ہمارا موجودہ دور ترقی کی کن بلندیوں پر پہنچ گیا ہے، لیکن سکون وآرام جس چیز کا نام ہے وہ دلوں سے غائب ہے، ہر شخص رنج وغم کا شکار ہے، سب کچھ ہوتے ہوئے دل کی خلش اور بے چینی دور نہیں ہوتی، ہر شخص حوادث عالم کے تیز دھارے کے ساتھ بہا چلا جارہا ہے، اس کو نشہ یا تفریحی چیزوں سے جو وقتی سکون مل جاتا ہے اسی کو غنیمت سمجھتا ہے، ان حالات میں ایک ماہر نفسیات حسرت وناامیدی کی حالت میں آواز دیتا ہے، کوئی ہے جو دل کی بے قراری وبے اطمینانی او ربے چینی کا علاج بتا سکے؟ رحمت عالم نبی امی ( صلی الله علیہ وسلم) کی صدائے بازگشت جواب دیتی ہے: میں طبیب مطلق سے ایک قطعی اور مجرب نسخہ بتاتا ہوں، اگر تمہاری قسمت تمہاری بداعمالیوں کے سبب بالکل ہی سیاہ نہیں ہوچکی ہے تو تمہیں بھی اس کے استعمال کی توفیق ہو گی، اس نسخہ کا صرف ایک جز ہے، وہ ہے:”ایمان“، جوصرف پانچ حرفوں سے بنا ہے، دلوں میں اطمینان پیداکرنے والی اور خوف دور کرنے والی، دلوں کے شکوک وشبہات کو ختم کرنے والی، یہی ایک چیز ہے کہ اس ذات پاک کو مان لیا جائے، جس نے اس عالم کو وجود بخشا ہے اوراپنے بندوں کے لیے اپنے نبی اُمی ( صلی الله علیہ وسلم) کے ذریعہ وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر بے چینی کی شفا ہے، اس کتاب میں جگہ جگہ اس کا ذکر آتا ہے، کہیں اس طرح ارشاد ہوتا ہے:﴿مَا أَصَابَ مِن مُّصِیبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّہِ وَمَن یُؤْمِن بِاللَّہِ یَہْدِ قَلْبَہُ﴾(سورہ تغابن،آیت:11) (ہر مصیبت الله ہی کی طرف سے آتی ہے اور جو لوگ الله پر ایمان رکھتے ہیں، وہ ان کے دلوں کو ٹھکانے پر رکھتا ہے) یعنی ان کو صبرو سکون حاصل ہوتا ہے کہ یہ تو مالک کی حکمت ومصلحت ہے، ہوسکتا ہے اس میں ہماری بہتری ہو، اس خیال سے دل کی خلش وبے چینی کو سکون مل جاتا ہے۔
ایک آیت میں اس طرح اطمینان دلایا:﴿فَمَنْ یُؤْمِنْ بِرَبِّہِ فَلَا یَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَہَقًا﴾(سورہ جن، آیت:13)(جو لوگ پروردگار پر ایمان رکھتے ہیں، انہیں نہ کسی نقصان کا خوف رہ جاتا ہے نہ کسی کے ظلم کا)، اسی کو ایک دوسری آیت میں فرمایا:﴿أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾(سورة الرعد، آیت:28)( سکون قلب تو الله کے ذکر سے ہوتا ہے)۔ قرآن کریم میں بکثرت ایسی آیتیں موجود ہیں جن سے ایمان کی دنیوی برکات حاصل ہوتی ہیں او رایمان وذکر الہٰی کو امن واطمینان کا بہترین نسخہ بتایا گیا ہے۔
جو لوگ ایمان کی دولت سے محروم ہیں، ان کو سکون قلب حاصل نہیں ہوتا ہے، ناموافق حالات ان کو گھبراہٹ اور خوف کے اس درجہ پر پہنچا دیتے ہیں کہ سارے ظاہری اسباب ِ راحت ہونے کے باوجود بے چینی دور نہیں ہوتی، کتنے ایسے ہوتے ہیں جو خود کشی کر لیتے ہیں او رکتنے مع اپنی اولاد کے خود کشی کر لیتے ہیں، جس کی خبریں اخبارات میں آتی رہتیہیں، عوام ہی نہیں، بعض پڑھے لکھے افسران تک کے خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں، وجہ اس کی ایمان کا نہ ہونا ہے، ایمان ایسی دولت ہے کہ جس کی برکات اس دنیاوی زندگی میں بھی حاصل ہوتی ہیں اور یہ کہہ کر دل کو سکون حاصل ہو جاتا ہے کہ ہمارے آقا نے ہمارے لیے یہی بہتر سمجھا ہے، اسی میں اس کی حکمت ومصلحت ہے، جس کو ہم نہیں جانتے، چناں چہ ایک آیت میں اس کی خوش خبری بھی سنائی، فرمایا:﴿ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ،الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیْبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ﴾( صبر کرنے والوں کو بشارت سناد و، ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں او راسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں)، جس کو ایمان کی دولت حاصل ہے، وہ مشکلات میں صبر سے کام لیتا ہے، نعمتوں کے حصول او راچھے حالات پر شکر ادا کرتا ہے، جس کی دعا الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح مانگی ہے:”اللھم اجعلني صبورا، واجعلني شکورا، واجعلني في عیني صغیراً وفي أعین الناس کبیراً“․
ترجمہ:” اے الله! مجھے بڑا صبر کرنے والا بنا دے او رمجھے بڑا شکر کرنے والا بنا دے اور مجھے میری نظر میں چھوٹا بنا دے اور دوسروں کی نظروں میں بڑا بنا دے“۔ یہ بڑا بننے کا مرض ہی وہ بڑا مرض ہے جو ایمان لانے میں رکاوٹ بنتا ہے او رایمان نہ ہونے سے وہ برکات دنیوی حاصل نہیں ہوتیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔
ایمان نہ ہونے ہی کی وجہ سے یورپ کا ایک ماہر نفسیات فرط یاس وحسرت سے پکا راٹھتا ہے کہ:کوئی ہے جو دل کی بے قراری، بے اطمینانی وبے انبساطی کا علاج بتاسکے؟، اس لیے اہل ایمان کو اس دولت بے بہا پر شکر ادا کرنا چاہیے۔