جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ، موجودہ دور کے علمی وذہنی فتنوں میں ایک بڑا فتنہ پر فریب الفاظ کا فتنہ ہے۔ ہم ایک لفظ بولتے ہیں جو اپنے مفہوم کے لحاظ سے ایسے حقائق پر مشتمل ہوتا ہے، جو بالکل صحیح وصادق، مقدس، متبرک او رنہایت مقبول ومحمود ہیں۔
مگر اسی لفظ کے عام لغوی معنی کی وسعت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کا اطلاق بطورتلبیس وتلمیح ایک ایسے معنی پر کر دیا جاتا ہے جو بجائے مقبول ہونے کے مردود اور محمود ہونے کے مذموم ہے۔ اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مخاطب کو مغالطہ دے کر محض خو ش نما اور دل فریب الفاظ کے طلسم سے مسحور کر دیں۔
آزادی، مساوات، تہذیب، ترقی اور اسی طرح کے اور الفاظ ہیں جو اگر اپنے اصلی وحقیقی معانی میں مستعمل ہوں تو نہیات محمودومستحسن اورقابل ِ تعریف ہیں، لیکن جب کسی زشت وشنیع مفہوم کو خوب صورت ظاہر کرنے کے لیے یہی الفاظ بطور نقاب استعمال ہونے لگیں ، تو یہ خالصتلبیس وخداع ہے۔ ٹھیک یہی صورت آج کل لفظ ” علم“ کے متعلق واقع ہو رہی ہے۔
کسی مسلم اسکول کا افتتاح ہو، کسی کالج کی بنیاد رکھی جائے، کسی یونی ورسٹی کی تقسیم اسناد کا جلسہ ہو، آپ دیکھتے ہیں کہ حضرات مقررین کس شدومد سے ”علم“ کے فضائل میں قرآن پاک کی بہت سی آیات اور رسول ِ کریم صلی الله علیہ وسلم کی بے شماراحادیث پڑھتے رہتے ہیں، گویا اپنے اس طرز عمل سے مخاطبین پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جدید علم کے ایسے ایسے فضائل قرآن کریم میں موجود ہیں، حالاں کہ قرآن کریم کو ایک سرسری نظر سے پڑھ جائیے، ظاہر ہو جائے گا کہ وہ خود علم کی دو قسمیں قرار دیتا ہے۔
ایک علم نافع ومطلوب ومحبوب ،دوسرا مضر ومردود… اس کے نزدیک ایک علم زہر ہے اور دوسرا تریاق ، ایک پاک شراب ہے، دوسرا محض سراب۔ ایک سبب ہلاکت ہے ، دوسرا سامان نجات۔ ایک آسمان کی بلندیوں پر اٹھانے والا ہے، دوسرا اسفل السافلین کی پستیوں میں پہنچانے والا۔
جو علم اپنے اثرات کے اعتبار سے آخر کار خشیت الہی اور رغبت ِ آخرت پر منتج نہ ہو، جو علم انسان کو خدا سے نڈر اور زندگی کے آخری انجام سے بالکل غافل کر دے، جو علم ایسی مادی دنیا کی لذت وانبساط وشہوات حیوانیہ کو (خواہ وہ کتنی ہی ترقی یافتہ شکل میں ہوں ) انسان کا معبود ٹھہرائے، کیا ایسا علم بارگاہ رب العزت میں درخور اعتنایا لائق التفات ٹھہر سکتا ہے یا قرآن حکیم اس کے اکتساب کی ایک لمحہ کے لیے بھی ترغیب دے سکتا ہے؟
قرآن تو ایسے علم کی نسبت صاف طور پر یہ حکم دیتا ہے :﴿فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّیٰ عَن ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ إِلَّا الْحَیَاةَ الدُّنْیَا ،ذَٰلِکَ مَبْلَغُہُم مِّنَ الْعِلْمِ ﴾ یعنی تومنھ پھیرلے اس کی طرف سے، جس نے ہماری بات سے منھ پھیر لیا اور جس کا مقصد اس دنیوی زندگی سے آگے کچھ نہیں۔ ان کے علم کی رسائی اور پرواز یہیں تک ہے۔
اس کے بالمقابل ایک وہ لوگ ہیں جو الله سے ڈرتے ہیں، اس کی مخلوق پر رحم کھاتے ہیں اور ادب وتہذیب کے قاعدوں پر عمل کرتے ہیں۔ اخلاقی پاکیزگی ان کا جوہر ہے، ایمان کے نور سے ان کے دل روشن ہیں۔ غرض کہ علم ان کے اندر انابت الی الله، رحمت علی الخلائق کے اوصاف پیدا کرتا ہے تو اسی طرح کے اولو العلم کے حق میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾․
قرآن نے ایک شخص (قارون) کا ذکر کیا ہے، جس کی دنیوی دولت اب تک ضرب المثل ہے۔ جس کے خزائن کی کثرت کا اندازہ”ان مفاتحہ“ کے الفاظ سے ہوسکتا ہے، جس کا سامان دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں، حتی کہ بہت سے تمنا کرتے تھے کہ :﴿یَا لَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِیَ قَارُونُ إِنَّہُ لَذُو حَظٍّ عَظِیمٍ﴾․ اس نے ترقی کی اس معراج پر پہنچ کر ایک علم کا دعوی کیا تھا، جس کے ذریعہ اس کو یہ عروج حاصل ہوا:قال انما اوتیتہ علی علم عندی․
بہر حال وہ علم تھا، اس کے بالمقابل دوسرا گروہ تھا، جس کا ذکر حق تعالیٰ اس طرح فرماتا ہے:﴿وَقَالَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللَّہِ خَیْرٌ لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ﴾ یہ ﴿الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ﴾اس علم والے تھے جو قارون کی ان تمام ترقیات اور علم وہنر کو حقیر سمجھ رہے تھے اور ادھار کو نقد پر ترجیح دے رہے تھے۔ قرآن کریم نے تو ایک آیت میں مسئلہ کا دوٹوک فیصلہ کر دیا ہے:﴿إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء ُ﴾
اس﴿إِنَّمَا﴾ کے لفظ پرغور کیجیے، گویا جو علم قلب میں خشیت الہٰی پیدا نہ کرے، وہ علم ہی نہیں، ایسے اصطلاحی علم سے جہل ہزار درجہ بہتر ہے۔
حدیث صحیح میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس علم سے پناہ مانگی ہے، جو نفع سے خالی ہو۔ قرآن کریم میں بھی ہے :﴿وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنفَعُہُمْ ﴾ معلوم ہوا کہ علم نافع بھی ہوتا ہے اور مضر بھی۔
پس ایسے علم جو انسان کو شیطان یا درندہ بنا دیں یا اسے ترقی یافتہ بہائم کے زمرہ میں داخل کر دیں۔ ان کی طرف ترغیب دلانے کے موقع پر مطلق علم کے فضائل قرآن وحدیث سے پیش کرنا انتہائیتلبیساور گم راہی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ علوم وفنون حاصل نہ کیے جائیں، لیکن درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر علم وفن کی ترقی کا ماحصل یہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں تو فی الحقیقت ایسے علم سے جہل بہتر ہے۔ اگر علم وفن کی چکاچوند کرنے والی ترقیات مذہبی اور دینی علم وتہذیب کے ماتحت رہتیں تو دنیا کو ایسے بھیانک نتائج ہر گز نہ دیکھنے پڑتے۔