قرآن کریم اور روحانی امراض
اللہ رب العزت نے کلام پاک کو انسانیت کے لیے شفا قرار دیا ہے اور اس میں انسانوں کے جسمانی و روحانی دونوں طرح کی بیماریوں کے علاج کا سامان موجود ہے۔ ہمارے ہاں روحانی بیماریوں کے نام پر ایک الگ ہی سلسلہ چل پڑ اہے، لیکن صوفیا نے روحانی بیماریوں میں بہت سی اخلاقی کمزوریوں کا تفصیلی تذکرہ فرمایا ہے، ان بیماریوں کا تعلق بظاہر افراد سے ہے ،لیکن یہی افراد چوں کہ معاشرے کا حصہ بھی ہیں بالآخر ان امراض میں مبتلا لوگ معاشرے کے لیے وبا ثابت ہوتے ہوتے ناسور کا کردار ادا کرتے ہیں، ان مختلف بیماریوں میں ایک عام اور مروجہ مرض ”بدگمانی اور تجسس“ہے۔
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا﴾․ ﴿الحجرات:12)
اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان قائم کرنے سے بچو، یقینا بہت سے گمان گناہ کا ذریعہ بنتے ہیں اور جاسوسی مت کرو ۔
سوچ اور خیال کا گناہ
بدگمانی ایک ایساگناہ ہے جس کا تعلق انسان کی زبان،کان یا آنکھ سے نہیں، بلکہ خیال اور سوچ سے تعلق رکھتا ہے، یعنی ہم ظاہر دیکھ کر اپنی سوچ خیال میں نیکی بدی، گناہ ثواب اور اچھے برے کے فیصلے کرلیتے ہیں ۔
اگرانسان کی سوچ اورذہن پاکیزہ ہے تولوگوں کے ساتھ تعلق خود بخود بہتر ہوجائے گا اور اگر سوچ ہی آلودہ ہے تو عمل میں بھی آلودگی آئے گی ،جس سے اپنا اوردوسروں کاسکون ختم ہوجائے گا۔
اسی لیے اللہ نے فرمایاکہ:﴿اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ﴾
کسی کے بارے میں بہت زیادہ برا گمان اور بری سوچ کی عادت سے بچو ۔
باقی چوں کہ انسان ایک ذہین مخلوق ہے، اگر تھوڑابہت ذہن میں کوئی خیال بے اختیار آجاتا ہے تو وہ الگ بات ہے، لیکن بہت زیادہ اپنے ذہن کودوسروں کے پیچھے لگانا گناہ کاعمل ہے۔
انسانی نفسیات کا تقاضا ہے کہ اگرمیراخیال کسی کے بارے میں اچھاہے تومیرارویہ بھی اس کے ساتھ اچھا ہی ہوگا اور اگرسوچ اور خیال میں گندگی ہے تومیرا رویہ بھی گندا ہوجائے گا، پھر یہ گند ذاتی تعلقات، گھر، پڑوس اور بالآخر پورے معاشرے کو گندا کردے گا۔
سوچ وفکر کا جھوٹا پن
اسی حوالے سے امت کے محسن سرورکائنات اکا فرمان ہے کہ:”إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ․“(صحیح البخاری)
ترجمہ:بدگمانی سے بچو، کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ۔
یعنی ایک تووہ جھوٹ ہے، جسے ہم سب جھوٹ سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹی بات ہے، لیکن عام طورپر برے خیال، بری سوچ اور بدگمانی ایک ایسا جھوٹ ہے جسے جھوٹ نہیں سمجھاجاتا، بلکہ ایسی سوچ خیال پر فوری یقین کرلیا جاتا ہے، فرمایا کہ یہ عام جھوٹ سے بھی بڑا جھوٹ ہے، لہٰذا اس پر کسی صورت اعتماد کرکے کوئی کارروائی ہرگز نہ کی جائے۔
آیت میں مزید فرمایا کہ :﴿ان بعض الظن اثم﴾یعنی بعض خیالات ایسے ہیں جو گناہ کاراستہ ہم وار کرتے ہیں، مثلا ہم کسی کے بارے میں شروع میں بدگمان ہوں گے کہ یہ متکبر ہے، پھر اس خیال کو پکائیں گے، پھر چلتے چلتے سلام و کلام کا سلسلہ منقطع کرلیں گے۔ ٹھیک اسی طرح بدگمانی کی ایک لچک ہمیں آسانی سے بغض،کینہ،غیبت اور قطع تعلقی کے مراحل سے گزار سکتی ہے، جو کہ سب کے سب گناہ کے کام ہیں۔
بدگمانی اور نبی علیہ السلام کا تربیتی انداز
ایک غزوے کے موقع پر صحابی رسول ایک کافرپرحملہ آور ہوتے ہیں اور عین حملے کے وقت کافر کلمہ پڑھ لیتا ہے لیکن تلوار چل جاتی ہے اور یہ مقدمہ جب رسول علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتا ہے، تو آپ فرماتے ہیں کہ جب اس نے کلمہ پڑھ ہی لیا تھا تو مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ جواب آتا ہے کہ وہ ڈر کے سبب اور جان بچانے کے لیے ایسا کررہا تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:”کیا تم نے اس کا سینہ چیر کر یہ حالت معلوم کی تھی کیا؟“
ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی زوجہ کے ساتھ رات کے وقت جارہے تھے توایک صحابی نے آپ کودیکھ لیاتھا،واپسی پر آپ صلی الله علیہ وسلمنے صحابی سے فرمایاکہ وہ عورت میری اہلیہ تھی۔ جس پر اس صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں آپ سے متعلق کوئی غلط گمان کیسے قائم کرسکتاہوں،آپ صلی الله علیہ وسلم تواللہ کے رسول ہیں؟جس پرآپ نے فرمایاکہ شیطان انسان کاکھلادشمن ہے، کسی بھی موقع پر حملہ کرسکتاہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ :
ایک مرتبہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے اصحاب کے بارے میں کوئی غلط بات مجھ تک مت پہنچا، تاکہ میں آئندہ کبھی تمہاری مجلس میں آؤں یامجلس سے جاؤں تو کسی کے لیے میرے دل میں رنجش نہ رہے۔
سوئے ظن کو حسن ظن میں بدلنا
”بدگمانی“جسے عربی میں ”سوئے ظن“کہا جاتا ہے ،جس کی ضد ”حسن ظن“ہے، یعنی اچھا گمان اور اچھی سوچ ۔
اس لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیاکہ ہے کہ:” ظنوا بالمؤمنین خیراً“۔اپنے ایمان والے بھائیوں کے لیے اچھی سوچ رکھو۔
بدگمانی سراسر ناانصافی ہے
حکماء فرماتے ہیں بدگمانی سراسرناانصافی پر مبنی کاروائی ہے، مثلاً ایک شخص ہمارے سامنے خشوع خضوع کے ساتھ نمازپڑھ رہاہواورہم کہیں کہ یہ ریاکاری کررہاہے،جب کہ اس نمازی کو اس گمان سے متعلق کچھ خبر ہی نہیں اور انجانے میں اس کے بارے میں اتنی خطرناک رائے قائم ہوگئی تو یہ بدگمانی درحقیقت اس ظالم بدگمان کا ظلم ہے جو اس انجانے مظلوم پر تھوپا جارہا ہے۔
بدگمانی اور غلط فہمی
ہمارے ہاں عام طور پر معمولی وجوہات کو بدگمانی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے، مثلا فلاں نے میرافون نہیں اٹھایا، مجھے سلام کا جواب نہیں دیا، مجھے نظرانداز کیا وغیرہ، حالاں کہ انسان اپنی بشری کم زوریوں کے سبب بھول بھی سکتا ہے،خیالی طور پر پریشانی کے عالم میں بھی ہوسکتا ہے، لیکن ان تمام اعذار کو بالائے طاق رکھ کر جھٹ سے بدگمان ہوجانا اور ایک مسلمان پر متکبر،جاہل وغیرہ جیسی خطرناک رائے قائم کرنا بلاشبہ ایک جلدبازی کے سوا کچھ بھی نہیں، جب کہ ایسے تمام خیالات جھوٹ اورسراب کے سوا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے۔
تجسس اور جاسوسی
اسی طرح آیت میں مزید فرمایا کہ:﴿وَّ لَا تَجَسَّسُوْا﴾
اورکسی کی جاسوسی مت کرو۔
کسی کے معاملات میں بے جا دخل دینا اور کسی کی ذاتیات کی کھوج میں جستجو کرنا تجسس کہلاتا ہے، جس سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔
کسی کے ساتھ بہت گہرا اور بے تکلفی کا تعلق ہو تو الگ بات ہے، لیکن عام طور پر اس بات کو اپنی عادت بنالینا بہت ہی بری بات ہے اور ایسا شخص اپنا شخصی وقار کھودیتا ہے اور عام طور ایسے لوگ طبیعت پر بھاری معلوم ہوتے ہیں۔ مثلا کسی کی تنخواہ، عمر، کپڑے، خوش بو، کاروبار، معاملات، حیثیت، فیملی، کاغذات، خطوط، جائیداد، مصروفیت، حلیہ، آمد و رفت، موبائل وغیرہ یہ کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں ہر شخص ایک حق محفوظ رکھتا ہے اور ان کے کھلے عام اظہارکو ضروری نہیں سمجھتا، لیکن کسی کا ان سب چیزوں میں کھود کرید کرنا، اپنی جستجو ان امور پر کھپانا بہت ہی نازیبا حرکت ہے، جس سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔
تجسس کا نقصان
اس کے علاوہ ہمیں سب کے بارے میں سب کچھ معلوم نہ ہو اس میں ہماری اپنی بھلائی ہے، جتنا اوروں سے متعلق معلومات میں اضافہ بڑے گا اتنا ہی غیبت،حسد،بدگمانی کے آثار پیدا ہوتے رہیں گے۔