نماز اور باجماعت نماز مسلمان کی لازمی ڈیوٹی ہے، اسے بلا رخصت چھوڑا نہیں جا سکتا۔ آدمی دین کی کتنی ہی نفلی خدمت کر لے، اس سے فرض معاف نہیں ہو سکتا۔ ارشادِ ربانی ہے:﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ ﴾ نماز قائم کرو،زکوة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(سورہ البقرہ)نماز کا حکم اور اس کا فرض ہونا تو لفظ ﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ﴾سے معلوم ہوچکا تھا، اس جگہ مَعَ الرّٰکِعِیْن کے لفظ سے نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے…جمہور امت، علماوفقہا، صحابہ وتابعین کے نزدیک جماعت سنتِ مو کدہ ہے، مگر سننِ مو کدہ میں سنتِ فجر کی طرح سب سے زیادہ مو کد اور قریب بہ وجوب ہے۔ (معارف القرآن)
فرضوں میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ضروری ہے۔اگر مسجد میں باجماعت نمازجاری رہے اور کسی شرعی عذر کی بنا پر کبھی کبھار کوئی کسی اور جگہ نماز پڑھ لے، اسے بھی جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: دو اور دو سے زیادہ آدمیوں پر جماعت ہے۔(ابن ماجہ)حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور پھر بھی وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے ،پس تم جماعت کو لازم کرلو، کیوں کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو گلے سے الگ ہو۔(ابوداؤد) اس لیے خواہ مقتدی صرف ایک نابالغ لڑکا یا ایک محرم عورت ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی جماعت کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔(مجمع الانہر)
اور بلا شرعی عذر مسجد میں حاضر نہ ہونے پر رسول اللہصلی الله علیہ وسلمنے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایاہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا:میں نے ارادہ کیا کہ نماز کا حکم دوں اورجماعت کھڑی ہو تو میں اُن لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے اور اُن کے گھروں کو جلا دوں۔(بخاری، مسلم)
حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں؛ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول(صلی الله علیہ وسلم)!میں نابینا ہوں اور میرا گھر دور ہے اور مجھے مسجد میں لانے والا بھی کوئی نہیں ہے، تو کیا ایسی صورت میں میرے لیے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلمنے پوچھا:کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ انھوں نے کہا:جی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تب میں تمھارے لیے رخصت نہیں پاتا۔ (ابوداؤد)
صحابہ کرام کے دور میں جماعت کا اس قدر اہتمام کیا جاتا تھاکہ کُھلے منافق کے سوا کوئی مسجد کی جماعت نہ چھوڑ سکتا تھا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ وہ کَل اسلام کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ساری نمازوں کی حفاظت کرے، جہاں سے انھیں پکارا جاتا ہے(یعنی مسجد میں)۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے متعین کر دیے ہیں اور یہ نمازیں بھی ہدایت کے طریقوں میں سے ہیں۔ اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو، جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا اپنے گھر میں پڑھتا ہے، تو تم نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ دیا ۔اور اگر تم اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ دو گے تو گم راہ ہو جاؤگے۔ جب کوئی شخص پاکی حاصل کرے، پھر مسجدوں میں سے کسی مسجد کی طرف جائے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اُس کے ہر قدم پر ایک نیکی لکھتا ہے، ایک درجے کو بلند کرتا اور اس کے ایک گناہ کو مٹا دیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ منافق کے سوا کوئی بھی نماز سے پیچھے نہیں رہتا تھا، بجز اس کے کہ جس کا نفاق ظاہر ہوجاتااور ایک آدمی جسے دو آدمیوں کے سہارے لایا جاسکتا تھا، اُسے بھی لا کر صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا۔ (مسلم)
با جماعت نماز کا ثواب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جماعت کی نماز اپنے گھر کی نماز اور بازار کی نماز سے پچیس درجے افضل ہے، اس لیے جب تم میں سے کوئی اچھی طرح وضو کر کے مسجد میں محض نماز ہی کے ارادے سے آئے تو وہ جو بھی قدم رکھتا ہے، اُس پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ معاف کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو نماز میں (ہوتا)ہے، جب تک کہ نماز کے لیے مسجد میں رہے فرشتے اُس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس جگہ رہے جہاں نماز پڑھے۔ (فرشتے کہتے ہیں) اے اللہ! اسے بخش دے! اے اللہ! اس پر رحم کر!(یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے) جب تک اُس کا وضو باقی رہے۔(بخاری ،مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:جماعت کی نمازکا تنہا پڑھی جانے والی نماز سے ستائیس درجے زیادہ ثواب ہے۔(بخاری، مسلم)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے چالیس دن تک تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ خالص اللہ کی رضا کے لیے باجماعت نماز پڑھی، اُس کے لیے دو چیزوں سے نجات لکھ دی جاتی ہے؛ جہنم سے اور نفاق سے۔(ترمذی)
جماعت جتنی بڑی ہوتی ہے، اس پر ثواب اتنا ہی زیادہ ملتا ہے۔قباث بن اشیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :دو آدمی اس طرح نماز پڑھیں کہ ایک دوسرے کی امامت کرے، یہ اللہ کے یہاں اس سے افضل ہے کہ چار آدمی اکیلے اکیلے نماز پڑھیں اور چار آدمیوں کی نماز جب ان میں سے ایک امامت کرے، اللہ کو زیادہ پسند ہے آٹھ آدمیوں کے اکیلے اکیلے نماز پڑھنے سے، اور آٹھ آدمیوں کا مِل کر نماز پڑھنا، جب کہ ان میں سے ایک امامت کرے یہ اللہ کے یہاں زیادہ افضل ہے سو آدمی کے اکیلے اکیلے نماز پڑھنے سے۔(شعب الایمان، بیہقی )
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ منافقین پر فجر اور عشاء کی نماز بہت گراں گزرتی ہے، اگر تمھیں معلوم ہوتا کہ ان میں کیا ہے، تو لامحالہ ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ۔ جان لو! دو آدمیوں کی با جماعت نماز اکیلے آدمی کی نماز سے افضل ہوتی ہے اور تین آدمیوں کی باجماعت نماز دو آدمیوں کی نماز سے افضل ہے۔ آدمی جتنے زیادہ ہوں گے، اتنے ہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں۔(کنزالعمال)
مسجد پہنچ کر معلوم ہو کہ جماعت ہو چکی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اچھی طرح وضو کر کے مسجد کے لیے نکلے اور جب وہاں پہنچے تو دیکھے کہ لوگ نماز سے فارغ ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ اسے بھی اتنا ہی ثواب دیں گے جتنا اس شخص کو ملا ہے، جس نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی ہو اور جماعت سے نماز پڑھنے والوں کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ (ابوداؤد)
مسجد میں حاضر نہ ہونے کے دو عذر
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:جب کوئی شخص اذان کی آواز سنے اور نماز کے لیے نہ جائے، باوجود یہ کہ کوئی عذر بھی نہ ہو، تو اُس کی تنہا پڑھی ہوئی نماز قبول نہ ہوگی۔ پوچھا گیا: عذرکیا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: خوف یا مرض۔ (ابوداؤد) اس لیے علما نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص عذرِ شرعی مثلاً مرض وغیرہ کے بغیر تنہا نماز پڑھ لے اور جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کی نماز تو ہوجائے گی ،مگر سنتِ مو کدہ کے ترک کی وجہ سے مستحقِ عتاب ہوگا اور اگر ترکِ جماعت کی عادت بنالے، تو سخت گناہ گار ہے۔(معارف القرآن).