بانی جامعہ فاروقیہ

بانئ جامعہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا تعارف

حامدًا ومصلیا ومسلما وبعد

تاریخ پیدائش:
آپ25/ دسمبر1926ء کو ہندوستان میں دیوبند کے قریب اور تھانہ بھون سے تقریبا متصل قصبہ حسن پورلوہاری ضلع مظفر نگر یوپی انڈیامیں پیدا ہوئے ، یہ قصبہ آفریدی پٹھانوں کی بستی ہے، اس بستی کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حافظ ضامن شہید اور مولانا شیخ محمد تھانوی رحمہم اللہ کے پیر ومرشد اور حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ کے معتمد خاص میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمہ اللہ کا قیام اسی بستی میں رہا ہے، اور تھانہ بھون کے مذکور الصدر عارفین ثلثہ نے حسن پورلوہاری حاضر ہو کر میاں جی صاحب موصوف سے استفادہ کیا ہے، اور مستفیدین میں پھر حاجی صاحب کا فیض چہار دانگ عالم میں آج بھی جاری وساری ہے اور إن شاء اللہ تعالی قیامت تک جاری رہے گا۔
خاندانی پس منظر:
حضرت کے اجداد صدیوں پہلے پاکستان کے علاقہ خیبر ایجنسی سے ہندوستان منتقل ہوئے تھے اور آج یہ علاقہ خیبر ایجنسی میں تیراہ کے قریب چورا کہلاتا ہے۔ آپ کا تعلق آفریدی پٹھانوں کے ایک خاندان ملک دین خیل سے ہے۔
حضرت شیخ رحمہ اللہ کا تعلق آفریدی خوانین کے ایک متوسط خاندان سے ہے جس کا پیشہ طبابت چلا آ رہا ہے، والد ماجد جناب عبد العلیم خان صاحب مرحوم بچے ہی تھے کہ دادا صاحب کا انتقال ہوجانے سے یتیم ہوگئے تھے، اسی لیے ان کی تعلیم کا معقول بندوبست نہ ہوسکا اور وہ طب کی تعلیم حاصل نہ کرپائے۔ ان کی یونانی دواؤں کی دوکان تھی اور وہ عطار تھے۔
ابتداء تعلیم:
پہلے استاد منشی بندہ حسن رحمہ اللہ جن سے اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی، پرہیزگار اور متقی انسان تھے، دوسرے استاد منشی اللہ بندہ رحمہ اللہ جن سے اردو فارسی کی تعلیم کے دوران قرآن کریم ناظرہ پڑھا، وہ مغرب کے بعد گھر پر پڑھانے تشریف لاتے تھے، قناعت پسندی اور دنیا سے بے رغبتی میں وہ بے نظیر تھے، ان کا معمول تھا کہ روزانہ ایک قرآن کریم ختم فرماتے تھے جب کہ وہ حافظ نہیں تھے۔
عربی تعلیم کا آغاز:
قرآن کریم اور اردو فارسی کی تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد ضلع مظفر نگر میں حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچا دیا گیا، اور یہاں 2 سال 6 ماہ کی مدت میں درجہ رابعہ تک کتابیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دیوبند بھیج دیا گیا، وہاں پانچ سال گزارے، دار العلوم کا رائج نصاب پورا کیا، جملہ فنون منظق، فلسفہ، ادب، اصول، ریاضی، فقہ، کلام اور حدیث کی داخل درسی کتابیں سب ختم کیں۔ دار العلوم سے فراغت کے وقت 20 سال عمر تھی اور پاکستان نہیں بنا تھا۔
پھر تدریس شروع کی، اور پاکستان ہجرت سے قبل جلال آباد مدرسہ مفتاح العلوم میں پورے درس نظامی بشمول جملہ فنون اور دورہ حدیث کا آٹھ سال درس دیا، پاکستان آنے کے بعد 3سال دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد ٹنڈو اللہ یار میں مدرس رہے، پھر دس سال دار العلوم کراچی میں اور دار العلوم کے ساتھ ساتھ ایک سال جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں بھی خدمات انجام دیں، ہر مدرسے میں حدیث کے مرکزی اسباق کے ساتھ دیگر فنون کی بڑی کتابیں ہی زیر درس رہیں،1967ء میں جامعہ فاروقیہ کی بنیاد رکھی ۔
مولانا مسیح اللہ خان صاحب کی صحبت:
زندگی میں سب سے زیادہ تبدیلی ، دینی جذبات کی پرورش، اخلاق واعمال کے حسن وقبح کا احساس، ان کی اصلاح کی طرف توجہ اور ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو رجال دین میں شامل کرنے کا شوق اور جذبہ حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں رہ کر پیدا ہوا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ:
یہ حقیقت ہے کہ فن حدیث سے تعلق اور مناسبت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے تلمذ کے طفیل میں نصیب ہوئی، حضرت کا ترمذی شریف کا درس روزانہ دو اور ڈھائی گھنٹے اس شان سے ہوتا تھا کہ نظروں کو پھر وہ خوش گوار منظر کہیں دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوا۔ وہ شیخ زمانہ جس کی دینی ، ملی، سیاسی، سماجی، اصلاحی اور انتظامی اور درسی خدمات کی کوئی حد نہ تھی، وہ استقامت وثبات کا جبل اعظم تھا، مسند درس کو جب وہ زینت بخشتا تھا تو چہرے پر شگفتگی کے آثار نمایاں ہوتے، شخصیت اس قدر پر کشش اور دلربا ہوتی کہ دل انہی کی طرف کھچے جاتے تھے، سال بھر درس میں حاضری دینے والے طالب علموں کے لیے حضرت کی ذات گرامی میں پہلے دن کی طرح نیاپن اور جاذبیت ہوتی تھی۔ خیال آتا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقوں کی جب یہ شان ہے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہوگا۔
حضرت کے درس ترمذی میں حدیث کے فنی مباحث پر سیر حال بحث ہوتی تھی، اسناد، جرح وتعدیل تطبیق وترجیح کی بحثیں، فقہی ، کلامی، تاریخی مسائل اور اخلاقی واصلاحی گفتگو بڑے بسط وتفصیل سے فرمایا کرتے تھے۔ حوالے کی ہر بات کو کتاب کھول کر اور اس کی عبارت پڑھ کر بیان فرماتے، اور اس تفصیلی سبق میں اس قدر اطمینان ہوتا تھا کہ کبھی یہ محسوس ہی نہ ہوا کہ ان کو اس کام کے علاوہ اور کام بھی ہے۔ طلبہ کے ہر قسم کے سوالات کا نہایت خندہ پیشانی سے تفصیلی جواب عنایت فرماتے کبھی چہرے سے انقباض ظاہر نہ ہوتا بلکہ انبساط ونشاط ہی کی کیفیت نمایاں رہتی تھی۔
شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی رحمہ اللہ:
شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی رحمۃ اللہ علیہ کا ابو داود کا درس بھی معاون بنا، ان کے درس سے بھی احقر نے بہت کچھ سیکھا، ترمذی شریف کتاب السیر سے آخر تک اور شمائل ترمذی بھی احقر نے حضرت شیخ الادب ہی سے پڑھی۔
احقر نے زمانہ تدریس میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کی تصنیفات اور حواشی سے بہت استفادہ کیا ہے، بلکہ تدریس کا یہ پورا زمانہ ''الکوکب الدری، بذل المجہود، اوجز المسالک'' اور ''لامع الدراری'' سے خوشہ چینی ہی میں بسر ہوا ہے۔ دوسری تصانیف سے بھی بلا شبہ استفادہ کیا اور بار بار کیا لیکن تعلق کی جو کیفیت شیخ کی کتابوں کے ساتھ رہی وہ اوروں کے ساتھ نہیں رہی۔ اس لیے حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ کے بعد اگر مجھ پر علم حدیث کے سلسلے میں کسی کا سب سے بڑا احسان ہے تو وہ شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا ہے۔
اصلاحی تعلق:
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے جلیل القدر خلیفہ مجاز حضرت مولانا فقیر محمد پشاوری رحمۃ اللہ علیہ سے آپ نے اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور خلافت سے سرفراز ہوئے۔
تدریس کی ابتداء:
آپ نے اپنے علاقے میں موجود اپنی مادرِ علمی اور اپنے استاذ ومربی حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد سے تدریس کی ابتداء کی اور آٹھ سال تک وہاں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔
پاکستان میں تدریس کی ابتداء:
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ دینی درس گاہ دارالعلوم ٹنڈو الہ یار سندھ میں تدریسی خدمات سرانجام دینے کے لیے آپ پاکستان تشریف لائے اور یہاں تین سال تک تدریسی خدمات سرانجام دیں۔
دارالعلوم کورنگی کراچی میں تدریس:
اس کے بعد آپ نے مسلسل دس سال تک دارالعلوم کراچی میں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ تفسیر، حدیث، فقہ اور مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھائیں۔
جامعہ بنوری ٹاؤن میں تدریس:
دارالعلوم کراچی میں تدریس کے ساتھ ساتھ ایک سال آپ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے شدید اصرار پر جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں اپنے فارغ اوقات میں حدیث کے مختلف اسباق پڑھانے کے لیے تشریف لے جاتے رہے۔
جامعہ فاروقیہ کراچی کی تاسیس:
23/جنوری 1967ء بمطابق شوال ١٣٨٧ھ میں آپ نے ملک کی عظیم دینی درس گاہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی۔
تحریک سواد اعظم کی سرپرستی:
1983ء میں آپ تحریک سوادِ اعظم کے سرپرست بنائے گئے، جو کہ تحفظ ناموس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تحریک تھی اور اس سلسلے میں آپ نے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
وفاق المدارس کے لیے خدمات:
1978ء میں آپ وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے رکن اور 1980ء میں ناظم اعلیٰ مقرر کیے گئے اور آپ کی گراں قدر خدمات اور علمی حیثیت کے پیش نظر1989ء بمطابق١٤٠٩ھ میں آپ وفاق المدارس کے صدر منتخب ہوئے۔ تاحیات بالاتفاق اس عہدے پر فائز رہے، آپ کی مدت صدارت تقریبا 27برس بنتی ہے جو کہ وفاق المدارس کی تاریخ میں صدارت کی سب سے طویل مدت ہے، ماہنامہ وفاق المدارس کا اجراء بھی آپ نے فرمایا اور آپ ہی کے دور صدارت میں وفاق المدارس نے سب سے زیادہ ترقی کے منازل طے کیے۔
اتحاد تنظیمات مدارس کی صدارت:
آپ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے سب سے پہلے صدر منتخب ہوئے اور تاحیات اس عہدے پر فائز رہے۔
تصنیفی خدمات:
آپ کی نمایاں تصنیفی خدمات میں صحیح بخاری کی معروف شرح کشف الباری، مشکوٰۃ شریف کی شرح نفحات التنقیح، قرآن مجید کی تفسیر کشف البیان اور ترمذی شریف کی شرح اتحاف الذکی شامل ہیں، ان کے علاوہ آپ کی ماہنامہ الفاروق کے اداریوں کا مجموعہ صدائے حق ،ماہنامہ وفاق کے اداریوں کا مجموعہ صدائے وفاق، مجالس علم وذکر، محدثین عظام اور تسہیل الادب وغیرہ شامل ہیں۔
جامعہ فاروقیہ کراچی فیز IIکا سنگ بنیاد:
25/نومبر2007ء بمطابق ١٤ ذوالقعدۃ ١٤٢٨ھ بروز اتوار آپ نے جامعہ فاروقیہ کراچی فیزIIکا سنگ بنیاد رکھا۔
شاگردوں کا وسیع اور مفید حلقہ!
اللہ جل شانہ نے حضرت کو تلامذہ کے بہت ہی مفید اور وسیع حلقہ سے نوازا تھا، اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں حضرت کے جو شاگرد مختلف نمایاں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ان ممالک کی تعداد بیس سے زائد ہے، جس میں پاکستان کے علاوہ ناروے، جرمنی، ساؤتھ افریقہ، سعودی عرب، کویت، قطر، عرب امارات، عمان، انگلینڈ، اسٹریلیا، کوریا، افریقہ، فرانس، ملائیشیا، رنگون، ہندوستان، بنگلہ دیش ، ایران اور افغانستان وغیرہ داخل ہیں۔ آپ کے شاگردوں کے اس وسیع حلقہ میں مصنف بھی ہیں اور مدرس بھی، مفتی بھی ہیں اور عالمی اسکالر بھی، جنگی محاذوں پر کفر کے ساتھ نبرد آزما مجاہد بھی ہیں اور عالمی سطح پر دین کا فریضہ انجام دینے والے مبلغ بھی، بڑے بڑے دینی ادارے قائم کرنے والے اور چلانے والے منتظم بھی ہیں اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز محدث بھی۔
تاریخ وفات:
١٧ ربیع الثانی١٤٣٨ھ پیر کی رات تقریباً ساڑھے نو بجے آپ اس دار فانی سے رخصت ہوئے اور جامعہ فاروقیہ کراچی فیزII میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔