تین معاشرتی احکام

تین معاشرتی احکام

مولانا محمد اسجد قاسمی

”أطعموا الجامع، وعودوا المریض، وفکوا العاني“․(بخاری)
ترجمہ:” بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور بیمار کی مزاج پرسی اور دیکھ بھال کرو اور قیدی کو رہائی دلاؤ۔“
تشریح: اس حدیث میں تین چیزوں کا حکم دیا گیا ہے۔

بھوکے کو کھانا کھلانا
بھوکے کو کھانا کھلانا بہت ہی اہم کام ہے، خصوصاً پڑوسی کے بارے میں بڑی سخت تاکید کی گئی ہے کہ اسے بھوکا نہ چھوڑا جائے۔

حدیث میں وارد ہوا ہے :”ما آمن بی من بات شبعان وجارہ جائع الی جنبہ وھو یعلم بہ“․(رواہ البزار والطبرانی فی الکبیر) وہ آدمی مجھ پر ایمان نہیں لایا اور وہ میری جماعت میں نہیں ہے جو اپنا پیٹ بھر کے رات کو بے فکری سے سو جائے ،جب کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہواور اس آدمی کو اس کے بھوکے ہونے کی خبر ہو۔

بھوکے کو کھلانے میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے، یہ حق غیر مسلم کا بھی ہے، بھوکے کو کھلانے ہی کے ضمن میں یتیموں کے کھانے پینے کی کفالت ، مدارس کے نادار طلبہ کے خوردونوش کی کفالت وغیرہ بھی شامل ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی ایک حدیث میں مزید تفصیل سے یہ بات بیان کی گئی ہے:”أیما مسلم کسا مسلماً ثوباً علی عُرًی کساہ اللہ من خُضُر الجنة، وأیما مسلم أطعم مسلماً علی جوع أطعمہ اللہ من ثمار الجنة، وأیما مسلم سقی مسلماً علی ظمأ سقاہ اللہ من الرحیق المختوم“․(ابوداؤد وترمذی) جو مسلمان کسی مسلمان کو عریانی کی حالت میں کپڑے پہنائے الله تعالیٰ اس کو جنت کے سبز جوڑے عطا فرمائے گا اور جو مسلمان کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے الله تعالیٰ اس کوجنت کے پھل او رمیوے کھلائے گا او رجو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی (یا کوئی مشروب) پلائے الله اس کو جنت کی نہایت نفیس شراب ِ طہور پلائے گا ،جس پر غیبی مہر لگی ہوگی۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھلانے ہی کے حکم میں پانی وغیرہ پلانا او رلباس پہنانا اور دیگر ضروریات کی تکمیل بھی ہے۔

بیمار کی عیادت
عیادت کا مطلب عام طور پر صرف بیمار کی مزاج پرسی او راس کا حال دریافت کرنا سمجھا جاتا ہے ، مگر عیادت کا لفظ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے، اس میں تیمار داری اور بقدرِ وسعت مریض کے علاج او ردوا کا انتظام بھی شامل ہے۔

عیادت کو اسلام میں بہت اہم قرار دیا گیا، عیادت صرف اجتماعی زندگی کی ایک ضرورت اور آپسی تعاون وہم دردی وغم خواری کے جذبات کو ابھارنے کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا دینی ومذہبیحق ہے، نیزیہ خدا وند قدوس سے تعلق او رمحبت کا لازمی تقاضا بھی ہے، خدا سے تعلق رکھنے والا بندہ خدا کے بندوں سے لاتعلق نہیں ہوسکتا، مریض کی عیادت سے غفلت دراصل خدا سے غفلت ہے، اسی لیے عیادت کی تاکید مختلف حدیثوں میں مختلف انداز سے کی گئی ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے ”قیامت کے دن الله تعالیٰ فرمائے گا:اے فرزند آدم! میں بیمار ہوا اور تونے میری عیادت نہیں کی، بندہ عرض کرے گا! پروردگار! آپ ساری کائنات کے مالک ہیں، بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرسکتا تھا؟ خدا وندی قدوس فرمائے گا، میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تونے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے وہاں پاتا ( میری خوش نودی ورحمت کا مستحق قرار پاتا) اسی حدیث میں آگے چل کر بھوکے کو کھلانے او رپیاسے کو پلانے کا ذکر بھی اسی انداز میں کیا گیا ہے کہ اے فرزند آدم! میں بھوکا ہوا ،پر تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا، بندہ عرض کرے گا! خدایا! آپ رب العالمین ہیں، میں آپ کو کھانا کیسے کھلا سکتا تھا؟ الله تعالیٰ فرمائے گا! میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تو تونے اسے کھانا نہیں کھلایا، اگر تو اسے کھلاتا تو تو مجھے پاتا، اے فرزند آدم! میں پیاسا ہوا مگر تونے مجھے پانی نہیں پلایا، بندہ عرض کرے گا! خدایا! آپ سارے جہانوں کے رب ہیں، میں آپ کو پانی کیسے پلاسکتا تھا؟ الله فرمائے گا: میرا فلاں بندہ پیاسا تھا تو تونے اسے پانی نہیں پلایا، اگر تو اسے پانی پلاتا تو مجھے پاتا۔ (مسلم)

ایک حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”حق المسلم علی المسلم خمس: رد السلام، وعیادة المریض، واتباع الجنائز، واجابة الدعوة، وتشمیت العاطس“․( بخاری ومسلم) ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں۔

سلام کا جواب دینا مریض کی عیادت جنازہ کے ساتھ جانا دعوت قبول کرنا چھینک کر الحمدلله کہنے والے کے جواب میں یرحمک الله کہنا۔

ترمذی کی ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جب کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی عیادت یا زیارت کو جاتا ہے تو ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے:”طبت وطاب ممشاک، وتبوأت من الجنة منزلا“ تم اچھے رہے او رتمہارا چلنااچھا رہا اورتم نے اپنے لیے جنت میں ٹھکانا بنا لیا۔ (ترمذی) ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ مسلمان بھائی کی عیادت کرنے والا جنت کے بالا خانے میں ہو گا۔ (الادب المفرد) عیادت کے آداب بھی احادیث میں بتائے گئے ہیں، جن کا کچھ ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

مریض کے پاس جاکر اس کا حال پوچھنا او رتسلّی وتشقی کے الفاظ کہنا، اس کے لیے حدیث میں”لابأس طھور إن شاء الله“ (گھبرانے کی کوئی بات نہیں، خدا نے چاہا تو یہ مرض جاتا رہے گا او رگناہوں سے پاکی کا ذریعہ ثابت ہو گا) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔

مریض کی صحت کے لیے دعا کرنا، احادیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ معمول بتایا گیا ہے کہ آپ کسی مریض کے پاس جاتے تو اپنا داہنا ہاتھ اس پر پھیرتے اور یہ دعا کرتے:” أذھب الباس رب الناس، واشف أنت الشافی، لا شفاء إلا شفاؤک، شفاءً لا یغادر سقما“․(بخاری ومسلم)

اے لوگوں کے رب ! اس تکلیف کو دور فرما او راس کو شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کسی سے شفا کی توقع نہیں، ایسی شفاف بخش کہ بیماری کا نام ونشان تک باقی نہ رہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ دعا بھی ثابت ہے :”أسأل الله العظیم رب العرش العظیم أن یشفیک“ میں عظیم خدا سے، جو عرش عظیم کا رب ہے، یہ سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفاف بخشے۔ ابن عباس رضی الله عنہ کے بیان کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم یہ دعا مریض کے پاس سات بار پڑھتے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ دعا سات بار پڑھنے سے مریض ضرور شفا یاب ہو گا، الایہ کہ اس کی موت ہی آگئی ہو۔ (ترمذی)

مریض سے اپنے لیے بھی دعا کی درخواست کرنا، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ ”إذا دخلت علی مریض فمرہ أن یدعو لک، فان دعائہ کدعاء الملائکة“ (ابن ماجہ) جب تم کسی مریض کی عیادت کو جاؤ تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو، مریض کی دعا ایسی ہے جیسے فرشتوں کی دعا (فرشتوں کی دعا قبول ہوتی ہے تو مریض کی دعا بھی قبول ہوگی۔)

مریض کے پاس بہت دیرتک نہ بیٹھنا کہ وہ اُکتا جائے، نیز وہاں شور وہنگامہ نہ کرنا، ہاں! اگر مریض عزیز ورشتہ دارو ہو یا بے تکلف ساتھی ہو اور وہ دیرتک ساتھ رہنا چاہتا ہوتو دیر تک بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مریض کے اہل خانہ سے بھی اس کا حال پوچھنا ، ہم دردی ظاہر کرنا او رہر ممکن تعاون میں دریغ نہ کرنا، مالی امداد کی ضرورت ہو تو اس میں بھی سبقت کرنا وغیرہ۔

عیادت کے سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جو لوگ علی الاعلان معاصی کا ارتکاب کریں ، فسق وفجور کریں، ان کی عیادت نہ کرنی چاہیے، حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ ”شرابی بیمار کی عیادت کو نہ جاؤ“ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ علی الاعلان عمداً گناہ کرکے نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہر کر رہا ہے اور دین کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔

البتہ غیر مسلم مریض (بشرطیکہ وہ سازشی او رمتعصب نہ ہو) کی عیادت کے لیے جانا چاہیے او رحکمت کے ساتھ دین ِ اسلام کی طرف متوجہ بھی کرنا چاہیے، بیماری میں انسان خدا کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے، اس لیے قبولِ حق کے جذبات اور مواقع وامکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

حضرت انس رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خادم تھا، ایک مرتبہ وہ بیمار ہوا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے سرہانے بیٹھے اور اسے دعوت ِ اسلام دی، لڑکا اپنے والد کو دیکھنے لگا، باپ نے کہا! تم بات مان لو، چناں چہ وہ مسلمان ہو گیا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے باہر آکر فرمایا، الله کا شکر ہے جس نے اس لڑکے کو جہنم سے بچا لیا۔ (بخاری)

بہرحال عیادت بڑی فضیلت والا عمل ہے، اس میں دنیا وآخرت دونوں جہاں میں اچھے ثمرات ومنافع ملتے ہیں، یہ دنیا میں بھی خدا کی رضا، برکت رزق ، سکون ِ قلب، حسن ِ اخلاق او رعلم وعمل کی توفیق کا ذریعہ ہے اورآخرت میں بھی جنت اور ابدی راحت کا سبب ہے، ایک بزرگ کا قول ہے :”العیادة خیر من العبادة“ عیادت(نفلی) عبادت سے لفظاً، معناً، رُتبةً اور عدداً ہر طرح فائق ہے، کیوں کہ عیادت میں یا او رعبادت میں با ہے، تو عیادت میں ایک نقطہ زائد ہے، اسی طرح ”ی“ کے عدد دس ہیں اور ”ب“ کے دو، نیز عیادت میں نفع رسانی ودل جوئی ہے اور عبادت میں نفع اندوزوی ہے، ظاہر ہے کہ نفع رسانی نفع اندوزی سے افضل ہے، پھر عیادت میں الله کی رضا جوئی کے لیے خدمت خلق ہے او رعبادت میں صرف الله کی رضا جوئی ہے #
          طریقت بجز خدمت خلق نیست
          بہ تسبیح وسجادہ ودلق نیست

قیدی کو رہائی دلانا
اس سے وہی قیدی مراد ہیں جو ناحق گرفتار ہوں یا ان کی رہائی سے خیر او رنیکی کی توقع ہو تو ایسے قیدیوں کو آزاد کرانا افضل عمل ہے، کسی کو قرض کی ادائیگی نہ کرسکنے پر گرفتار کیا گیا ہو تو اس کو بھی آزاد کرانا اور قرض ادا کرنے میں تعاون کرنا بھی کار ِ ثواب ہے، نیر غلاموں کو ظالم مالکوں سے آزادہ کرانا بھی اس میں شامل ہے۔

یہ تین احکام فر ضِ عین تو نہیں ہیں، ہر ایک پر لازم نہیں ہیں، مگر حسب مراتب ان کی اہمیت او رلزوم زیادہ ہوتا جاتا ہے، عیادت کو فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے، بعض حضرات نے ان تینوں احکام کو واجب کفایہ قرار دیا ہے، بہرحال یہ احکام واجب ہی کی سی اہمیت رکھتے ہیں، ان پر عمل کرنا مطلوب ہے ،نہ کہ ان کی حیثیت اور درجہ کے تعین کے پیچھے پڑنا۔