حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی کا سالانہ جلسہٴ دستار بندی کے موقع پر علماء وطلبہ کو قیمتی نصائح۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
مدارس میں جیسے ہی رجب کا مہینہ شروع ہوتا ہے توطلبا اوراساتذہ کے چہروں پہ خوشی وافسردگی کے ملے جُلے تأثرات ہوتے ہیں، افسردگی تو اس لیے کہ چند دنوں بعد مدرسے میں تقریباً دو مہینے کے لیے علم کی رونقیں اور بہاریں کم ہو جائیں گی، او راساتذہ اپنے عزیز طلباسے اور طلباء اپنے محبوب اساتذہ سے دو مہینوں کے لیے جدا ہو جائیں گے۔
اور خوشی کا احساس یہ سوچ کر کہ الله تعالیٰ نے یہ سال بھی پڑھنے ، پڑھانے کی سعادت کے ساتھ بخیروخوبی مکمل فرما دیا، اور طلباء میں پھر خاص کر دورہ حدیث کے طلباء کے لیے تو بہت ہی خوشی کا موقع ہوتا ہے، کہ جس مبارک سفر کا آغاز دس، گیارہ سال پہلے کیا تھا، وہ طویل سفر اب ختم ہونے کو ہے اور جس عظیم مقصد کے حصول کے لیے یہ سفر شروع کیا تھا وہ عظیم مقصد حاصل ہو گیا، او راپنے اساتذ ہ کرام کی دعاؤں کے ساتھ میدان تعلیم سے میدان عمل کی طرف رخصت ہو رہے ہوتے ہیں۔
اسی خوش کے موقع پر اہل مدارس طلباء اور علماء سے محبت کرنے والی عوام کو بھی شریک کر لیتے ہیں اور عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی اختتامی تقریب کی دعاؤں اور خوشی میں شریک ہو جاتا ہے۔
اسلام خوشی منانے، خوش ہونے یا دوسروں کی خوشی میں شریک ہونے سے منع نہیں کرتا، البتہ اسلام ہمیں اتنی تاکید ضرور کرتا ہے کہ وہ خوشی منانا اعتدال میں ہو، وہ خوشی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ و سلم کو ناراض کرکے نہ منائی جائے۔
اورنیک عمل کی تکمیل پر خوشی کا اظہار، دوسروں کو بھی اس میں شریک کرنے اور کھانا کھلانے کا ثبوت صحابہ کرام رضی الله عنہم سے ملتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے بارے میں آتا ہے، کہ آپ نے جب بارہ سالوں میں سورہٴ بقرہ کے علوم ومعارف سیکھ لیے تو ایک اونٹ ذبح کرکے احباب وغربا کو کھلایا۔
چناں چہ ابن ابی شیبہ نے ”المصنف“ میں یہ روایت نقل کی ہے: عن ابن عمر رضی الله عنہما قال: تعلم عمر بن الخطاب رضی الله عنہ البقرة في اثنتي عشرة سنةً، فلما ختمھا نحر جزوراً․(جامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب الاول في العلم، الفصل الثالث في آداب التعلیم والتعلم، رقم الحدیث:5846، و الجامع لأحکام القرآن للقرطبی:1/30)
اسی طرح حضرت انس رضی الله عنہ کے بارے میں بھی آتا ہے کہ جب قرآن کریم ختم فرماتے تو اپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور دعا کرتے۔
چناں چہ امام طبرانی وغیرہ کئی حضرات نے روایت نقل کی ہے : ”عن ثابت أن أنس بن مالک کان ، إذا ختم القرآن جمع أھلہ وولدہ فدعالھم․“ (المعجم الکبیر للطبراني، رقم الحدیث:674)، وسنن الدارمي فضل القرآن، رقم الحدیث:3538، و المصنف لابن أبي شیبہ، کتاب فضائل القرآن، فصل في الرجل إذا ختم ما یصنع، رقم الحدیث:30661)
چناں چہ جامعہ فاروقیہ کراچی میں یہ مبارک تقریب 22/رجب المرجب1442ھ7/مارچ2021ء کو منعقد ہوئی۔
الحمدلله جامعہ فاروقیہ کراچی اوراس کی متعدد شاخوں میں ہزاروں طلبا پورا سال علم حاصل کرتے رہتے ہیں اور ہر سال سینکڑوں فضلاء سند فراغت حاصل کرتے ہیں اور جامعہ فاروقیہ کراچی کو یہ خصوصی امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس کے ہزاروں فضلاء نہ صرف پورے ملک میں دین کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، بلکہ بلا مبالغہ پوری دنیا میں جامعہ فاروقیہ کے فرزند الحمدلله علم کی اشاعت میں مصروف عمل ہیں۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی جامعہ میں سینکڑوں فضلاء کے سروں پر دستار فضیلت سجائی گئی۔
اس مبارک تقریب میں ملک کے جید علماء بھی شریک ہوئے، خصوصاً”شیخ الاسلام، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم، حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری دامت برکاتہم، حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب دامت برکاتہم۔
ان حضرات نے تقریب میں شرکت فرماکر مجمع کو قیمتی نصائح سے بھی نوازا مناسب معلوم ہوا کہ ان حضرات کے قیمتی نصائح کو قید کتابت میں لایا جائے، تاکہ ماہنامہ ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفیدہوں۔
ارادہ ہے کہ ان حضرات کے بیانات کو قسط وار ”الفاروق میں دیا جائے۔ الله تعالیٰ ان دینی مدارس کو تا قیامت شاد وآباد رکھے، او ران کا فیض یونہی جاری وساری رہے، اور ہمیں طلباء ،علما سے محبت او ران کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)
حضرت اقدس مولانا عبیدالله خالد صاحب زید مجدھم (مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی) نے فرمایا: میں دو باتیں عرض کروں گا، ایک بات اپنے نہایت ہی عزیز طلباء سے جن کے سروں پہ ابھی اساتذہ نے دستار فضیلت رکھی ہے، وہ یہ کہ یہ ادارہ جیسے تعلیمی ادارہ ہے، ایسے ہی روحانی اعتبار سے یہ ایک بجلی گھر ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اگر بجلی گھر سے علاقے کی جو لائنیں اور سپلائی ہے، اس کا تعلق رہتا ہے تو روشنی آتی ہے ، اور اگر خدا نخواستہ وہ تعلق ٹوٹ جائے، تو پھر اندھیرا پھیل جاتا ہے، میں آپ حضرات کی زیارت کر رہا ہوں، او ر آپ کو دیکھ رہا ہوں، اور میں نے اس جامعہ فاروقیہ کے فضلاء کو پورے ملک میں دیکھا ہے، چھوٹی چھوٹی بستیوں میں، چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں، قصبات میں، شہروں میں اور پوری دنیا میں الحمدلله ثم الحمد لله جامعہ فاروقیہ کے فضلا میں جہاں کہیں مشاہدہ کیا تو ہمیشہ الله تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا کہ بجلی ان میں بھری ہوئی ہے۔
میری درخواست ہے فضلاء سے کہ یہاں سے خوب بجلی بھر کر جائیں اور اس بجلی گھر سے اپنا تعلق قائم رکھیں #
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
شاخ تنے کے ساتھ جڑی رہے گی تو یہ سر سبزوشاداب ہوگی، اس میں پھول بھی آئیں گے، پھل بھی آئیں گے اس کا منظر بھی خوش نما ہو گا۔
آپ سے گزارش ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں حسن اخلاق کے ساتھ الله تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کے لیے خدمات انجام دیں اور اپنی مادر علمی سے اپنے اس مرکز سے آپ مسلسل رابطے میں رہیں اپنے اساتذہ سے رابطے میں رہیں، الله تعالیٰ آپ کی خدمات کو یقینا قبول فرمائیں گے اور آپ کے فیض کو پورے عالم میں جاری وساری فرمائیں گے۔
دوسری گزارش مجھے ان حضرات سے کرنی ہے جو ان فضلا کے اعزاز میں یہاں تشریف لائے ہیں، ان کی محبت میں یہاں تشریف لائے ہیں، میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہتا ہوں، الله تعالیٰ کی ذات پر مجھے پورا بھروسہ ہے کہ وہ ان رجال دین کو دیکھ کر جو آج خوشی محسوس کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ ان کا یہ عمل ان کی مغفرت کے لیے کافی ہوجائے، ان رجال دین کو مدارس کے طلباء کو احادیث کے حاملین کو دیکھنا یہ بھی اجر سے خالی نہیں، اس پر بھی الله تعالیٰ بہت کچھ عطا فرماتے ہیں۔
میں ان سے گزارش کروں گا کہ جیسے آج انہوں نے اس محبت کا اظہار فرمایا، ایسے ہی وہ آئندہ بھی ساری زندگی، دین او راہل دین سے محبت کریں او راس کی کوشش کریں کہ ان کی اولادیں بھی حافظ قرآن بنیں، ان کی اولادیں بھی اسی طرح عالم دین بنیں، میں اپنے عزیز طلبا سے آخر میں یہ وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ وہ یہاں سے جانے کے بعد علمی اشتغال رکھیں، درس وتدریس سے وابستہ رہیں۔
میرے والد ماجد رحمة الله علیہ نے اسی طرح ایک جلسے کے اختتام پر یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ وہ بڑے عجیب جملے ہیں۔
فرمایا: میں ساری زندگی مدرسے میں پڑھوں گا اور پڑھاؤں گا، تو ہمارے دادا جان رحمة الله علیہ نے یہ سن کہ کہا کہ مدرسے میں پڑھاؤگے تو اس سے تمہیں کیا ملے گا؟ اس سے تمہارے جوتوں کا خرچہ بھی پورا نہیں ہو گا، تو ہمارے والد صاحب نے فرمایا: نہیں میں مدرسے میں پڑھوں گا او رمیں مدرسے میں پڑھاؤں گا، پھر حضرت نے فرمایا کہ میں اب ستر سال بعد بھی وہی بات کہتا ہوں اپنے طلباء سے کہ جاؤ مدرسے کے اندر پڑھو اور مدرسے کے اندر پڑھاؤ، اسی میں کام یابی ہے، اسی سے دین کی حفاظت ہو گی، اسی سے یہ دین کا شجر سر سبز وشاداب ہو گا۔
تو میری آپ سے بھی گزارش اور درخواست ہے کہ آج ہم یہاں سے یہ عہد کرکے اٹھیں، ہمارے سروں پہ ہمارے اساتذہ نے دستار فضیلت رکھی ہے، کہ ہم جاکے اسی سلسلے کو جاری رکھیں گے مدرسے قائم کریں گے، ہم مکاتب قائم کریں گے، ہم مساجد کے اندر خدمات انجام دیں گے۔