رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: عربی زبان بولنے والے کو اس شخص پر فضیلت حاصل نہیں ہے جو عربی نہیں بولتا ہے اور جو عربی نہیں بولتا اس کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے عربی بولنے والے پر۔ اسی طرح رنگ کی وجہ سے بھی فضیلت حاصل نہیں ہوتی۔ اگر کسی کا رنگ سفید ہے تو اس کو کالے پر فضیلت نہیں ہے اور کسی کا رنگ کالا ہے تو اس کو سفید پر فضیلت نہیں ہے۔ سارے ہی آدم کی اولاد ہیں اور آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ چوں کہ پیدائش ہی مٹی سے ہے، اس لیے غرور کا سوال ہی نہیں۔ مٹی تو خاکساری کا مظہر ہے۔ اس میں انکساری اور تواضع جس درجے کی ہے اتنی کسی دوسری چیز میں نظر نہیں آتی۔ گویا جب آدم کا خمیر مٹی سے اٹھایا گیا ہے تو اس کا اثر ان کے اندر اور ان کی اولاد کے اندر ہونا چاہیے اور غرور اور تکبر اورفخر نہیں پایا جانا چاہیے۔اس کے بعد نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جس کو توفیق عطا فرمائیں وہ نیکی اختیار کرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے اور نیکی اور تقویٰ اختیار کر کے وہ اللہ کا محبوب اور پسندیدہ بن جاتا ہے۔ ورنہ تکبر کرنے والے تو بہت گزرے ہیں، مگر بالآخر خاک میں مل گئے، نام و نشان باقی نہ رہا، عزت حاصل نہیں ہوئی ۔ ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنی۔
حضرت نوح علیہ الصلوٰة والسلام کی قوم نے ان کا مذاق اڑایا، ان کے ساتھ تمسخر کیا۔ ساڑھے نو سو سال تک حضرت نوح علیہ الصلوٰة والسلام نے دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا ہے، لیکن وہ ان کی بات نہ مانتے تھے، بلکہ ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غرق ہوگئے، تباہ اور برباد ہوگئے، جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نوح علیہ الصلوٰة والسلام اور دیگر ایمان والوں کو نجات عطا فرمائی اور عزت بخشی۔حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے مقابلے میں نمرود نے تکبر کیا اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کو نقصان پہنچانے کی خاطر جو اس کے بس میں تھا وہ سب کچھ کر ڈالا ،لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کوعزت عطا فرمائی اور وہ خوار ہوگیا۔ تباہ و برباد ہوگیا۔ نمرود کا نام ذلت اور خواری کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔فرعون نے حضرت موسی علیہ الصلوٰة والسلام کے مقابلے میں تکبر کیا اور ”اَناَ رَبُّکُمُ الأَعْلٰی“
کہا کہ تمہارا سب سے بڑا پروردگار اور رب تو میں ہوں۔ حضرت موسی علیہ الصلوٰة والسلام کی دعوت کو سننے کے بعد کہنے لگا آسمان تک جانے کے لیے اونچا محل بناؤ ۔ وہاں دیکھتا ہوں کہ ان کا ربّ کہیں موجود ہے؟ ظاہر ہے کہ کون ایسا محل بنا سکتا تھا اور کس طرح سے آسمان پر جا کر وہ اس محل سے موسی علیہ الصلوٰة والسلام کے رب کو دیکھ سکتا تھا؟ لیکن اس کا مقصد حضرت موسی علیہ الصلوٰة والسلام کی توہین اورتحقیر تھا۔ انجام کار یہ کہ اس کو ناکام ہونا پڑا اور وہ بھی غرق دریا ہوگیا۔