محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ”ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔ حضرت عبدالله بن عمر فرماتے ہیں ایک موقع پر محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم ایک انصاری مسلمان کے پاس سے گزرے، جو اپنے بھائی کو بہت زیادہ شرم وحیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا تب آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، کیوں کہ حیا دراصل ایمان کا ایک حصہ ہے“۔ایک اور صحابی عمران بن حصین نے بتایاکہ ایک موقع پر محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرم و حیا صرف بھلائی کاباعث بنتی ہے۔محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلمنے دوسرے ادیان کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ۔” شرم و حیا“ہے۔
حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلمکنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔اسی لیے ہر قبیح قول وفعل اور اخلاق سے گری ہوئی ہر طرح کی حرکات و سکنات سے آپ کا دامن عفت و عصمت تاحیات پاک رہا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم نہ فحش کلام تھے،نہ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور کیاکرتے تھے،برائی کابدلہ کبھی برائی سے نہ دیتے تھے، بلکہ معاف فرما دیتے تھے، یہاں تک کہ زوجہ محترمہ ہوتے ہوئے بھی بی بی پاک نے کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم کوبرہنہ نہ دیکھاتھا۔
حضرت عبدالله بن مسعود سے مروی ہے کہ محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عورت گویا ستر (چھپی ہوئی)ہے ،جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ مجھ تک یہ قول رسول صلی الله علیہ وسلم پہنچاہے کہ الله تعالی کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور جس کو دیکھاجائے۔چناں چہ جب اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں دریافت کیاگیاتومحسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاادھرسے اپنی نگاہ پھیر لو۔حضرت بریدہفرماتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی کرم الله وجہ کونصیحت کرتے ہوئے فرما یااے علی؛(اگرکسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے تو)دوبارہ نظر نہ کرو، تمہارے لیے(بلاارادہ)پہلی نظر توجائز ہے، مگردوسری نظر جائز نہیں۔مولانا ابوالاعلی مودودی اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اچانک نظر کی گنجائش ہے ،لیکن نظارہ کی کوئی گنجائش نہیں۔حضرت ابو امامہ نے روایات کیاہے کہ محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلمنے فرمایاجس مرد مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑ جائے، پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کر لے تو الله تعالیٰ اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مرد مومن کو محسوس ہو گی۔امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا ایسا ہرگزنہیں ہو سکتاکہ کوئی (نامحرم)آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو۔ایک موقع پر حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم (نامحرم)عورتوں کے پاس جانے سے بچو(اور اس معاملے میں بہت احتیاط کرو)۔حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلمنے نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ تم ان عورتوں کے گھروں میں مت جایا کرو،جن کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں، کیوں کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتاہے۔
شرم و حیا بعض اوقات بوجھ تصور ہوتے ہیں اوربہت کچھ معاشرتی تقریبات میں تکلیف کاباعث بھی شاید سمجھے جاتے ہوں،جیسے مردوں اورعورتوں کے لیے قیام و طعام اور نشست و برخواست کا جدا جدا انتظام کرنااور زنانے میں مردوں کے داخلے پر جزوی پابندی، مردحضرات کے لیے غَضّ بصر(نظریں نیچی رکھنے)کاحکم اور خواتین کے لیے حجاب اوراوڑھنیوں کاقانون اوربازاروں میں اورمیلوں، ٹھیلوں اورکھیل تماشوں میں خواتین کی حتی الامکان حوصلہ شکنی وغیرہ، لیکن ان معمولی بارگراں جیسے انتظامات کے نتیجے میں ایک بہت بڑا ثمرآورمعاشرہ وجودمیں آتاہے، جہاں نسلوں کے نسب مکمل طورپر محفوظ ہوتے ہیں اور آنکھوں میں شرم وحیاکے باعث سینوں میں ایمان بھی سلامت رہتاہے۔یہ انتظامات اگرچہ بعض اوقات معمولی کوفت کاباعث بھی بن جاتے ہیں،لیکن حساب کے عملی قاعدے کے مطابق آمدن اور خرچ کے تقابل کے بعد نفع یانقصان کا تعین کیاجاتاہے۔چناں چہ اس معمولی سی تکلیف کے بعدعالم انسانیت کو اگر ایمانی و روحانی و جسمانی صحت بھی میسر آجائے تو سودا نہ صرف یہ مہنگانہیں، بلکہ انتہائی سود مند اور بارآور ہے۔
بے حیائی کے منطقی وتاریخی نتائج میں سے ایک بہت بھیانک نتیجہ خاندانی نظام کی تباہی ہے۔شرم و حیاکاایک نتیجہ نکاح کے ادارے کی مضبوطی و پختگی اوردوام بھی ہے۔مرد کو جب دوسری عورتیں نظرہی نہیں آئیں گی یا لپٹی،سمٹی اورڈھکی ہوئی نظر آئیں گی تو چاہتے ہوئے یانہ چاہتے ہوئے بھی اس کی تمام تر توجہ اپنی ہی زوجہ کی طرف رہے گی۔اسی طرح جب عورت کاچاہنے والا صرف ایک ہی ہوگا،اس کااپناشوہر… تو اس کامرکزالتفات کبھی منتشرنہیں ہوگااور خاندانی نظام مضبوط سے مضبوط ترہوتاچلاجائے گا، جس کا نتیجہ سوائے خیر کے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔اگرتصویر کا دوسرارخ مشاہدہ کیاجائے تو دنیامیں اس قبیل کے بھی بے شمار معاشرے نظر آئیں گے۔ایسے معاشرے معاشقوں کی بھینٹ چڑھ کر زندہ انسانوں کا قبرستان بن چکے ہیں،بے روح انسانوں کے اجسام کاجم غفیرہے، جوایک دوسرے سے بیزار،حرص وہوس کی دوڑ میں چندسکوں کے عوض، باہم جھنجھوڑنے، بھنبھوڑنے اورنوچنے،چاٹنے ،سونگھنے اورچکھنے کے بعد اگلے شکار کی تلاش میں کسی دوسرے بے روح جسم سے کفن کوتارتارکرنے کی تگ و دومیں مصروف عمل ہوجاتاہے۔
لومڑی گڑھے میں پھنسی تھی،باربارچھلانگیں لگانے کے باوجود نکل نہیں پارہی تھی۔گدھے نے دیکھاتو لومڑی نے فوراََگڑھے کی دیواروں کو سونگھ کر آنکھیں اس طرح بندکیں کہ جیسے بہت لذت وسرور آرہاہو۔گدھے نے پوچھاتولومڑی نے گڑھے کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے کہ گویا یہ گڑھاقطعہ بہشت بریں ہے۔گدھے نے آؤدیکھانہ تاؤچھلانگ لگادی ۔لومڑی نے گدھے کی کمر پراپنے پاوں ٹکائے اورچھلانگ لگاکر گڑھے سے باہر آگئی۔دشمن اپنے پورے وسائل،قوت وطاقت اور ذہنی وفکری صلاحیتوں اورتحریری و تقریری موادسے امت مسلمہ کے سامنے عریانی و فحاشی و مے خواری و بدکاری و لذت گناہ اورگناہ بے لذت کے اس مکروہ اوربدبودارومکروہ گڑھے کو جنت بناکردکھانے میں پوری طرح مصروف ہے۔جب کہ غداران ملت ہمیشہ کی طرح اس باربھی گدھے کاکرداراداکرکے اپنی وہ قیمت وصول کررہے ہیں کہ جس کاخمیازہ صدیوں تک نسلوں کوبھگتناپڑے گا۔دشمن ہمیں اس گڑھے میں دانستہ طورپر گرانا چاہتاہے، جہاں سے نکلنے میں وہ خودبری طرح ناکام ہے،لیکن وہ گڑھے میں پھنسنے کے بھیانک انجام سے ہمیں اس لیے آگاہ نہیں کرتاکہ ہم اس کے جال میں بآسانی شکارہو جائیں۔لیکن الله تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات ہمارے لیے بہت کافی ہیں،الحمدللہ۔