آنکھ اللہ تبارک وتعالی کی عظیم نعمت ہے،آنکھ ہے توکائنات کے حسین وجمیل مناظراورپھول کی پنکھڑیوں کی دل فریب مسکراہٹ کودیکھ کرانسان خوش ہوتاہے،دریاکی روانی اورکھیتوں کی ہریالی اس کے دل ودماغ کوفرحت وتازگی بخشتی ہے اورجس انسان کواللہ تبارک وتعالی نے اس بیش بہانعمت سے محروم رکھاہے وہ قدم قدم پردوسروں کادست نگراورمحتاج ہوجاتاہے اورکائنات اپنی وسعت وکشادگی کے باوجوداسے تاریک معلوم ہوتی ہے اورزندگی کی ساری رونقیں اسے بے کیف اوربے مزہ محسوس ہوتی ہیں،اللہ تبارک وتعالی نے اس عظیم نعمت کے ذریعہ قرآن کریم میں متعدد جگہ بندوں پراحسان جتلایاہے،چناں چہ اللہ تبارک وتعالی کاارشادہے: ﴿قُلْ ہُوَ الَّذِی أَنشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِیلًا مَّا تَشْکُرُونَ﴾(الم السجدة:9)
وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے کان،آنکھ اوردل بنائے ،تم بہت کم شکرکرتے ہو۔ایک دوسری جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:﴿أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِ، وَلِسَانًا وَشَفَتَیْنِ﴾ (البلد:9-8)
کیاہم نے اس کے لیے نہیں بنائیں دوآنکھ ،ایک زبان اوردوہونٹ؟اس لیے اس عظیم اوربیش بہانعمت کی قدرکرنااوراس کاصحیح استعمال کرنا ہماراشرعی اوردینی فریضہ ہے اوراس کاغلط استعمال اللہ تعالی کے غصہ وناراضگی کاموجب ہے۔
آج ہمارے سماج میں بدنگاہی اورخیانت نظرکافتنہ اس قدرعام ہوگیاہے کہ جوان ،بوڑھے ،عوام وخواص ہرایک اس میں مبتلاہے،-ہاں توفیق خداوندی جس خوش قسمت اورخوش نصیب انسان کے ہم عناں ہوتواوربات ہے-خاص طورسے جب کہ ہمارے معاشرے میں مغربی تہذیب کے زہریلے اثرات پھیلتے جارہے ہیں اوراسی کے زیراثرصنف نازک۔جس کے لیے اسلام نے گھرکی چہاردیواری کومحفوظ پناہ گاہ قراردیااوراس کوشمع محفل کے بجائے شمع خانہ بننے کی تاکیدکی-کے اندرتنگ وچست اورنیم عریاں لباس کے ساتھ بازاروں اورعام شاہ راہوں پربے محاباگھومنے کارجحان بڑھتاجارہاہے ،اس وقت سے نگاہ کی حفاظت مشکل ہوتی جارہی ہے ، بدنگاہی کامفہوم صرف یہ نہیں ہے کہ کسی غیرمحرم کوشہوت اورلذت نفس کے لیے دیکھاجائے؛بلکہ کسی غیرمحرم اوراجنبیہ کی تصویر اور ویڈیو دیکھنابھی بدنگاہی ہے اورآنکھ جیسی بیش بہا نعمت کاغلط استعمال ہے،آج بازاروں اورچوراہوں پراپنی نگاہ کی حفاظت کرنے کوایک طرف رکھیے،سوشل میڈیا، فیس بک اور حیاباختہ اورمخرب اخلاق ویب سائٹس کاسماج میں فروغ اوراس پرمستزادانٹرنیٹ کی غیرمعمولی سہولت نے ایک دین داراورشرافت پسندانسان کوبدنظری جیسے سنگین فتنہ میں مبتلا کر دیاہے، پہلے نیٹ ڈیٹاحاصل کرنے کے لیے معتد بہ رقم خرچ کرناپڑتی تھی،آج مختلف موبائل کمپنیوں کی طرف سے کم پیسوں میں کالنگ اورانٹرنیٹ کی سہولت نے اس فتنہ کوغیرمعمولی طورپرفروغ دیاہے،ایسے حالات میں خیانت نظر اور لذت کیشی کی ہوس میں کس قدراضافہ ہوگااور اس کے نتیجے میں عفت وپاک دامنی اورشرافت واخلاق کے نخلستاں پرجس تیزی کے ساتھ موسم خزاں کاسایہ پڑے گااوربے حیائی اورصنفی آوارگی کاشجرزقوم جس تیزگامی کے ساتھ ثمرآورہوگااس کے تصورسے ہی قلم کانپ اٹھتاہے اورذہن ودماغ کے پردے پرایک انجاناساخوف چھاجاتاہے۔
آنکھ کاغلط اورناجائزاستعمال کرنے سے کیسے وسیع اورہمہ گیرنقصانات ہوتے ہیں ان کااگرایک مسلمان کوصحیح اندازہ ہوجائے اورتوفیق الہٰی اس کے شامل حال ہوجائے توکبھی وہ بدنگاہی اورخیانت نظرکی جرأت نہیں کرے گااوراس سنگین فتنہ سے بچنااس کے لیے آسان ہوگا،ذیل میں اختصارکے ساتھ بدنظری کے نقصانا ت پرروشنی ڈالی جاتی ہے:
بدنگاہی ابلیس کازہرآلودتیر
بدنظری شیطان کاایک مہلک ہتھیارہے،اس کے ذریعہ وہ بہت سے دین دار اور شریعت کے پابندمسلمانوں کے ایمان پرحملہ آورہوتا ہے اوران کے اخلاق وکردارپرمنفی اثرڈالتاہے،کائنات کی بہترین ہستی کے بکھرے اورنکھرے ہوئے ریحان ونسترن کوامام حاکم نے اپنی مشہورکتاب المستدرک علی الصحیحین میں جمع کیاہے ،اس کتاب میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلمنے ارشادفرمایا:”النظرة سہم من سہام إبلیس مسمومة فمن ترکہا مخافة اللہ أثابہ جل وعز إیمانا یجد، حلاوتہ فی قلبہ“․ (المستدرک علی الصحیحن للحاکم،حدیث نمبر:7875)
بدنگاہی ابلیس کے زہرآلود تیروں میں سے ایک تیرہے،جوشخص بدنگاہی کواللہ کے خوف سے چھوڑدیتاہے اللہ تعالی اس کوایمان کی حلاوت وچاشنی نصیب کرتے ہیں جس کووہ اپنے دل میں محسوس کرتاہے۔مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک زہرآلودتیرکسی کے جسم میں پیوست ہوجائے ،اگراس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تووہ زہرپورے جسم میں سرایت کرجاتاہے، اورانسان کی موت واقع ہوجاتی ہے،اسی طرح نگاہ کاغلط استعمال کرنے اورغیرمحرم پرلذت وہوس کی نگاہ ڈالنے سے انسان کا دین برباد ہوجاتاہے، ایمان ویقین کی سر سبزو شاداب کھیتی مرجھاجاتی ہے،اعمال صالحہ کے نخلستاں پرموسم خزاں کاسایہ پڑنے لگتاہے،طاعت وعبادت کانہررواں خشک اورمضمحل ہونے لگتاہے؛لیکن جو شخص سخت اندرونی تقاضے کے باوجوداپنے نفس پرکنٹرول کرتاہے اوراللہ کے خوف سے اپنی نگاہ نیچی کرلیتا ہے تواللہ تعالی اس کوایمان کی ایسی حلاوت وچاشنی عطاکرتے ہیں کہ عبادت میں لذت ملتی ہے،اللہ کاحکم بجالا نے سے نفس کوسکون اور قرارمحسوس ہوتاہے اورانسان محبت وعرفاں کے مدارج تیزگامی سے طے کرلیتاہے۔
بدنظری زناہے
زناصرف اجنبیہ عورت سے صنفی تعلق قائم کرنے ہی کونہیں کہتے ہیں ؛بلکہ حدیث شریف سے معلوم ہوتاہے کہ نگاہ کاغلط استعمال بھی زنا ہے،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کاارشادہے:ابن آدم کے لیے زناکے حصہ کولکھ دیاگیا ہے،تووہ اس کوضرورکرکے رہے گا،آنکھوں کازنابدنظری ہے،کانوں کازناسننا ہے، زبان کازنا(فحش)گفت گوہے ،ہاتھ کازناپکڑنا ہے، پیر کازناچلنا ہے اوردل خواہش کرتاہے اورتمناکرتاہے اورشرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یاتکذیب۔ (مشکوٰة)اس حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلمنے بدنظری کوبھی زناقراردیاہے،اورہاتھ ،پیر،کان اوردل کے عمل کوبھی زناسے تعبیرکیاہے،اوراس کوبدنظری کے بعد ذکر کیاہے،اس سے دراصل اس بات کی طرف توجہ دلانامقصودہے کہ بدنظری اورنگاہ کاغلط ا ستعمال ہی وہ پہلا زینہ ہے جس کے ذریعہ دیگراعضاء وجوارح کوگناہ کی طرف تحریک ملتی ہے،اوریہ سارے اعضاء اگرانسان کے صنفی جذبہ کوعملی جامہ پہنانے لگیں تو بالآخر انسان زناجیسے سنگین اور گھناؤنے جرم کاارتکاب کربیٹھتاہے؛لیکن اگرانسان اپنی نگاہ نیچی کرلے تولازمی طورپردیگراعضاء بھی گناہوں سے دوراورنفوررہتے ہیں،جس کے نتیجہ میں انسان کے اندرعفت وپاک دامنی کاجوہرپیداہوتاہے۔
چہرے کارنگ زردپڑنا
بدنظری اورغلط نگاہ جگہ پر ڈالنے سے انسان کے چہرے کارنگ زرد پڑجاتا ہے،اوراس کے چہرے کی رعنائی وزیبائی رفتہ رفتہ رخصت ہوجاتی ہے،چناں چہ حدیث شریف میں آتاہے:”لتغضن أبصارکم ولتحفظن فروجکم أولیکسفن اللہ وجوہکم“ (الترغیب والترہیب)
تم لوگ اپنی نگاہ نیچی رکھواوراپنے شرم گاہ کی حفاظت کروورنہ اللہ تبارک وتعالی تمہارے چہرے کارنگ بدل دے گا۔اوریہ عام مشاہدہ اورتجربہ ہے کہ جوشخص گناہوں میں مبتلا ہوتاہے اورفسق وفجورکی راہ اختیارکرتاہے اس کے چہرے پرنحوست چھائی ہوتی ہے،اوراس کے چہرے کارنگ رفتہ رفتہ سیاہ پڑجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں:”إن للحسنة ضیاء في الوجہ وإن للسیئة سوادا في الوجہ“ (الزواجرعن اقتراف الکبائر)نیکی اوراطاعت کی وجہ سے چہرہ روشن اورتابناک ہوتاہے،اوربرائی ونافرمانی کی وجہ سے انسان کاچہرہ سیاہ ہوجاتاہے۔
حسرت وافسوس کاسبب
بدنظری کی وجہ سے انسان کوحسرت وافسوس ہوتاہے،کیوں کہ جب وہ غلط نگاہ سے کسی کو دیکھتاہے تویہ ضروری نہیں کہ اس کو ہرایک پرقابو حاصل ہوجائے اور اس سے اپنے صنفی ذوق کی تسکین کرلے،جس کی وجہ سے اس کے آتش کدئہ خیال میں حسرت کی چنگاریاں دبی رہ جاتی ہیں اوردل کی کیاریوں میں ناجائزخواہشات کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اورکملاجاتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ حضرت حسن بصری نے فرمایا:”من أطلق بصرہ کثرأسفہ“(احیاء العلوم)
جوبدنگاہی کرتاہے اس کے حسرت وافسوس میں اضافہ ہوتاہے۔ظاہرہے کہ جس شخص کامقصوداورمطمح نظردوسروں کو غلط نگاہ سے دیکھناہواوراس کی تمام آرزوں اور تمناؤں کاماحصل صنفی رجحان کی تسکین ہوتو ایساانسان تعمیرتمدن اورخدمت انسانیت میں کوئی قابل قدرکردارادانہیں کرسکتا۔
کفرمیں مبتلاہونے کااندیشہ
بدنظری شیطان کاایک ایسازہرآلودنشترہے جس سے وہ مسلمانوں کے ایمان پرحملہ آور ہوتا ہے اوربسااوقات اسلام جیسی نعمت عظمی سے مسلمان کومحروم کردیتاہے،یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا:”الإثم جوازالقلوب، وما من نظرة إلا وللشیطان فیہا مطمع“ (بیہقی)
گناہ کے خیالات دل میں آتے رہتے ہیں اوربدنظری کی وجہ سے شیطان کویہ موقع مل جاتاہے کہ انسان کوغلط اوربدکاری کے راستے پرڈال دے۔مفسرابن کثیررحمة اللہ علیہ نے البدایہ والنہایة میں علامہ ابن جوزی کے حوالہ سے یہ واقعہ ذکرکیا ہے کہ عبد ة بن عبدالرحیم ایک مسلمان مجاہدگزرا ہے،بلادروم میں کافروں کے خلاف جہادمیں حصہ لیا کرتاتھا،ایک مرتبہ اس نے ایک نصرانی لڑکی کودیکھاتو اس پردل وجان سے فداہوگیااوراس سے خط و کتابت کاسلسلہ شروع کردیا، لڑکی کواس نے شادی کی پیشکش کی، تواس نے مذہب تبدیل کرنے کی شرط لگائی،اس بدبخت نے اسلام کو چھوڑکر نصرانیت کوقبول کرلیا،کچھ عرصے کے بعدوہاں سے مسلمانوں کا گزرہوا،انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ کیانماز،روزہ ،جہاداورقرآن نے تم کواس عمل سے نہیں روکا؟ اس نے کہامیں پوراقرآن بھول گیاہوں، صرف مجھے قرآن کی یہ آیت یادہے:﴿ربما یودالذین کفروا لوکانوا مسلمین ذرہم یأکلوا ویتمتعوا ویلہہم الأمل فسوف یعلمون﴾ (الحجر:3-2)
ایک وقت ایساہوگاکہ کافرلوگ تمناکریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے،انہیں چھوڑدیجیے کہ وہ کھائیں اور مزے سے رہیں اور(طویل)آرزوانہیں غافل بنادے کہ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو آنکھ کاصحیح استعمال کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، بدنظری اوراس کے نقصانات سے امت کی حفاظت فرمائے ،آمین ثم آمین۔