اولاد حق تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ نسل انسانی، حسب ونسب کی بقا اور انسانی ومعاشرتی عمارت کی تعمیر کا ذریعہ ہے۔ اولاد ہر انسان کی دینی ودنیاوی وارث اور دنیا وآخرت کا سہاراہوتی ہے۔ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی نظر دنیا پر نہیں،بلکہ آخرت پر ہوتی ہے۔ وہ اس دار فانی سے کنارہ کش ہوتے ہیں۔ انہیں دنیا سے بس ضرورت کا تعلق رکھنا ہوتاہے۔ اس کے باجود انہیں بھی اولاد کی تمنا وآرزو رہی۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام جیسے اولوالعزم انبیاء کی طلب اولاد کے سلسلہ میں دعاؤں کا ذکر فرمایا ہے۔ ان ادعیہ قرآنیہ میں بیٹے کی طلب کے ساتھ حکمت بھی مذکور ہے کہ بیٹا اپنے باپ اور بزرگوں کا علمی وعملی وارث ہو گا۔ اس لیے انبیاء علیہم السلام کی دنیوی وراثت نہیں ہوا کرتی، بلکہ ان کی وراثت صرف علم وعمل کی ہی وراثت ہے۔
اولاد ہر انسان کا سہارا اور دکھوں کا مداوا ہوتی ہے۔ اپنے والدین کے ناتمام امور اور خواہشات کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ گویا ماں باپ اور خاندان کی عزت وتکریم بھی اولاد سے وابستہ ہوتی ہے۔ فطری طور پر حق تعالیٰ نے والدین کے قلوب میں اولاد کی اور اولاد کے دلوں میں والدین کی محبت موج زن کی ہوتی ہے۔ اس لیے فریقین ایک دوسرے کے لیے باعث نفع اور باعث سہارا ہوتے ہیں۔ اولاد جتنی صالح، باصلاحیت، محنتی، باسلیقہ اور با ادب ہو اتنی ہی والدین، خاندان اور برادری کے لیے باعث عزوشر ف ہوتی ہے۔ نیز اولاد جس قدر بدکار، نکمی، کام چور، بے سلیقہ اور بے ادب ہو اتنی ہی والدین، خاندان اور معاشرے کے لیے باعث ننگ وعار ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بعض بیٹے اور بیٹیاں ماں باپ کانام روشن کرتے ہیں،جب کہ کچھ اولادیں والدین کو بدنام اور رسوا کرتی ہیں۔
اولاد کی لیاقت اور صلاحیت میں جہاں دیگر عوامل کارفرما ہوتے ہیں وہاں والدین کی تربیت کا عنصر بھی نہایت اہم ہوتا ہے۔ ہر بچہ اپنے ماں باپ سے نہ صرف رنگ پکڑتا ہے، بلکہ دین، دنیا، علم، عمل، ادب، تقویٰ، خداترسی، سخاوت، شجاعت، دیانت، امانت …الغرض سبھی کچھ اپنے والدین سے ہی سیکھتا ہے۔ بچے کے لیے پہلی درس گاہ ماں کی گود اور باپ کا کندھا ہوتا ہے۔ وہ لاشعوری طور پر اپنے ماں باپ کی خصلتوں کو اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو خوب واضح فرمایا ہے:
ہر بچہ ملت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے یہودی بنا دیتے ہیں، نصرانی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
مذکورہ بالا حدیث میں تو اولاد کی بد اعتقادی اور گم راہی کا ذمہ دار بھی والدین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز محشر والدین سے اولاد کی بابت بھی یہ سوال ہو گا:
تم میں سے ہر شخص محافظ اور ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اسی کی رعیت(جو کوئی اورجو چیزاس کی ذمہ داری میں ہے) کے متعلق پوچھا جائے گا۔ (بخاری:6634، مسلم:1830)
مذکورہ بالا حدیث میں اس حقیقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ روز محشر اولاد سے متعلق ،ازواج واولاد اور ماتحتوں سے متعلق سوال ہوگا۔ قرآن کریم نے اس حکم کو مزید واضح فرمایا ہے:
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ (تحریم:6)
حضرات انبیاء علیہم السلام، صالحین امت نے ہمیشہ اس فریضہ کی تلقین بھی کی اور اس پر عمل بھی کیا۔ قرآن کریم میں متعدد انبیاء علیہم السلام سے ازواج واولاد کی اصلاح وتربیت کے حوالے سے واقعات اور فرامین مذکور ہیں۔ تربیت اولاد ولادت اولاد سے لے کر انسان کی وفات تک جاری رہتی ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بوقت وفات اپنے صاحب زادوں کو جمع کر کے اپنی ذریت کی اعتقادی تربیت کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:
کیا اس وقت تم خود موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ ان سب نے کہا تھا کہ ہم اسی ایک خدا کی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے۔ اور ہم صرف اسی کے فرماں بردار ہیں؟ (البقرہ:133)
مشاہدہ وتجربہ یہی ہے جو والدین اپنی اولاد کے سلسلہ میں ہوشیار، ذمہ دار ہوتے ہیں ان کی اولاد لائق اور مہذب وموَدب ہوتی ہے۔ جو والدین خود غیر تربیت یافتہ، غافل اور غیر ذمہ دار ہوتے ہیں ان کی اولاد جاہل اور غیر متمدن وآوارہ ہو جاتی ہے۔ دور حاضر کا ایک بہت بڑا مسئلہ نسل نو کی تربیت ہے۔ ملک میں ایک بڑا طبقہ اس فریضہ سے غافل ہے۔ اسی کے نتیجے میں آوارگی، معاشرتی جرائم، بداعتقادی، بدعملی، بے روزگاری اور بے راہ روی پھیل رہی ہے۔ آئے روز دینی اور معاشرتی انحطاط ہوتا جارہا ہے۔ شرفاء اور معززین کی اولادیں معاشرے پر بدنما داغ بنتی جارہی ہیں۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے بعض طلبہ وطالبات شرمناک کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک معتدبہ حصہ خوف خدا سے عاری ہو کر ظلم وستم، نا انصافی، بدعنوانی، رشوت ستانی اور خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ملک میں امن نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ انصاف وعدل بھی خواب بن کر رہ گیا ہے۔ انسانیت انس سے اور مسلمان سلامتی سے عاری ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے اس فریضہ کی جانب ہر خاص وعام کا متوجہ ہونا ضروری ہے۔
اسلام نے تربیت اولاد کا سلسلہ ہونے والے والدین سے اولاد کی ولادت سے قبل ہی شروع کرنے کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں ہدایت دی گئی کہ ولادت اولاد سے پہلے ہی حق تعالیٰ سے نیک اولاد کی دعا کی جائے۔ قرآن کریم نے نیک اولاد کی طلب کی متعدد دعائیں ذکر کی ہیں۔
میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دے دے جو نیک لوگوں میں سے ہو۔ (الصافات:100)
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
یاربّ! مجھے خاص اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرمادے۔ بے شک تو دعا سننے والا ہے۔ (ال عمران:38)
ایک جگہ اس دعا کی تلقین کی گئی:
ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیز گاروں کا سربراہ بنا دے۔ (فرقان:74)
بچے کی ولادت کے بعد بچے کو حق تعالیٰ کی جانب سے عظیم عطیہ اور تحفہ جاننے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ قرار دے کر اس نعمت کی قدر دانی کی ترغیب دی گئی۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
وہ جس کو چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔ (شوریٰ:49)
ماضی وحال میں بعض ناسمجھ لوگ بیٹے کی ولادت پر خوشی ومسرت کا اظہار کرتے اور بیٹی کی ولادت پر اظہار غم وافسوس کرتے۔ قرآن وسنت نے بیٹے وبیٹی کی اس تفریق کی بھی نفی کی، بلکہ بیٹی کی ولادت پر کف افسوس ملنے والوں کی ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی(پیدائش) کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے۔ اس خوش خبری کو برا سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اوریہ سوچتا ہے کہ) ذلت برداشت کر کے اسے اپنے پاس رہنے دے یا اسے زمین میں گاڑھ دے۔دیکھو! انہوں نے کتنی بری باتیں طے کر رکھی ہیں۔ (النحل:59-58)
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے سلسلے میں خصوصی طور پر احکامات وفضائل ارشاد فرمائے ہیں۔ آپ نے بیٹیوں کو والدین کے جنت میں داخلے کا سبب وذریعہ ارشاد فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو، پھر وہ نہ تو اسے کوئی ایذا پہنچائے اور نہ اس کی توہین اور ناقدری کرے۔ اور نہ محبت اور برتاوَ میں لڑکوں کو اس پر ترجیح دے۔ توا للہ تعالیٰ لڑکی کے ساتھ اس حسن سلوک کے صلے میں اس کو جنت عطا فرمائیں گے۔ (رواہ احمد فی مسندہ والحاکم فی المستدرک)
اسی طرح آپ نے دو بیٹیوں کی تربیت وپرورش کرنے والے شخص کو روز محشر اپنا ساتھی وہم نشین قرار دیا ہے۔ (مسلم)
بعد از ولادت والدین کے فرائض میں ہے کہ نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں۔ نومولود کے کان میں اذان واقامت کہنے کی حکمت اہل علم نے یہ بتائی ہے کہ اس مبارک عمل سے جہاں بچہ شیطانی اثرات سے محفوظ ہو گا وہاں اس کے کان میں جانے والی پہلی آواز اور اس کے قلب ودماغ تک پہنچنے والا پہلا پیغام حق تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا ہو گا۔ نیز اس عمل سے دنیا کی فنائیت اور بے ثباتی کا درس بھی نمایاں ہے۔ آج بچے کے کان میں اذان کہی جا رہی ہے، کل بوقت موت اسے غسل دے کر جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا جائے گا۔ گویا کہ اس کی کل زندگی اتنی ہی ہو گی جتنا کہ اذان ونماز کا درمیانی وقفہ۔ آتے ہوئے اذان ہوئی اور جاتے ہوئے نماز، اتنی سی دیر میں وہ آئے اور چلے گئے۔
ماں باپ کے فرائض میں سے ہے کہ بچے کی ولادت کے بعد کسی نیک انسان سے تحنیک کروائیں، دعا کریں اور بچے کے لیے دعا کروائیں۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بچوں کو حضور علیہ السلام کی خدمت میں لاتے، انہیں گھٹی دلواتے اور برکت کی دعا بھی کرواتے۔ بچہ جب سات یوم کا ہو اس کا نام رکھا جائے۔ نام مقرر کرنے میں یہ امر ملحوظ رہے کہ نام بامعنیٰ اور حضرات انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار، ائمہ مجتہدین، محدثین، مفسرین، صلحائے امت اور علما واولیاء جیسا ہو۔ اس لیے کہ نام کا شخصیت پر بہر حال اثر ہوتا ہے۔ کفار، منافقین، فساق وفجار، بے دین وبری شہرت کے حامل خواتین وحضرات کے نام رکھنا ناپسندیدہ ہے۔ اس سلسلے میں ”پرویز“ نام کی وضاحت ضروری ہے۔ یہ نام ایران کے بادشاہ کا تھا۔ جس نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا والا نامہ چاق کیا تھا۔ آپ کی توہین وگستاخی کا مرتکب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف بد دعا فرمائی اور یہ بد دعا کا مصداق بن کر ہلاک بھی ہوا۔ لہذا ایسے نام سے اجتناب کیا جائے۔
ساتویں روز ہی بچے کے سر کے بال منڈوا کر اتنی مقدار چاندی کا صدقہ بھی مستحب امر ہے۔ اگر استطاعت ہو تو ساتویں روز نومولود کا عقیقہ بھی سنت ہے۔ بچی کی جانب سے ایک بکرا یا، بکری جبکہ بچے کی جانب سے دو حصے مقرر کیے گئے ہیں۔ عقیقہ کی حکمت اظہار مسرّت ہے۔ اس مسرّت میں اقارب ومتعلقین کی شرکت اور ایک لحاظ سے صدقہ وخیرات ہے، جس سے مصائب وبلاؤں کا مداوا ہوتا ہے۔ بچے کے حقوق میں سے ہے کہ اس کی پرورش، حضانت اور صحت کا خیال رکھا جائے۔ مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں۔ وقت پر غذا وخوراک کھلائیں۔ والد اخراجات وضروریات کا انتظام کریں۔ ان کی صحت وآرام کا خوب خیال رکھیں۔ بچے جب بولنا شروع کریں تو اسے سب سے پہلے کلمہ طیبہ اور اذکار سکھلائیں۔ بچہ جب باشعور بن جائے تو ان کے سامنے اللہ تعالیٰ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات انبیائے کرام، صحابہ واہل بیت کا تذکرہ وتعارف رکھیں۔ اسلاف کے واقعات سنائیں۔ قرآنی قصص، سیرة اور تاریخ کے تربیت آموز واقعات سے بچوں کے قلب وجگر پر ایمانی نقوش ثبت کیے جا سکتے ہیں۔
بچوں کو جائز وناجائز، حلال وحرام، سچ، جھوٹ کا فرق عملی طور پر بتانا ضروری ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ راستے میں گری پڑی کھجور اٹھا کر آپ نے منھ میں ڈال لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی آ پ کے منھ میں ڈال کر کھجور نکال دی۔ اور کخ کخ کہہ کر تلقین فرمائی کہ اس کھجور کو منھ سے باہر نکال پھینکو اور ساتھ ہی فرمایا:”آل محمد صدقہ نہیں کھاتی۔“
جائز ناجائز، حلال وحرام وغیرہ کے سلسلے میں ترغیب وترہیب کے انداز بھی اختیار کیے جائیں۔ جنت اور جنت کی آسائشوں، جہنم اور جہنم کی ہول ناکیوں کا تذکرہ بھی بچوں کو راہ مستقیم پر لانے میں ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
بچہ جب سن تعلیم کو پہنچے تو اس کی دینی ودنیوی تعلیم کا بندوبست بھی بہت ضروری ہے۔ کم از کم ناظرہ قرآن کریم اور ضروری دینی تعلیم، نیز عصری ضروری تعلیم دلوانا بچے کا حق ہے۔ تعلیم کے لیے ایسے اساتذہ اور اداروں کا انتخاب بھی ضروری ہے جو دینی، اسلامی تہذیب وتمدن کے لحاظ سے لائق اعتماد ہوں۔ ملحد، زندیق، غیر مسلم اساتذہ یا ان کے ادارے بسا اوقات بچوں کو اپنے ڈھنگ میں ڈھال کر ان سے دینی حمیت واقدار سلب کر لیتے ہیں۔ نظریہ وعقیدہ چھین لیتے ہیں۔ ان کا ماحول بچوں کو بے راہ روی پر ڈال دیتا ہے۔ ایسے ادارے یقینا نسل نو کے لیے باعث نقصان ہیں۔
بچے جب سات سال کے ہوں تو انہیں نماز کا کہنا اور عملاً اپنے ساتھ نماز میں شریک کرنا اور جب دس سال کے ہوں تو نماز کا اہتمام کروانا بھی والدین کا اہم فرض ہے۔ لڑکپن کی عمر والدین کے لیے نہایت ذمہ داری کی ہے۔ اسی عمر میں بچے بنتے یا ضائع ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے گردوپیش، ماحول، مصروفیات، حلقہ احباب، ان کے زیر مطالعہ لٹریچر پر نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ خصوصا نیٹ اور کمپیوٹر کے استعمال کی صورت میں فلٹریشن اور نگرانی کی اشد ضرورت ہے۔ بصورت دیگر کم عمر لڑکے بچپن میں ہی اپنا ایمانی وجسمانی سرمایہ کھو بیٹھتے ہیں۔ اپنے اخلاق وکردار اور تعلیم کی بربادی سے اپنا مستقبل تباہ کر دیتے ہیں۔ بچیوں کے سلسلے میں والدین کی یہ ذمہ داری اور زیادہ ہے۔ طالبات کا اکیلے آنا جانا، نامحرم ٹیوٹر سے خلوت میں پڑھنا، آزادانہ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال گھر کو آگ لگانے کے مترادف ہے۔
والدین کے لیے اپنی اولاد کو ضرورت سے زیادہ پارسا سمجھنا نامناسب ہے۔ ایسے ہی بلاوجہ شکوک وشبہات اور تجسس بھی اولاد کی بگاڑ کا سبب ہوتا ہے۔ والدین کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی اولاد سے بھرپور محبت کریں۔ انہیں محبت وانس سے بلائیں۔ اپنے ساتھ بٹھائیں۔ انہیں وقت دیں۔ ان کی کوتاہیوں کی صورت میں تنبیہ کے ساتھ درگزر بھی فرمائیں۔ بچوں کو وجہ بلا وجہ مارنا، پیٹنا، گالم گلوچ کرنا، ان کے ساتھ بائیکاٹ اور ترک کلام کا معمول بنا لینا درست نہیں۔ یہ بچوں کو بغاوت پر اکساتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹوں کے ساتھ طرز ورویہ لائق اتباع ہے۔ ان کے بیٹوں نے اپنے والد کے ساتھ نہ صرف دھوکا کیا، غلط بیانی سے کام لیا ،بلکہ ایذاو تکلیف کے مرتکب بھی ہوئے۔ اس کے باجود آپ نے نہ تو بیٹوں کو گھر سے نکالا اور نہ ہی بائیکاٹ کیا، بلکہ ہمیشہ اصلاح کی فکر فرمائی، نتیجتاً اولاد کی اصلاح ہو گئی۔
والدین کا فریضہ ہے کہ وہ بچوں کو مناسب عمر میں رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیں۔ فتنہ کے اس دور میں بہت دیر سے شادیاں معاشرتی بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہے۔ بچیوں کے سلسلے میں بھی یہ امر ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ جب ان کے لیے مناسب رشتہ کا انتظام ہو جائے اور عمر بھی مناسب ہو تو شادی کردینی چاہیے۔
والدین کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد میں ہمہ قسم مساوات وانصاف سے کام لیں۔ اپنی اولاد میں سے کچھ کو نواز دینا اور کچھ کو محروم کر دینا حدیث میں اسے ظلم قرار دیا گیا ہے۔ یقینا یہ طرز بھی اولاد کی بگاڑ اور بغاوت کا سبب بنتا ہے۔ آخر میں والدین کو اس امر کی جانب متوجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی موبائل، کمپیوٹراور انٹرنیٹ وغیرہ کا استعمال باعث فتنہ ہے، لہٰذا جہاں تک ممکن ہو اپنے آپ کو او راپنی اولاد کو اس سے بچائیں۔ حق تعالیٰ تما م مسلمانوں کی اولاد کو نیک وصالح فرمائیں۔ آمین!