الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ﴾․(التوبہ:119)
اے ایمان والو! خدا تعالیٰ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہوں۔
اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”ألا إن التقوی ھھنا، وأشار إلی صدرہ․“
آگاہ رہو کہ تقویٰ اس جگہ ہے اور آپ نے قلب کی طرف اشارہ کیا۔
حقیقت تقویٰ
تقویٰ کا امر اور فضل قرآن مجید میں جس قدر ہے غالباً کسی چیز کا اتنا نہیں۔ اس سے اس کا مہتم بالشان ہونا معلوم ہوا۔ حقیقت اس کی یہ ہے کہ تقویٰ کا استعمال شریعت میں دو معنی میں ہوتا ہے ایک ڈرنا، دوسرے بچنا۔ اور تامل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود تو ( معاصی سے) بچنا ہی ہے، مگر سبب اس کا ڈرنا ہے، کیوں کہ جب کسی چیز کا خوف دل میں ہوتا ہے جب ہی اس سے بچا جاتا ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ اول جب:”اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ“کا نزول ہوا تو اس سے صحابہ کرام رضی الله عنہم ڈر گئے، کیوں کہ وہ یہ سمجھے کہ آج ہی حق تقویٰ لازم ہو گیا، حالاں کہ شروع ہی سے تقوی کا حصول دشوار ہے۔ حق تقویٰ کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی شان کے لائق جیسا تقویٰ ہے وہ اختیار کرو( سو آیت میں) یہ مراد نہیں ،کیوں کہ یہ تو بشر کی طاقت سے خارج ہے او را س کی تکلیف تکلیف ِ مالا یطاق ہے۔ اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ انسان کی وسعت کے موافق جو تقوی ٰخدا تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اس کو بجالاؤ۔ آیت میں یہی معنی مراد ہیں۔ ابتدا ہی سے انسان کو اس درجہ میں پہنچ جانا دشوار ضرور ہے۔ تو صحابہ رضی الله عنہم نے اس آیت کو بمعنی فوراً سمجھا اور پھر یہ خوف ہوا کہ حق ِ تقویٰ کا آج ہی سے حاصل ہونا تو بڑا دشوار ہے، پھر اس حکم کی تعمیل کیوں کر ہو؟!اس پر دوسری آیت نازل ہوئی: ﴿فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾․(التغابن:16) یعنی جتنا تقویٰ تم سے اس وقت ہو سکتا ہے اس وقت تو اختیار کرو۔ پھر ترقی کرتے رہو، یہاں تک کہ حق تقویٰ حاصل ہو جائے۔ اس آیت نے پہلی آیت کی تفسیرکر دی۔ تقوی کے مختلف مدارج ہیں: ایک تقویٰ یہ ہے کہ کفر او رشرک سے بچے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اعمال ِ صالحہ کو ترک نہ کرے او رمحرمات کا ارتکاب نہ کرے، پھر جیسے جیسے اعمال ہوں گے ویسا ہی تقویٰ پیدا ہوتا رہے گا اور تقویٰ کے کمال سے ایمان بھی کامل ہوتا رہے گا، حتی کہ درجہ احسان (حاصل ہو جائے گا) ،جو کہ ایمان کا اعلی درجہ ہے اور یہی تقویٰ کا بھی اعلیٰ درجہ ہے اور یہی درجہ مطلوب ہے۔
حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿لَّیْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّینَ وَآتَی الْمَالَ عَلَیٰ حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبَیٰ وَالْیَتَامَیٰ وَالْمَسَاکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوا وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَأْسَاء ِ وَالضَّرَّاء ِ وَحِینَ الْبَأْسِ أُولَٰئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ ﴾․ ( البقرة:177)
کچھ سارا کمال اسی میں نہیں ( آگیا) کہ تم اپنا منھ مشرق کی طرف کر لو یا مغرب کو ( کرلو)، لیکن ( اصلی) کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص الله تعالیٰ ( کی ذات وصفات) پر یقین رکھے اور (اسی طرح قیامت کے دن (آنے) پر (بھی) اور (الله تعالیٰ کی ) کتاب پر اور ( سب ) پیغمبروں پر (بھی) اور ( وہ شخص)مال دیتا ہو الله تعالیٰ کی محبت میں ( اپنے حاجت مند) رشتہ داروں کو اور (نادار ) یتیموں کو اور ( دوسرے غریب ) محتاجوں کو (بھی) اور ( بے خرچ) مسافروں کو اور ( لاچاری میں) سوال کرنے والوں کو( قیدی اور غلاموں کی ) گردن چھڑانے میں (بھی مال خرچ کرتا ہو ) اور وہ شخص نماز کی پابندی بھی رکھتا ہو اور ( مقررہ) زکوٰة بھی ادا کرتا ہو اور جو اشخاص ( کہ ان عقائد واعمال کے ساتھ یہ اخلاق بھی رکھتے ہوں کہ ) اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں، جب ( کسی جائز امر کا) عہد کر لیں اور ( اس صفت کو خصوصیت کے ساتھ کہوں گا کہ ) وہ لوگ ( ان مواقع میں ) مستقل مزاج رہنے والے ہوں ( ایک تو) تنگ دستی میں اور ( دوسرے بیماری میں اور تیسرے معرکہ ) قتال( کفار ) میں ( یعنی کم ہمت اور پریشان نہ ہوں، بس) یہ لوگ ہیں جو سچے ( کمال کے ساتھ موصوف) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو ( سچے) متقی (کہے جاسکتے) ہیں۔
غرض اصلی مقاصد او رکمالات دین کے یہ ہیں۔ نماز میں کسی سمت کو منھ کرنا انہیں کمالات مذکورہ میں سے ایک کمال خاص یعنی اقامت صلوٰة کے توابع اور شرائط میں سے ہے او راس کے حسن سے اس میں بھی حسن آگیا، ورنہ اگر نماز نہ ہوتی تو کسی خاص سمت کو منھ کرنا بھی عبادت نہ ہوتا۔
اس آیت میں تمام ابواب تقویٰ کو اجمالاً بیان کر دیا گیا ہے، جس میں اول محض صورت بے معنی کوکافی سمجھنے کی ممانعت ہے، اس کے بعد ایمان بالله وایمان بالمعاد اور ایمان بالملائکہ اور ایمان بکتب سماویہ اور ایمان بالانبیاء کا امر ہے، یہ توا عتقادیات کے متعلق ہے۔ پھر حب مال کو انفاق سے زائل کرنے کا امر ہے ( یا محبت الہی میں خرچ کرنے کی ترغیبہے ) یہ اصلاح قلب کے متعلق ہے۔ پھر اقامت صلوٰة کا امر ہے، یہ طاعت ِ بدنیہ ہے۔ پھر ایتا ء الزکوٰة کا، یہ مالیہ ہے۔ اس کے بعد ایفائے عہد کا امر ہے، جو معاشرت کے متعلق ہے۔ پھر صبر کا امر ہے، جو سلوک کے متعلق ہے۔ غرض اس میں تمام شعب تقویٰ کو اجمالاً جمع کر دیا ہے۔ اسی لیے أولئک ھم المتقون پر اس کو ختم فرمایا ہے۔
اعمال تین قسم کے ہیں: ایک وہ جو دین میں نافع ہیں، ان کا تو کرنا ماموربہ ہے، خواہ درجہ فرضیت ووجود میں ہو یا درجہ سنت واستحباب میں اور بعض وہ ہیں جو دین میں مضر ہیں، ان کا ترک ماموربہ ہے، خواہ درجہ حرمت میں ہو یا کراہت میں اور بعض وہ ہیں کہ جن کے فعل یا ترک کا امر نہیں وہ مباحات ہیں۔ مباحات اپنے اثر کے لحاظ سے دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ دین کے لیے نافع ہیں، جیسے بغرض حفظ صحت چلنا پھرنا، ورزش کرنا یا نافع نہیں۔ اگر دین میں نافع ہے تو وہ فعلاً ماموربہ ہے، گودرجہ وجوب میں نہ ہو، مگر جب مباح نافع فی الدین کو اچھی نیت سے کیا جائے تو وہ مستحب ضرور ہوجاتا ہے اوراس میں ثواب بھی ملتا ہے ۔ یا وہ دین میں نافع نہیں تو فضول ہے اور فضولیات کا ترک کر دینا ماموربہ شرعاًہے۔ چناں چہ حدیث میں ہے :
” من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ․“
اسلام کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ مالا یعنی کو ترک کر دیا جائے۔
جب فضولیات کے ترک کو حسن اسلام میں د خل ہے او رحسن اسلام ماموربہ اور مطلوب ہے تو ان فضولیات کا ترک بھی ماموربہ ہو گیا، گو ان کو حرام نہ کہا جائے، مگر فضولیات میں اشتغال کراہت سے خالی نہیں۔ پس جس طرح حرام او رمکروہ سے بچنا ضرور ی ہے اسی طرح فضولیات سے بچنا بھی ضروری ہے۔ غرض بے ضرورت مباحات میں مشغول ہونا بھی برا ہے اور ضرورت کے وقت مشغول نہ ہونا بھی برا ہے۔
بعض لوگ قبل اسلام کے، حالت ِ احرام حج میں اگر کسی ضرورت سے گھر جانا چاہتے تو دروازہ سے جانا ممنوع جانتے تھے، اس لیے پشت کی دیوار میں نقب دے کر اس میں سے اندر جاتے تھے اور اس عمل کو فضیلت سمجھتے تھے۔ حق تعالیٰ اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : ﴿وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُیُوتَ مِن ظُہُورِہَا وَلَٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَیٰ وَأْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ أَبْوَابِہَا وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․(البقرة:189)
اس میں کوئی فضیلت نہیں کہ گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آیا کرو، ہاں ! فضیلت یہ ہے کہ کوئی شخص حرام (چیزوں) سے بچے(چوں کہ دروازوں سے گھروں میں آنا حرام نہیں، اس لیے اس سے بچنا بھی ضروری نہیں، سواگر آنا چاہو تو ) گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔ اور (اصل الاصول تو یہ ہے کہ ) خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو (اس سے البتہ) امید ہے کہ تم ( دارین میں ) کام یاب ہو جاؤ۔
اس آیت سے ایک بڑے کام کی بات معلوم ہوئی کہ جو شے شرعاً مباح ہو اس کو طاعت وعبادت اعتقاد کر لینا، اسی طرح اس کو معصیت او رمحل ِ ملامت اعتقاد کر لینا شرعاً مذموم ہے۔ چناں چہ گھروں میں دروازوں سے آنا مباح تھا ،اس کو ان لوگوں نے معصیت سمجھا تھا اور دروازہ چھوڑ کر کسی اور طرف سے آنا بھی فی نفسہ مباح ہے، اس کو ان لوگوں نے عبادت وفضیلت سمجھا تھا، اس پر حق تعالیٰ نے ان پر ردفرمایا او ران کے اعتقاد کو باطل اور مخالف تقویٰ کے ٹھہرایا اور تقوی کو واجب فرمایا۔ تو جس چیز سے واجب کا ترک اورخلاف لازم آئے گا وہ ضرور گناہ ہوگی۔ پس ان کے یہ دونوں اعتقاد گناہ ہوئے۔ اس قاعدہ سے ہزاروں اعمال کا حکم معلوم ہو گیا، جو کہ عوام بلکہ خواص میں بھی شائع ہو گئے۔
(نیز خیال رہے کہ ) ہر شے ( اور اعضا) کا تقوی ہے۔ آنکھ کا تقوی یہ ہے کہ بری نگاہ سے کسی عورت یا مرد کو نہ دیکھے۔ زبان کا تقویٰ یہ ہے کہ کسی کی غیبت نہ کرے ( جھوٹ نہ بولے)، کسی کو ستاوے نہیں۔ اسی طرح ہاتھ کا تقوی یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرے، شہوت سے مس نہ کرے۔ پاؤں کا تقوی یہ ہے کہ بری جگہ چل کر نہ جاوے۔ کان کا تقوی یہ ہیں کہ کسی کی غیبت نہ سنے، راگ باجے سے بچے۔ وضع میں بھی تقوی ہے کہ خلاف شریعت وضع نہ رکھے۔ پیٹ کا تقوی یہ ہے کہ حرام مال نہ کھاوے ( وغیرہ)۔
حاصل یہ ہے کہ صادق او رمتقی یہی لوگ ہیں جن کے یہ اوصاف ہیں ( جو مذکور ہوئے ) اور ان اوصاف میں تمام اجزائے دین کا ذکر اجمالا آگیا، دین کا کوئی جز اس سے باقی نہیں رہا۔ اس سے صاف طور پر یہ بات معلوم ہو گئی کہ صادق او رمتقی وہ شخص ہے جو دین میں کامل ہو۔ پس صدق اورتقوی کی حقیقت ”کمال دین“ ہونا ثابت ہو گیا۔
طریق کار
جو کام کریں اس میں یہ دیکھ لیں کہ ہم خلاف شریعت تو نہیں کرتے ،خواہ دین کا ہو یا دنیا کا۔ دین کے کام میں تو یہ دیکھ لیں کہ شریعت نے اس کی کام یابی کا جو طریقہ بتلایا ہے وہ کیا ہے ؟ اسی کے موافق کریں اور دنیا کا جو کام کریں اس میں صرف یہ دیکھ لیں کہ یہ جائز ہے یا ناجائز؟
طریق تحصیل
الله کے قہر وعتاب کو یاد کرنا اور سوچنا اس کا طریق تحصیل ہے۔ (شریعت وطریقت)