ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
علمی دھاک بٹھا کر دجل و تلبیس کا مظاہرہ
مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:
”آج یہ جو بڑے بڑے فرنگی”محققین“یہودی و مسیحی مستشرقین نے فرنگی زبانوں میں سیرت نبوی لکھنے کا طریقہ اختیار کیا ہے کہ اپنے علم و تحقیق، وسعت مشرب و بے تعصبی کی دھاک بٹھا کر تمہید بڑے زور کی اٹھاتے ہیں اور معلوم یہ ہونے لگتا ہے کہ ”پیغمبر عرب“اور ”مصلح عالم“کی نعت اور ”مقنن اعظم“ اور ”مثیل موسیٰ“کی منقبت میں دریا بہادیں گے لیکن آگے چل کر نتیجہ یہنکالتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) انہیں کچھ خللِ دماغ سا تھا ،یہود ونصاری کی کتابوں کے مضامین کہیں سے سن سنا کر چرالیتے تھے، وقس علیٰ ہذا، تو یہ بھی ٹھیک اسی قدیم یہودیانہ دجل و تلبیس کا ایک جدید فرنگی نمونہ ہے اور بس“۔ ( تفسیر ماجدی، اٰل عمران، تحت آیة رقم:72)۔
یہودی تربیت کی بنیادیں
یہودیوں نے جن افراد کو اس پایہ تکمیل تک پہنچانے کا انتخاب کیا تھا انہیں تین باتیں ذہن نشین کرائی گئیں ، مبادا اس کام سے متاثر ہو کر ایمان نہ قبول کریں۔
﴿وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِینَکُمْ﴾وقتی قبول اسلام کے بعد بھی تمہارا حقیقی ایمان اپنے ہی دین پر ہونا چاہیے ، مسلمانوں کو صرف دھوکے میں رکھنے کے لیے صرف زبانی اسلام کا اظہار کیا جائے۔
﴿أَن یُؤْتَیٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِیتُمْ﴾احساس تفاخر بیدار کرنے کے لیے انہیں نسلی برتری کا سبق پڑھایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے جس طرح اپنی رحمتوں اور عنایات سے بنی اسرائیل کو نوازا ہے کسی اور کو نہیں نوازا،دنیا کی کوئی قوم ہماری ہمسری نہیں کر سکتی، لہذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ برتر قوم کسی دوسرے کی دعوت پر لبیک کہے؟
﴿قُلْ إِنَّ الْہُدَیٰ ہُدَی اللَّہِ﴾مفسرین کرام نے اس آیت کو متعدد جملوں کے درمیان باہمی تعلق کے اعتبار سے مشکل ترین آیات میں سے شمار کیا ہے۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسے جملہ معترضہ قرار دیا، جو سب سے آسان فہم ترکیب ہے، جملہ معترضہ کہتے ہیں درمیان کلام میں کوئی ایسی بات کہنا جس کا سلسلہ کلام سے کوئی مقصودی تعلق نہ ہو، یہودی اپنے کارندوں کو اظہار اسلام کے بعد اپنے ہی دین کی پیروی کا متعصبانہ سبق سکھا رہے تھے، جس پر اللہ تعالیٰ نے فوراً ٹوکا کہ انہیں کہہ دو کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے، جس کی پیروی کی جانی چاہیے، وہ بنی اسرائیل کے واسطے سے ملے یا بنی اسماعیل کے واسطے سے ۔
اہل کتاب کی دشمنی کی بنیادی وجہ
﴿قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللَّہِ﴾:ان تدبیروں اور سازشوں کی بنیادی وجہ حسد اور جلن ہے کہ نبوت کا تاج ہمارے چچا کے خاندان میں کیوں رکھا جا رہا ہے؟ اس کا جواب دیا جا رہا ہے کہ اللہ کا فضل و احسان اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، یہ کسی کی جاگیر نہیں ہے اور اللہ ہی خوب جانتا ہے کون اس فضل کا مستحق ہے۔
﴿وَمِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْہُ بِقِنطَارٍ یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ وَمِنْہُم مَّنْ إِن تَأْمَنْہُ بِدِینَارٍ لَّا یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَائِمًا ذَٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ وَیَقُولُونَ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ، بَلَیٰ مَنْ أَوْفَیٰ بِعَہْدِہِ وَاتَّقَیٰ فَإِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ، إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللَّہِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا أُولَٰئِکَ لَا خَلَاقَ لَہُمْ فِی الْآخِرَةِ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللَّہُ وَلَا یَنظُرُ إِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ﴾
اور بعضے اہل کتاب میں وہ ہیں کہ اگر تو ان کے پاس امانت رکھے ڈھیر مال کا تو ادا کردیں تجھ کو اور بعضے ان میں وہ ہیں اگر تو ان کے پاس امانت رکھے ایک اشرفی تو وہ ادا نہ کریں تجھ کو، مگر جب تک کہ تو رہے اس کے سر پر کھڑا، یہ اس واسطے کہ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ نہیں ہے ہم پر امیّ لوگوں کے حق لینے میں کچھ گناہ اور جھوٹ بولتے ہیں اللہ پر اور وہ جانتے ہیں کیوں نہیں جو کوئی پورا کرے اپنا اقرار، وہ پرہیزگار ہے تو اللہ کو محبت ہے پرہیزگاروں سے، جو لوگ مول لیتے ہیں اللہ کے اقرار پر اور اپنی قسموں پر تھوڑا سا مول، ان کا کچھ حصہ نہیں آخرت میں اور نہ بات کرے گا ان سے اللہ اور نہ نگاہ کرے گا ان کی طرف قیامت کے دن اور نہ پاک کرے گا ان کو اور ان کے واسطے عذاب ہے دردناک۔
ربط…اہل کتاب کی دینی امور میں خیانتوں کے تذکرہ کرنے کے بعد ان کی دنیاوی امور میں خیانتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
تفسیر
قرآن کریم نے اہل کتاب کی اخلاقی اقدار کا احوال بیان کرتے ہوئے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ،اہل کتاب میں عہد شکن اور احسان فراموشوں کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ان امین لوگوں کی تحسین بھی فرمائی جن کے پاس اگر ڈھیروں مال بھی امانتاً رکھوایا جاتا تو وہ اسے مطالبے پر فورالوٹا دیتے، ان میں سے اکثر لوگوں نے راست بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام بھی قبول کر لیا تھا، جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ۔ اس کے برعکس اکثریت ان لوگوں کی تھی جن میں خیانت کا مرض دینی اوردنیاوی امور تک سرایت کر چکا تھا، ایک دینار کے بقدر رقم بھی ان کے پاس امانتاً رکھوائی جاتی تو وہ اسے لوٹانے پر با آسانی تیار نہ ہوتے، جب تک کہ صاحب حق مبالغے کی حد تک اس کا تقاضا نہ کرتا اور اس بد عہدی کو مذہبی حیثیت دے کر اپنے لیے جائز کر رکھا تھا،ا س لیے اگر انہیں اس عمل پر ملامت کی جاتی تو فوراً کہہ دیتے کہ ان پڑھ عربوں (یعنی غیر یہودیوں) (الخازن:اٰل عمران:تحت آیة رقم:75) کے ساتھ کیے گئے لین دین ، خریدوفروخت، عہدوپیمان کی پابندی ہمارے لیے ضروری نہیں ہے، اس پر انہیں ٹوکا گیا کہ اپنی خیانت کو جائز قرار دے کر اللہ تعالیٰ پر افترا مت باندھو، اللہ تعالیٰ تو پسند ہی ان لوگوں کوکرتا ہے جو ایفائے عہد کر کے اپنے عہد کی لاج رکھتے ہیں۔
﴿بَلَیٰ مَنْ أَوْفَیٰ بِعَہْدِہِ﴾:اس آیت میں ”ایفائے عہد“سے ہر اس وعدے کا ایفاء مراد ہے جو کسی بھی جائز کام کے لیے کیا جائے یا اس سے مراد اس وعدے کا ایفاء ہے جو تورات میں اہل کتاب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بابت کیا گیا ۔(الخازن:اٰل عمران تحت آیة رقم:76)
عہد شکنی اور قسمیں توڑنے پر اخروی پانچ سزائیں
﴿ان الذین یشترون …﴾ دنیاوی مفاد حاصل کرنے کی خاطر اپنے عہدو پیمان اور قسموں سے غفلت برتنے والوں کے لیے آخرت کی پانچ سزائیں بیان کی جا رہی ہیں۔
1..آخرت کی نعمتوں سے محروم ہوں گے۔
2..اللہ تعالیٰ ان سے بات تک نہیں کریں گے۔
3..نہ ہی ان کی طرف التفات فرمائیں گے۔
4..نہ گناہوں کی آلائش سے انہیں پاک کیا جائے گا۔
5..دردناک عذاب سے دو چار ہوں گے۔
یہ صفات بعض یہودیوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ کلام فرمائیں گے، نہ نظر رحمت کے ساتھ متوجہ ہوں گے، نہ انہیں گناہوں کی ظلمت سے پاک کیا جائے گااور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے جو گھاٹے اور محرومی کا شکار ہوئے ہیں ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین بار یہ بات دھرا کر ارشاد فرمایا:کپڑوں کو (ازراہِ تکبر) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، جھوٹی قسم سے اپنا سامان بیچنے والا، اور احسان جتلانے والا۔(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:106،ابو داؤد رقم الحدیث:4087)
﴿وَإِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیقًا یَلْوُونَ أَلْسِنَتَہُم بِالْکِتَابِ لِتَحْسَبُوہُ مِنَ الْکِتَابِ وَمَا ہُوَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَقُولُونَ ہُوَ مِنْ عِندِ اللَّہِ وَمَا ہُوَ مِنْ عِندِ اللَّہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ﴾․(سورہ آل عمران:78)
اور ان میں ایک فریق ہے کہ زبان مروڑ کر پڑھتے ہیں کتاب، تاکہ تم جانو کہ وہ کتاب میں ہے اور وہ نہیں کتاب میں اور کہتے ہیں وہ اللہ کا کہا ہے اور وہ نہیں اللہ کا کہا اور اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں جان کر۔
ربط…اہل کتاب کی عمومی خیانت کا تذکرہ کرنے کے بعد کتاب اللہ کے ساتھ مخصوص طریقے سے خیانت کرنے کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔
اہل کتاب کی تحریف کا ایک طریقہ
آیت کریمہ میں اہل کتاب کے جس طریقہ تحریف کی نشان دہی کی گئی ہے اس کی احتمالی صورتیں دو ہیں۔
لب و لہجہ سے الفاظ میں توڑ موڑ پیدا کر کے انہیں اس طرح ادا کرنا کہ اصل حقیقت گم ہو کر رہ جائے، مثلاً نقطے یا کوئی حرف بڑھا دینا ،حذف کردینا، تبدیل کردینا۔
کسی لفظ کی ایسی تفسیر کرنا جو اس سے مراد نہ ہو، پھر اس خود ساختہ تفسیر کو صرف اس بنیاد پر کتاب اللہ کا جز بنا دینا کہ وہ ہر چیز جو شریعت سے ثابت ہوتی ہے وہ درحقیقت کتاب اللہ سے ثابت ہوتی ہے، لہٰذا یہ حکم بھی کتاب اللہ سے ثابت ہوتا ہے ،علامہ رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ نے اپنی معروف زمانہ کتاب ”اظہار الحق“میں اہل کتاب کی مزعونہ آسمانی کتابوں میں ان تمام مقامات کی نشان دہی کی ہے جہاں انہوں نے مذکورہ طریقوں سے تحریف کر کے ردوبدل کر ڈالا۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ نے علماء کا یہ اختلاف نقل فرمایا ہے کہ اہل کتاب ان تحریفات کو کتابت کی شکل دے کر ارتکاب کرتے تھے، بعض علماء پہلی صورت کو راجح قرار دیتے ہیں اور بعض دوسری صورت کو۔ (روح المعانی۔ اٰل عمران۔ تحت آیة رقم:78)
بظاہر یہ اختلاف لفظی ہے ، ممکن ہے کہ اختلاف مواقع کی نسبت سے دونوں صورتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو، موجودہ دور کی مطبوعہ تورات وانجیل میں اختلاف و تناقض کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ تحریف صرف تلاوتاً ہی نہیں، بلکہ کتابتاً بھی ہوتی تھی ، طباعت اور نشرواشاعت کی ترقی یافتہ شکل نے اہل کتاب کے گھناؤ نے فعل کو سب کے سامنے بیان کر دیا ہے۔
﴿مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُؤْتِیَہُ اللَّہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُوا عِبَادًا لِّی مِن دُونِ اللَّہِ وَلَٰکِن کُونُوا رَبَّانِیِّینَ بِمَا کُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْکِتَابَ وَبِمَا کُنتُمْ تَدْرُسُونَ، وَلَا یَأْمُرَکُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِکَةَ وَالنَّبِیِّینَ أَرْبَابًا أَیَأْمُرُکُم بِالْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾
کسی بشر کا کام نہیں اللہ اس کو دیوے کتاب اور حکمت اور اس کو پیغمبر کرے، پھر وہ کہے لوگوں کو کہ تم میرے بندے ہو جاؤ اللہ کو چھوڑ کر، لیکن یوں کہے کہ تم اللہ والے ہو جاؤ، جیسے کہ تم سکھلاتے تھے کتاب اور جیسے کہ تم بھی پڑھتے تھے اسے اور یہ نہ کہے تم کو ٹھہرا لو فرشتوں کو اور نبیوں کو رب۔ کیا تم کو کفر سکھائے گا بعد اس کے کہ تم مسلمان ہو چکے ہو؟
ربط…گذشتہ آیات میں اہل کتاب کے افعال و اقوال پر اعتراض تھا اور ان آیات میں اہل کتاب کے ایک لغو اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔
شان نزول
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ مدینہ منورہ کے یہودی اور نجران کے نصاری آپ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، جواب میں ابورافع قرظی یہودی نے کہا کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی ایسی عبادت کریں جس طرح نصاری حضرت مسیح علیہ السلام کی کرتے ہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
انبیاء علیہم السلام اپنی عبادت کی دعوت نہیں بلکہ اطاعت کی دعوت دیتے ہیں
انبیاء علیہم لسلام اپنی عبادت کی طرف نہیں، بلاتے ، بلکہ اپنی اطاعت کی طرف بلاتے ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور منہیات جاننے کا معیار صرف وحی ہے اور وحی کا نزول انبیاء علیہم السلام پر ہوتا ہے، معترض نے غالباً عبادت اور اطاعت میں فرق ملحوظ نہیں رکھا، اس لیے اعتراض کر دیا، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو دین کی فہم ، آسمانی کتاب اور مقام نبوت سے سرفراز کیا گیا ہو وہ اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنی عبادت کی تلقینکریں؟!
ربانی کسے کہتے ہیں؟
﴿ وَلَٰکِن کُونُوا رَبَّانِیِّینَ﴾:ربانیین ، ربانی کی جمع ہے، رب کی طرف منسوب ہے، قاعدے کی رو سے اسے ربی ہونا چاہیے، لیکن بسا اوقات مبالغے کے لیے الف نون کا اضافہ کر دیا جاتا ہے، جیسے گھنی داڑھی والے شخص کو لحیانی اور موٹی گردن والے کو رقبانی کہا جاتا ہے، اس لحاظ سے ربانی کا مطلب ہے اللہ والا۔ صحیح یہ ہے کہ یہ لفظ عربی ہے، سریانی نہیں۔
حضرت علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ربانی، ”فقیہ عالم“کو کہتے ہیں، حضرت قتادہ اور سعدی رحمہما اللہ کے بقول ”حکیم عالم“ کو کہتے ہیں، ابن جبیر رحمہ اللہ کے بقول ”حکیم متقی“کو کہتے ہیں ۔یہ سب مفہوم متقارب المعنی ہیں۔( تفسیر روح المعانی، اٰل عمران:تحت آیة رقم:79)
﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّہُ مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُم مِّن کِتَابٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَاء َکُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنصُرُنَّہُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَیٰ ذَٰلِکُمْ إِصْرِی قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوا وَأَنَا مَعَکُم مِّنَ الشَّاہِدِینَ، فَمَن تَوَلَّیٰ بَعْدَ ذَٰلِکَ فَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُون، أَفَغَیْرَ دِینِ اللَّہِ یَبْغُونَ وَلَہُ أَسْلَمَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا وَإِلَیْہِ یُرْجَعُونَ، قُلْ آمَنَّا بِاللَّہِ وَمَا أُنزِلَ عَلَیْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَیٰ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَیٰ وَعِیسَیٰ وَالنَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ﴾․(سورہ آل عمران:84-81)
اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب او ر علم، پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے، فرمایا کہ کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا؟ بولے ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا:تو اب گواہ رہو اور میں تمہارے ساتھ گواہ ہوں، پھر جو کوئی پھر جاوے اس کے بعد تو وہی لوگ ہیں نافرمان، اب کوئی اور دین ڈھونڈتے ہیں، سو ا دین اللہ کے اور اسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے، خوشی سے یا لاچاری سے اور اسی کی طرف سب پھر جاویں گے، تو کہہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو کچھ اترا ہم پر اور جو کچھ اترا ابراہیم پر اور اسماعیل پر اور اسحاق پر اور یعقوب اور اس کی اولاد پر اور جو ملا موسیٰ اور عیسیٰ کو اور جو ملا سب نبیوں کو ان کے پروردگار کی طرف سے، ہم جدا نہیں کرتے ان میں سے کسی کو اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں۔
ربط: تفسیر:انبیاء علیہم السلام سے کی نصرت و ایمان پر لیا گیا عہد
﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّہُ مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ(الی قولہ تعالیٰ) وَأَنَا مَعَکُم مِّنَ الشَّاہِدِینَ﴾:اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں یا مقام نبوت سے سرفراز کرنے کے بعد ہر نبی سے یہ عہد لیا کہ اگر تمہارے پاس خاتم الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور آپ کی رسالت و شریعت کی تصدیق کریں، اور ان میں بھی وہ تمام صفات و علامات موجود ہوں جن کی اطلاع تمہیں کتاب و شریعت میں دی گئی ہے تو پھر تمہیں ان پر ضرور ایمان لانا ہے اور ان کی نصرت کرنی ہے، تمام انبیاء علیہم السلام نے نہ صرف اس عہد کا اقرار کیا، بلکہ اس کے عینی گواہ بھی بنے، لہٰذا اب اہل کتاب کے پاس آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے اس عہد کا ایفاء کریں جو ان کے نبی اپنے بعد اپنی اپنی امتّوں سے کر گئے ہیں، اپنی آسمانی کتابوں میں موجود آپ علیہ السلام کی صفات پر غور وفکر کریں، اس کے بعد آپ کی رسالت پر ایمان لا کر اپنے اعضاء و جوارح سے آپ علیہ السلام کی مدد کریں، لیکن یہ اس عہد سے پھر گئے، جو ان کے انبیاء علیہم السلام ان سے کر گئے تھے، اس لیے اب یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے کفر کی ظلمتوں میں جا پڑے۔
”رسول“ سے آپ علیہ السلام مراد ہیں
آیت کریمہ میں”رسول“نکرہ ہے، لیکن اس سے ایک فرد معین مراد ہے، قرآن کریم میں یہ اسلوب عام ہے، نکرہ بول کر فرد معین مراد لیا جاتا ہے، یہاں ”رسول“ سے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں، حضرت ابن عباس، حضرت علی، حضرت سدی رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے۔ (التفسیر الکبیر للرازی،اٰل عمران، تحت آیة رقم:81) کیوں کہ حقیقی شارع صرف اور صرف آپ علیہ السلام کی ذات ہے، دیگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت آپ کی تبع میں ہوئی(روح المعانی، اٰل عمران: تحت آیة رقم:81)۔
اشکال و جواب: انبیاء علیہم السلام سے لیے گئے عہدکی پابند ان کی امتیں بھی ہوں گی؟
اس آیت پر ایک شبہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عہد انبیاء علیہم السلام سے لیا گیا تھا، نہ کہ ان کی امتّوں سے، لہٰذا انبیاء علیہم السلام سے لیے گئے عہد کا ایفاء امتیوں پر کیوں کر لازم ہو گا؟
اس شبہے کے مختلف جواب دیے گئے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہعنہما فرماتے ہیں جب نبی کو اس عہد کا پابند کیا گیا ہے تو امت بدرجہ اولیٰ اس عہد کے نبھانے کی پابند ہوگی۔(تفسیر الخازن، اٰل عمران، تحت آیة رقم:81)۔
(۲)سعید بن جبیر، حسن، طاؤس رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ بھی عہد میں شامل ہے کہ اگر انبیاء علیہم السلام اپنی زندگی میں آپ علیہ السلام کو نہ پا سکیں تو اپنی امت کو آپ علیہ السلام پر ایمان لانے اور نصرت کرنے کا حکم دے کر جائیں، چناں چہ ہر نبی نے اپنی امت کو اس عہد کے ایفاء کا حکم دیا ہے، اس لیے ان کی امتوں پر اس کا ایفاء لازم ہے۔(تفسیر الخازن،اٰل عمران، تحت آیة رقم:81) خفاجی رحمہ اللہ نے الشفاء کی شرح نسیم الریاض میں اسی تاویل کو ترجیح دی ہے۔(نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض:القسم الاول فی تعظیم العلی الاعلیٰ، لقدر النبی صلی اللہ علیہ وسلم: 1/386 :دارالکتب العلمیة،بیروت)
﴿فَمَن تَوَلَّیٰ بَعْدَ ذَٰلِکَ… إلخ﴾اگر یہودو نصاریٰ نے اس عہد کو پورا نہیں کیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے طاعت گزار نہیں کہلائیں گے، بلکہ حد سے گزرنے والے فاسق و نافرمان اور کافر کہلائیں گے پھر ان کا عقیدہ توحید رسالت محمدی پر ایمان لائے بغیر فائدہ نہیں دے گا۔
اللہ تعالیٰ کا دین کو ن سا ہے؟
﴿أَفَغَیْرَ دِینِ اللَّہِ یَبْغُونََ﴾: اب کوئی اور دین ڈھونڈتے ہیں سوائے دین اللہ کے؟ آیت کریمہ میں”دین اللہ“سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی شریعت مراد ہے، ( زاد التفسیر، اٰل عمران، تحت آیة رقم:83) یعنی یہ کفار دین محمدی کو چھوڑ کر کسی دوسرے دین کی تلاش میں ہیں ؟
طوعاً وکرہاً(خوشی ناخوشی) اطاعت کرنے کا مطلب
﴿وَلَہُ أَسْلَمَ…﴾:اللہ تعالیٰ کی شان عظمت اور شان کبریائی کے سامنے کائنات کی ہر چیز خوشی نا خوشی سرافگندہ ہے، کوئی اس کے امر سے رو گردانی کی تاب نہیں رکھتا، خوش قسمت ہیں اہل ایمان، جنہوں نے بخوشی اطاعت قبول کر لی اور بد بختی ہے کفار کے لیے، جو بخوشی ایمان قبول کرنے سے تو کتراتے رہتے ہیں،مگر عذاب دیکھنے پر نا خوشی ایمان لے آئیں گے، جو ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا:﴿فَلَمْ یَکُ یَنفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا﴾ (غافر:85)(پھر نہ ہوا کہ کام آئے ان کو یقین لانا ان کا جس وقت دیکھا ہمارا عذاب) یہاں طوعاً سے اہل ایمان کی بخوشی طاعت اور کرھاً سے کفار کی یہی جبری اطاعت مراد ہے۔(التفسیر الکبیر للرازی:اٰل عمران تحت آیة رقم: 83)
دوسرے قول کے مطابق ”طوعاً“سے احکام تشریعیہ مراد ہیں، احکام تشریعہ ان امور کو کہتے ہیں جن کے آثار بندے کے اختیار سے مرتب ہوتے ہیں، جیسے نماز پڑھنا، روزے رکھنا، حج کرنا وغیرہ، اہل ایمان ان تشریعی امور کو بخوشی قبول کر کے اس کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، اور”کرھاً“سے احکام تکوینیہ مراد ہیں، احکام تکوینیہ ان امور کو کہتے ہیں جن کے آثار بندے کے اختیار سے مرتب نہیں ہوتے، جیسے بیماری کا آنا، موت کا آنا، ہر انسان چاہے یا نہ چاہے، ان میں مبتلا ہوتا ہے، اس کے اختیار یا رد کرنے میں کسی کا عمل دخل نہیں چلتا۔
کفار پر تعجب ہوتا ہے جو تکوینی امور میں تو اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں، لیکن تشریعی امور میں مخالفت پر ڈٹے ہوئے ہیں۔(ملخص ازبیان القرآن، اٰل عمران، ذیل آیت نمبر:83)۔
تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا
﴿ قُلْ آمَنَّا بِاللَّہِ…إلخ﴾
کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا، جب تک وہ تمام انبیاء علیہم السلام اور آسمانی کتب و صحف پر صدقِ دل سے ایمان نہ لائے،بعض انبیاء علیہم السلام کے اسمائے گرامی قرآن و حدیث میں بھی مذکور ہیں اور اکثریت کے اسمائے گرامی سے ہم لا علم ہیں اور انبیاء علیہم السلام کی حتمی تعداد بھی ہمارے علم میں نہیں ہے، اس لیے بلا تعیین تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا چاہیے۔(المسامرة شرح المسایرة:ص:190)
﴿وَمَن یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ﴾․ (سورہ آل عمران:85)
ترجمہ:اور جو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین، سو اس سے ہر گز قبول نہ ہو گا۔
ربط…گذشتہ آیت میں دین اللہ (اللہ کے دین) کا تذکرہ تھا، اس آیت میں واضح کیا جا رہا ہے کہ دین اللہ سے دین اسلام مراد ہے۔
تفسیر: دین ِ حق صرف دین اسلام ہے
دنیا کے آسمانی اور غیر آسمانی مذاہب اس وقت تک اپنے خالق کی رضا کا پروانہ حاصل نہیں کرسکتے جب تک آپ علیہ السلام کی اطاعت نہ کرلیں، آپ علیہ السلام سے اعراض کر کے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جس قدر بھی تکالیف و مصائب ، زہد اور رہبانیت اختیار کریں ،وہ بارگاہ الہٰی میں شرفِ قبولیت نہیں پا سکتیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا کسی نے کوئی ایسا عمل سرانجام دیا جس میں ہمارا حکم شامل نہیں وہ عمل مردود ہے۔(الصحیح المسلم رقم الحدیث 11718)
﴿کَیْفَ یَہْدِی اللَّہُ قَوْمًا کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ وَشَہِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاء َہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ، أُولَٰئِکَ جَزَاؤُہُمْ أَنَّ عَلَیْہِمْ لَعْنَةَ اللَّہِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، خَالِدِینَ فِیہَا لَا یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ہُمْ یُنظَرُونَ، إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ﴾․(سورہ آل عمران:89-86)
کیوں کر راہ دے گا اللہ ایسے لوگوں کو جو کافر ہو گئے، ایمان لا کر اور گواہی دے کہ بے شک رسول سچا ہے اور آئیں ان کے پاس نشانیاں روشن؟ اور اللہ راہ نہیں دیتا ظالموں کو، ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی، ہمیشہ رہیں گے اس میں، نہ ہلکا ہو گا ان سے عذاب اور نہ ان کو فرصت ملے گی، مگر جنہوں نے توبہ کی اس کے بعد اور نیک کام کیے تو بے شک اللہ غفور رحیم ہے۔
ربط…گذشتہ آیت میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف دین اسلام قابلِ قبول ہے، اور ان آیات میں ان لوگوں کے انجام کی خبر دی جا رہی ہے جو قبول اسلام کے بعد کفر کو اختیار کر لیں، آپ علیہ السلام کے زمانہ مبارکہ میں بعض لوگوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا، ان میں بعض نادم ہو کر دوبارہ مسلمان ہو گئے اور بعض ارتداد پر قائم رہ کر ہمیشہ کے لیے ابدی عذاب کے مستحق ٹھہرے۔
ارتداد کا بیان
مدینہ منورہ کے بارہ باشندے قبول اسلام کے بعد مرتد ہو گئے اور مکہ مکرمہ میں جا کر اسلام دشمن عناصر مشرکین سے اتحاد کر لیا،ان میں سے بعض معافی کے خواست گار ہو ئے اور دوبارہ اسلام قبول کر لیا اور کچھ ارتداد پر قائم رہے۔ یہ آیت اسی پسِ منظر میں نازل ہوئی۔(روح المعانی، اٰل عمران تحت اٰیة رقم:86)
مرتد کی تعریف اور احکام کے متعلق تفصیلی بحث سورہ بقرہ کی آیت نمبر 217کے تحت تفسیر میں گزر چکی ہے۔
﴿إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا کُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُہُمْ وَأُولَٰئِکَ ہُمُ الضَّالُّونَ﴾․(آل عمران:90)
جو لوگ منکر ہوئے مان کر، بڑھتے رہے انکار میں، ہر گز قبول نہ ہوگی ان کی توبہ اور وہی گم راہ ہیں۔
بوقتِ موت توبہ قابلِ قبو ل نہ ہوگی
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت ان مرتدین کے متعلق نازل ہوئی جو توبہ کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد پھر مرتد ہو گئے۔(تفسیر ابن کثیر، اٰل عمران،تحت آیة رقم:90)یہ اپنے کفریہ اعمال میں عام کفار سے بھی سبقت لے گئے۔
توبہ ہر گناہ گار کی قابل قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ صدق نیت سے ہو، البتہ جو توبہ غرغرے کے وقت کی جائے وہ معتبر نہیں ہے، کیوں کہ عالم آخرت کے آثار کے مشاہدے کے بعد ایمان درحقیقت ایمان نہیں ہے، ایمان وہی معتبر ہے جو بالغیب کی بنیاد پر ہو اور جس توبہ کی عدم قبولیت کا ذکر ہوا ہے اس سے ایسی ہی توبہ مراد ہے جس کی بنیاد موت کے وقت یا موت کے بعد مشاہدے پر ہو، ایسا ایمان تو تمام کفار قیامت کے دن لے آئیں گے، لیکن اس کا کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا۔ (جاری)