہ جائے گا اور غایت محبت کی وجہ سے شوہر کی جانب سے کوئی تکلیف دہ امور ہوں گے تو اسے برداشت کر لے گی۔ محبت کی وجہ سے کڑوی بات بھی میٹھی ہو جاتی ہے، محبوب کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف محبت کی وجہ سے محسو س نہیں ہوتی، جس سے گھر کا نظام بہ احسن وجوہ چلتا ہے اور ہرایک کو گھریلو سکون میسر ہوتا ہے، جس کا آج فقدان ہے کہ معمولی بات بھی آپس میں محبت نہ ہونے کی وجہ سے دل میں چبھ جاتی ہے۔ عورت جب عشق اور فریفتگی کا برتاؤ کرے گی تو سخت مزاج مرد بھی متاثر ہو کر دل میں اسے جگہ دے دے گا اور وہ بھی محبت کی بنیاد پر نامناسب امور کو برداشت کرتا رہے گا اور ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے محبت کی بنیاد پر صرف نظر کرتا رہے گا او رگھریلو نظام اچھی طرح چلتا رہے گا۔
ولود: زیادہ بچے جننے والی عورت قابل تعریف او رالله ورسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نزیک بہت پسندیدہ ہے۔ اسی لیے سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو۔ شادی کا اہم ترین مقصد سلسلہ نسل کو باقی رکھنا ہے او رامت کے افراد کا زیادہ سے زیادہ ہونا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بچے نہیں چاہتے یا کم سے کم چاہتے ہیں ،تاکہ عیش وآرام ملے اور پرورش کی مشقت سے بچے رہیں، یہ الله ورسول الله کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ ہاں ! مرض اور بیماری کے پیش نظر ہو تو دوسری بات ہے۔ عموماً اہل یورپ کا مزاج ہے کہ وہ بچے بالکل نہیں چاہتے یا ایک دو سے زیادہ نہیں چاہتے، تاکہ ان کے عیش وآرام میں خلل نہ ہو۔ سیروسیاحت میں آزاد رہیں، الله کی پناہ! اولاد او را س کی کثرت بڑی نعمت اور ثواب کی بات ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو، میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا۔ اُمت کی کثرت آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے قیامت میں فخر کی بات ہے۔ رہی یہ بات کہ بچوں کی کثرت غربت کا سبب ہے، سو یہ غلط ہے۔ بچے اچھے ہو ں گے، ان کی تعلیم وتربیت اچھی ہوگی ، لائق اور سنجیدہ ہوں گے تو یہ خوش حالی اور مال داری کا باعث بنیں گے۔ پریشانی او رمصیبت تو غلط تعلیم وتربیت ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ بچے اور اولاد، والدین کے حق میں دین ودنیا کی بھلائی کا باعث ، صدقہٴ جاریہ اور ہر اعتبار سے خیر کا باعث ہیں کہ حمل اور دودھ پلانے کا بڑا ثواب ہے۔ چناں چہ حدیث پاک میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں کہ جب تم میں سے کوئی اپنے شوہر سے حاملہ ہوتی ہے اور شوہر اس سے راضی ہو تو اس کو ایسا ثواب ملتا ہے جیسا کہ الله کے راستہ میں روزہ رکھنے والے اور شب بیدار کو ثواب ملتا ہے اور جب اس کو درد زہ ہوتا ہے تو اس کے لیے (جنت میں ) جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہوتا ہے، اسے آسمان وزمین کے فرشتے بھی نہیں جانتے اور پیدائش کے بعد جب بچہ ایک گھونٹ بھی دودھ پیتا یا چوستا ہے اس پر ماں کو ایک نیکی ملتی ہے۔ اگر بچہ کے سبب سے رات میں جاگنا پڑ جائے تو راہ الہٰی میں ستر غلاموں کے آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ (کنز العمال:16/405)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عورت حمل سے لے کر بچہ جننے اور دودھ چھڑانے تک ایسی ہے جیسے اسلام کی راہ میں سرحد کی حفاظت کرنے والا۔ اگر اسی درمیان انتقال ہو جائے تو شہید کے برابر ثواب ملتا ہے۔ (کنز العمال:16/411)
اس حدیث پاک میں جنتی عورت کا ایک نہایت ہی اہم وصف وعلامت بیان کی گئی ہے کہ وہ شوہر کی محبت، بلکہ عشق میں سرشار ہو کر شوہر کی ذراسی بھی ناراضگی کو برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر کسی بنیاد پر شوہر ناراض یا غصہ ہو جائے تو اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر غایت درجہ محبت وتعلق کااظہار کرے کہ جب تک آپ راضی نہ ہوں گے، خوش نہ ہوں گے میں ایک پلک بھر نہ سوؤں گی۔ الله اکبر! کیا شان وآرام ہے محبت وعشق کا۔
کیا آج کل کی ماڈرن عورتیں ایسا کرسکتی ہیں ؟ اگر شوہر ناراض ہو اور اس کا ناراض ہونا حق بجانب ہو تو بھی بیگم صاحبہ پوچھیں گی بھی نہیں، مزے سے بے خبر سو جائیں گی۔ اگر آج یہ وصف عورت میں پیدا ہو جائے تو گھر جنت کا نشان بن جائے۔
شوہر کیسا ہی بدمزاج اور سخت مزاج کیوں نہ ہو، بیوی کی غایت محبت سے اس کی محبت وقدر ذہن میں بیٹھ جائے گی۔
حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے بھی اسی قسم کی ایک حدیث مروی ہے ،جسے امام نسائی رحمة الله علیہ نے بیان کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو جنتی عورت نہ بتا دو، جو خوب محبت کرنے والی، زیادہ بچے جننے والی، شوہر کے پاس کثرت سے آنے والی کہ اگر اسے تکلیف دے دی جائے یا شوہر ناراض ہو جائے تو شوہر کا ہاتھ پکڑ کر کہے، میں پلک بھر نہ سوؤں گی جب تک کہ آپ خوش نہ ہو جائیں ۔(کتاب عشرة النساء،ص:219)
گویا کہ اس بات کی تعلیم ہے کہ شوہر ناراض نہ رہے۔ اپنی جانب سے اسے ناراض رہنے یا رکھنے کی شکل نہ پیدا کی جائے، کیوں کہ شوہر کی رضا جنت ہے۔