جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی باطنی دنیا صحت مند ہو، دل کے امراض دور ہو جائیں، رضائے خداوندی حاصل ہو اور وہ عذاب جہنم سے محفوظ رہے تو اس کی راہ کا پہلا قدما”توبہ“ ہے
عام طو رپر لوگوں کے ذہن میں ”توبہ“ کا مفہوم یہ ہے کہ صرف زبان سے”أستغفرالله ربي من کل ذنب وأتوب الیہ“
کا ورد کر لیں، حالاں کہ یہ بڑی غلط فہمی ہے۔ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اپنے پچھلے گناہوں پر حسرت وندامت ہو، حتی الامکان اس کے تدارک کی فکر کی جائے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے بچنے کا مکمل عزم ہو تو یہ حقیقی توبہ کہلائے گی۔
امام غزالی رحمہ الله نے اس بات کوبڑی اچھی طرح سمجھایا ہے، وہ فرماتے ہیں اس دنیا میں ”خیر“ اور”شر“ ملے جلے رہتے ہیں، اس میں ”تقوی“ کے دواعی بھیموجود ہیں اور فسق وفجور کے بھی، بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو نیکی کی ترغیب دیتی ہیں او ربہت سی وہ ہیں جو بندہ میں گناہ کرنے کا داعیہ پیدا کرتی ہیں، اب بندے کا فرض ہے کہ گناہ کے دواعی کو مغلوب کرکے نیکی کے دواعی کو اس پر غالب کرے۔
امام غزالی رحمہ الله فرماتے ہیں اس کی مثال اس ”سونے“ کی سی ہے، جس میں کھوٹ ملا ہوا ہو، ظاہر ہے ایسے سونے سے اس وقت تک کام نہیں لے سکتے جب تک کہ سونے کو کھوٹ سے الگ نہ کر لیں، جس کا واحد ذریعہ آگ کی تپش ہے، یہ آگ کی تپش ہی سونے کو کھوٹ سے جدا کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح انسان کے ”نیک“ کو”بد“ سے ممتاز کرنے کے لیے بھی ”تپش“ کی ضرورت ہے، یہ ”تپش“جو انسان کو کھوٹ سے نجات عطا کرتی ہے دو طرح کی ہے ،ایک عذاب جہنم کی تپش، کیوں کہ مومن کے لیے جہنم کی آگ بھی درحقیقت کھوٹ ہی کو الگ کرنے کے لیے ہوگی، محض جلانا مقصد نہیں ہو گا، بلکہ پاک صاف کرکے جنت میں داخل کرنا مقصود ہو گا، بخلاف کافروں کے کہ انہیں وائمی طور پر جلنے ہی کے لیے جہنم میں ڈالا جائے گا۔
دوسری قسم کی ”تپش“حسرت وندامت کی تپش ہے، یہ ایسی آگ ہے جو اس دنیا میں کھوٹ کو پگھلا سکتی ہے۔ امام غزالی رحمہ الله فرماتے ہیں انسان کو کھوٹ سے نجات حاصل کرنے لیے ان دو قسموں میں سے کسی ایک قسم کی آگ میں جلنا ضروری ہے، اب اگر وہ چاہے تو جہنم کی آگ کو اختیارکر لے اور اگر یہ بات اسے مشکل معلوم ہوتی ہے چناں چہ واقعتا بھی یہ بڑی مشکل ہے تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ اسی دنیا میں اپنے دل کے اندر حسرت وندامت کی تپش اور سوزش پیدا کرے، اسی تپش اور سوزش کا نام ”توبہ“ ہے۔ اسی لیے حدیث میں ارشاد فرمایا گیا:”توبہ ندامت ہی کانام ہے۔“
توبہ کے تین درجے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ندامت کس طرح پیدا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ندامت پیدا کرنے کا واحد ذریعہ ”علم“ ہے ،کیوں کہ جب تک آدمی کو یہ معلوم نہ ہو کہ میں نے جو کام کیا ہے وہ غلط یا مضر تھا، اسے اپنے کیے پر کبھی پشیمانی نہیں ہوگی، جس شخص کو یہی پتہ نہ ہو کہ جو چیز میں نے کھائی ہے وہ زہر تھی اسے ندامت کیسے ہو؟ ندامت اسی وقت ہو سکتی ہے جب اسے یہ علم ہو کہ میں نے زہر کھایا ہے اور یہ میرے لیے مہلک ہے۔
بالکل اسی طرح جب تک آدمی کو یہ علم نہ ہو کہ جو کام میں نے کیا ہے وہ بُرا ہے ناجائز یا عذاب جہنم کا موجب ہے تو اس وقت تک اسے اپنے اس فعل پر ندامت نہیں ہوسکتی، لہٰذا اگر ”ندامت“ کی تپش پیدا کرنی ہے تو اس کا پہلا راستہ یہ ہے کہ گناہ کے گناہ ہونے کا علم پیدا کیا جائے اور علم بھی محض رسمی اور لفظی علم نہیں، بلکہ ایسا علم جو دل میں فکر آخرت ، خوف خدا او ر گناہ کی نفرت پیدا کرے۔ اسی لیے قرآن کریم نے الله سے ڈرنے کو علم کی علامت قرار دیا ہے۔ ارشاد بار ی تعالیٰ ہے:
”الله کے بندوں میں سے جاننے والے ہی اس سے ڈرتے ہیں۔“ جس شخص کے دل میں خوف خدا وفکر آخرت نہ ہو اور جسے گناہوں کی تباہ کاری کا علم یقین حاصل نہ ہو وہ عالم نہیں، بدترین جاہل ہے۔ جب تک گناہوں کے بارے میں یہ یقینی علم حاصل نہ ہو کہ وہ ظاہری طور پر کتنے ہی نظر فریب کیوں نہ ہوں، حقیقت میں آگ کے انگارے ہیں، قرآن کریم کی اصطلاح میں انسان عالم نہیں کہلاسکتا اور نہ اس کے بغیر توبہ کی حقیقت حاصل ہوسکتی ہے۔
اس علم کو پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن وسنت میں غور کرکے گناہوں کے وبال اور عذاب کا استحضار پیدا کیا جائے او ران کی تباہ کاریوں کو مراقبہ کے ذریعے ذہن میں خوب اچھی طرح جمایا اوربٹھایا جائے۔ اس ”علم“ کے بعد توبہ کا دوسرا درجہ ”ندامت“ ہے ، ظاہر ہے کہ جب کسی شخص کو کسی ناجائز فعل کے تباہ کن ہونے کا یقینی علم حاصل ہو جائے گا تو اگر اس نے ماضی میں وہ ناجائز فعل کیا ہے تو اس کو لازماً اپنے کیے پر ”ندامت“ اور پشیمانی ہوگی۔
اس کے بعد تیسرا درجہ ”تدارک“ ہے، جس کے لیے دو کام کرنے ضروری ہیں، : اول آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم، دوم ماضی میں جو گناہ ہوئے ہیں، اگر وہ حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کی حتی المقدور ادائی، مثلاً اگر کسی کا مال غصب کیا ہے تو اسے واپس کیا جائے، کسی کو ہاتھ یا زبان سے تکلیف پہنچائی ہے تو اس کے بدلے کے لیے تیار ہو کر اس سے معافی کی درخواست کرنا وغیرہ۔
او راگر وہ گناہ حقوق الله سے تعلق رکھتے ہوں تو جن گناہوں کا قضا یا کفارہ سے تدارک ممکن ہو ان کا اسی طرح تدارک کرنا، مثلاً اگر نمازیں یا روزے چھوڑ دیے ہیں تو ان کی قضا کی جائے یا اگر قسم کھا کر توڑی ہے تو اس کا کفار ادا کیا جائے او راگر گناہ ایسا ہے کہ شریعت میں قضا یا کفارہ کے ذریعے اس کا تدارک ممکن نہیں ہے تو پھر الله تعالیٰ سے پوری عاجزی کے ساتھ استغفار کیا جائے۔ الله تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنے گناہوں کی بروقت توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!