حضرت ابو ذرغفاری فرماتے ہیں کہ:میرے محبوب صلی الله علیہ وسلم نے مجھے (نصیحت کرتے ہوئے)ارشاد فرمایا:“تم جہاں کہیں بھی رہو اللہ سے ڈرو! خطا ہوجانے کے بعد نیکی کرلو کہ وہ برائی کو مٹا دیتی ہے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آوٴ!۔(ترمذی شریف)
حضرت ابوذر کون؟
حضرت ابوذر غفاری کاشماران خوش نصیب صحابہ میں ہوتا ہے جوپہلے پہل اسلام قبول کرنے والوں میں تھے اور مسلمان ہونے سے قبل بھی توحید پرست اور عبادت گزار تھے۔ سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں آپ چوتھے یا پانچویں نمبر پر آتے ہیں ۔ آپ مزاجاًزاہد وقانع ، تارک الدنیا اور شب زندہ دارتھے۔ آپ کا شمار صُفہ کے ان قابل قدرتلامذہ میں ہوتا ہے جن کے بارے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ حضرات جنت میں میرے قریب تر ہوں گے۔آپ کانام نامی :جندب، کنیت: ابوذراور والد کا نام جنادہ ہے۔ آپ کا سراپاکچھ اس طرح ہے:قد دراز، رنگ سیاہی مائل، داڑھی گھنی، آخری عمر میں بال بالکل سفید ہو گئے تھے۔ (ابن سعد:4/169)) غزوہ خندق کے بعد سے سارا وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رہے، اس سے پہلے اپنے قبیلہ غفار میں تھے۔(مسند احمد:5/174)) حضرت عثمان کے کہنے پر مقام”ربذہ“ میں قیام پذیر رہے اور وہیں پروصال فرمایا۔ وفات کے بعد ایک یمنی قافلہ کوفہ سے آرہا تھا،جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود بھی تھے،جب اس جگہ پر پہنچے اور وفات کا علم ہوا تو انہوں نے ہی آپ کو غسل دے کر نماز جنازہ پڑھائی اور اسی جگہ پرتدفین عمل میں آئی۔ (الاصابة)
جوامع الکلم کسے کہتے ہیں ؟
نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مجھے چھ وجوہ سے انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: مجھے جوامع الکلم عطا فرمائے گئے۔ رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی۔ میرے لیے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا۔ میرے لیے تمام روئے زمین‘ پاک کرنے والی اور نماز کی جگہ بنا دی گئی۔مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر)بھیجا گیا۔ مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد)جن چھ باتوں میں نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء پر فوقیت عطا کی گئی ہے من جملہ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کوجوامع الکلم عطا کیے گئے، یعنی اللہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ایسی باتیں بتلائی ہیں اورآپ کی زبان حق شناس سے وہ جملے کہلوائے ہیں، جو اپنے الفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر؛مگر اپنے معنی کے اعتبار سے نہایت جامع ہیں۔
بعض شراح نے جوامع الکلم کا مصداق قرآن پاک کی آیات کو بھی قرار دیا ہے؛کیوں کہ قرآن پاک آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیا گیا ہے جس کے بارے میں ”أوتیت“ کالفظ استعمال ہوا ہے۔چناں چہ جوامع الکلم کاایک مصداق قرآن پاک کی آیات ہیں، ان کی جامعیت کا کیا کہنا!وہ توسراپا اعجازہیں؛مگر اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے جو ارشادات ہیں وہ بھی جوامع الکلم کا مصداق ہیں اور علمانے اس جہت سے بھی مستقل کام کیاہے، مثلاََ علامہ ابن رجب حنبلی نے” جامع العلوم و الحکم فی شرح خمسین حدیثا من جوامع الکلم“اسی طرح مولانا عاشق الہی صاحب نے“ زاد الطالبین“ اورعلامہ محمد عوامہ کے صاحبزادے محی الدین صاحب نے بھی اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے اور پہلے بھی متعدد کتابیں اس موضوع پر لکھی جاچکی ہیں؛جن میں ان احادیث کو جمع کیا گیا،جو الفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر اور معنی کے اعتبار سے بہت جامع ہیں۔ مثلاً:”إنما الأعمال بالنیات“ اوراس طرح کی روایتیں۔
حضرت ابوذر سے منقول آپ کی یہ تین نصیحتیں بھی جوامع الکلم میں داخل ہیں، جو اختصار کے باوجود بہت ہی جامع اور اثرانگیز ہیں۔اب ہر ایک کی مختصر تشریح ملاحظہ ہو!
جہاں کہیں رہو،اللہ سے ڈرو!
تم اللہ سے ڈرتے رہو جہاں کہیں بھی رہو!جہاں کہیں کے معنی میں بڑا عموم ہے ۔خلوت میں رہو،جلوت میں رہو،اپنے متعارف لوگوں میں رہو یا اجنبی لوگوں میں رہو،مسجد میں رہو یا گھر اور بازار میں رہو،عبادت میں مشغول رہو یا دنیاوی کاموں میں لگے رہو،جس جگہ بھی ہو،جس حالت میں بھی ہو، جس کام میں بھی ہو ہر آن یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے،ہمارے ظاہر وباطن سے واقف ہے۔ہم اپنے ان ظاہری اعضاء و جوارح یعنی ہاتھ،پیر ، آنکھ ، کان ، زبان سے جو کچھ کر رہے ہیں ان کو بھی وہ دیکھ رہا ،سن رہا اورجان رہا ہے۔ اور جو ہمارے اندر کے چھپے ہوئے بڑے گناہ ہیں،تکبر ،حسد، بد گمانی وغیرہ ان کو بھی اللہ تعالی جانتا ہے۔ خود اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: اللہ تعالی نگاہوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور سینوں میں جو چیزیں چھپی ہوئی ہیں ان کو بھی جانتا ہے۔(غافر)
چوریاں آنکھوں کی اور سینوں کے راز
جانتا ہے سب کو تو اے بے نیاز
لہٰذا ہمیشہ یہ بات پیش نظر رہے کہ کہیں کوئی کام مجھ سے ایسا صادر نہ ہو جائے جو اللہ تعالی کو نا راض کرنے والا ہو۔روایت میں تقوی اختیار کرنے کا حکم ہے؛جس کی بہترین تفسیر حضرت اُبی بن کعب نے حضرت عمر بن الخطاب کے استفسارپر بیان فرمائی ( اِن کا سوال کرنا اور ان کا جواب دینا امت کی تعلیم کے لیے تھا“ ورنہ یہ بات نہیں تھی کہ جس کو حضرت ابی ابن کعب بیان فرمارہیں ہے ،حضرت عمر اس کو نہیں جانتے) حضرت عمر نے حضرت ابی بن کعب سے پوچھا :تقوی کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: امیر المو منین! کبھی آپ کا گذر ایسے راستے سے ہوا ہے جہاں دونو ں طرف کانٹے دار جھاڑیاں ہو؟فرمایا: ہاں! بارہا ہوا ہے۔ فرمایا: ایسے راستے سے گذرتے ہوئے کیا کرتے ہیں؟ فرمایا: اپنے کپڑوں کو،اپنے بدن کو سمیٹ کر، درمیان سے، احتیاط کے ساتھ نکل جاتے ہیں کہ کہیں کوئی کانٹا کپڑے کو نہ لگ جائے اوربدن کو نہ چبھ جائے۔حضرت اُبی نے فرمایا: اسی کا نام تقوی ہے۔ نفس وشیطان کے مکر و فریب،خراب ماحول کے اثرات اور گناہ کی دعوت دینے والی نہ جانے کتنی چیزیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، ان کے درمیان سے اپنے دامن کو بچا کر نکلنا کہ کہیں کوئی گناہ اوراللہ کی نا فرما نی نہ ہوجائے، اسی احتیاط و تیقظ کا نا م تقوی ہے۔ تقوی کوئی الگ عمل نہیں، جیسے نماز،روزہ اور زکاة مستقل عمل ہے؛ بلکہ تقوی صرف اس کا نام ہے کہ ہر وقت اس پر نگاہ رہے کہ ہم سے کوئی غلطی نہ ہو جائے،چناں چہ خود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے قلب اطہر کی طرف اشارہ کرکے تین مرتبہ فرمایا: تقوی یہاں ہوتا ہے،تقوی یہاں ہوتا ہے،تقوی یہاں ہوتا ہے، یعنی دل میں اللہ کا خوف ہو اور یہ خوف بھی کیسا؟ جو عظمت وجلال کے ساتھ ہو۔ایک خوف چور ڈاکو اوردرندوں سے ہوتا ہے اور ایک خوف اپنے شیخ ،اپنے استاذ اور اپنے والد سے ہوتا ہے کہ کوئی کام ہم سے ایسا نہ ہوجائے جس سے ہمارے استاذ، والداور شیخ ہم سے ناراض ہو جائیں۔ اللہ کے تئیں اس طرح کا خوف ہو۔ اس کی عظمت ورفعت، اس کے انعامات واحسانات، اس کی جلالت ومنزلت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ہم حقیر بندے ہیں، اس کی نعمتوں میں سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے ہیں،لہٰذا اس کی بندگی کے تقاضے کے خلاف کوئی کام ہم سے نہ ہوجائے۔
اگر کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً نیکی کرلو!
دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ تم برائی کے بعد نیکی کرلیا کرو، جو اس کو مٹادے۔نامہٴ اعمال میں ہر نیک اور برا عمل لکھا جاتا ہے،جیساکہ ارشاد باری ہے:“پس جوکوئی ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو قیامت میں پائے گا اور جو کوئی ذرہ برابربرائی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا ”۔(الزلزال)قیامت کے دن جب انسان کا نامہٴ اعمال سامنے آئے گاتو وہ کہے گا : یہ کیسا نامہٴ اعمال ہے؟ یہ کیسی کتاب ہے؟جس نے چھوٹی بڑی کسی چیز کو نہیں چھوڑا، اس نے سب کو ضبط کرلیا اور اللہ تعالی فرماتا ہے کہ پوری زندگی کے تمام اعمال کو وہ اپنے سامنے موجود پائے گا،نیز تمہارا رب کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔جو کیا ہے وہی سامنے آئے گا؛لہٰذا اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جب کبھی گناہ ہوجائے فورا نیک عمل کے ذریعے اس کی تلافی کرلیں۔علماء فرما تے ہیں کہ اس کو بھی دیکھنا چاہیے کہ کونسی بدی کو مٹانے کے لیے کونسی نیکی چاہیے؟ایسا نہیں ہے کہ ہر بدی کو ہر نیکی مٹادے گی، نماز چھوڑی ہے اور نماز چھوڑکرصدقہ کرنا چاہتے ہیں، اس سے وہ معاف نہیں ہوگی۔ کسی کاحق دبالیاہے اور روزہ ر کھ کر اس کی تلافی کرنا چاہتے ہیں، اس سے وہ برائی ختم نہیں ہوگی۔جس گناہ کے لیے شریعت نے جو نیکی متعین کی ہے وہی انجام دینی ہوگی،قسم توڑی تو کفارہ ادا کرنا پڑے گا، فجر میں آنکھ نہیں کھلی اور صبح ہوگئی تو اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من نام عن صلوة أونسیھا فلیصلھا إذا ذکرھا“اٹھ کے فورا نماز پڑھنا ہی اس کا کفارہ ہے۔
ہاں! کچھ ایسی بھی چیزیں ہیں جن کا کوئی متعین کفارہ نہیں ،جیسے زبان سے جھوٹ نکل گیاتو توبہ کرو،کچھ صدقہ خیرات کرلو، کوئی نیکی کرلو، اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔
الغرض…اس نصیحت کا حاصل یہ نکلا جہاں نامہٴ اعمال میں برائیاں درج ہورہی ہیں تو ان کو مٹانے کے لیے نیکیوں کی بھی فکر کرو ؛تاکہ نتیجہ کے طور پر نیکیوں کا پلہ بھاری رہے اور یہ اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کا بہانہ بنے؛کیوں کہ کامیابی تو اللہ کی رحمت سے ہوگی ،ہمارے اعمال کے اندر کوئی دم نہیں ہے؛ لیکن اللہ تعالی جب دیکھے گا کہ بندے نے اپنی طا قت بھر محنت کی ہے تو ان کو رحم آجائے گا اوروہ اپنی رحمت سے ان شاء اللہ بیڑا پار کردیں گے۔
لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آوٴ!
تیسری نصیحت فرمائی لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاوٴکیا کرو،اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آوٴ! اخلاق کاتعلق حقیقت میں قلب کی کیفیت سے ہے اور عمل سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم اپنے اندر شفقت پیداکریں، محبت پیدا کریں،تواضع پیدا کریں، ایثار پیدا کریں، یہ اخلاق حسنہ ہیں اور پھر اپنے عمل سے اس کا اظہار کریں کہ بڑوں کے ساتھ احترام کا معاملہ ہو،چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا برتاوٴہو،کمزوروں کے ساتھ امداداور راحت رسانی کا رویہ ہو،اسی طرح رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایاکہ مسکراتے چہرے کے ساتھ کسی سے ملاقات کرلینا بھی ایک صدقہ ہے۔لہٰذا ہم اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں اور یہی وہ اچھے اخلاق ہیں جو قیامت کے دن نامہٴ اعمال کے ترازو میں سب سے وزنی ثابت ہوں گے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن نامہٴ اعمال کے ترازو میں سب سے وزنی چیز اخلاق حسنہ ہوں گے۔(مشکوة) اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیا مت کے دن میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو اچھے اخلاق والے ہو ں۔ (مشکوة)اور اچھے اخلاق کامطلب یہ ہے کہ جب اخلاق کو متاثر کرنے والی کوئی چیز پیش آئے اس وقت آدمی اپنے آپ کو قابو میں رکھے،عام حالات میں تو ہر آدمی بڑا مسکرا کر بات کررہا ہے،بڑی خوش مزاجی کے ساتھ پیش آرہاہے؛ لیکن اس کے ساتھ کوئی زیادتی ہوجائے،کوئی بد تمیزی کردے، کوئی گستاخی کردے اس وقت دیکھا جائے گا کہ اس کے اخلاق کیسے ہیں۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا مشاہدہ کیاجائے! پوری تاریخ پڑھ لی جائے، سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرلیا جائے ،حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے پوری زندگی اپنی ذات کے سلسلہ میں کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، حالاں کہ شریعت نے اجازت دی ہے کہ جتنی زیادتی ہوئی اتنا بدلہ لیا جاسکتا ہے؛ مگر آپ نے اپنی ذات کے سلسلہ میں انتقام نہیں لیا،نبوت سے پہلے بھی، نبوت کے بعد بھی۔طائف کا واقعہ ہمارے سامنے ہے! فرشتہ آکرکہتا ہے کہ آپ اجازت دیں تو اس بستی والوں کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دیا جائے! آپ فرماتے ہیں کہ میں تو یہ امید رکھتاہوں کہ ان کی اولاد میں کوئی ایمان والا پیدا ہوگا،پھر اللہ ان سے دین کا کام لیں گے۔ ایک موقع پرکسی نے کہہ دیا کہ یا رسول اللہ! فلاں کے لیے بد دعا کردیجیے! آپ فرماتے ہیں کہ میں لعان (لعنت کرنے والا) بنا کے نہیں بھیجا گیا ہو۔
پچھلی آسمانی کتابوں میں بھی آپ کے تعلق سے کیا کہا گیاکہ آپ فطرتا بد گوئی کرنے والے ہوں گے نہ بہ تکلف بد گوئی کرنے والے ہوں گے،نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہوں گے، برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیں گے در گذر اورمعافی سے کام لیں گے(شمائل ترمذی)۔
یہی وہ صفات ہیں؛ جن کو سامنے رکھ کر اہل کتاب نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا امتحان لیا اور پہچان کر دولت ایمان سے مشرف ہوئے۔آج اخلاقی زبوں حالی کے اس دور میں اپنے اندر اخلاق نبوی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں،تاکہ دین و دنیا میں سرفراز اور بامراد ہوسکیں۔
یہ کل تین نصیحتیں ہوئیں
اللہ سے ڈرتے رہو جہاں کہی بھی رہو، برائی ہو جائے تو کوئی نیکی کرلو، تاکہ اس برائی کو مٹادے اورلوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آوٴ۔ اللہ تعالی ہم سب کوان پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!